www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

900000
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کا مھینہ ہے۔ ھم ان کی برکت سے اپنے آپ کو مسلمان کھلاتے ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں۔ یہ فخر کرنا بھی چاھیے، تاھم اس بات پر بھی غور کر لینا چاھیے کہ کیا ھم واقعی مسلمان ہیں۔ کیا کھیں ھم فقط اصطلاحی مسلمان تو نھیں؟؟


آیئے اُس قرآن کی روشنی میں اپنے مسلمان ھونے کا جائزہ لیتے ہیں، جو آنحضرتؐ کے قلب مبارک پر نازل ھوا اور اسی طرح اپنے آپ کو آنحضرتؐ کے فرمودات کے سامنے بھی پیش کرتے ہیں، تاکہ کھیں ایسا نہ ھو کہ ھم اِدھر اپنے آپ کو مسلمان کھلواتے اور سمجھتے رھیں اور جب روز محشر حساب کا موقع آئے تو یہ دو آئینہ ھائے مصفیٰ کو باری باری ھمارے سامنے رکھ دیا جائے اور ھمارے دعویٰ و فھم کی نفی ھو جائے۔
آگے بڑھنے سے پھلے یہ جاننا ضروری ہے کہ الفاظ پھلے مرحلے میں تو روزمرہ کی ضروریات کے لئے ایجاد ھوتے ہیں۔ چیزوں کے مرحلے سے گزر کر خاص اعمال و افعال کے لئے خاص الفاظ ایجاد ھونے لگتے ہیں۔ پھر خاص فکری، نظری اور عقیدتی مفاھیم کے لئے بھی لفظ مختص ھو جاتے ہیں۔ لفظ لغوی معانی سے نکل کر اصطلاحی معانی میں ڈھلتے رھتے ہیں۔ بعض الفاظ اصطلاحوں کے لئے ایسے مختص ھو جاتے ہیں کہ لغوی معنی سے یا تو ان کا رابطہ ھی منقطع ھو جاتا ہے یا پھر ان میں استعمال کئے گئے الفاظ کو قرینے کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔ ایسے ھی الفاظ میں سے ایک لفظ ’’مسلمان‘‘ بھی ہے۔
آج ھم خاص نظریئے اور عقیدے کے حامل فرد کو مسلمان کھتے ہیں، لیکن اگر ھم قران و سنت کی طرف لوٹ جائیں تو مسلم، مسلمان اور اسلام جیسے الفاظ کثرت سے اپنے لغوی معنی میں استعمال ھوئے ہیں۔ یھی حال کفر اور کافر جیسے الفاظ کا ہے۔ آیئے چند مثالوں پر نظر ڈالتے ہیں: قرآن کھتا ہے کہ تمھارے باپ ابراھیم نے تمھارا نام ’’مسلمان‘‘ رکھا ہے۔
ھُوَ سَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ (حج:۷۸﴾
کیا حضرت ابراھیمؑ نے انھی لوگوں کو مسلمان کھا جو آج اصطلاحی طور پر اپنے آپ کو مسلمان کھتے ہیں؟ اس سوال کا جواب ہے: ’’نھیں‘‘ کیونکہ قرآن حکیم ھی بتاتا ہے کہ ابراھیمؑ نے اپنے بیٹوں اور پوتے یعقوب کو وصیت کی کہ مرو تو مسلمان ھو کر مرنا:
وَ وَصّٰی بِھَآ اِبْرٰھٖمُ بَنِیْہِ وَ یَعْقُوْبُ یٰبَنِیَّ اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰی لَکُمُ الدِّیْنَ فَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ (بقرہ:۱۳۲﴾
"اور ابراھیم نے اپنے بیٹوں اور یعقوب کو وصیت کی اور کھا: اے میرے بیٹو! اللہ نے تمھارے لئے دین کو چن لیا ہے، پس جب مرو تو اس حالت میں مرنا کہ تم مسلمان ھو۔"
حضرت لوط کے گھر والوں کو بھی قرآن حکیم نے مسلمانوں کا گھر قرار دیا ہے۔ ارشاد ھوتا ہے۔
فَمَا وَجَدْنَا فِیْہَا غَیْرَ بَیْتٍ مِّنَ الْمُسْلِمِیْنَ (الذاریات:۳۶)
"اور اس (بستی) میں ایک گھر کے سوا مسلمانوں کا کوئی گھر نہ پایا۔ "
حضرت سلیمان کے روبرو بلقیس بھی اپنے آپ کو مسلمانوں میں سے قرار دیتی ہے۔ ارشاد الٰھی ہے:
فَلَمَّا جَآءَتْ قِیْلَ اَہٰکَذَا عَرْشُکِ قَالَتْ کَاَنَّہٗ ہُوَ وَاُوْتِیْنَا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِہَا وَکُنَّا مُسْلِمِیْنَ (النمل:۴۲)
"جب وہ آ پھنچی تو پوچھا گیا کہ کیا آپ کا تخت بھی اسی طرح کا ہے؟ اس نے کھا: گویا یہ تو ھوبھو وھی ہے اور ھمیں اس سے پھلے ھی(سلیمان کی عظمتِ شان) کا علم ھوگیا تھا اور ھم مسلمان ہیں۔"
آخری پیغمبر حضرت محمدؐ سے بھی کھا گیا ہے کہ وہ اپنے مسلمان ھونے کا اعلان کریں نیز پھلے نبیوں پر جو کچھ نازل ھوا ہے، اس پر ایمان لانے کا بھی اعلان کریں:
قُلْ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَ مَآ اُنْزِلَ عَلَیْنَا وَ مَآ اُنْزِلَ عَلآی اِبْرٰھِیْمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَ الْاَسْبَاطِ وَ مَآ اُوْتِیَ مُوْسٰی وَ عِیْسٰی وَ النَّبِیُّوْنَ مِنْ رَّبِّھِمْ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ وَ نَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ(آل عمران:۸۴)
"کھو کہ ھم اللہ پر ایمان لائے اور جو کتاب ھم پر نازل ھوئی اور جو صحیفے ابراھیم، اسماعیل، اسحاق، یعقوب اور ان کی اولاد پر اترے اور جو کتابیں موسٰی اور عیسٰی اور دوسرے انبیاء کو پروردگار کی طرف سے ملیں، سب پر ایمان لائے، ھم ان سب پیغمبروں میں سے کسی میں کچھ فرق نھیں کرتے اور ھم اللہ کے حضور مسلمان ہیں۔"
بعض اھل کتاب کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ وہ پھلے ھی مسلمان تھے:
اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰھُمُ الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِہٖ ھُمْ بِہٖ یُؤْمِنُوْنَ O وَ اِذَا یُتْلٰی عَلَیْھِمْ قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِہٖٓ اِنَّہُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّنَآ اِنَّا کُنَّا مِنْ قَبْلِہٖ مُسْلِمِیْنَO (القصص:۵۲و۵۳)
"جن لوگوں کو ھم نے اس سے پھلے کتاب دی تھی، وہ اس پر ایمان لے آتے ہیں اور جب قرآن انھیں پڑھ کر سنایا جاتا ہے تو وہ کھتے ہیں کہ ھم اس پر ایمان لے آئے، بے شک وہ ھمارے پروردگار کی طرف سے برحق ہے اور ھم تو اس سے پھلے کے مسلمان ہیں۔"
حضرت عیسٰی علیہ السلام کے حواریوں نے بھی اعلان کیا کہ ھم مسلمان ہیں۔ قرآن حکیم نے بتایا ہے:
فَلَمَّآ اَحَسَّ عِیْسٰی مِنْھُمُ الْکُفْرَ قَالَ مَنْ اَنْصَارِیْٓ اِلَی اللّٰہِ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰہِ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَ اشْھَدْ بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ (آل عمران:۵۲)
"جب عیسٰی نے ان کی طرف سے نافرمانی کا احساس کیا تو کھا: کون ہے جو اللہ کے راستے میں میرا مددگار ھو؟ تو حواریوں نے کھا: ھم ہیں انصارِ خدا، اللہ پر ایمان لائے ہیں اور آپ گواھی دیں کہ ھم مسلمان ہیں۔"
کیا آج کے مسلمان پھلے نبیوں، ان کی امتوں اور ان پر ایمان لانے والوں کو مسلمان کھتے ہیں اور کیا ان کے لئے لفظ مسلمان استعمال کیا جائے تو وہ اسے درست جانتے ہیں؟
اس سوال کا جواب خارجی حقائق کی روشنی میں دیا جائے تو پھر ’’نھیں‘‘ ھی کھنا پڑے گا۔ اگر یہ لفظ قرآن حکیم میں لغوی معنی میں آیا ہے تو پھر کھنا پڑے گا کہ اب یہ لفظ ایک خاص اصطلاحی معنی میں استعمال ھوتا ہے اور اگر یہ کھا جائے کہ قرآن حکیم میں یہ لفظ اصطلاحی معنی میں آیا ہے تو پھر کھنا پڑے گا کہ اب یہ اصطلاح محدود ھوچکی ہے۔ یھی حال لفظ اسلام کا ہے۔
آج جنھیں مسلمان کھا جاتا ہے، فقط ان کے دین کو اسلام کھا جاتا ہے، جبکہ قرآن حکیم میں یہ کلمہ اس سے وسیع تر معنی میں استعمال ھوا ہے، جیسے کلمہ مسلمان وسیع تر معنی میں استعمال ھوا ہے۔
آیئے قرآن حکیم ھی کی طرف رجوع کرتے ہیں:
قرآن حکیم کھتا ہے کہ دین اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہے:
اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ(آل عمران:۱۹)
قرآن حکیم یہ بھی کھتا ہے کہ جو شخص بھی اللہ کے حضور اسلام کے سوا کوئی اور دین لے کر آئے گا تو وہ اس سے قبول نھیں کیا جائے گا۔ چنانچہ ارشاد ھوتا ہے:
وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ وَ ھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ (آل عمران:۸۵)
"اور جس نے اسلام چھوڑ کر کوئی اور دین اختیار کر لیا تو وہ اس سے ھرگز قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں خسارہ اٹھانے والوں میں سے ھوگا۔"
اگر دین اللہ کے نزدیک صحیح و درست صرف اسلام ہے تو اس کے تمام نبیوں کا دین اسلام ھی ہے۔ اسی طرح اگر اسلام کے سوا کوئی دین اس کے نزدیک قابل قبول نھیں تو تمام نبیوں کا اسی ایک دین کا حامل ھونا ضروری ہے۔ لغت کے اعتبار سے لفظ اسلام پر نظر ڈالی جائے تو مختلف علمائے لغت نے اسے اطاعت، عبادت میں خلوص اور سلامتی کے معنی میں بیان کیا ہے۔ چنانچہ صاحب لسان العرب نے مادۂ ’’سلم‘‘ کے ذیل میں ’’اسلام‘‘ کے یھی معنی بیان کئے ہیں:
الاسلام فی اللغۃ: ھو الاستسلام والانقیاد، قال أبوبکر محمد بن بشار: یقال فلان مسلم وفیہ قولان: أحدھما ھو المستسلم لأمر اللہ، والثانی ھوالمخلص للہ العبادۃ۔
لغت میں اسلام تسلیم اور فرمانبرداری ہے۔ ابو بکر محمد بن بشار کھتے ہیں: جب یہ کھا جاتا ہے کہ فلاں مسلم ہے تو اس کے بارے میں دو قول ہیں: ایک یہ کہ وہ اللہ کے امر کو تسلیم کرتا، بجا لاتا اور اس کی فرمانبرداری کرتا ہے اور دوسرا یہ کہ وہ اس کی عبادت کے لئے مخلص ہے۔
راغب اصفھانی نے المفردات میں لکھا ہے؛
والاسلام کذلک ھوالدخول فی السلم۔
اور اسی طرح سے اسلام سلامتی میں داخل ہونے کو کھتے ہیں۔
قرآن حکیم نے اسلام کے یہ تمام معنی استعمال کئے ہیں۔
مندرجہ بالا آیات بھی اس کی شھادت دیتی ہیں۔
صلح و سلامتی اور اطاعت کے معنی اس لفظ کے مادہ کا استعمال ملاحظہ فرمائیں:
وَ اِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَھَا (انفال:۶۱)
"اور اے نبی اگر یہ لوگ صلح و سلامتی کی طرف مائل ھوں تو آپ بھی اس کے لیے آمادہ ھو جائیں۔"
نیز یہ بھی ارشاد فرمایا گیا ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً(بقرہ:۲۰۸)
"اے ایمان والو! تم پوری طرح سے اسلام اور حلقۂ فرمانبرداری میں داخل ھوجاؤ۔"
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے بھی اسلام کا معنی بیان کرتے ھوئے پھلے مرحلے میں اسے التسلیم ھی قرار دیا ہے۔ چنانچہ ارشاد فرماتے ہیں:
الاسلام ھوالتسلیم۔۔۔ (نھج البلاغہ، حکمت نمبر۱۲۵)
اگر ھم احادیث نبویؐ کی طرف رجوع کریں تو ھمیں دکھائی دے گا کہ ان میں بھی اسلام اور مسلمان کے کلمات لغوی معنی سے ھم آھنگ بیان کئے گئے ہیں۔ علاوہ ازیں اگر مسلمان ھونے کی شرائط کو قرآن حکیم اور احادیث نبوی کی روشنی میں دیکھا جائے تو پھر یہ امر واضح ھو جائے گا کہ قرآن اور رسول اللہ کا مسلمان اور ہے اور اصطلاحی مسلمان اور ہے۔ قرآن اور سنت رسول اس مسلمان کے لئے ایک آئینے کی حیثیت رکھتے ہیں۔
عموماً اگر ایک شخص مسلمانوں کے گھر میں پیدا ھوتا ہے تو اس کا نام مسلمان معاشرے سے ھم آھنگ رکھ دیا جاتا ہے اور پھر وہ جو کچھ بھی کرتا پھرے جب تک وہ کھے نہ کہ میں نے اسلام کو چھوڑ دیا ہے، اسے مسلمان ھی کھا جاتا ہے۔
ھم نھیں کھتے کہ اسے مسلمان نہ کھا جائے، لیکن پھر یہ ضرور کھنا پڑے گا کہ ضروری نھیں کہ اصطلاحی مسلمان حقیقی مسلمان بھی ھو۔ ھم یہ بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ قرآن و سنت کے آئینے میں اپنے آپ کو وہ لوگ بھی دیکھیں جو اپنے تئیں مسلمان سمجھتے ہیں اور وہ بھی جو دوسروں کی تکفیر کرتے پھرتے ہیں اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہیں۔
اگلی نشست میں ھم ایسی چند احادیث نبویؐ کا ذکر کریں گے، جن میں مسلمان یا مسلم کی تعریف کی گئی ہے یا اُس کی شرائط بیان کی گئی ہیں۔
گذشتہ نشست میں ھم نے قرآن حکیم کی متعدد آیات کے حوالے سے یہ بات واضح کی تھی کہ مسلمان کا لفظ پھلی امتوں میں بھی استعمال ھوتا رھا ہے۔ نیز یہ لفظ بھت سے مقامات پر لغوی معنی میں آیا ہے۔ ہمیں قرآن و سنت کی روشنی میں ھی جائزہ لینا ھوگا کہ ھم اصطلاحی معنی میں مسلمان ہیں یا حقیقی معنی میں۔ اگر ھم نے اس امر پر غور و فکر نہ کیا تو پھر مسلمان ھونے کا دعویٰ یک طرفہ رہ جائے گا۔
احادیث میں بھی مادہ ’’س ل م‘‘ جس سے مسلم اور اسلام ماخوذ ہے، لغوی معنی میں بھی استعمال ھوا ہے اور اصطلاحی معنی میں بھی۔ علاوہ ازیں بھت سی روایات ایسی ہیں، جن میں مسلمان ھونے کی شرائط بیان کی گئی ہیں۔ ایسی روایات بھی ہیں، جن میں مسلمان ھونے کے لئے ناگزیر عقائد کا بیان کیا گیا ہے۔ آیئے ذرا احادیث نبویؐ پر ایک نظر ڈالتے ہیں:
*المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ والمھاجر من ھجر مانھی اللّٰہ عنہ۔(صحیح بخاری، کتاب الایمان و صحیح مسلم، کتاب الایمان﴾
مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ھاتھ سے مسلمان محفوظ رھیں اور مھاجر وہ ہے، جو اس بات سے ھجرت کرے جس سے اللہ نے منع کیا ہے۔
*المسلم اخو المسلم لا یظلمہ ولا یسلمہ ومن کان فی حاجۃ أخیہ کان اللہ فی حاجتہ ومن فرج عن مسلم کربۃ فرّج اللہ عنہ کربۃ من کربات یوم القیامۃ ومن ستر مسلماً سترہ اللہ یوم القیامۃ۔ (صحیح بخاری، باب ۳ و باب ۹ و صحیح مسلم، کتاب البر و الصلۃ)
مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، وہ نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اسے کسی مصیبت کے حوالے کرتا ہے اور جو شخص اپنے بھائی کی ضرورت کے وقت اس کے کام آئے، اللہ اس کی حاجت کے وقت اس کے کام آئے گا اور جو شخص کسی مسلمان کو کسی دکھ سے نجات دے، اللہ قیامت کے دن کے دکھوں سے اس کو نجات دے گا اور جو شخص کسی مسلمان کی ستر پوشی کرے تو قیامت کے دن اللہ اس کی ستر پوشی کرے گا۔
ان احادیث میں ھم دیکھتے ہیں کہ ’’سلم‘‘ کا مادہ اپنے اصل معنی میں یعنی سلامتی اور تسلیم کرنے کے معنی میں بھی استعمال ھوا ہے۔ ان احادیث سے یہ ظاھر ھوتا ہے کہ مسلمان ھونے کا ایک بنیادی پھلو یہ ہے کہ انسان کا وجود دوسروں کے لئے سلامتی کا باعث بن جائے۔ ان احادیث میں تو مسلمان کی مسلمانوں کے بارے میں ذمے داریوں سے آگاہ کیا گیا ہے، تاھم ایسی آیات و احادیث بھی ہیں، جو تمام انسانوں کے بارے میں ایک مسلمان کی ذمے داریوں کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔
مثلاً قرآن حکیم میں ایک ایسی آیت بھی ہے، جس میں ایک مومن کے قتل عمد پر جھنم کی وعید دی گئی ہے اور قاتل پر اللہ کے غضب اور لعنت کو بیان کیا گیا ہے، جبکہ ایک اور عظیم الشان آیت میں کسی بھی انسان کی جان کو ناحق ضائع کرنے کو ساری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے: مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا وَ مَنْ اَحْیَاھَا فَکَاَنَّمَآ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًا۔(مائدہ:۳۲)
"جس کسی نے کسی انسان کو بغیر قصاص یا فساد فی الارض کے قتل کر دیا تو گویا سارے انسانوں کو قتل کر دیا اور جس کسی نے ایک انسان کو زندگی دی، اس نے گویا سارے انسانوں کو زندہ کر دیا۔"
یہ آیات شاھد ہیں کہ اللہ کی منشاء یہ ہے کہ مسلمان ساری انسانیت کے لئے باعث حیات ھو اور سب نوع بشر کے لئے باعث سلامتی ھو۔ بعض علماء نے مسلم اور مسلمان کا معنی تسلیم کرنے والا اور حق کے سامنے سر جھکا دینے والا کیا ہے۔
امیرالمومنین امام علی علیہ السلام کا ارشاد ہے: ان الاسلام ھو التسلیم
کہ اسلام دراصل تسلیم ہے۔ نھج البلاغہ میں موجود اس خطبے میں مزید بھی حکمت و ھدایت کی باتیں موجود ہیں، تاھم اس سے یہ ظاھر ھوتا ہے کہ اسلام دراصل اللہ کے حضور سر تسلیم خم کر دینے کا نام ہے۔ اس میں شک نھیں کہ حقیقی مسلمان تب بنتا ہے کہ جب اللہ کے سامنے اس کا سر ھی نھیں، دل بھی جھک جائے۔
اس سلسلے میں کئی آیات و روایات پیش کی جاسکتی ہیں۔ البتہ ھمیں آج یہ جائزہ لینا ہے کہ مسلمان آج اپنا تعارف غیر مسلموں کے سامنے کیا پیش کر رھے ہیں اور خود مسلمانوں کے ساتھ کیا سلوک کر رھے ہیں۔ کئی ایک گروھوں نے اپنا اسلحہ مسلمانوں پر ھی تان رکھا ہے، جبکہ نبی کریمؐ نے زبان اور ھاتھ سے دوسرے مسلمان کی سلامتی کے ضامن شخص کو مسلمان قرار دیا ہے۔ ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے: من حمل علینا السلاح فلیس منا
جس نے ھم پر اسلحہ اٹھا لیا، وہ ھم میں سے نھیں ہے۔(رواہ الامام البخاری)
اس سے یہ ظاھر ھوتا ہے کہ مسلمان پر اسلحہ اٹھانے والا اور اس کے قتل کے درپے ھونے والا شخص نبی کریمؐ کی نظروں میں مسلمان نھیں ہے۔ دوسری طرف ھم اگرچہ بڑی آسانی سے ھر واقعے، ھر دھشتگری اور ھر فساد کا الزام دوسروں پر لگا دیتے ہیں، لیکن یہ افسوسناک حقیقت تسلیم کئے بغیر چارہ نھیں کہ اگر غیروں کو مسلمان کھلانے والوں کے ھاتھ میسر نہ آئیں تو وہ مسلمانوں پر اسلحہ نھیں چلا سکتے۔
اسی طرح مسلمانوں کے خلاف چلنے والی زبانیں اگر غیروں کے اشاروں پر حرکت نہ کریں تو غیر اس طرح سے مسلمانوں کو ایذا پھنچانے والی باتیں نھیں کر سکتے۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمان ھونے کے لئے جن عقائد کو ضروری قرار دیا ہے، ھر روز مختلف گروہ ان میں اپنی مرضی سے اضافہ کرتے رھتے ہیں اور پھر اپنے بنائے ھوئے فریم میں دوسروں کو فٹ کرنے کی کوشش میں لگے رھتے ہیں۔ اسلام نبیوں کا دین ہے۔ نبیوں کو یہ دین اللہ نے تعلیم کیا ہے۔ محمد مصطفٰیؐ پر اللہ نے نبوت کے سلسلے کو ختم کر دیا ہے۔ اب دین میں نئی چیزوں کا اضافہ نھیں کیا جاسکتا۔
باعث تاسف ہے کہ یہ سب کچھ جاننے کے باوجود ھم یا تو خود نئی شرائط مسلمان کے لئے بناتے رھتے ہیں یا ’’اکابر‘‘ کے نام پر نئی شرائط بیان کرتے رھتے ہیں۔
آیئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امتی بن جائیں، جو سارے نبیوں کے سردار اور سارے عالمین کے لئے رحمت بن کر آئے ہیں۔ جن کا پیغام ساری انسانیت تک پھنچانے کی ذمے داری امت کو سونپی گئی ہے۔ ھمیں بھی رحمت کا نمونہ بننا ہے۔ ھمیں بھی خلق عظیمؐ سے کسب فیض کرنا ہے۔ صرف اصطلاحی مسلمان ھونا ھمیں آخرت میں کوئی فائدہ نھیں دے گا، جیسا کہ دنیا میں بھی کوئی فائدہ نھیں دے رھا۔
دھشت گردی، فساد فی الارض، تکفیریت، گویا انتھا پسندی کی ھر شکل کو ترک کرکے سلامتی اور امن کا پیغامبر بننے کے لئے عھد کرنے کا موقع ربیع الاول سے بھتر کوئی نھیں۔ وہ مھینہ جو محبوب الٰھی کی ولادت با سعادت کا مھینہ ہے، جس میں مسلمان ھر مھینے سے بڑھ کر آنحضرتؐ کو یاد کرتے ہیں اور اس سلسلے میں اپنی جان مال خرچ کرنے کے لئے آمادہ رھتے ہیں۔ جس کے ذکر کو اللہ نے رفعت بخشی ہے، اس کی رفعتوں سے وابستگی کا اظھار کرتے ہیں تو پھر ضروری ہے کہ ھماری روح بھی تنگ دامانیوں سے اپنے آپ کو چھڑائے اور صاحب معراجؐ کے راستے پر پرواز کرنے کے لئے آمادہ ھو جائے۔ اللہ تعالٰی ھمیں اس کی توفیق بخشے۔
تحریر: ثاقب اکبر

Add comment


Security code
Refresh