www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

ایك اعتراض
دنیا كے بارے میں ھماری معلومات محدود ھیں، اور نہ ھمیں موجودہ حكم فرما نظام كی حقیقت معلوم ھے اور نہ ھم اس كے نتائج سے باخبر ھیں، اس بناء پر ھم خیال كرتے ھیں كہ ظلم و فساد میں ابھی كچھ كمی ھے۔ اگر صحیح طور سے دیكھا جائے تو آج بھی دنیا فساد سے بھری ھوئی ھے آج بھی دنیا ظلم و ستم كی آما جگاہ بنی ھوئی ھے"۔
دنیا میں كچھ ایسے بھی موجودہ ھیں جو ھمیشہ اس فكر میں رھتے ھیں كہ كس طرح ایك اصلاحی بات سے بھی فساد كا پہلو نكالا جائے۔ ان كی كوشش یہ ھوتی ھے كہ ھر چیز میں اس كا منفی پہلو اُبھارا جائے، اصلاح كو بھی فساد كا جامہ پہنا دیا جائے، تاكہ ان كی دُكان ٹھپ نہ ھونے پائے۔ زیر بحث مسئلہ بھی ان لوگوں كی سازش سے محفوظ نہ رہ سكا۔
ان لوگوں كا كہنا ھے كہ حضرت مھدی علیہ السلام كے ظھور میں شرط یہ ھے كہ آپ اس وقت ظھور فرمائیں گے جب دنیا ظلم و جور سے بھر چكی ھوگی، دور دور تك كہیں اچّھائیوں كا نام تك نہ ھوگا، نیكی كی شمع كوسوں دور بھی نظر نہ آتی ھوگی۔
اگر ھم لوگ اصلاح كے راستے پر قدم بڑھائیں گے، ظلم و جور كو مٹانے كی كوشش میں لگے رھیں گے تو حضرت كے ظھور میں خواہ مخواہ تاخیر ھوگی، لھذا كیوں نہ ھم لوگ مل كر فساد كی آگ كو اور بھڑكادیں، ظلم و ستم كے شعلوں كی لپك كو اور تیز كردیں، استبداد كی بھٹی كو كیوں نہ اور گرم كردیں، جو كچھ تھوڑی بہت كسر رہ گئی ھے، اسے جلد از جلد پورا كریں تاكہ حضرت كا ظھور جلد ھوسكے۔
اسی اعتراض كو ان الفاظ میں بیان كیا جاسكتا ھے:
وہ حضرات جو ظھور حضرت مھدی علیہ السلام كے انتظار میں زندگی بسر كر رھے ھیں، انھیں یہ انتظار كوئی تقویت نہیں پہونچاتا بلكہ رھی سہی قوت ارادی كو بھی چھین لیتا ھے گنے چُنے جو نیك لوگ ھیں انھیں بھی یہ انتظار نیك باقی نہیں رھنے دیتا۔ فقر و فاقہ كی زندگی میں روز بہ روز اضافہ ھی ھوتا چلا جاتا ھے، كیونكہ جو لوگ كم مایہ اور فقیر ھیں وہ اس امید میں ھاتھ پر ھاتھ دھرے بیٹھے ھیں كہ جب حضرت كا ظہور ھوگا، اس وقت ھماری حالت "خود بخود" بدل جائے گی، فقر و فاقہ دور ھوجائے گا، زندگی كا ایك حصہ تو گذر چكا ھے بقیہ بھی اسی امید میں گذر جائے گا۔ سرمایہ داروں كو تو چاندی ھوجائے گی۔ وہ اسی بہانے اپنی تجوریاں بھرتے چلے جائیں گے، لوگوں كو اپنا دست نگر بنانے میں كامیاب ھوتے رھیں گے۔ یہ عقیدہ انسانی زندگی كے لئے آبِ حیات ھے یا صحیح معنوں میں زھر ھلاھل۔؟
یہ ھے وہ اعتراض جسے مخالفین كافی آب و تاب سے بیان كرتے ھیں۔ ھوسكتا ھے
خود دل سے اس اعتراض كو قبول نہ كرتے ھوں، مگر اپنے ناپاك مقاصد كے لئے، اپنی شخصیت كو چھپانے كے لئے اس اعتراض كو "بطور نقاب" استعمال كرتے ھوں۔
جو بھی صورت حال ھو، اس اعتراض كے جواب كے لئے ان باتوں كی طرف توجہ فرمایئے:
۱۔صف بندی اور تشخیص
اس عالمی انقلاب میں یا تو لوگ موافقین كی فہرست میں ملیں گے یا پھر مخالفین كی فہرست میں، تماشائی كی حیثیت كوئی معنی نہیں ركھتی ھے۔ دنیا میں جتنے بھی انقلاب آتے ھیں سب كی صورت حال یہی ھے۔ كیونكہ دنیا میں جتنے بھی انقلاب آئے ھیں وہ دو صورتوں سے خالی نہیں ھیں۔ انقلاب سماج كے لئے فائدہ مند ھوگا یا فائدہ مند نہیں ھوگا اگر انقلاب سماج كے لئے فائدہ مند ھے تو ھر آدمی كا فریضہ ھے كہ اس میں شركت كرے، اگر یہ انقلاب سماج كے لئے نقصان كا باعث ھے تو سب كا فریضہ ھے كہ مل كر اس كی مخالفت كریں اور اس كو كامیاب نہ ھونے دیں۔ یہ بات دور از عقل ھے كہ انقلاب تو آئے لیكن سماج كے لئے نہ فائدہ مند ھو نہ باعثِ نقصان۔
جب یہ بات تو ھمیں چاھیئے كہ ھم ابھی سے یہ طے كرلیں كہ ھمیں كس صف میں رھنا ھے ھم اپنے كو خود آزمالیں كہ ھمیں كس كا ساتھ دینا ھے۔
اگر آج ھم فساد كی آگ كو ھوا دے رھے ھیں تو كل كیونكر اصلاح كرنے والوں كی صف میں آجائیں گے اور فساد كو آگ بجھا رھے ھوں۔؟ اگر آج ھمارا دامن ظلم و جور سے آلودہ ھوگا تو كل یقیناً ھمارا شمار مخالفین كی فہرست میں ھوگا۔ كیونكہ یہ بات تو سبھی تسلیم كرتے ھیں كہ حضرت مھدی علیہ السلام كے ظھور كے بعد جو انقلاب آئے گا اس میں ظلم و جور كا نشان تك باقی نہ رھے گا۔ ھم كو ان ظالموں كی صف میں اپنے كو شمار كرنا چاھئے جن كی گردنوں كا بوسہ عدل و انصاف كی شمشیر لے گی۔ فساد پھیلانا تو بالكل ایسا ھی ھے كہ ھم ایك ایسی آگ بھڑكائیں جس كا پہلا شعلہ ھمیں ھی خاكستر كردے۔
اگر اس اعتراض كو قبول بھی كرلیا جائے تو اس كا مطلب یہ ھوگا كہ ھم جس قدر اپنے اعمال بد كے ذریعہ حضرت مھدی علیہ السلام كے ظھور كو نزدیك كریں گے اتنا ھی ھم اپنی نابودی اور فنا سے بھی قریب تر ھوجائیں گے، اپنے ھی ھاتھوں اپنے پیروں پر كلہاڑی مار لیں گے۔
اگر ھم باقی رھنا چاھتے ھیں اور اس عالمی انقلاب كے نتائج سے لطف اندوز اور بہرہ مند ھونا چاھتے ھیں تو اپنے دامن كو آلودگیوں سے دور ركھیں، ظلم و جور سے تمام رشتوں كو توڑدیں، ضلالت و گمراھی كے سمندر سے نكل كر ھدایت كے ساحل پر آجائیں۔
۲۔ مقصد آمادگی ھے، فساد نہیں
جو چیز حضرت مھدی علیہ السلام كے ظھور كو كسی حد تك نزدیك كرسكتی ھے وہ ھے وہ ظلم وجور و فساد نہیں ھے بلكہ ھماری آمادگی ھے، ھمارا اشتیاق ھے۔ كیا ھمیں حضرت كا اسی طرح انتظار ھے جس طرح سے ایك پیاسے كو پانی كا۔
ھاں یہ اور بات ھے، جس قدر ظلم و جور، فساد اور بربادی میں اضافہ ھوتا جائے گا اتنا ھی لوگ موجودہ نظام اور ضابطۂ حیات سے عاجز ھوتے جائیں گے۔ رفتہ رفتہ لوگوں كو اس بات كا یقین ھوتا جائے گا كہ موجودہ ضابطۂ حیات میں سے كوئی ایك بھی ھماری مشكلات كا حل پیش نہیں كرسكتا بلكہ جتنے بھی نظام رائج ھیں وہ سب كے سب ھماری مشكلات میں اضافہ تو كرسكتے ھیں مگر كمی نہیں كرسكتے۔ یہی یقین اس بات كا سبب ھوگا كہ لوگ ایك ایسے نظام كے منتظر ھوں گے جو واقعاً ان كی مشكلات كا حل پیش كرسكتا ھے جس قدر یہ یقین مستحكم ھوتا جائے گا، اتنا ھی انسان كا اشتیاق بڑھتا جائے گا۔
دھیرے دھیرے یہ بات بھی روشن ھوتی جائے گی اور لوگوں كو یقین ھوتا جائے گا كہ دنیا كی جغرافیائی تقسیم مشكلات كا سر چشمہ ھے۔ یہی جغرافیائی تقسیم ھے جس كی بنا پر بے پناہ سرمایہ اسلحہ سازی میں خرچ ھورھا ھے، انسان كی گاڑھی كمائی كے پیسے سے خود اس كی تباھی كے اسباب فراھم كئے جارھے ھیں۔ جغرافیائی تقسیم اور حد بندی كا نتیجہ ھے جس كی بنا پر ھر قوی اور طاقت ور ملك ضعیف اور فقیر ملك كو اپنے قبضہ میں كرلیتا ھے۔ ان كے پاس جو خدا داد نعمتیں ھیں ان كو ہتھیانے كی فكر میں لگا رھتا ھے۔ یہ جغرافیائی تقسیم اور حد بندی كا نتیجہ ھے جس كی بنا پر ملكوں میں آپس میں ایك حسد اور تعصب پایا جاتا ھے۔ یہی وہ باتیں ھیں جو انسانی مشكلات كا سرچشمہ ھیں، جس قدر یہ حققیت انسانی ذھن میں اترتی جائے گی اتنا ھی انسان ایك ایسی حكومت كی فكر میں ھوگا، جس میں یہ قصّہ ھی نہ ھو، جہاں پر كوئی حد بندی نہ ھو۔ اگر حد بندی ھو تو صرف انسانیت اور آدمیت كی۔ جب ایك عالمی حكومت كا قیام ھوگا تو وہ بے پناہ سرمایہ جو اسلحہ كے اوپر خرچ ھورھا ھے، وہ انسان كی فلاح و بہبود كے لئے خرچ ھوگا، اب نہ حسد كا سوال ھوگا اور نہ رقابت كا، بلكہ سب مل كر شانے سے شانہ ملاكر ھاتھ میں ھاتھ دے كر، عدل و انصاف، صدق و صفا، برادری، اخلاص و ایثار، اخلاق و كردار، مروت و شرافت كی بنیاد پر قصر آدمیت و انسانیت كو تعمیر كریں گے۔
۳۔تاریكی كا عُروج ؟
دنیا تو مدت ھوئی ظلم و جور سے بھر چكی ھے۔ یہ جنگیں یہ قتل و غارت، لوٹ مار خوں ریزیاں اس بات كی نشانی نہیں ھیں كہ دنیا ظلم و جور سے بھری ھوئی ھے۔ یہ كینہ و حسد ایك دوسرے كو تباہ و برباد كرنے كے لئے ایك سے ایك اسلحہ بنانا، طاقت كے گھمنڈ میں غریبوں اور كمزوروں كو كچل كے ركھ دینا، دنیا سے اخلاقی قدروں كو مٹ جانا جہاں كردار كی بھیك مانگے سے نہ ملتی ھو، جہاں شرم و حیا نام كی كوئی چیز نہ ھو تو اب بھی ظلم و جور میں كوئی كمی باقی رہ جاتی ھے۔؟
ھاں جس چیز كی كمی ھے وہ یہ ھے كہ ھم ابھی تك موجودہ نظام ھائے حكومت كی حقیقتوں سے واقف نہیں ھوئے ھیں، ابھی ھم ان ضابطۂ حیات كے نتائج سے باقاعدہ آگاہ نہیں ھوئے۔ ابھی تك یہ بات بالكل روشن نہیں ھوئی ھے كہ واقعاً ھماری مشكلات كا سرچشمہ كیا ھے، جس كی بناء پر ھم اپنے وجود میں اس جذبے كا احساس نہیں كرتے جو ایك پیاسے كو پانی كا ھوتا ھے، ایك مریض كو شفا كی آرزو۔
جس قدر ھمارے جذبات میں اضافہ ھوتا جائے گا، جتنا ھم میں آمادگی پیدا ھوتی جائے گی، جس قدر حضرت (ع) كے ظھور كی ضرورت اور عالمی انقلاب كا احساس ھوتا جائے گا، اتنا ھی حضرت كا ظھور نزدیك ھوتا جائے گا۔
۴۔سچّا منتظر كون۔؟
انتظار كے اثرات و فوائد میں سے دو كا ذكر كیا جاچكا ھے۔ ۱۔انفرادی اصلاح یا اصلاح نفس ۲۔ سماج كی اصلاح۔
انتظار كے اثرات صرف انھیں دو میں منحصر ھیں بلكہ اور بھی ھیں، ان میں سے ایك اور قارئین كی خدمت میں پیش كیا جاتا ھے۔
جس وقت فساد وباكی طرح عام ھوجائے گا، ھر طرف فساد ھی فساد نظر آئے، اكثریت كا دامن فساد سے آلودہ ھو، ایسے ماحول میں اپنے دامن كو فساد سے محفوظ ركھا ایك سچّے اور حقیقی منتظر كا كام ھے۔ یہ وہ موقع ھوتا ھے جس وقت نیك اور پاك سیرت افراد روحی كش مكش میں مبتلا ھوجاتے ھیں۔ كبھی بھی یہ خیال ذھنوں میں كروٹیں لینے لگتا ھے كہ اب اصلاح كی كوئی امید نہیں ھے۔ یہ مایوسی كردار كے لئے ایك مہلك زھر ثابت ھوسكتی ھے۔ انسان یہ خیال كرنے لگتا ھے كہ اب اصلاح كی كوئی امید نہیں ھے، اب حالات سدھرنے والے نہیں ھیں، اب كوئی تبدیلی واقع نہیں ھوئی، بلكہ حالات بد سے بدتر ھوجائیں گے، ایسی صورت میں اگر ھم اپنے دامن كردار كو بچائے بھی ركھیں تو اس كا كیا فائدہ جب كہ اكثریت كا دامن كردار گناھوں سے آلودہ ھے۔ اب تو زمانہ ایسا آگیا كہ بس "خواھی نشوید رسوا ھم رنگ جماعت باش"۔۔ اگر رسوائی اور بدنامی سے بچنا چاھتے ھو تو جماعت كے ھم رنگ ھوجاؤ۔
ھاں! اگر كوئی چیز ان لوگوں كو آلودہ ھونے سے محفوظ ركھ سكتی ھے اور ان كے دامن كردار كی حفاظت كرسكتی ھے تو وہ صرف یہی عقیدہ كہ ایك دن آئے گا جب حضرت مھدی سلام اللہ علیہ كا ظھور ھوگا اور دنیا كی اصلاح ھوگی جیسا كہ رسول گرامی (ص) كا ارشاد ھے: "اگر آنے میں صرف ایك ھی دن باقی رہ جائے گا تو خداوند عالم اس دن كو اس قدر طولانی كردے گا كہ حضرت مھدی سلام اللہ علیہ كا ظھور ھوجائے"۔ 10 جب ایك دن اصلاح ھوگی اور ضرور ھوگی تو كیوں نہ ھم اپنے دامن كردار كو محفوظ ركھیں، دوسروں كی اصلاح كی فكر كیوں نہ كریں۔ اس سعی و كوشش كی بنا پر ھم اس لائق ھوسكیں گے كہ وقت انقلاب موافقین كی صف میں ھوں اور ھمارا بھی شمار حضرت كے اعوان و انصار میں ھو۔
تعلیماتِ اسلامی میں یہ بات بھی ملتی ھے كہ سب سے عظیم گناہ اگر كوئی چیز ھے تو وہ "رحمت الٰہی سے مایوسی ھے"۔ اس كی وجہ بھی صاف واضح ھے۔ جب انسان رحمتِ الٰہی سے مایوسی ھوجائے گا تو كبھی بھی اصلاح كی فكر نہیں كرے گا۔ وہ یہی خیال كرے گا كہ جب كافی عمر گناہ كرتے گزری تو اب چند دنوں كے لئے گناہ سے كنارہ كشی اختیار كرنے سے كیا فائدہ۔ جب ھم گناھوں كے بوجھ سے دبے ھوئے ھیں تو كیا ایك اور كیا دس۔ اب تو پانی سر سے اونچا ھوچكا ھے، ساری دنیا میں بدنامی ھوچكی، اب كاھے كی پرواہ، اپنے اعمال كے ذریعہ دوزخ خرید چكا ھوں۔ جب آتش جہنم میں جلنا ھے تو باقاعدہ جلیں گے اب ڈر كس بات كا۔
اگر انسان كی ساری عمر گناہ كرتے گزری ھو، اور اسے اس بات كا یقین ھو كہ میرے گناہ یقیناً بہت زیادہ ھیں، لیكن رحمتِ الٰہی اس سے بھی زیادہ وسیع ھے۔ میرے لاكھ گناہ سھی مگر اس كی رحمت كے مقابلے میں كچھ بھی نہیں، اس كی ذات سے ھر وقت امید ھے، اگر میں سدھر جاؤں تو وہ آج بھی مجھے بخش سكتا ھے۔ اگر میں اپنے كئے پر نادم ھوجاؤں تو اس كی رحمت شامل حال ھوسكتی ھے۔ یہی وہ تصور اور عقیدہ ھے جو انسان كی زندگی میں ایك نمایاں فرق پیدا كرسكتا ھے، ایك گناھگار كو پاك و پاكیزہ بنا سكتا ھے۔
اسی لئے تو كہا جاتا ھے كہ امید انسانی زندگی كے لئے بہت ضروری چیز ھے۔ امید كردار سازی میں ایك مخصوص درجہ ركھتی ھے۔ اصلاح كی امید فساد كے سمندر میں غرق ھونے سے بچا لیتی ھے، اصلاح كی امید انسانی كردار كے لئے ایك مستحكم سپر ھے۔
جس قدر دنیا فاسد ھوتی جائے گی اسی اعتبار سے حضرت كے ظھور كی امید میں اضافہ ھوتا جائے گا، جس قدر یہ امید بڑھتی جائے گی اسی اعتبار سے انفرادی اور اجتماعی اصلاح ھوتی جائے گی۔ ایك صالح اور با كردار اقلیت كبھی بھی فسادی اكثریت كے سمندر میں غرق نہیں ھوگی۔
یہ ھے انتظار كا وہ فائدہ جو كردار كو فاسد ھونے سے محفوظ ركھتا ھے، ایك سچّے اور با كردار منتظر كا دامنِ عفت گناھوں سے آلودہ نہیں ھوگا۔
مختصر یہ كہ اگر انتظار كو صحیح معنوں میں پیش كیا جائے تو انتظار انسان كی زندگی كے لیے بہت ضروری ھے۔ اخلاقی قدروں كو اجاگر ركھنے كا ایك بہترین ذریعہ ھے۔ انتظار بے حس انسان كو ذمہ دار بنا دیتا ھے۔ بے ارادہ انسانوں كو پہاڑوں جیسا عزم و استقلال عطا كرتا ھے۔
ھاں اگر انتظار كے مفھوم كو بدل دیا جائے، اس كی غلط تفسیر كی جائے تو اس صورت میں انتظار ضرور ایك بے فائدہ چیز ھوگی۔
انتظار كبھی بھی انسان كو بے عمل نہیں بناتا۔ اور نہ بد اعمالی كی دعوت دیتا ھے، اس بات كی زندہ دلیل وہ روایت ھے جو اس آیتہ كریمہ كے ذیل میں وارد ھوئی ھے: وَعدَ اللہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡكُمۡ وَ عَمِلُوۡا الصّٰلِحٰتِ لِیَسۡتَخۡلِفَنَّھُمۡ فی الارض "وہ لوگ جو ایمان لائے ھیں اور عمل صالح بجالاتے ھیں ان سے خدا كا یہ وعدہ ھے كہ خدا ان كو روئے زمین پر حكومت عطا كرے گا۔" امام علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: اس آیت سے مراد القائم واصحابہ (۱۱) اس سے مراد حضرت مھدی (ع) اور ان كے اصحاب ھیں۔
ایك دوسری روایت میں ھے نزلت فی المھدی (۱۲) یہ آیتہ كریمہ حضرت مھدی كی شان میں نازل ھوئی ھے۔
غور طلب بات یہ ھے كہ اس آیتہ كریمہ میں جو حضرت كے اصحاب كی صفت بیان كی گئی ھے ان میں ایك ایمان ھے اور دوسرا عمل صالح یقیناً اس عالمی انقلاب كے لئے ایسے افراد كی ضرورت ھے جن كے ایمان پختہ ھوں، عقائد مستحكم ھوں، عقیدے كی ھر منزل كامل ھو، عمل كے میدان میں مرد میداں ھوں۔ جو لوگ ابھی انتظار كی گھڑیاں گذار رھے ھیں، ان میں گزشتہ باتوں كا پایا جانا ضروری ھے اور جن میں یہ صفات موجود ھوں گے وھی سچّے منتظر ھوں گے۔
وہ لوگ جن كے ایمان كامل نہیں ھیں یا عمل صالح میں كورے ھیں تو وہ ظھور سے پہلے اپنی اصلاح كرلیں ورنہ بغیر اصلاح كئے ھوئے اگر كسی چیز كا انتظار كر رھے ھیں تو وہ بس اپنی ھی فنا اور نابودی ھے۔
انتظار كا حق اسے ھے جس كا دل ایمان سے لبریز ھو، جو عزم و استقلال كا مالك ھو۔ وہ كیا انتظار كرے گا جو ھمیشہ اونگھا كرتا ھے۔
سچا منتظر وہ ھے جو ھمیشہ اپنی اصلاح میں لگا رھتا ھے اور اسی كے ساتھ سماجی اصلاح كی فكر میں غرق رھتا ھے اجتماع كی فلاح و بہبود میں ھمیشہ كوشاں رھتا ھے۔
ھاں یہ ھے سچا منتظر اور یہ ھیں انتظار كے حقیقی معنی۔
منبع: فلسفۂ انتظار/ آیۃ اللہ ناصر مكارم شیرازی - مترجم: سید احمد علی عابدی

Add comment


Security code
Refresh