www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

300590
تاریخ بشریت میں تمام تر جستجو کے باوجود کوئی ھستی اتنی جامع و اکمل نھیں ملتی کہ جو نہ صرف صفات الٰھی کی مظھر ھو بلکہ تمام عالم کی مخلوقات میں فضائل و مراتب کی معراج کے شرف سے بھی مشرف ھو۔

ھاں مگر۔۔ پیغمبر اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کائنات کی وہ بے مثل، بے مثال ھستی ہیں کہ جو شخصیت و کردار، علوم و فنون، صفات و معجزات، فضائل و مراتب، اخلاق و کرامات میں اتنی مکمل ہے کہ کائنات کو تسخیر کرنے کی دعویدار عقل انسانی آج بھی ان کی شخصیت کے ایک ایک پھلو کو لیکر انگشت بدنداں ہے۔ خالق کائنات رب العالمین قرآن مجید میں آپ (ص) کی شان اقدس میں ارشاد فرماتا ہے: ’’وما ارسلنک الا رحمۃ للعلمین‘‘﴿ھم نے آپ کو سب جھانوں کیلئے رحمت بنا کر بھیجا﴾
اس آیت مبارکہ میں عالمین کے خالق نے آپ (ص) کو عالمین کے لئے رحمت قرار دیا ہے۔ ’’رحمت‘‘ وہ صفت الٰھی ہے، جو خالق حقیقی کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے اسمائے حسنٰی میں ملتی ہے، یعنی رحمن و رحیم۔ قرآن مجید کی ھر سورۃ کی ابتداء ماسوائے سورۃ توبہ کے بسم اللہ الرحمن الرحیم سے ھوتی ہے۔ خالق دو جھاں نے اپنی جس صفت کا تذکر بار بار کیا، اپنے محبوب کا تعارف بھی اسی صفت سے کرایا اور اپنی تمام مخلوق کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت میں ’’رحمت‘‘ کی نوید سنائی۔
جھاں رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سب جھانوں کیلئے رحمت بنا کر بھیجنے کی بات کی گئی ہے۔ وھاں قرآن مجید کی ایک دوسری آیت میں ارشاد ھوتا ہے ۔’’انک لعلی خلق عظیم‘‘ بے شک آپ (ص) (اے محمد) سب سے عظیم درجہ خلق پر فائز ہیں۔
عمومی طور پر خلق یا اخلاق سے مراد عزت و تکریم، پیار و محبت سے پیش آنا ہے، تاھم حقیقت میں انسان کا اپنے خدا اور اس کی مخلوق سے برتاؤ کا مکمل احاطہ کرتا ہے۔ اسی عنوان سے رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی معروف حدیث مبارکہ ہے ’’انما بعثت لا تمیم مکارم الاخلاق‘‘ بے شک میں اس لئے (خدا کی طرف سے) مبعوث کیا گیا ھوں کہ انسانی اخلاقیات کو پایہ تکمیل تک پھنچاؤں۔ پس رحمان و رحیم خالق کائنات کی مبعوث کردہ رحمت للعالمین ھستی کا حتمی مقصد انسانی اخلاقیات اور فضائل و کرامات انسانی کو کامل اور مکمل کرنا تھا۔ اس کا ایک عکس آپ (ص) کے ظھور پرنور سے قبل معاشرے کی پستی اور ضلالت سے بھی عیاں ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب انسان اپنی قدر و منزلت سے غافل، جھالت و گمراھی کی دلدل میں غرق احساس محرومی کی تصویر تھا۔ اقدار انسانی زوال پذیر، بنت حوا عالم لاشعور میں زندہ درگور، معاشرہ فتنہ فساد و شر کے شکنجہ میں تھا۔ ایسے میں صفات الٰھی کے مظھر اس نور مبین نے جلوہ دیا کہ نگاہ بشر علم و حکمت و دانش کی چکاچوند کی تاب نہ لاتے ھوئے خودبخود سجدہ ریز ھوگئی۔ یھی وہ طاھر و مطھر ھستی ہے، جس نے عالم انسانیت کی کایا پلٹ دی۔
آپ (ص) نے بچپن سے ھی انسانی کردار کی ایسی تصویر معاشرے میں پیش کی کہ جان اور پیغام کے دشمن بھی اس بات کی گواھی دیئے بناء نہ رہ سکے کہ آپ (ص) صادق بھی ہیں اور امین بھی ہیں۔ اپنے شیریں بیاں اور اخلاق کا اعلٰی نمونہ پیش کیا کہ دشمن اس ڈر سے سامنا کرنے سے گھبرائے کہ آپ (ص) کے اخلاق کے اسیر ھوکر باطل خداؤں سے منہ نہ موڑ لے۔
تبسم و خندہ پیشانی سے سخت دل یوں موم کئے کہ کفار مکہ اپنی اولاد کو باھر نکلنے سے قبل پابند کرتے کہ آپ (ص) کے رخ انور کی زیارت سے گریز کریں گے، مبادا کہ آپ (ص) کی زیارت کے بعد آپ کا کلمہ پڑھ لیں۔ وھی معاشرہ جو انسان تو درکنار والدین، اولاد، خواتین کے حقوق تسلیم نھیں کرتا۔ مختصر دورانیہ کے بعد مدینہ میں ’’رشتہ مواخات‘‘ کی صورت مھاجر و انصار کو بھائی بھائی بنا دیتا ہے۔
جس معاشرے میں بچیاں زندہ دفنائی جاتیں، اسی معاشرے میں بیٹیاں رحمت قرار پائیں۔ جنگ و جدل جھاں کا خاصہ تھا، وھاں اخوت، بھائی چارے کے اصول وضع ھوئے۔ جھل و ضلالت جھاں تعارف تھی، وھاں فصاحت و بلاغت کے چشمے پھوٹے۔ انسان تو انسان، حیوانوں کے بھی حقوق قرار پائے۔ بلاشبہ آپ (ص) خود بھی اخلاق انسانی کے اعلٰی ترین درجے پر فائز ہیں اور آپ (ص) کی تبلیغات و زحمات اور قربانیوں کا مقصد یھی ہے کہ بنی نوع انسان جھالت، خود غرضی، شھوات اور نفسانی و شیطانی خواھشات کی غلیظ دلدل سے نکل کر عالم رحمت کے بیکراں سمند میں داخل ھوں اور اپنے آپ کو اعلٰی ترین انسانی اور درحقیقت رحمانی صفات سے منسلک کریں۔
یہ آپ (ص) کے شیریں پیغام کا ھی اثر ہے کہ جزیر العرب سے بلند ھونیوالی لا الہ الا اللہ کی صدا پوری دنیا میں گونجی اور رب العالمین کا پیغام ’’اسلام‘‘ مختصر وقت میں انقلاب کی صورت برپا ھوا اور آج کرہ ارض پہ ھر لمحہ خدائے بزرگ و برتر کا نام گونج رھا ہے۔ کرہ ارض پر ھر لمحہ گونجنے والی اذان و اقامت آپ کے کامل و اکمل ھونے کی بھی دلیل ہے۔
ماہ ربیع الاول کی مبارک ساعتیں آپ (ص) کی ولادت باسعادت کی نوید دیتی ہیں۔ دنیا بھر کے مسلمان، باشعور انسان اپنے اپنے انداز میں آپ (ص) سے اظھار محبت و عقیدت کرتے ہیں۔ عاشقان رسول محافل منعقد کرتے ہیں، ریلیاں نکالتے ہیں۔ آپ (ص) کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ ممکن ہے کہ عالم اسلام کے مختلف مکاتب و مسالک کے مابین اختلافات موجود ھوں، مگر رسول اکرم (ص) کی ذات اقدس سے عقیدت، وابستگی، محبت و مودت پوری ملت اسلامیہ میں مشترک ہے، آپ (ص) کی شخصیت مبارک عالم اسلام کا مرکز وحدت ہے۔ اس مرکز و محور پہ پورے عالم اسلام کو یکجا کرکے اسلامی دنیا کو درپیش مسائل کا مداوا کیا جاسکتا ہے۔
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالٰی ہے کہ ’’انماالمومنون اخو فاصلحوا بین اخویکم‘‘ (الحجرات﴾
تمام اھل ایمان آپس میں ایک دوسرے کے بھائی ہیں، لھذا تم لوگ اپنے بھائیوں کے درمیان صلح و صلاح برقرار کرو۔
دوسری جگہ ارشاد باری تعالٰی ہے کہ ’’واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقوا‘‘ (عمران ۳۵۱﴾
تم سب کے سب اللہ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ پکڑ لو اور متفرق نہ ھو۔
رب العالمین قرآن مجید، فرقان حمید میں مسلمانوں کے مابین اتحاد و وحدت کی تلقین فرما رھے ہیں۔ رحمت عالم، نور مجسم، ھادی دوراں، واقف امکاں، سید و رھبر، اعلٰی و اکمل، ملجی و ماوی، منجی بشریت اور مربی انسانیت حضرت احمد مجتبٰی محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اپنی پوری حیات مبارکہ میں مسلمانوں کے مابین اتحاد و وحدت کو فروغ دیا اور اسی کو دین کی قوت قرار دیا۔
آپ (ص) نے فرمایا کہ ’’مسلمان وہ ہے کہ جس کے ھاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رھیں۔‘‘ رب العالمین قرآن مجید میں، رحمت للعالمین احادیث مبارکہ میں بار بار اتحاد و وحدت کی تلقین فرماتے ہیں، عالم اسلام کے موجودہ حالات بھی اس امر کے متقاضی ہیں کہ ملت اسلامیہ اپنے سرحدی، سیاسی، جغرافیائی، مادی، فروعی و تاریخی اختلافات کو پس پشت ڈال کر دین مبین اسلام کی سربلندی کی خاطر یک جان ھو۔
دنیائے اسلام کو جن مسائل و چیلنجز کا آج سامنا ہے، انقلاب اسلامی ایران کے پیشوا حضرت امام خمینیؒ نے ان مسائل وچیلنجز کا ادراک عشروں قبل کر لیا تھا۔ یھی سبب ہے کہ انھوں نے محور انسانیت کی ولادت باسعادت کی دونوں روایات یعنی 12 ربیع الاول اور 17 ربیع الاول کو یکجا کرکے ھفتہ وحدت کے طور پر منانے اعلان کیا اور امت مسلمہ کے دو بازوؤں یعنی اھل سنت و اھل تشیع کو عشق محمد و آل محمد (ص) سے اس طرح جوڑا کہ دشمن لاکھ سازشیں کرے تو بھی دونوں کو ھمیشہ ھمشیہ کیلئے جدا نہ کر پائے۔ یہ اسی اعلٰی تدبیر کا ھی ثمر ہے کہ آج دونوں مکاتب یک جسم و یک جان ھوکر محمد و آل محمد (ص) کی خوشیوں میں خوش اور ان کے غم میں غمگین ملتے ہیں۔
رحمت عالم، نور مجسم، پیغمبر اکرم (ص) دنیائے انسانیت کا مرکز و محور ہیں۔ مسلمانان عالم کو چاھیئے کہ وہ اسی مرکز و محور پر ایک ھوں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس پر مبارک یوم ولادت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع یعنی ھفتہ وحدت پر اس بات کاعھد کریں کہ ھم کسی انتشار و تفرقہ میں اضافہ کا باعث نھیں بنیں گے، بلکہ امت نبی رحمت (ص) کی وحدت و یکجھتی کیلئے اپنا حصہ ڈالیں گے۔ یھی عمل شفاعت نبی رحمت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم امور دینوی و اخروی نجات کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ بنے گا۔ انشاء اللہ
تحریر: عمران خان

Add comment


Security code
Refresh