www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

507200
تھذیب و کلچر گذشتہ نسل کی ھزاروں برسوں کی فکری ،صنعنی اور ھنری کوششوں اور کاوشوں کا ماحصل ھوتی ہے اور ھر نسل اپنے کلچرل اور تھذیبی ذخیروں اور زندگی کے تجربوں کو مختلف طریقوں سے بعد میں آنے والی نسلوں کی طرف منتقل کرتی ہے اور اسی طرح آنے والی نسلیں ان تجربوں میں اضافہ کرکے اپنے بعد والی نسلوں کے حوالہ کرتی ہیں لھذا یہ سلسلہ ھمیشہ سے تاریخ کے ساتھ ساتھ جاری و ساری ہے،جس طرح ایک فرد کی شخصیت اس کے انفرادای تجربات کا ماحصل اور دوسروں سے اس کے امتیاز کا سبب ھوتی ہے اسی طرح ایک معاشرہ کی تھذیب اس کے ھزاروں سال کے تلخ و شرین تجربات کا ماحصل شمار ھوتی ہے اور یھی تھذیب ہے کہ جو ایک معاشرہ کے خدو خال سنوارتی ہے اور دوسرے معاشرے کی نسبت اسے ممتاز بناتی ہے لھذا یہ تھذیبی فضا اور تمدنی سایہ ھمارے ماحول کی فضا کی مانند ھمارا ھر آن احاطہ کئے ھوئے ہے اور ھم اپنی زندگی کے ھر شعبہ میں۔چاھے وہ انفرادی ھو یا اجتماعی۔ اس کی تاثیر سے انکار نھیں کرسکتے۔
جس طرح دوسری گرانقدر چیزیں راھزنوں اور لٹیروں کے خطرات کی زد پر رھتی ہیں اسی طرح تھذیب بھی ھمیشہ معرض خطر میں رھی ہے اور خصوصاً گذشتہ چند صدیوں سے طاقتور اور استعماری ممالک دنیا کی تھذیبوں کو دو وجوھات کی بنیاد پر برباد کرنے کی درپئے ہیں۔
۱۔ سیاسی و اقتصادی منافع کا حصول
کسی قوم کے مقدر کو اپنے ھاتھوں میں لینے کے لئے سامراجیت ان کے مادی و معنوی منابع کو اپنے فوائد کے لئے استعمال کرتے ہیں اور اس راہ میں ان کے سامنے سب سے بڑی رکاوٹ ان کی تھذیب اور تمدن ھوتی ہے لھذا ان کی سب سے پھلی کوشش یھی ھوتی ہے کہ وہ مختلف بھانوں سے خصوصاً جاذب نظر سیٹلائٹ پروگرامز کے ذریعہ ان کے تھذیب کو گھٹیا اور صعیف جبکہ اپنی تھذیب کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں اس طرح ان ممالک کے باشندے اپنی تھذیب سے دور ھوتے چلے جاتے ہیں اور آھستہ آھستہ اجنبی تھذیب کو اپنا لیتے ہیں،چونکہ کوئی بھی انسان تھذیب کے بغیر زندہ نھیں رہ سکتا۔
۲۔ مغربی اور امریکی تھذیب کو عالمی تھذیب کے طور پر پیش کرنا
گذشتہ چند برسوں میں سامراجی ممالک کے حکام کی سب سے بڑی کوشش یہ ہے کہ وہ پوری دنیا کی تھذیب کو مغربی تھذیب کے سانچہ میں ڈھال دیں، لھذا وہ اپنے نظریہ پر عمل در آمد کے لئے ،سیاسی،تبلغاتی اور صنعتی وسائل کے علاوہ ایک شبہ کے طور پر بھی دوسروں کی تھذیب کو نشانہ بناتے ہیں مثلاً مارشل میک لوان(Marshal McLuhan) کا گلوبل ولیج(global village) اور اس طرح کے دوسرے مغربی اسکالرز کے نظریات اس پروگرام کا ایک حصہ ہیں جن کی کوشش یہ ہے کہ مغربی تھذیب کی ترویج کے لئے میدان ھموار کردیا جائے اور اپنی تھذیب کے لئے ممکنہ حساسیت کو ختم کردیا جائے،لھذا دشمن کی اس تھذیبی یلغار کے سبب پھلے تو لوگوں میں اپنی تھذیب کے تئیں شک و تردید ایجاد ھوجاتی ہے اور پھر اس کے بعد اجنبی تھذیب کو اپنانے کی آمادگی ظاھر ھونے لگتی ہے لھذا یہ کوئی حادثاتی طور پر ایسا نھیں ھوتا بلکہ یہ دشمن کی سیٹلائٹ اور ٹی وی چینلز کے ذریعہ ھر روز القاء ھونے والی فکر ہے جو منظم طور پر ھم تک پھونچائی جارھی ہے۔
آشکار دشمن کا خفیہ حملہ
ھم جس دور میں زندگی گذار رھے ہیں یہ الیکٹرانیک مواصلاتی ذرائع کا دور ہے کہ جس میں انسان کی زندگی پر مواصلاتی سسٹم کا قبضہ ہے اور اس میں کوئی شک نھیں کہ ھزاروں ٹی وی اور ریڈیو چینلز دن رات عام لوگوں کے عقائد و افکار کو تبدیل کررھے ہیں،چنانچہ مغربی تھذیب نے سکولیزم کی ترویج و تبلیغ کے لئے ھزاروں چینلز لانچ کئے ہیں جو دن رات کسی نہ کسی صورت اپنی فعالیت کررھے ہیں لیکن افسوس کہ ھمارے ممالک میں ایسے پروگرامز اور چینلز تک پھونچنا بھت آسان ہے اور جب سیٹلائٹ کی بات آتی ہے تو سب سے پھلے تھذیب کے منافی امور ھی انسان کی توجھات کا مرکز ھوتے ہیں پھر اس کے بعد سیاسی اور اقتصادی پروگرامز،لھذا ان چینلز کی وساطت سے ھم اور ھمارا پورا معاشرہ کسی نہ کسی صورت مغربی باطل افکار کی زد میں آچکا ہے کہ جن کا مقصد لوگوں کو اسلام کی اصلی تعلیمات سے دور کرنا اور انھیں بے عمل بنانا ہے اگرچہ یہ عمل چیونٹی کی چال چل رھا ہے لیکن ان کا مقصد مسلمانوں کے عقائد کو نشانہ بنانا ہے ۔
آج کل ھمارے معاشرے کے اکثر لوگ اپنے دن رات کا بھت سا وقت سیٹلائٹ چینلز پر مخصوص پروگرام دیکھنے میں بسر کرتے ہیں اور یھی امر آج ھمارے اکثر گھروں کے عائلی نظام کو درھم برھم کررھا ہے اور بعض ماھرین کے مطابق آج کے اکثر لوگ سادہ چینلز اور ریڈیو پروگرامز کو اپنی ضرورتوں کے پوری کرنے کے لئے کافی نھیں جانتے لھذا ھمیشہ اسی فکر میں ہیں کہ کس طرح باھر کی دنیا سے رابطہ ھوجائے۔
ایک معاشرتی علوم کے ماھر جوانوں پر سیٹلائٹ کے منفی اثرات کے بارے میں کھتے ہیں کہ:اگرچہ سیٹلائٹ پروگرامز کے درمیان علمی اور فائدہ مند پروگرامز بھی موجود ہیں ،لیکن آج کے اکثر جوان سیٹلائٹ کے علمی اور فائدہ مند پروگرامز کے تشنہ نھیں ہیں بلکہ وہ گندے اور مستھجن پروگرامز دیکھنے کے لئے سیٹلائٹ چینلز کا استعمال کرتے ہیں کہ جن میں جوان نسل کے انحراف اور اخلاقی انحطاط کا زمینہ فراھم رھتا ہے۔
پیغمبر اکرم(ص) کا یہ قول ھمارے زمانہ پر بلکل منطبق ھوتا ھوا نظر آتا ہے:«کیف بکم اذا رأیتم المنکر معروفا»؛اس وقت تمھارا کیا ھوگا جب تمھیں بری چیز اچھی اور ناپسند چیز پسندیدہ معلوم ھوگی۔
برائی کی ترویج میں سیٹلائٹ کا کردار
اس بات میں کوئی شک نھیں ہےکہ سیٹلائٹ کے ذریعہ غیر مناسب اور عریاں تصاویر کو اپلوڈ کرنا اور انھیں نشر کرنا،جوانوں کو فساد و لاابالی پن کی طرف لانے کا ایک اھم سبب ہے،چونکہ دینی تھذیب اور اسلامی کلچر اور معنویات کی ترویج کرنا دشمن کے مقاصد کے مقابل سب سے بڑی رکاوٹ ہے لھذا انھیں کوئی اھمیت نہ دیکر نامناسب چیزوں کی ترویج کرنا جوانوں کے اعتقادات میں خلل اور اپنی حقیقت سے عاری کرنے کی زبردست کوشش ہے۔
لھذا قرآن مجید معاشرہ کے اندر برائی کو پھیلانے والوں کو آگاہ کرتے ھوئے فرماتا ہے:جو باایمان لوگوں کے درمیان برائی کو پھیلانا چاھتے ہیں ان کے لئے دنیا و آخرت میں درد ناک عذاب ہے اور خداوندعالم جانتا ہے اور تم واقف نھیں ھو۔
پس جس طرح سیٹلائٹ کے پروگرامز اخلاقی اور الھی اقدار کو پامال کرتے ہیں اسی طرح ممکن ہے کہ وہ ایک ترقی یافتہ وسیلہ کے طور پر بلند انسانی اخلاق کو پیش کرکے معاشرہ کی بھت بڑی خدمت بھی کرسکتے ہیں اگرچہ اکثر سیٹلائٹ نے فساد و برائی کو عام کرنے اور جوانوں کو برباد کرنے کا ھی زیادہ کام کر رھے ہیں۔

Add comment


Security code
Refresh