www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

(٥)حقوق کی ادائیگی میں تعاون:

حکومت اور عوام پر لازم ہے کہ وہ حقوق کی ادائیگی میں ایک دوسرے سے تعاون کریں :۔

''و لیس امرؤُوان عظمت فی الحقّ منزلتہ ، و تقدّمت فی الدّین فضیلتہ بفوق ان یعان علی ماحمَّلہ اﷲُ من حقّہ ، ولا امرؤ وان صّغرتْہ النّفوسُ واقتمحتہ العیونُ بدونِ ان یعین علی ذالک او یعان علیہ۔''(١٠)

کوئی شخص بھی اپنے آپ کو اس سے بے نیازقرار نہیںدے سکتا ، کہ اﷲ نے جس ذمہ داری کا بوجھ اس پر ڈالا ہے اِس میں اُس کا ہاتھ بٹایا جائے چاہے وہ حق میں کتنا ہی بلند منزلت کیوں نہ ہو اور دین میں اسے فضیلت و برتری کیوں نہ حاصل ہو۔ اور کوئی شخص اتنا بھی حقیر نہیں کہ حق میں تعاون کرے یا اس کی طرف تعاون کا ہاتھ بڑھایا جائے چاہے لوگ اسے ذلیل سمجھیں اور اپنی حقارت کی وجہ سے آنکھوں میں نہ جچے۔

مزید ارشاد فرماتے ہیں

''انّ ِمن حقِ مَن عَظُمَ جلالُ اﷲِ فی نفسہ و جلّ موعظہ من قلبہ ان یصغر عندہ لعِظمِ ذالک کل ما سواہ۔و انّ احقّ من کان کذالک لمن عظمت نعمة اﷲ علیہ و لطف احسانہ الیہ، فانّہ لم تعظم نعمة اﷲ علی احدٍ الّا ازداد حقُّ اﷲِ علیہ عظما۔''(١١)

جس شخص کے نفس میں جلالِ الٰہی کی عظمت ہو اور قلب میں منزلت ِالٰہی کی بلندی کا احساس ہو اسے سزاوار

ہے کہ اس جلالت اور عظمت کے پیش نظر اﷲ کے ماسوا ہر چیز کو حقیر جانے۔ ایسے لوگوں میںوہ شخص اور بھی اس کا زیادہ اہل ہے کہ جسے اس نے بڑی نعمتیں دی ہوں اور اچھے احسانات کیے ہوں اس لیے کہ جتنی اﷲکی نعمتیں کسی پر بڑی ہونگی اتنا ہی اﷲ کا اس پر حق بڑا ہوگا۔

)حکمرانوں کی ذلیل ترین صورت :

حکمرانوں کی ذلیل ترین صورت کو واضح کرتے ہوئے حضرت علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:۔

''وانّ من اسخف حالات الولاة عند صالح النّاس ان یظنّ بہم حبّ الفخرِ و یوضعُ امرُ ھم علی الکبر۔"(١٢)

نیک بندوں کے نزدیک حاکموں کی ذلیل ترین صورت حال یہ ہے کہ ان کے متعلق یہ گمان ہونے لگے کہ وہ فخر و سربلندی کو دوست رکھتے ہیں اور ان کے حالات غرورو تکبّر پر محمول ہو سکیں۔ لہٰذا حکمرانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ کو تکبر و غرور سے دور رکھیں اور اس عہد کو اﷲ کی طرف سے امانت سمجھے نہ یہ کہ وہ اس کے لئے غنیمت سمجھ کر سب کچھ لوٹ لے۔

(٧)حضرت علی علیہ السلام کا اپنی حکومت کے بارے میں نظریہ:

چونکہ حضرت علی علیہ السلام ایک حاکم کی حیثیت سے تھے لہٰذا خود اپنے لیے یہ پسند نہیں کرتے تھے کہ آپ کے سامنے آپ کی تعریف کی جائے

''و قد کرہت ان یکونَ جالَ فی ظنّھم انّی احبّ الاطراء والاستماع الثناء و لست بحمد اﷲکذالک ۔و لو کنت احبُّ ان یقال ذالک لترکتُہ انحطاطًا ﷲ سبحانہ عن تناول ما ھو احقُّ بہ مِنَ العظمة و الکبریاء ۔و ربما استحلی النّاس الثناء بعد البلاء ۔ فلا تثنوا علیّ بجمیل ثناء لاخراجی نفسی الی اﷲ و الیکم من التّقیّة فی حقوق لم افرغ من اَدآئھا ، و فرائظ لا بدّ من امضائھم۔''( ١٣)

مجھے یہ تک گوارا نہیں کہ تمہیں وہم و گمان بھی گذرے کہ میں بڑھ چڑھ کر سراہے جانے یا تعریف سننے کو پسند کرتا ہوں اور میں الحمد ﷲ ایسا نہیں ہوں ۔ اور اگر مجھے اس کی خواہش بھی ہوتی کہ ایسا کہا جائے (میری تعریف کی جائے)تو بھی اﷲ تعالیٰ کے سامنے فروتنی کرتے ہوئے اسے چھوڑ دیتا کہ ایسی عظمت و بزرگی کو اپنا یا جائے کہ جس کا وہی اہل ہے اور یوں تو لوگ اچھی کارکردگی کے بعد مدح و ثنا کو خوش گوار سمجھتے ہیں۔

میری اس پر مدح و ستائش نہ کر و کہ اﷲ کی اطاعت اور تمہارحقوق سے عہدہ برآ ہوا ہوں کیونکہ ابھی ان حقوق کا ڈر ہے کہ جنہیں پورا کرنے سے میں ابھی فارغ نہیں ہوا، اور ان فرائض کاابھی اندیشہ ہے کہ جن کا نفاذ ضروری ہے ۔

Add comment


Security code
Refresh