www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

(ج)ذخیرہ اندوزتاجر اورصنعت گر:

امام علی کے نزدیک ذخیرہ اندوزی کرنے والے تاجر اور صنعت گر تنگ نظر اورکنجوس ہوتے ہیں:

''و اعلم مع ذالک انّ فی کثیرٍ منہم ضیقا فاحشا و شحًا قبیحًا، و احتکارا للمنافع ،و تحکما فی البیاعات،وذَالکَ بابُ مضرّةٍ للعامّةِ،و عیب علی الولاةِ، فامنع من الاحتکارِفاِنّ رسول اﷲِ صلّی اﷲ علیہ و اٰلہ وسلّم منع منہ ولْیکنِ البیعُ بیعًا سمحًا بموازین عدلٍ و اسعارٍ لا تجحفُ بالفریقین من البائعِ والمبتاعِ فمن قارف حکرةً بعد نہیک ایّاہ فنکّل بہ، و عاقبہ فی غیرِ اسرافٍ۔''(٢٣ )

اس کے ساتھ یہ بھی یاد رکھو کہ ان میں ایسے بھی ہوتے ہیں جو انتہائی تنگ نظر اور بڑے کنجوس ہوتے ہیں ، جو زیادہ منافع حاصل کرنے کے لیے ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں، اونچے نرخ معین کرلیتے ہیں ، یہ چیز عوام کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے، اور حکمرانوں کی بدنامی کا باعث ہوتی ہے لہٰذا ذخیرہ اندوزی سے منع کرنا ، کیونکہ رسول(ص) اﷲنے اس سے ممانعت فرمائی ہے اور خرید و فروخت صحیح ترازو اور مناسب نرخوںکے ساتھ بسہولت ہونا چاہیے کہ نہ بیچنے والے کو نقصان ہو اور نہ خریدنے والے کو خسارہ ہواور منع کرنے کے بعد بھی کوئی ذخیرہ اندوزی کے جرم کا مرتکب ہو تو اسے مناسب حد تک سزا دینا ۔

(د)بے سھارا ، فقراء اور مساکین کے حقوق:

حضرت علی علیہ السلام اپنے گورنر مالک اشتر کو بے سہارا ، مساکین اور فقراء کے حقوق کے بارے میں ھدایات دیتے ہیں:

''اﷲ اﷲ فی الطبقہ السفلٰی من الذین لا حیلة لھم والمساکین والمحتاجین و اھل البؤسٰی والزّمنی۔فانّ فی ھذہ الطبقة قانعا و معترًّا و احفظ ﷲ ما استحفظک من حقّہ فیھم۔واجعل لھم قسما من غلّات صوافی الاسلام فی کلّ بلدٍ فاِنّ للاقصٰی منھم مثل الذی للادنی وکلّ قد استرعیت حقّہ فلا یشغلنّک عنھم بطر فاِنّک لا تُعذرُ بِتَضیِیعک التَّافِہَ لاحکام الکثیر المھمَّ فلا تشخص ھمّک عنھم ، ولا تصعّر خدّکا لھم و تفقّد امور من لا یصل الیک منھم ممّن تفتحمہ العیون و تحقرہ الرّجال۔'' (٢٤)

خصوصیت کے ساتھ اﷲ کا خوف کرنا، پس ماندہ طبقہ کے بارے میں جن کا کوئی سہارا نہیں ہوتا، وہ مسکینوں ، محتاجوں، فقیروں اور معذوروں کا طبقہ ہے۔ ان میں کچھ تو ہاتھ پھیلا کر مانگنے والے ہوتے ہیں اور کچھ کی صورت ہی سوال ہوتی ہے ۔ اﷲ کی خاطر ان بے کسوں کے بارے میں ان کے اس حق کی حفاظت کرنا جس کااﷲ نے تمہیں ذمہ دار بنایا ہے ۔ ان کے لیے ایک حصہ بیت المال سے معین کر دینا اور ایک حصہ شہر کے اس غلہ میں سے دیناجو اسلامی غنیمت کی زمینوں سے حاصل ہوا ہو، کیونکہ اس میں دور والوں کا اتنا ہی حصہ ہے جتنا نزدیک والوں کا ہے۔اور تم ان سب کے حقوق کی نگہداشت کے ذمہ دار بنائے گئے ہو ۔ لہٰذا تمہیں دولت کی سر مستی کہیں غافل نہ کردے۔پس کسی معمولی بات کو اس لیے نظر انداز نہیں کیا جائے گا کہ تم نے بہت سے اہم کاموں کو پورا کردیا ہے لہٰذا اپنی توجہ ان سے نہ ہٹانا۔ نہ تکبر کے ساتھ ان کی طرف سے اپنارخ

پھیر لینااور نہ ہی اپنی توجہ ان سے ہٹانا۔ خصوصیت کے ساتھ خبر رکھو ایسے افراد کی جو تم تک پہنچ نہ سکتے ہوں جنہیں آنکھیں دیکھنے سے کراہت کرتی ہونگی اور لوگ انہیں حقارت سے ٹھکراتے ہوں گے۔

Add comment


Security code
Refresh