www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

عالمی مصلح اور اسلامی روایات
ایك ایسی عالمی حكومت كا انتظار جو ساری دنیا میں امن و امان برقرار كرے، انسان كو عدل و انصاف كا دلدادہ بنائے، یہ كسی شكست خوردہ ذھنیت كی ایجاد نہیں ھے، بلكہ انسان فطری طور پر ایسی عالمی حكومت كا احساس كرتا ھے۔ یہ انتظار ضمیر انسانی كی آواز ھے ایك پاكیزہ فطرت كی آرزو ھے۔
بعض لوگوں كا نظریہ ھے كہ یہ عقیدہ ایك خالص اسلامی عقیدہ نہیں ھے بلكہ دوسرے مذاھب سے اس كو اخذ كیا گیا ھے، یا یوں كہا جائے كہ دوسروں نے اس عقیدے كو اسلامی عقائد میں شامل كردیا ھے۔ ان لوگوں كا قول ھے كہ اس عقیدے كی كوئی اصل و اساس نہیں ھے۔ دیكھنا یہ ھے كہ یہ فكر واقعاً ایك غیر اسلامی فكر ھے جو رفتہ رفتہ اسلامی فكر بن گئی ھے؟ یا در اصل یہ ایك خالص اسلامی فكر ھے۔
اس سوال كا جواب كس سے طلب كیا جائے۔ آیا ان مستشرقین سے اس كا جواب طلب كیا جائے جن كی معلومات اسلامیات كے بارے میں نہایت مختصر اور محدود ھیں۔ یہیں سے مصیبت كا آغاز ھوتا ھے كہ ھم دوسروں سے اسلام كے بارے میں معلومات حاصل كریں۔ یہ بالكل ایسا ھی ھے جیسے كوئی شخص اس آدمی سے پانی طلب نہ كرے جو دریا كے كنارے ھے بلكہ ایك ایسے شخص سے پانی طلب كرے جو دریا سے كوسوں دُور ھے۔
یہ بات بھی درست نہیں ھے كہ مستشرقین كی باتوں كو بالكل كفر و الحاد تصور كیا جائے اور ان كی كوئی بات مانی ھی نہ جائے، بلكہ مقصد صرف یہ ھے كہ "اسلام شناسی" كے بارے میں ان كے افكار كو معیار اور حرفِ آخر تصور نہ كیا جائے۔ اگر ھم تكنیكی مسائل میں علمائے غرب كا سہارا لیتے ھیں تو اس كا مطلب یہ تو نہیں كہ ھم اسلامی مسائل كے بارے میں بھی ان كے سامنے دستِ سوال دراز كریں۔
ھم علمائے غرب كے افكار كو اسلامیات كے بارے میں معیار اس لیے قرار نہیں دے سكتے كہ ایك تو ان كی معلومات اسلامی مسائل كے بارے میں نہایت مختصر اور محدود ھے، جس كی بنا پر ایك صحیح نظریہ قائم كرنے سے قاصر ھیں۔ دوسری وجہ یہ ھے كہ یہ لوگ تمام اسلامی اصول كو مادی اصولوں كی بنیاد پر پركھنا چاھتے ھیں، ھر چیز میں مادی فائدہ تلاش كرتے ھیں۔ بدیہی بات ھے كہ اگر تمام اسلامی مسائل كو مادیت كی عینك لگا كر دیكھا جائے تو ایسی صورت میں اسلامی مسائل كی حقیقت كیا سمجھ میں آئے گی۔
اسلامی روایات كا مطالعہ كرنے كے بعد یہ بات واضح ھوجاتی ھے كہ "انتظار" كا شمار ان مسائل میں ھے جن كی تعلیم خود پیغمبر اسلام (ص) نے فرمائی ھے۔
حضرت امام مہدی علیہ السلام كی انقلابی مہم كے سلسلے میں روایات اتنی كثرت سے وارد ھوئی ھیں كہ كوئی بھی انصاف پسند صاحبِ تحقیق ان كے "تواتر" سے انكار نہیں كرسكتا ھے۔ شیعہ اور سُنّی دونوں فرقوں كے علماء نے اس سلسلے میں متعدد كتابیں لكھی ھیں اور سب ھی نے ان روایات كے "متواتر" ھونے كا اقرار كیا ھے۔ ھاں صرف "ابن خلدون" اور "احمد امین مصری" نے ان روایات كے سلسلے میں شك و شبہ كا اظھار كیا ھے۔ ان كی تشویش كا سبب روایات نہیں ھیں بلكہ ان كا خیال ھے كہ یہ ایسا مسئلہ ھے جسے اتنی آسانی سے قبول نہیں كیا جاسكتا ھے۔
اس سلسلہ میں اس سوال و جواب كا ذكر مناسب ھوگا جو آج سے چند سال قبل ایك افریقی مسلمان نے مكہ معظمہ میں جو عالمی ادارہ ھے، اس سے كیا تھا۔ یہ بات یاد رھے كہ یہ ارادہ وھابیوں كا ھے اور انھیں كے افكار و نظریات كی ترجمانی كرتا ھے۔ سب كو یہ بات معلوم ھے كہ وھابی اسلام كے بارے میں كس قدر سخت ھیں، اگر یہ لوگ كسی بات كو تسلیم كرلیں تو اس سے اندازہ ھوگا كہ یہ مسئلہ كس قدر اھمیت كا حامل ھے اس میں شبہ كی كوئی گنجائش نہیں ھے۔ اس جواب سے یہ بات بالكل واضح ھوجاتی ھے كہ حضرت امام مہدی (ع) كا انتظار ایك ایسا مسئلہ ھے جس پر دنیا كے تمام لوگ متفق ھیں، اور كسی كو بھی اس سے انكار نہیں ھے۔ وھابیوں كا اس مسئلہ كو قبول كرلینا اس بات كی زندہ دلیل ھے كہ اس سلسلہ میں جو روایات وارد ھوئی ھیں ان میں كسی قسم كے شك و شبہ كی گنجائش نہیں ھے۔ ذیل میں سوال اور جواب پیش كیا جاتا ھے۔
حضرت امام مہدی (عج) كے ظھور پر زندہ دلیلیں
چند سال قبل كینیا (افریقہ) كے ایك باشندے بنام "ابو محمد" نے "ادارہ رابطہ عالم اسلامی" سے حضرت مہدی (ع) كے ظھور كے بارے میں سوال كیا تھا۔
اس ادارے كے جنرل سكریٹری "جناب محمد صالح اتغزاز" نے جو جواب ارسال كیا، اس میں اس بات كی باقاعدہ تصریح كی ھے كہ وھابی فرقے كے بانی "ابن تیمیہ" نے بھی ان روایات كو قبول كیا ھے جو حضرت امام مھدی علیہ السلام كے بارے میں وارد ھوئی ھیں۔ اس جواب كے ذیل میں سكریٹری موصوف نے وہ كتابچہ بھی ارسال كیا ھے جسے پانچ جید علمائے كرام نے مل كر تحریر كیا ھے۔ اس كتابچے كے اقتباسات قارئین محترم كی خدمت میں پیش كئے جاتے ھیں: ۔۔۔۔
"عظیم مصلح كا اسم مبارك مھدی (ع) ھے۔ آپ كے والد كا نام "عبد اللہ" ھے اور آپ مكّہ سے ظھور فرمائیں گے۔ ظھور كے وقت ساری دنیا ظلم و جور و فساد سے بھری ھوگی۔ ھر طرف ضلالت و گمراھی كی آندھیاں چل رھی ھوں گی۔ حضرت مہدی (ع) كے ذریعہ خداوندعالم دنیا كو عدل و انصاف سے بھر دے گا، ظلم و جور و ستم كانشان تك بھی نہ ھوگا۔"
"رسول گرامی اسلام (ص) كے بارہ جانشینوں میں سے وہ آخری جانشین ھوں گے، اس كی خبر خود پیغمبر اسلام (ص) دے گئے ھیں، حدیث كی معتبر كتابوں میں اس قسم كی روایات كا ذكر باقاعدہ موجود ھے۔"
حضرت مہدی (ع) كے بارے میں جو روایات وارد ھوئی ھیں خود صحابۂ كرام نے ان كو نقل فرمایا ھے ان میں سے بعض كے نام یہ ھیں:۔
(۱)علی ابن ابی طالب (ع)، (۲) عثمان بن عفان، (۳) طلحہ بن عبیدہ، (۴) عبد الرحمٰن بن عوف، (۵) عبد اللہ بن عباس، (۶) عمار یاسر، (۷) عبد اللہ بن مسعود، (۸) ابوسعید خدری، (۹) ثوبان، (۱۰) قرہ ابن اساس مزنی، (۱۱) عبد اللہ ابن حارث، (۱۲) ابوھریرہ، (۱۳) حذیفہ بن یمان، (۱۴) جابر ابن عبد اللہ (۱۵) ابو امامہ، (۱۶) جابر ابن ماجد، (۱۷) عبد اللہ بن عمر (۱۸) انس بن مالك، (۱۹) عمران بن حصین، (۲۰) ام سلمہ۔
پیغمبر اسلام (ص) كی روایات كے علاوہ خود صحابہ كرام كے فرمودات میں ایسی باتیں ملتی ھیں جن میں حضرت مہدی (ع) كے ظھور كو باقاعدہ ذكر كیا گیا ھے۔ یہ ایسا مسئلہ ھے جس میں اجتہاد وغیرہ كا گذر نہیں ھے جس كی بناء پر بڑے اعتماد سے یہ بات كہی جاسكتی ھے كہ یہ تمام باتیں خود پیغمبر اسلام (ص) كی روایات سے اخذ كی گئی ھیں۔ ان تمام باتوں كو علمائے حدیث نے اپنی معتبر كتابوں میں ذكر كیا ھے جیسے:۔
سنن ابی داؤد، سنن ترمذی، ابن ماجہ، سنن ابن عمر والدانی، مسند احمد، مسند ابن یعلی، مسند بزاز، صحیح حاكم، معاجم طبرانی (كبیر و متوسط)، معجم رویانی، معجم دار قطنی، ابو نعیم كی "اخبار المھدی"۔ تاریخ بغداد، تاریخ ابن عساكر، اور دوسری معتبر كتابیں۔
علمائے اسلام نے حضرت مھدی (ع) كے موضوع پر مستقل كتابیں تحریر كی ھیں جن میں سے بعض كے نام یہ ھیں:
اخبار المھدی؛ تالیف: ابو نعیم القول المختصر فی علامات المھدی المنتظر؛ تالیف: ابن ھجر ھیثمی التوضیح فی تواتر ماجاء فی المنتظر والد جال والمسیح؛ تالیف: شوكانی المھدی؛ تالیف: ادریس عراقی مغربی الوھم المكنون فی الرد علی ابن خلدون؛ تالیف: ابو العباس بن عبد المومن المغربی مدینہ یونییورسٹی كے وائس چانسلر نے یونیورسٹی كے ماھنامہ میں اس موضوع پر تفصیل سے بحث كی ھے، ھر دور كے علماء نے اس بات كی باقاعدہ تصریح كی ھے كہ وہ حدیثیں جو حضرت مھدی (ع) كے بارے میں وارد ھوئی ھیں وہ متواتر ھیں جنھیں كسی بھی صورت سے جھٹلایا نہیں جاسكتا۔ جن علماء نے حدیثوں كے متواتر ھونے كا دعویٰ كیا ھے ان كے نام اور كتابوں كے نام حسب ذیل ھیں، جن میں تواتر كا ذكر كیا گیا ھے:۔
۱۔ السخاوی اپنی كتاب فتح المغیث میں۔
۲۔محمد بن السنادینی اپنی كتاب شرح العقیدہ میں۔
۳۔ ابو الحسن الابری اپنی كتاب مناقب الشافعی میں۔
۴۔ ابن تیمیہ اپنے فتوؤں میں۔
۵۔ سیوطی اپنی كتاب الحاوی میں۔
۶۔ ادریس عراقی مغربی اپنی كتاب المھدی میں۔
۷۔ شوكانی اپنی كتاب التوضیح فی تواتر ماجاء میں۔
۸۔ شوكانی اپنی كتاب فی المنتظر والدجال والمسیح میں۔
۹۔ محمد جعفر كنانی اپنی كتاب نظم المتناثر میں۔
۱۰۔ ابو العباس عبد المومن المغربی اپنی كتاب الوھم المكنون میں۔
ھاں ابن خلدون نے ضرور اس بات كی كوشش كی ھے كہ ان متواتر اور ناقابل انكار حدیثوں كو ایك جعلی اور بے بنیاد حدیث لا مھدی الا عیسیٰ (حضرت عیسیٰ كے علاوہ اور كوئی مھدی نہیں ھے) كے ھم پلّہ قرار دے كر ان حدیثوں سے انكار كیا جائے۔ لیكن علمائے اسلام نے اس مسئلہ میں ابن خلدون كے نظریے كی باقاعدہ تردید كی ھے خصوصاً ابن عبد المومن نے تو اس موضوع پر ایك مستقل كتاب الوھم المكنون تحریر كی ھے۔ یہ كتاب تقریباً ۳۰برس قبل مشرق اور مغرب میں شائع ھوچكی ھے۔
حافظان حدیث اور دیگر علمائے كرام نے بھی ان حدیثوں كے متواتر ھونے كی صراحت فرمائی ھے۔
ان تمام باتوں كی بنا پر ھر مسلمان پر واجب ھے كہ وہ حضرت مھدی كے ظھور پر ایمان و عقیدہ ركھے۔ اھل سنت والجماعت كا بھی یہی عقیدہ ھے اور ان كے عقائد میں سے ایك ھے۔
ھاں وہ اشخاص تو ضرور اس عقیدے سے انكار كرسكتے ھیں جو روایات سے بے خبر ھیں، یادین میں بدعت كو رواج دینا چاھتے ھیں، (ورنہ ایك ذی علم اور دیندار كبھی بھی اس عقیدے سے انكار نہیں كرسكتا۔سكریٹری انجمن فقۂ اسلامی،محمد منتصر كنانی)۔
اس جواب كی روشنی میں یہ بات كس قدر واضح ھوجاتی ھے كہ حضرت مھدی (ع) كے ظھور كا عقیدہ صرف ایك خالص اسلامی عقیدہ ھے كسی بھی دوسرے مذھب سے یہ عقیدہ اخذ نہیں كیا گیا ھے۔
ایك بات ضرور قابل ذكر ھے وہ یہ كہ اس جواب میں حضرت امام مھدی (ع) كے والد بزرگوار كا اسمِ مبارك عبد اللہ ذكر كیا گیا ھے۔ جب كہ اھل بیت علیہم السلام سے جو روایات وارد ھوئی ھیں۔ ان میں بطور یقین حضرت كے والد بزرگوار كا اسم مبارك حضرت امام حسن عسكری علیہ السلام ھے۔
اس شبہ كی وجہ وہ روایت ھے جس كے الفاظ یہ ھیں "اسم ابیہ اسم ابی" (ان كے والد كا نام میرے والد كا نام ھے) جبكہ بعض دوسری روایات میں ابی (میرے والد) كے بجائے ابنی (میرا فرزند) ھے، صرف نون كا نقطہ حذف ھوجانے یا كاتب كی غلطی سے یہ اختلاف پیدا ھوگیا ھے۔ اسی بات كو "گنجی شافعی" نے اپنی كتاب "البیان فی اخبار صاحب الزمان" میں ذكر كیا ھے، اس كے علاوہ
۱۔ یہ جملہ اھل سنت كی اكثر روایات میں موجود نہیں ھے
۲۔ ابن ابی لیلیٰ كی روایت كے الفاظ یہ ھیں: اسمہ اسمی اسم ابیہ اسم ابنی۔ (اس كا نام میرا نام ھے، اس كے والد كا نام میرے فرزند كا نام ھے) فرزند سے مراد حضرت امام حسن علیہ السلام ھیں۔
۳۔اھل سنت كی بعض روایات میں اس بات كی تصریح كی گئی ھے كہ امام زمانہ كے والد بزرگوار كا نام حسن ھے۔
۴۔ اھلبیت علیہم السلام سے جو روایات وارد ھوئی ھیں جو تواتر كی حد كو پہونچتی ھیں ان میں صراحت كے ساتھ یہ بات ذكر كی گئی ھے كہ حضرت امام مھدی علیہ السلام كے والد بزرگوار كا اسم مبارك حسن ھے۔

Add comment


Security code
Refresh