www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

مکتوب نمبر 19:عبداللہ ابن عباس کے نام

 

عبداللہ ابن عباس کے نام
عبداللہ ابن عباس کہا کرتے تھے کہ جتنا فائدہ میں اس نے کلام سے حاصل کیا ہے
, اتنا ہی پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کلام کے بعد کسی کلام سے حاصل نہیں کیا.
 انسان کو کبھی ایسی چیز کا پالینا خوش کرتا ہے جو اس کے ہاتھوں سے جانے والی ہوتی ہی نہیں اور کبھی ایسی چیز کا ہاتھ سے نکل جانا اسے غمگین کر دیتا ہے جو اسے حاصل ہونے والی ہوتی ہی نہیں. یہ خوشی اور غم بیکار ہے. تمہاری خوشی صرف آ خرت کی حاصل کی ہو ئی.
چیزوں پر ہونی چاہیے اور اس میں کو ئی چیز جاتی رہے اس پر رنج ہونا چاہیے اور جو چیز دنیا سے پالو, اس پر زیادہ خوش نہ ہو اور جو چیز اس سے جاتی رہے اس پر بیقرار ہو کر افسوس کرنے نہ لگو بلکہ تمہیں موت کے بعد پیش آنے والے حالات کی طرف اپنی توجہ موڑنا چاہیے .
 
مکتوب نمبر 18: زیاد ابن ابیہ کے نام
 زیاد ابن ابیہ کے نام!
 میانہ روی اختیار کرتے ہوتے فضول خرچی سے باز آؤ ,آج کے دن کل کو بھول نہ جاؤ .صرف ضرورت بھر کے لےے مال روک کر باقی محتاجی کے دن کے لےے آگے بڑھاؤ.
 کیا تم یہ آس لگا ئے بیٹھے ہو کہ اللہ تمہیں عجز و انکساری کرنے والوں کا اجر دے گا ?حالانکہ تم اس کے نزدیک متکبروں میں سے ہو . اور یہ طمع رکھتے ہو کہ وہ خیرات کرنے والوں کا ثواب تمہارے لےے قرار دے گا .حالانکہ تم عشرت سامانیوں میں لوٹ رہے ہو اور بیکسوں اور بیواؤں کو محروم کر رکھا ہے .انسان اپنے ہی کئے کی جزا پاتا ہے اور جو آگے بھیج چکا ہے وہی آگے بڑھ کر پائے گا .والسلام!

مکتوب نمبر 17: زیاد ابن ابیہ کے نام
 زیاد ابن ابیہ کے نام :
 جب کہ عبداللہ ابن عباس بصرہ ,نواحی ہوا زاور فارس و کرمان پرحکمران تھے اور یہ بصرہ میں ان کا قائم مقام تھا .
 میں اللہ کی سچی قسم کھا تا ہوں کہ اگر مجھے یہ پتہ چل گیا کہ تم نے مسلمانوں کے مال میں خیانت کرتے ہوئے کسی چھوٹی یا بڑی چیزمیں ہیر پھیر کیا ہے .تو یاد رکھو کہ میں ایسی مار مار وں گا کہ جو تمہیں تہی دست ,بوجھل پیٹھ والا اور بے آبرو کرکے چھوڑ ے گی .والسلام!

مکتوب نمبر 16: ایک عامل کے نام
 ایک عامل کے نام :
 تمہارے شہر کے زمینداروں نے تمہاری سختی ,سنگدلی تحقیر آمیز بر تا ؤ اور تشد دکے رویہ کی شکایت کی ہے میں نے غور کیا تو وہ شرک کی وجہ سے اس قابل تو نظر نہیںآتے کہ انہیں نزدیک کر لیا جائے .اور معاہدہ کی بنا پر انہیں دور پھینکا اور دھتکارا بھی نہیں جاسکتا . لہٰذا ان کے لےے نرمی کا ایسا شعار اختیار کرو جس میں کہیں نرمی برتو او رقرب وبعد اور نزدیکی و دوری کو سمو کر بین بین راستہ اختیار کرو .انشاء اللہ
 یہ لو گ مجوسی تھے اس لےے حضرت کے عامل کارویہ ان کے ساتھ ویسا نہ تھا جو عام مسلمانوں کے ساتھ تھا جس سے متاثر ہوکر ان لوگو ں نے امیرالمومنین علیھ السّلام کو شکایت کا خط لکھا اور اپنے حکمران کے تشدد کا شکوہ کیا جس کے جواب میں حضرت نے اپنے عامل کو تحریر فرمایا کہ وہ ان سے ایسا برتاؤ کریں کہ جس میں نہ تشدد ہو اور نہ اتنی نرمی کہ وہ اس سے ناجائز فائدہ اٹھاکر شر انگیزی پراترآئیں کیونکہ انہیں پوری ڈھیل دے دی جائے تو وہ حکومت کے خلا ف ریشہ دوانیوں میں کھو جاتے ہیں اور کو ئی نہ کوئی فتنہ کھڑا کر کے ملک کے نظم و نسق میں دوڑے اٹکاتے ہیں او رپوری طرح سختی و تشدد کا بر تاؤ اس لےے روا نہیںرکھا جاسکتا کہ وہ رعایا میں شمار ہوتے ہیں او راس اعتبار سے ان کے حقوق کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا .

مکتوب نمبر 15: والی بصرہ عبداللہ ابن عباس کے نام
 والی بصرہ عبداللہ ابن عباس کے نام :
 تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ بصرہ وہ جگہ ہے جہاں شیطان اترتا ہے اور جتنے سر اٹھاتے ہیں. یہاں کے باشندوں کو حسن سلوک سے خو ش رکھو, اور ان کے دلوں سے خو ف کی گرہیں کھول دو. مجھے یہ اطلاع ملی ہے کہ تم بنی تمیم سے درشتی کے ساتھ پیش آتے ہو, اور ان پر سختی روا رکھتے ہو. بنی تمیم تو وہ ہیں کہ جب بھی ان کا کو ئی ستارہ ڈوبتا ہے, تو ا س کی جگہ دوسرا ابھرتا ہے, اور جاہلیت اور اسلام میں کوئی ان سے جنگ جوئی میں بڑھ نہ سکا. اور پھر انہیں ہم سے قرابت کا لگاؤ اور عزیز داری کا تعلق بھی ہے کہ اگر ہم اس کا خیال رکھیں گے تو اجر پائیں گے اور اس کا لحاظ نہ کریں گے تو گنہگا رہوں گے. دیکھو ابن عباس! خدا تم پر رحم کرے. (رعیت کے بارے میں ) تمہار ے ہاتھ اور زبان سے جو اچھائی اور برائی ہونے والی ہو, اس میں جلدبازی نہ کیا کرو. کیونکہ ہم دونوں اس (ذمہ داری ) میں برابر کے شریک ہیں. تمہیں اس حسن ظن کے مطابق ثابت ہو نا چاہیے جو مجھے تمہارے ساتھ ہے اور تمہارے بارے میں میری رائے غلط ثابت نہ ہونا چاہیے . والسلام!
 طلحہ و زبیر کے بصرہ پہنچنے کے بعد بنی تمیم ہی وہ تھے جو انتقام عثمان کی تحریک میں سر گرمی سے حصہ لینے والے اور اس فتنہ کو ہوا دینے میں پیش پیش تھے. اس لیے جب عبداللہ ابن عباس بصرہ کے عامل مقرر ہوئے تو انہوں نے ان کی بدعہدی و عداوت کو دیکھتے ہوئے انہیں برے سلوک ہی کا مستحق سمجھا او ایک حد تک ان کے ساتھ سختی کا برتاؤ بھی کیا. مگر اس قبیلہ میں کچھ لوگ امیرالمومنین علیھ السّلام کے مخلص شیعہ بھی تھے. انہوں نے جب ابن عباس کا اپنے قبیلے کے ساتھ یہ رویہ دیکھا, تو حارثہ ابن قدامہ کے ہاتھ ایک خط حضرت کی خدمت میں تحریر کیا جس میں ابن عباس کے متشددانہ رویہ کی شکایت کی. جس پر حضرت نے ابن عباس کو یہ خط تحریر کیا جس میں انہیں اپنی روش کے بدلنے اور حسن سلوک سے پیش آنے کی ہدایت فرمائی ہے اور انہیں اس قرابت کی طرف متوجہ کیا ہے جو بنی ہاشم و بنی تمیم میں پائی جاتی ہے. اور وہ یہ ہے کہ بنی ہاشم و بنی تمیم سلسلہ نسب میں الیاس ابن مضر پر ایک ہو جاتے ہیں. کیونکہ مدرکہ ابن الیاس کی اولاد سے ہاشم ہیں اور طانجہ ابن الیا س کی اولاد سے تمیم تھا .

مکتوب نمبر 14:معاویہ کے خط کے جواب میں !
معاویہ کے خط کے جواب میں !
 تمہارا یہ مطالبہ کہ میں شام کا علاقہ تمہارے حوالے کردوں, تو میں آج وہ چیز تمہیں دینے سے رہا کہ جس سے کل انکار کر چکا ہوں اور تمہار ا یہ کہنا کہ جنگ نے عرب کو کھا ڈالا ہے اور آخر ی سانسوں کے علاو ہ اس میں کچھ نہیں رہا, تو تمہیں معلوم ہونا چاہیے جیسے حق نے کھایا ہے وہ جنت کو سدھارا ہے اور جسے باطل نے لقمہ بنایا ہے وہ دوزخ میں جا پڑا ہے رہا یہ دعویٰ کے ہم فن جنگ اور کثرت تعداد میں برابر سر ابر کے ہیں تو یاد رکھو  تم شک میں اتنے سرگرم عمل نہیں ہو سکتے جتنا میں یقین پر قائم رہ سکتا ہوں اور اہل شام دنیا پر اتنے مرمٹے ہوئے نہیں جتنا اہل عراق آخر ت پر جان دینے والے ہیں تمہارا یہ کہنا کہ ہم عبد مناف کی اولاد ہیں تو ہم بھی ایسے ہی ہیں. مگر امیہ ہاشم کے حرب عبدالمطلب کے اور ابو سفیان ابو طالب کے برابر نہیں ہیں. (فتح مکہ کے بعد ) چھوڑ دیا جانے والا مہاجر کا ہم مرتبہ نہیں. اور الگ سے نتھی کیا ہوا روشن و پاکیزہ نسبت والے کی مانند نہیں اور غلط کار حق کے پرستار کا ہم پلہ نہیں . اور منافق مومن کا ہم درجہ نہیں ہے. کتنی بری نسل وہ نسل ہے جو جہنم میں گر جانے والے اسلاف کی ہی پیروی کر رہی ہے .
 پھر اس کے بعد ہمیں نبوت کا بھی شرف حاصل ہے کہ جس کے ذریعے ہم نے طاقتور کو کمزور, اور پست کو بلند و بالا کر دیا اور جب اللہ نے عرب کو اپنے دین میں جوق در جوق داخل کیا اور امت اپنی خوشی سے یا ناخوشی سے اسلام لے آئی تو تم وہ لوگ تھے کہ جو لالچ اور ڈر سے اسلام لائے اس وقت کہ جب سبقت کرنے والے سبقت حاصل کر چکے تھے اور مہاجرین اوّلین فضل وشرف کو لے جاچکے تھے.
 (سنو) شیطان کا اپنے میں ساجھا نہ رکھو اور نہ اسے اپنے اوپر چھاجانے دو .

مکتوب نمبر 13:فوج کے دو سرداروں کے نام!
 فوج کے دو سرداروں کے نام:
 میں نے مالک ابن حارث اشتر کو تم پر اور تمہارے ماتحت لشکر پر امیر مقرر کیا ہے .لہٰذا ان کے فرمان کی پیرو ی کرو, اور انہیں اپنے لیے زرہ اور ڈھال سمجھو. کیونکہ وہ ان لوگوں میں سے ہیں جن سے کمزوری و لغزش کا اور جہاں جلدی کرنا تقاضائے ہوشمندی ہو وہاں سستی کا, اور جہاں ڈھیل کرنا مناسب ہو وہاں جلد بازی کا اندیشہ نہیں ہے.
 جب حضرت نے زیاد ابن نضر اور شریح ابن ہانی کے ماتحت بارہ ہر اول دستہ شام کی جانب روانہ کیا تو راستہ میں سو رالروم کے نزدیک ابو الاعور سلمیٰ سے مڈ بھیڑ ہوئی جو شامیوں کے دستہ کے ساتھ وہاں پڑاؤ ڈالے ہوئے تھا اور ان دونوں نے حارث ابن جمہان کے ہاتھ ایک خط بھیج کر حضرت کو اس کی اطلاع دی جس پر آپ نے ہراول دستے پر مالک ابن حارث اشتر کو سپہ سالار بنا کر روانہ کیا اور ان دونوں کو اطلاع دینے کے لیے یہ خط تحریر فرمایا. اس میں جن مختصر اور جامع الفاظ میں مالک اشتر کی توصیف فرمائی ہے. اس سے مالک اشتر کی عقل و فراست, ہمت و جرات اور فنون حرب میں تجربہ و مہارت اور ان کی شخصی عظمت و اہمیت کا اندازہ ہو سکتا ہے.

مکتوب نمبر 12 :جب معقل ابن قیس ریاحی کو تین ہزار کے ہرا دل دستہ کے ساتھ شام روانہ کیا.
 جب معقل ابن قیس ریاحی کو تین ہزار کے ہرا دل دستہ کے ساتھ شام روانہ کیا. تو یہ ہدایت فرمائی .
 اس اللہ سے ڈرتے رہنا جس کے روبرو پیش ہونا لازمی ہے اور جس کے علاوہ تمہارے لیے کوئی اور آخر ی منزل نہیں جو تم سے جنگ کرے اس کے سوا  کسی سے جنگ نہ کرنا اور صبح و شام کے ٹھنڈے وقت سفر کرنا اور دوپہر کے وقت لوگوں کو سستانے اور آرام کر نے کا موقع دینا, آہستہ چلنا اور شرو ع رات میں سفر نہ کرنا کیونکہ اللہ نے را ت سکون کے لیے بنائی ہے اور اسے قیام کرنے کے لیے رکھا ہے. نہ سفر و راہ پیمائی کے لیے. اس میں اپنے بدن اور اپنی سواری کو آرام پہنچاؤ, اور جب جان لو کہ سپیدہ سحر پھیلنے اور پوپھوٹنے لگی ہے تو اللہ کی برکت پر چل کھڑے ہونا جب دشمن کا سامنا ہو تو اپنے ساتھیوں کے درمیان ٹھہرو, اور دیکھو! دشمن کے اتنے قریب نہ پہنچ جاؤ کہ جیسے کوئی جنگ چھیڑ نا ہی چاہتا ہے اور نہ اتنے دور ہٹ کر رہو جیسے کوئی لڑائی سے خوفزدہ ہو اس وقت تک کہ جب تک میرا حکم تم تک پہنچے اور دیکھو ایسا نہ ہو کہ ان کی عداو ت تمہیں اس پر آمادہ کر دے کہ تم حق کی دعوت دینے اور ان پر حجت تمام کرنے سے پہلے ان سے جنگ کرنے لگو.

Add comment


Security code
Refresh