www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

حضرت فاطمہ زھرا (س) نے فرمایا: "جس وقت سورہ نور کی ۶۴ویں آیت " لاتجعلوا دعاء الرسول بینکم کدعاء بعضکم بعضاً" نازل ھوئی

ھم نے پیغمبر اکرم (ص) کو بابا کھنا چھوڑ دیا اور یا رسول اللہ کھہ کر خطاب کرنے لگے، پیغمبر اکرم (ص) نے مجھے فرمایا، بیٹی فاطمہ یہ آیت تمھارے اور تمھاری آنے والے نسلوں کے لئے نازل نھیں ھوئی ہے چونکہ تم مجھ سے ھو اور میں تم سے، بلکہ یہ آیت متکبر اور ظالم قریش کے لئے نازل ھوئی ہے۔ تم مجھے بابا کھہ کر پکارا کرو چونکہ یہ کلمہ میرے دل کو ٹھنڈک پھنچاتا ہے اور اس سے خداوند راضی ھوتا ہے.
حضرت فاطمہ زھرا (س) کی تاریخ ولادت کے سلسلہ میں علماء اسلام کے درمیان اختلاف ہے۔ لیکن اھل بیت عصمت و طھارت کی روایات کی بنیاد پر آپ نے بعثت کے پانچویں سال ۲۰ جمادی الثانی، بروز جمعہ مکہ معظمہ میں اس دنیا میں تشریف لا کر اپنے وجود مبارک سے اس دنیا کو معطر کیا، حضرت فاطمہ زھرا (س) دنیا کی وہ خاتون ہیں کہ جن کو خدا نے فرشتوں کے ذریعے سلام بھیجا اور آپ کا در وہ در ہے کہ جھاں فرشتے بھی اجازت لے کر داخل ھوتے تھے، یہ مقام جو خدا نے فاطمہ زھرا (س) کو دنیا و آخرت میں عطا کیا ہے آج تک نہ کسی کو حاصل ھوا ہے نہ ھو گا، آپ کی سیرت مسلم خواتین کے لئے مشعل راہ ہے، آج کی عورت اگر آپ کی زندگی کو اپنے لئے اسوہ بنا لے تو اسوقت خواتین جن مشکلات میں گرفتار ہیں وہ برطرف ھو جائیں گی۔
فضائل حضرت زھرا سلام اللہ علیھا
حضرت فاطمہ زھرا (س) عالم اسلام کی ایسی باعظمت خاتون ہیں جن کی فضیلت زندگی کے ھر شعبے میں آشکار ہے اور عظمتوں کے اس سمندر کی فضلیتوں کو قرآنی آیات اور معصومین (ع) کی روایات میں ذکر کیا گیا ہے۔ حضرت زھرا (س) کے فضائل کے بیان میں بھت زیادہ روایتیں وارد ھوئی ہیں، اور بعضں آیات کی شان نزول اور تفسیر سے معلوم ھوتا ہے کہ یہ حضرت زھرا (س) کی شان میں نازل ھوئی ہیں۔ تفسیر فرات کوفی میں امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ "انا انزلناہ فی لیلۃ القدر" میں "لیلۃ" سے مراد فاطمہ زھرا (س) کی ذات گرامی ہے اور "القدر" ذات خداوند متعال کی طرف اشارہ ہے۔ لھذٰا جسے بھی فاطمہ زھرا (س) کی حقیقی معرفت حاصل ھو گئی اس نے لیلۃ القدر کو درک کر لیا، آپ کو فاطمہ اسی لئے کھا جاتا ہے کہ لوگ آپ کی معرفت سے عاجز ہیں۔
علامہ مجلسی (رہ) انس بن مالک اور بریدہ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا (ص) نے سورہ نور کی ۳۷ویں آیت کی تلاوت فرمائی" فی بیوت اذن الله ان ترفع و یذکر اسمه یسبح له فیها بالغدو والاصال" تو ایک شخص کھڑا ھوا اور رسول خدا (ص) سے دریافت کیا؛ یا رسول اللہ یہ گھر کس کا ہے؟ فرمایا، انبیاء علیھم السلام کا گھر ہے، ابو بکر کھڑے ھوئے اور حضرت علی علیہ السلام کے گھر کی جانب اشارہ کر کے پوچھا، کیا یہ گھر بھی انھیں گھروں جیسا ہے؟ حضرت نے فرمایا، بیشک! بلکہ ان میں سب سے برتر ہے۔ کتاب البرھان فی تفسیر القرآن تالیف سید ھاشم بحرانی میں سورۂ بینہ کی پانچویں آیت کی تفسیر میں امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ اس آیت میں دین قیم سے مراد فاطمہ (س) ہیں۔ شریعت کے سارے اعمال بغیر محمد و آل محمد (ع) کی ولایت کے باطل و بیکار ہیں اور روایات میں اس بات کی طرف بھی اشارہ پایا جاتا ہے کہ دین کا استحکام فاطمہ(س) اور ان کی ذریت کی محبت سے ہے۔ یھی وجہ ہے کہ دین قیم کی تفسیر آپ کی ذات گرامی سے کی گئی ہے۔
تفسیر قمی میں سورۂ احزاب کی ۵۷ویں آیت کے ذیل میں وارد ھوا ہے، " ان الذین یوذون الله و رسوله لعنهم الله فی الدنیا و الاخره و أعد لهم عذاباً مهینا" یقینا جو لوگ خدا اور اس کے رسول کو ستاتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں خدا کی لعنت ہے اور خدا نے ان کے لئے رسوا کن عذاب مھیاّ کر رکھا ہے۔ "
علی بن ابراھیم قمی (رہ) فرماتے ہیں کہ کہ یہ آیت علی و فاطمہ علیھما السلام کے حق کے غاصبوں کے بارے میں نازل ھوئی ہے، نیز پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت نقل کرتے ہیں کہ فرمایا، "جو بھی ھماری زندگی میں زھرا(س) کو اذیت پھنچائے گویا میرے مرنے کے بعد بھی اس نے زھرا(س) کو اذیت دی ہے اور جو بھی میری رحلت کے بعد زھرا(س) کو اذیت دے گویا اس نے میری زندگی میں زھرا(س) کو اذیت دی، اور جو بھی فاطمہ(س) کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی ،جس نے مجھے اذیت دی اس نے خدا کو اذیت دی" اور خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے، "یقینا جو لوگ خدا اور اس کے رسول کو ستاتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں خدا کی لعنت ہے اور خدا نے ان کے لئے رسوا کن عذاب مھیاّ کر رکھا ہے۔"
امام صادق علیہ السلام اپنے اجداد سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت زھرا (س) نے فرمایا، "جس وقت سورہ نور کی ۶۴ویں آیت " لاتجعلوا دعاء الرسول بینکم کدعاء بعضکم بعضاً" جس طرح تم ایک دوسرے کو پکارتے ھو پیغمبر اکرم (ص) کو اس طرح سے مت آواز دو) نازل ہھوئی ھم نے پیغمبر اکرم (ص) کو بابا کھنا چھوڑ دیا اور یا رسول اللہ کھہ کر خطاب کرنے لگے، پیغمبر اکرم (ص) نے مجھے فرمایا، بیٹی فاطمہ یہ آیت تمھارے اور تمھاری آنے والے نسلوں کے لئے نازل نھیں ھوئی ہے چونکہ تم مجھ سے ھو اور میں تم سے، بلکہ یہ آیت متکبر اور ظالم قریش کے لئے نازل ھوئی ہے۔ تم مجھے بابا کھہ کر پکارا کرو چونکہ یہ کلمہ میرے دل کو ٹھنڈک پھنچاتا ہے اور اس سے خداوند راضی ھوتا ہے، یہ کھہ کر میرے چھرے کا بوسہ لیا۔ سورہ شوریٰ کی ۲۳ویں آیت میں خداوند متعال فرماتا ہے، "اے میرے رسول آپ امت سے کھہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کا کوئی اجر نھیں چاھتا سوائے اس کے کہ میرے اقرباء سے محبت کرو" ابن عباس سے روایت ہے کہ جس وقت یہ آیت نازل ھوئی پیغمبر(ص) سے سوال کیا گیا، جن لوگوں سے محبت و مودت کا ھمیں حکم دیا گیا ہے وہ کون لوگ ہیں؟ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا، اس سے مراد علی، فاطمہ اور ان کے دو فرزند ہیں۔
حضرت فاطمہ زھرا(س) کی سیرت کی روشنی میں کچھ باتیں مومن خواتین کی خدمت میں:
اسلام نے عورت کو بھت بلند مقام پر فائز کیا ہے، اور اس صنف نازک کے لئے کچھ قوانین وضع کئے ہیں جو اس گوھر نایاب کی حفاظت کے لئے ضروری ہیں، جب ھمارے پاس کوئی بھت قیمتی چیز ھوتی ہے تو ھماری یہ کوششں ھوتی یے کہ اس کو ایسی جگہ پر رکھا جائے کہ کوئی نہ چرا سکے لیکن افسوس صد افسوس قیمتی ترین گوھر کو دنیا کی گود میں آزادانہ ڈال دیا گیا ہے کہ جو جس طرح چاھے استفادہ کرے، ایک بھت مشھور جملہ ہے کہ "عورت ھی عورت کہ دشمن ھوتی ہے"، یہ سو فیصد درست ہے، جب عورتیں بھترین آرایش کے ساتھ معاشرے میں جلوہ گر ھوں گی تو یہ عورتیں پردے میں رھنے والی خواتین کا حق غصب کرتی ہیں، کیونکہ جب مرد بنی سنوری عورتوں کو دیکھتا یے تو نہ چاھتے ھوئے بھی اپنی بیوی سے مقایسہ کرنے لگتا ہے، اور یھی بات آھستہ آھستہ معاشرے میں فساد کا باعث بن جاتی ہے۔ اسلام نے پردے کو عورت كی زينت اور اسکے لئے واجب قرار دیا هے، اس لئے اسلام ميں هر مسلمان عورت پر نامحرم سے پرده كرنا واجب هے، لیکن پرده واجب هونے كے باوجود اکثر مسلمان خواتين بے پرده نظر آتی هیں اور افسوس اس بات کا ہے کہ آج کے جدید معاشرے کی خواتین، پردے کو ترقی اور حسن کی راہ میں روکاوٹ سمجھتی ہیں، جو عورت بےحجابی سے حسن لانا چاھتی هے وہ یہ جان لے كه "بےحجابی سے حسن پر زوال آتا هے نہ نکھار"، بےحجابی سے عورت کی زينت اور وقار ختم هو جاتا هے۔
آج کے دور میں اسلام دشمن عناصر سازش کے تحت مسلم خواتین کو آلۂ کار کے طور پر استعمال کر رھے ہیں، اور افسوس ہے کہ آج كل كی عورتيں بھی modrenism کے شوق میں ان کے ھاتھوں میں کھلونا بنی ھوئی ہیں، ایک جانب تو مغربی ممالک کی پیروی کرتی ھوئی نظر آتی ہيں اور دوسری جانب مسلمان ھونے كا ادعا بھی کرتی ہیں۔ اس بات کی بھی دعویدار ہیں کہ ھم پيرو حضرت زهرا (س) ہیں، اگر حضرت فاطمہ (س) كی پيروکار ھونے کا دعوا كرتی ہیں تو ان كي سيرت پر عمل بھی كرنا چاھیے۔ حضرت زهرا (س) نے پردے میں رہ کر تدریس بھی کی، تبلیغ بھی کی، اور اپنے حق کے لئے خلیفہ وقت کے دربار میں آواز بھی بلند کی۔ عورت کا کمال اس میں ہے کہ اسلامي قوانين كو رعايت كرتے هوئے حجاب اسلامی ميں رہ كر معاشرے میں اپنا كردار ادا كرے۔ آج کل باحجاب خواتین کی بھی مختلف کیٹیگریز ہیں، کچھ وہ کہ جو حجاب واقعی کرتی ہیں، اور ان کا یہ حجاب تمام غیر محرموں سے ہے، اور یھی حجاب اسلام کو مطلوب ہے، کچھ ایسی بھی ہیں جو صرف سر پر اسکارف لینے کو حجاب کامل سمجھ لیتی ہیں، اس کے ساتھ میک اپ بھی ہے، نامحرموں کے ساتھ گپ شپ بھی ھو رھی ہے، شاید اس فارمولے کے تحت کہ "مسلمان سب بھن بھائی ہیں،"یہ وہ جملہ ہے جو ھمارے معاشرے میں بھت سننے کو ملتا ہے،"حالانکہ مسلمان سب بھائی بھائی ہیں،" عورت کے لئے جسکو خدا نے نا محرم قرار دیا ہے وہ اسکے لئے نا محرم ہے، خدا نے عورت کو نامحرم سے بات کرنے سے منع نھیں کیا لیکن اس کی کچھ حدود و قیود مقرر کئے ہیں۔ روایت میں ملتا یے کہ "عورت کو چاھیے کہ نا محرم سے نرم و زیبا لھجے میں بات نہ کرے"
اميرالمؤمنين علی (ع) پیامبر گرامی(ص) سے نقل کرتے ہیں؛ ايك نابينا شخص نےحضرت زهرا سلام اللہ علیھا كے گھر ميں داخل هونے كے لئے اجازت چاهی تو اس وقت حضرت زهرا سلام اللہ علیھا پردے كے پيچھے چلی گئیں پھر اس کو اندر آنے كي اجازت دی، رسول خدا (ص) نے سوال كيا یا فاطمه، يه نابينا هے اس كو تو كچھ نظر نھيں آتا كيوں پرده كر رھی ہیں؟ تو اس وقت جناب فاطمہ(س) نےجواب میں فرمايا؛ بابا جان وه مجھے نھيں ديكھ سكتا ليكن ميں تو اس كو ديكھ سكتی هوں، مجھے ڈر ہے کہ وہ میری بو استشمام كر لے گا، یہ سن کر پيامبر (ص) بے اختیار شهادت ديتے هوئے فرماتے ہیں: "فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِنِّي‏" فاطمه ميرے جگر كا ٹكڑا هے۔ عورت کے لئے اسلام ميں حجاب کی بھترين نوع چادر هے، يه چادر حضرت زهرا (س) کی عصمت و عفت کی يادگار هے۔ جس کو آج کی مسلمان عورت نے ایک طرف رکھ دیا ہے، خواتین کو پردے كے بارے ميں امر كرنا مرد پر واجب هے، روایت میں ملتا ہے کہ" قیامت کے روز ھر شخص چار عورتوں کے اعمال کا ذمّہ دار ہے، اور وہ چار عورتیں اس کی بیوی، بیٹی، بھن اور ماں ہیں"۔ آج کی عورت کو بھی چاھیے کہ وہ اپنی زندگی کو فاطمی اصولوں کے تحت گزارے، اس میں ھی اس کی دنیا و آخرت کی کامیابی کا راز یے۔ 

Add comment


Security code
Refresh