www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

618444
حوزہ علمیہ قم کے برجستہ استاد احمد عابدی نے بیان کیا کہ: شافعی نے اپنی کتاب الحیوان میں درج کیا ہے کہ بغداد میں امام جواد علیہ السلام اور امام موسی کاظم علیہ السلام کی قبر ھر درد کی دوا ہے۔
انھوں نے اس بات کی وضاحت کرتے ھوئے کہ تمام ائمہ کے حرز ہیں جن میں سے بعض نقل ھوکر ھم تک بھی پھنچے ہیں جیسے حرز حضرت زھرا سلام اللہ علیھا، حضرت امیر علیہ السلام کی طرف منسوب حرز یمانی، حرز حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا وغیرہ لیکن ان سب کے درمیان حرز امام جواد علیہ السلام سب سے زیادہ مشھور ہے۔
استاد عابدی نے وضاحت کی کہ «ورد» کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم کی کسی آیت یا سورہ کو بار بار دھرایا جائے، لیکن «حرز» کے لغوی معنی یہ ہیں کہ نظر بد، دشمن اور خطروں سے محفوظ رھنے کے لئے کوئی ذکر، دعا یا کوئی چیز ھمیشہ اپنے ساتھ رکھی جائے؛ اگر صرف ذکر یا کوئی چیز ھو تو اسے «حرز» اور فقط دعا ھو تو اسے «تعویض» کھتے ہیں۔
احمد عابدی صاحب حرز امام جواد کی داستان اس طرح بیان کرتے ہیں:
امام جواد علیہ السلام کی شادی خلیفہ مامون کی بیٹی امّ عیسیٰ کے ساتھ ھوئی تھی البتہ وہ اچھی عورت نھیں تھی اور امام جواد علیہ السلام کو اپنی باتوں سے اذیت پھنچایا کرتی تھی۔ امّ عیسیٰ کھتی ہے کہ ایک دن ایک عورت میرے پاس آئی اور احوالپرسی کے بعد کھنے لگی کہ میں امام جواد کی زوجہ ھوں۔ یہ سن کر ام عیسیٰ کو بھت غصہ آیا اور اس نے اپنے باپ مامون کے پاس جاکر امام علیہ السلام کی چغلی کی۔ مامون کہ جو شراب کے نشہ میں مست تھا تلوار لے کر امام کے گھر پھنچا اور امام کو قتل کردیا۔ ام عیسی یہ دیکھ کر ندامت سے گریہ کرنے لگی۔ مامون نشہ کے عالم میں اپنے محل واپس آگیا۔ صبح کو جب مامون کا نشہ اترا تو ام عیسیٰ نے کھا کہ تم نے فرزند رسول کو قتل کردیا۔ مامون نے نادم ھوتے ھوئے کھا کہ میں نے قیامت تک کے لئے خود کو اور اپنے خاندان کو ذلیل و رسوا کرلیا۔
مامون نے امام کے گھر کی کیفیت سے باخبر ھونے کے لئے اپنے غلام یاسر کو بھیجا۔ یاسر نے جاکر دیکھا کہ امام صحیح وسالم نماز میں مشغول ہیں۔ یاسر نے امام کے بدن کی حالت کو دیکھنے کے لئے بھانہ کرتے ھوئے کھا کہ جو لباس آپ کے زیب تن ہے یہ تبرک کے طور پر مجھے عطا کر دیجئے تاکہ اپنے کفن کے لئے محفوظ کرلوں۔ جب امام نے اپنا لباس اتارا تو دیکھا کہ امام کے جسم پر زخم کا کوئی نشان نھیں ہے۔
الغرض جب امام علیہ السلام کی مامون سے ملاقات ھوئی تو امام نے اظھار فرمایا کہ میرے ھمراہ ایک حرز تھا جس نے میری حفاظت کی۔ مامون نے جب اس حرز کی اس تاثیر کو دیکھا تا امام سے اس حرز کی درخواست کردی۔ یھاں سے حرز امام جواد علیہ السلام کا آغاز ھوا۔
انھوں نے حرز لکھنے کے آداب کو بیان کرتے ھوئے کھا: حرز امام جواد علیہ السلام میں جو نقوش نظر آتے ہیں وہ حقیقت میں اللہ کا نام ہے لھذا پاکیزہ قلم سے لکھنا چاھئے۔ اگر بال پین یا فاؤنٹن پین سے لکھا جائے تو یہ حرز اثر نھیں کرتا كیونكہ اس طرح کے پین کی نوک کفار کے ذریعہ آمادہ کی جاتی ہے لھذا ضرور بالضرور مسلمانوں کے ذریعہ بنائی ھوئی پینسل یا لکڑی کے قلم سے لکھا جائے نیز روشنائی اور كاغذ بھی پاک هونے چاهئے۔
حرز امام جواد علیہ السلام کو لکھنے کے آداب کے حوالہ سے احمد عابدی صاحب نے مزید کھا کہ: ان حروف اور اعداد کو باوضو قبلہ رخ ھوکر صحیح طریقہ سے لکھا جائے۔ بعض لوگ ان حرزوں کو انگوٹھی یا کپڑے یا کاغذ پر لکھتے ہیں خاص طور پر بچوں کی پیشانی پر۔
تعجب کی بات تو یہ ہے کہ وھابیوں نے بھی «الرقیۃ والطمائم» نامی ایک کتاب لکھی ہے جبکہ یہ لوگ حرز وغیرہ کو شرک سمجھتے ہیں لیکن حرز امام جواد علیہ السلام اور حرز امام علی علیہ السلام کے قائل ہیں اور کھتے ہیں کہ یہ شرک نھیں ہے بلکہ عین توحید ہے۔

Add comment


Security code
Refresh