www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

105310
غلو کا لغوی معنی حد سے تجاوز کرنا ہے، یعنی کسی فرد یا چیز کے بارے میں حد سے تجاوز کرتے ھوئے اس کی صفت بیان کرنا۔ حقیقت میں غلو کا لغوی معنی کسی فرد یا چیز کے بارے میں مبالغہ کرنا ہے، جبکہ شرعی اصطلاح میں غلو سے مراد انبیاء و اولیاء کے بارے میں حد سے تجاوز کرتے ھوئے ان کی ربوبیت اور الوھیت کا عقیدہ رکھنا ہے۔
تاریخ میں بھت سارے افراد ایسے گزرے ہیں، جنھوں نے انبیاء و اولیاء کے بارے میں حد سے تجاوز کیا ہے، جنھیں غالی یا غالیان کھا جاتا ہے۔
قرآن کریم اھل کتاب کو حضرت عیسٰی علیہ السلام کے بارے میں غلو کرنے سے منع کرتا ہے، چنانچہ قرآن کریم اس بارے میں فرماتا ہے: " يَأَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُواْ فىِ دِينِكُمْ وَ لَا تَقُولُواْ عَلىَ اللَّهِ إِلَّا الْحَقَّ إِنَّمَا الْمَسِيحُ عِيسىَ ابْنُ مَرْيَمَ رَسُولُ اللَّهِ وَ كَلِمَتُه"﴿١﴾"اے اہل کتاب! اپنے دین میں غلو سے کام نہ لو اور خدا کے بارے میں حق بات کے سوا کچھ نہ کھو، بے شک {مسیح} عیسٰی بن مریم صرف اللہ کے رسول اور اس کا کلمہ ہیں۔"
اھل کتاب {عیسائی} حضرت عیسٰی علیہ السلام کے حق میں غلو کرتے ھوئے ان کی الوھیت کا عقیدہ رکھتے تھے۔ قرآن کریم اس سلسلےمیں فرماتا ہے: "لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُواْ إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَم"﴿۲﴾"وہ لوگ یقیناً کافر ھوگئے جو کھتے ہیں کہ مسیح بن مریم ھی خدا ہیں۔" حالانکہ حضرت عیسٰی علیہ السلام بھی دوسرے انبیاء کی طرح نبی تھے، جو ھرگز مقام الوھیت پر فائز نھیں تھے۔
چنانچہ قرآن کریم اس سلسلے میں فرماتا ہے: "مَّا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُل"﴿۳﴾"مسیح بن مریم تو صرف اللہ کے رسول ہیں، ان سے پھلے بھی بھت سے رسول گزر چکے ہیں۔"
دین میں غلو کرنے سے ایک طرف انسان مقام ربوبیت اور الوھیت کی حد تک پھنچ جاتا ہے تو دوسری طرف سے مقام الوھیت اور ربوبیت کا معیار اس حد تک نیچے آجاتا ہے کہ انسان خدا کے بارے میں جسمانی صفات کا قائل ھو جاتا ہے۔
اسی لئے قرآن کریم پھلے اھل کتاب کو خدا کے بارے میں ناحق کھنے سے منع کرتا ہے، چنانچہ ارشاد ھوتا ہے: "لا تقولوا علی الله الا الحق""خدا کے بارے میں حق بات کے سوا کچھ نہ کھو۔" اس کے بعد حضرت عیسٰی علیہ السلام کے بارے میں ان کے عقیدے کو مردود قرار دیتا ہے اور اس کے بعد فرماتا ہے: "انما المسیح عیسی بن مریم رسول الله و کلمته""بے شک {مسیح} عیسٰی بن مریم صرف اللہ کے رسول اور اس کا کلمہ ہیں۔"
بنابریں دین میں غلو کرنا تشبیہ اور تجسیم کا بھی باعث بنتا ہے، لیکن اس کے برعکس تشبیہ اور تجسیم کے قائل ھونے کا لازمہ ھمیشہ غلو کرنا نھیں، یعنی تشبیہ اور تجسیم کا قائل ھونا غلو کا سبب نھیں بنتا ہے۔ البتہ خدا کے بارے میں حلول کا عقیدہ رکھنا دین میں غلو کا باعث بنتا ہے، کیونکہ خدا کا کسی انسانی جسم میں حلول کرنے یا کسی کے جسم میں سما جانے کا لازمہ یہ ہے کہ وہ شخص بھی الوھیت کے مقام پر فائز ہے۔{جبکہ یہ خلاف توحید ہے}۔
دین اسلام کے اعتقادی مسائل میں جتنے انحرافات ظاھر ھوئے ہیں، ان میں سے ایک غلو اور غالیوں کا ظھور ہے۔ غالی وہ لوگ ہیں جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، حضرت علی علیہ السلام اور دوسرے ائمہ اھل بیت علیھم السلام کی الوھیت اور خداوند متعال کا ان کے جسم میں حلول کرنے کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ تاریخی واقعات کے مطابق دین اسلام میں سب سے زیادہ غلو حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں واقع ھوا ہے۔
شیخ مفید غالیوں کے بارے میں لکھتے ہیں: غلاۃ دین اسلام کا دکھاوا کرنے والے لوگ ہیں، جنھوں نے امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام اور ان کی اولاد پاک کے سلسلے میں الوھیت اور نبوت کی نسبت دی۔ یہ افراد گمراہ اور کافر تھے۔ امیر المومنین علیہ السلام نے ان کے قتل کا حکم دیا تھا، جبکہ دوسرے ائمہ اھلبیت علیھم السلام نے بھی انھیں کافر اور دین سے خارج قرار دیا تھا۔﴿۴﴾
غالیوں کے کچھ عقائد جو غلو شمار ھوتے ہیں حسب ذیل ہیں:
1۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، امیرالمومنین علیہ السلام یا ائمہ اھل بیت علیھم السلام میں سے کسی ایک کی الوھیت اور ربوبیت کا عقیدہ رکھنا۔
2۔ یہ عقیدہ رکھنا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، امیرالمومنین علیہ السلام یا ائمہ اھل بیت علیھم السلام کو کائنات کی تدبیر اور چلانے کا اختیار حاصل ہے۔{یعنی خلقت اور رزق کو ان سے متعلق جاننا}
3۔ امیر المومنین علیہ السلام، ائمہ اھل بیت علیھم السلام اور امت اسلامی میں سے کسی ایک کی نبوت کا اعتقاد رکھنا۔
4۔ کسی کے بارے میں وحی اور الھام کے بغیر علم غیب جاننے کا عقیدہ رکھنا۔
5۔ یہ عقیدہ رکھنا کہ ائمہ اھل بیت علیھم السلام کی شناخت، معرفت اور ان کی محبت، انسان کو خدا کی عبادت سے بے نیاز کرکے ھر قسم کے شرعی فرائض سے مستغنی کر دیتی ہے۔﴿۵﴾
شیخ مفید غلو کے علائم کے بارے میں لکھتےہیں: غلو ثابت ھونے کے لئے یھی کافی ہے کہ کوئی ائمہ معصومین علیھم السلام کے حدوث کی نفی کرے اور ان کی الوھیت نیز ان کے قدیم ھونے کا عقیدہ رکھے۔ وہ مفوضہ اور غالیوں کے درمیان فرق بیان کرتے ھوئے لکھتے ہیں: مفوضہ بھی غالیوں کا ایک گروہ ہے اور ان دونوں فرقوں میں فرق صرف یہ ہے کہ مفوضہ ائمہ اھل بیت علیھم السلام کو حادث اور مخلوق قرار دیتے ہیں، لیکن ان کا عقیدہ یہ ہے کہ خداوند متعال نے انھیں خلق فرمانے کے بعد کائنات کو چلانے اور موت و حیات نیز رزق تقسیم کرنے کا اختیار انھیں کے سپرد کر دیا ہے۔﴿٦﴾
ائمہ اھل بیت علیھم السلام نے ھمیشہ سختی سے غالیوں کی مخالفت کی ہے، چنانچہ اس سلسلے میں بے شمار احادیث نقل ھوئی ہیں، علامہ مجلسی نے بحار الانوار کی پچیسویں جلد میں اس بارے میں ایک سو{100} احادیث کو نقل کیا ہے۔ جن میں سے بعض احادیث بطور نمونہ پیش کرتے ہیں:
1۔ امام جعفر صادق علیہ السلام{اپنے پیروکاروں کو نصیحت کرتے ھوئے} فرماتے ہیں: {احذرواعلی شبابکم الغلاة لا یفسدوهم فان الغلاةشرخلق الله ،یصغرون عظمة الله و یدعون الربوبیة لعباد الله ...}﴿۷﴾ "اپنے جوانوں کو غالیوں سےبچاو، ایسا نہ ھو کہ وہ ان کے دینی اعتقادات کو فاسد کر دیں، حقیقت میں غالی بدترین لوگ ہیں، یہ عظمت خدا کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور خدا کے بندوں کے لئے ربوبیت اور الوھیت کے دعویدار ہیں۔"
2۔ حضرت علی علیہ السلام خدا کی بارگاہ میں غالیوں سے برائت کا اظھار کرتے ھوئے فرماتے ہیں: {اللهم إنی بریء من الغلاة کبرائة عیسی بن مریم من النصاری،اللهم اخذلهم أبدا و لا تنصر منهم أحدا}﴿۸﴾"خدایا میں غلو کرنے والوں سے ایسے ھی بیزار ھوں، جس طرح حضرت عیسٰی علیہ السلام نصاریٰ سے بیزار تھے۔ خدایا ان کو ھمیشہ ذلیل و خوار کر اور ان میں سے کسی کی بھی نصرت نہ فرما۔"
3۔ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:{لعن الله عبدالله بن سباء انه ادعی الربوبیة فی امیرالمومنین و کان و الله امیرالمومنین عبدا لله طائعا،الویل لمن کذب علینا،وان قوما یقولون فینا مالا نقول فی انفسنا، نبرءالی الله منهم، نبرء الی الله منهم}﴿۹﴾"خدا عبد اللہ بن سباء پر لعنت کرے، وہ امیرالمومنین علیہ السلام کی ربوبیت کا قائل تھا، جبکہ خدا کی قسم آپ ؑخدا کے عبادت گزار اور خالص بندے تھے، ھم پر بھتان باندھنے والوں پر وائے ھو، ایک گروہ ھمارے بارے میں وہ کھتا ہے، جو خود ھم اپنے بارے میں نھیں کھتے۔ ھم ان سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں، ھم ان سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔"
4۔ امام جعفر صادق علیہ السلام کے پاس جب غالیوں کے بارے میں گفتگو ھوئی تو آپ ؑنے فرمایا: "ان کے ساتھ ہر قسم کی نشست و برخاست سے پرھیز کرو۔"
5۔ آپ ؑدوسرے مقام پر فرماتے ہیں:"خدا کی لعنت ھو اس شخص پر، جو ھمیں پیغمبر اور نبی سمجھتا ہے۔"﴿١۰﴾
6۔ امام رضا علیہ السلام فرماتےہیں: "غلاۃ کافر اور مفوضہ مشرک ہیں، جو کوئی بھی ان کے ساتھ رفت و آمد رکھے، کھائے پیئے، صلہ رحمی کرے، شادی کرے یا ان کے مال کو اپنے پاس امانت رکھے یا ان کی باتوں کی تصدیق کرے یا صرف کسی ایک کلمے سے ھی ان کی مدد کرے، وہ اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ھم اھل بیت علیھم السلام کی ولایت سے خارج ھو جائے گا۔"﴿١١﴾
شیعہ متکلمین نے بھی ھمیشہ غالیوں کو کافر اور مشرک قرار دیتے ھوئے ان سے برائت کا اظھار کیا ہے۔ یھاں ھم بعض شیعہ متکلمین کے نظریات بیان کرتے ہیں:
الف: ابو اسحاق ابراھیم بن نوبخت غالیوں کے عقائد کو رد کرتے ھوئے لکھتے ہیں: {وقول الغلاة یبطل اصله، استحالته کون الباری تعالی جسما،ومعجزات امیرالمومنین معارضة بمعجزات موسی وعیسی علیهم السلام}﴿١۲﴾"خداوند متعال کے لئے جسم ھونا محال ہے، اس لئے غالیوں کا نظریہ سرے سے باطل ھو جاتا ہے۔ ان لوگوں نے امیر المومنین علیہ السلام کے معجزات کو آپ کی الوھیت اور ربوبیت کے لئے دلیل قرار دیا ہے جبکہ یہ دلیل باطل ہے، کیونکہ حضرت موسٰی علیہ السلام اور حضرت عیسٰی علیہ السلام بھی صاحب معجزہ تھے، لیکن وہ مقام الوھیت اور ربوبیت پر فائز نھیں تھے۔"
ب: شیخ صدوق لکھتے ہیں: "غلاۃ اور مفوضہ کے بارے میں ھمارا عقیدہ یہ ہے کہ وہ کافر باللہ ہیں۔"﴿١۳﴾
ج: شیخ مفید الیوں کے بارے میں لکھتے ہیں: "غلاۃ دین اسلام کا دکھاوا کرنے والے لوگ ہیں، جنھوں نے امیرالمومنین علیہ السلام اور ان کی اولاد پاک کی طرف الوھیت اور نبوت کی نسبت دی تھی۔ یہ افراد گمراہ اور کافر تھے۔ امیر المومنین علیہ السلام نے ان کے قتل کا حکم دیا تھا اور دوسرے ائمہ اھلبیت علیھم السلام نے بھی انھیں کافر اور دین سے خارج قرار دیا تھا۔"﴿١۴﴾
د: علامہ حلی اس سلسلے میں تحریر فرماتے ہیں: "غالیوں کا ایک گروہ امیر المومنین علیہ السلام کی الوھیت اور دوسرا گروہ آپ ؑکی نبوت کا قائل تھا، حالانکہ یہ عقیدہ باطل ہے، کیونکہ یہ بات ثابت ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم الرسل ہیں، اسی طرح یہ بھی ثابت ہے کہ خدا صاحب جسم نھیں ہے اور خدا کا کسی شئی میں حلول کرنا اور کسی کے جسم میں سما جانا محال ہے۔"﴿١۵﴾
ھ: علامہ مجلسی غلو کے مصادیق ذکر کرنے کے بعد لکھتےہیں: "مذکورہ موارد میں سے کسی ایک کے بارے میں بھی عقیدہ رکھنا کفر اور دین سے خارج ھونے کا باعث بنتا ہے۔ دلائل عقلی اور آیات و روایات بھی اس بات پر دلالت کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں ائمہ اھل بیت علیھم السلام نے بھی غالیوں سے برائت کا اظھار کرتے ھوئے ان کے کافر ھونے اور ان کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے۔ بنابریں اگر کسی حدیث میں اس کے خلاف کوئی مطلب موجود ھو تو اسے تاویل کرنا چاھیے اور اگر وہ قابل تاویل نہ ھو تو حتماً وہ غالیوں کی من گھڑت باتیں ہیں۔"﴿١٦﴾
علامہ مجلسی لکھتے ہیں: "پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ اھل بیت علیھم السلام کے بارے میں غلو کا مطلب یہ ہے کہ انھیں خدا کے نام سے پکارا جائے یا عبادت و پرستش میں انھیں خدا کا شریک قرار دیا جائے یا خلقت اور رزق کو ان سے متعلق جانیں، یا یہ اعتقاد پیدا کریں کہ خدا ان میں حلول کر گیا ہے یا کھیں کہ وہ خدا کی طرف سے الھام کے بغیر علم غیب سے آگاہ ہیں، یا ائمہ اھل بیت علیھم السلام کو پیغمبر جانیں، یا تصور کریں کہ ان کی شناخت اور معرفت ھمیں خدا کی عبادت سے بےنیاز کرکے ھر قسم کے فرائض الٰھی سے مستغنی کر دیتی ہے۔ علاوہ ازیں شیعوں کی کلامی اور فقھی کتابوں میں بھی اس سلسلے میں صراحت کے ساتھ مطالب موجود ہیں، جن کو ذکر کرنے کی گنجائش نھیں ہے۔"
تحریر: محمد لطیف مطھری کچوروی
حوالہ جات:
۱۔ نساء،171
۲۔ مائدۃ،72
۳۔ مائدۃ،75
۴۔ التبصیر فی الدین،ص147
5۔ بحار الانوار، ج25، ص346
6۔ تصحیح الاعتقاد، ص109
۷۔ بحار الانوار ج25، ص265۔ امالی شیخ طوسی
۸۔ ایضاً
۹۔بحار الانوار، ص 286۔ رجال کشی، ج6، ص324، شمارہ 174
۱۰۔ ایضاً 296
۱۱۔ بحار الانوار ج25، ص273۔ عیون اخبارالرضا{ع}
۱۲۔ انوار الملکوت فی شرح الیاقوت، ص201
۱۳۔ الاعتقادات، ص71
۱۴۔ تصحیح الاعتقاد، ص 109
۱۵۔ انوار الملکوت، ص202
۱۶۔ بحار الانوار، ج25، ص364

Add comment


Security code
Refresh