www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا اور نماز کے زیر عنوان ایام فاطمیہ(س) میں کی گئی شھید امام موسی صدر کی ایک تقریر کا ترجمہ پیش خدمت ہے:

حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کے خطبہ کے سلسلے میں گفتگو کا سلسلہ جاری تھا بات اس جملے پر پھنچی جس میں حضرت زھرا (س) نے دین اسلام کا فلسفہ بیان کیا ہے اور واجبات اور دینی احکام کے دلائل کی طرف اشارہ کیا ہے۔
آپ (س) کے اس جملے کے بارے میں گفتگو جاری تھی "فَجَعَلَ اللهُ الإیمانَ تَطهیراً لَکُم مِن الشِّرکِ" ( خداوندعالم نے ایمان کو اس لیے قرار دیا تاکہ تم شرک سے پاک ھو جاو) اور کھا کہ یہ جملہ بظاھر تو بھت مختصر ہے لیکن اس میں معانی کا ایک دریا سمایا ھوا ہے۔ پچھلی تقریر میں اس بارے میں مختصر گفتگو ھوئی اور کھا گیا کہ اگر انسان اپنی زندگی میں کامیابی کی منزل تک پھنچنا چاھتا ہے تو اسے ایک سمت و سو حرکت کرنا پڑے گی یعنی انسان کا کسی عمل کو انجام دلانے والا محرک صرف ایک ھی ھونا چاھیے تب وہ کمال تک پھنچ سکتا ہے۔ اگر انسان مومن ہے تو اپنی تمام تر توانائیوں کے ذریعے اللہ کی خشنودی حاصل کرنے کی راہ میں لوگوں کی خدمت کرتا ہے۔ ایسا انسان اپنی زندگی میں بے انتھا مثبت اثرات کا حامل ھو سکتا ہے اور اس کی زندگی بابرکت ھو سکتی ہے۔ لیکن مشرک انسان چونکہ اس کے اندر محرک ایک نھیں ھوتا اس کی سمت و سو ایک نھیں ھوتی تو اس کا باطن کھوکھلا ھوتا ہے وہ اندر سے بٹا ھوا ھوتا ہے اس کی زندگی کامیاب زندگی نھیں ھوتی۔ ھم نے چند مثالوں سے یہ ثابت کیا تھا کہ انسان یا حیوان حتی ایک مرغا اگر ایک سمت و سو حرکت کرتا ہے تو کس طرح اس کے اندر حیرتک انگیز توانائیاں وجود پا جاتی ہیں۔ لھذا حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کے اس جملے کا خلاصہ یوں ھو گا کہ شرک ایک طرح کی روانی بیماری ہے کہ جس سے بدتر اور مھلک کوئی اور بیماری نھیں ہے اس لیے کہ شرک انسان کے وجود کو تقسیم کر دیتا ہے انسان کے باطن کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے اسے اندر سے کھوکھلا کر دیتا ہے۔ اور اسے کمال کی طرف بڑھنے سے روک دیتا ہے۔
بنابرایں، شرک ایک قسم کی بیماری ہے اور ایمان اس بیماری سے نجات حاصل کرنے کا ذریعہ ہے ایمان انسان کو اس بیماری سے پاک کرتا ہے اسی وجہ سے حضرت فاطمہ زھرا (س) نے ایمان کو انسان کے لیے شرک سے پاک ھونے کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ یھاں تک گزشتہ مجلس میں گفتگو ھوئی تھی۔ اس کے بعد آپ (س) عبادتوں کے فلسفے اور ان کے نتائج کے بارے میں گفتگو کا آغاز کرتی ہیں۔ نماز واجب ھوئی ہے تاکہ مومنین اپنے آپ کو اللہ کی بندگی کرنے کی مشق دیں اور خدا کی عبادت اور بندگی کو درک کریں۔ روزہ اور حج کے واجب ھونے کے بھی اپنے آثار ہیں۔ اھم نکتہ یہ ہے کہ حضرت فاطمہ زھرا(س) یہ گفتگو کھاں کر رھی ہیں؟ مسجد میں نمازیوں کے درمیان۔ آپ نمازیوں سے یہ کھنا چاھتی ہیں کہ اے مسلمانو! یہ نمازیں اور یہ عبادتیں جو تم پر واجب ھوئی ہیں اس لیے نھیں ہیں کہ تم نماز پڑھنے کو عادت بنا لو اور نماز کی ادائیگی کا حقیقی مقصد بھول جاو اور اسے صرف ایک ظاھری رسم و رواج میں تبدیل کر دو۔
خداوند عالم نے اس وجہ سے نماز کو تم پر واجب قرار دیا ہے کہ نماز تمھیں برائیوں سے روکے، برے کاموں سے باز رکھے اور یہ نص قرآن کریم ہے "إِنَّ الصَّلوۃ تَنهی عَنِ الفَحشاءِ وَ المُنکَرِ"(۱) لھذا اے مسلمانوں تمھیں کیا ھو گیا ہے کہ تم نمازیں بھی پڑھ رھے ھو اور دوسرے کے حق بھی غصب کر رھے ھو؟ نمازیں بھی پڑھ رھے ھو اور دوسروں پر ظلم بھی کر رھے ھو؟ نماز بھی پڑھ رھے ھو اور اھل حق کو اس کا حق نھیں دے رھے ھو؟
حضرت فاطمہ زھرا(س) مسجد میں بیٹھے ھوئے نمازیوں کو یہ فرما رھی ہیں کہ تم لوگ کیا سمجھتے ھو نماز کیوں واجب کی گئی؟ کیا اس لیے کہ ھر دن ایک بار دو بار یا پانچ بار مسجد میں آکر جانماز پر کھڑے ھو کر کچھ حرکتیں انجام دے دیں اور اس کے بعد چلیں جائیں؟ بس نماز صرف یھی ہے؟ کیا حقیقت نماز صرف یھی ہے؟ کیا خدا کو اس طرح کی نمازوں کی ضرورت ہے؟ ایسی نماز تو ھمارے دین میں نھیں پائی جاتی۔ ھمارا عقیدہ یہ ہے کہ خدا ھماری عبادت، ھمارے نماز، روزے، حج و زکات سے بے نیاز ہے۔ پس کیوں نماز واجب ھوئی ہے؟
خداوند عالم نے نماز کو واجب کیا ہے تاکہ لوگوں کے اندر اطاعت اور بندگی کا سلیقہ پیدا ھو ان کے اندر بندگی کی روح پیدا ھو۔ نماز کا فلسفہ یہ ہے جو قرآن نے بیان کیا ہے نماز انسان کو ھر طرح کی برائی سے روکتی ہے یعنی اس کے اندر خدا کی اطاعت اور بندگی کی روح پیدا کرتی ہے۔ یہ جو حدیث میں آیا ہے کہ نماز مومن کی معراج ہے اور خدا سے تقرب کا ذریعہ ہے اس کی وجہ یھی ہے کہ اس سے انسان اللہ کا واقعی بندہ بن جاتا ہے۔ اب ھمیں اپنے اندر جھانک کر دیکھنا چاھیے کہ کیا ھماری نمازیں ھمیں گناھوں سے روکتی ہیں؟ کیا جب ھم نماز پڑھتے ہیں تو ھمارے اندر گناھوں سے دور ھونے کا محرک پیدا ھوتا ہے؟ اگر نھیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ھماری نمازیں بھی چند حرکتیں ہیں ورزش ہے نماز نھیں ہے۔
حضرت زھرا(س) اس امت کی طرف دیکھ رھی ہیں کہ یہ نمازیں پڑھ رھے ہیں لیکن کیا یہ پیغمبر اسلام (ص) کے دیگر فرامین پر بھی عمل پیرا ھو رھا ہے؟ رسول خدا (ص) نے جو علی علیہ السلام کے بارے میں وصیت کی تھی کیا اس کو انھوں نے نھیں سنا ہے؟ کیا یہ لوگ کل تک رسول خدا (ص) کے ساتھ ساتھ نھیں چل رھے تھے؟ کیا انھوں نے نھیں سنا کہ آپ نے فرمایا: "الساکِتُ عَنِ الحَقِّ شَیطانٌ أخرَسٌ" ( جو شخص حق بات کھنے پر خاموش ھو جائے وہ گونگا شیطان ہے) کیا انھوں نے ان باتوں کو رسول اسلام(ص) سے نھیں سنا تھا؟ کیسے انھوں نے اجازت دی کہ ان کی آنکھوں کے سامنے حق اھل حق سے چھن جائے؟ ابھی تو حجۃ الواع اور اعلان ولایت امیر المومنین (ع) کو چار ھی مھینے گزرے تھے۔ کیا یہ لوگ بھول گئے؟ یا خود کو فراموشی میں ڈال دیا ہے؟ یا چپی ساد لی ہے؟ مگر ایسا نھیں ہے جو حق بات کھنے کے بجائے چپی ساد لے وہ گونگا شیطان ہے؟ کیوں ان کی نمازوں، عبادتوں، حج و دیگر اعمال نے انھیں حق کی حمایت کرنے سے روک دیا؟ اس لیے کہ عبادت ان کے لیے عادت بن چکی تھی ان کی عبادتیں اپنی اصلیت کو کھو چکی تھیں وہ صرف نماز کی شکل میں حرکات انجام دے کر چلے جاتے تھے۔
حضرت زھرا(س) فرماتی ہیں: اے لوگو! ان نمازوں، روزوں ، حج و زکات اور امر و نھی کا کچھ معنی اور مفھوم بھی ہے کیسے تم نماز پڑھتے ھو اور غرور و تکبر بھی کرتے ھو؟ کیسے ایسی چیز ممکن ہے؟ نماز خدا کی اطاعت اور بندگی کے علاوہ کچھ نھیں ہے۔ نماز خدا کے سامنے انکساری کے اظھار کی ایک مشق ہے۔ وہ نماز جس سے غرور پیدا ھو وہ نماز نھیں ھو سکتی جس کا حکم اللہ نے دیا ہے بلکہ یہ وہ نماز ہے جس کا حکم نفس امارہ دے رھا ہے۔ جس نماز کا حکم اللہ نے دیا ہے وہ نماز دل کو روشن کرتی ہے، نفس کو منکسر کرتی ہے، انسان کو متواضع کرتی ہے۔ ھم نماز میں کیا کرتے ہیں؟ کتنی مرتبہ خدا کا تذکرہ کرتے ہیں اس کا نام لیتے ہیں؟ شروع سے آخر نماز تک کتنی مرتبہ اس کے سامنے جھکتے ہیں؟ کتنی مرتبہ اپنی پیشانی زمین پر رکھتے ہیں اور اس کا سجدہ کرتے ہیں؟ سجدہ کا کیا مطلب ہے؟ انسان خدا کے سامنے سجدہ کرنے سے یہ ظاھر کرتا ہے کہ میرا پورا وجود اور میری روح و جان خدا کے سامنے تسلیم ہے۔ اپنا سر اور پیشانی جو میری سربلندی اور میری عزت کی علامت ہے اسے اپنے معبود کے سامنے خاک پر رکھ دیتا ھوں۔ کیا نماز اس کے علاوہ کچھ اور ہے؟ کیوں سجدہ کرتے ھو؟ کیا کسی بادشاہ یا حاکم کے سامنے سجدہ کرنا جائز ہے؟ انسان کا سجدہ صرف خدا کے لیے ھونا چاھیے۔ ھم خدا کے علاوہ کسی کے سامنے اپنا سر نھیں جھکا سکتے۔ اس سجدہ کا کیا مطلب ہے؟
سجدہ یعنی تواضع اور فروتنی کی آخری حد۔ سجدہ کی علامت پیشانی کو زمین پر رکھنا ہے۔ یعنی خدایا میں صرف تیرے آگے تسلیم ھوں لھذا اپنے سر اور پیشانی کو زمین پر رکھ دیتا ھوں۔
ھم نماز کے وقت خدا کے ساتھ جی رھے ھوتے ہیں۔ کیسے خدا کے ساتھ جی رھے ھوتے ہیں؟ کیا ھم نماز میں خدا کے ساتھ ھم کلام نھیں ھوتے؟ کیا ھم نماز میں نھیں کھتے؟ "اِیّاکَ نَعبُدُ وَاِیّاکَ نَستَعینُ."(۲) ھم کھتے ہیں صرف تو، تو کون ہے؟ کیا خدا نھیں ہے؟ خدا کو کھتے ہیں کہ صرف تیری عبادت کرتے ہیں۔ صرف تجھ سے مدد چاھتے ہیں۔ تیرے علاوہ کسی سے مدد کا مطالبہ نھیں کرتے۔ لھذا آپ نماز میں اپنے پروردگار سے مناجات کر رھے ھوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ھم کلام ھوتے ہیں اس کے سامنے سجدے اور رکوع کر رھے ھوتے ہیں۔
ان تمام اعمال کو نتیجہ کیا ہے؟ غرور؟ تکبر؟ حدیث میں آیا ہے: "الغُرورُ شِرکٌ خَفیٌّ" غرور مخفی شرک ہے۔ انسان کو تکبر کرنےکا حق نھیں ہے۔ انسان کس چیز پر اپنے آپ کو بڑا سمجھے؟ قرآن کھتا ہے: "وَلاَ تَمْشِ فِی الأرْضِ مَرَحًا إِنَّکَ لَن تَخْرِقَ الأرْضَ وَلَن تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُولاً."(۳) کس چیز پر فخر کریں اور اپنے آپ کو بڑا کھیں میں ایسا موجود ھوں جس کے پاس نہ اپنے نفع کا اختیار ہے نہ نقصان کا نہ زندگی کا نہ موت کا کچھ بھی تو میرا نھیں ہے۔ نہ دولت میری، نہ علم میرا، نہ اولاد میری، ھمارے پاس کچھ بھی اپنا نھیں ہے۔ ھم برھنہ دنیا میں آئے اور برھنہ دنیا سے جائیں گے۔ نہ کچھ لائے تھے اور نہ کچھ لے کر جائیں گے۔
لھذا، یہ ثروت، یہ دولت، علم، طاقت زندگی ھمارے پاس امانت ہے۔ یہ چیزیں ھماری اپنی نھیں ہیں۔ ھم ان کے امین ہیں۔ پس غرور کس بات کا؟ وہ نماز جو انسان کے اندر غرور پیدا کرے نماز نھیں ہے۔ نماز وہ ہے جو انسان کے اندر سے غرور کو ختم کرے۔
لھذا ھماری نمازوں کو ھمارے اندر تواضع پیدا کرنا چاھیے جب میں خدا کے سامنے سر سجدے میں رکھوں تو یہ احساس کروں کہ میں اپنے پروردگار کے سامنے تسلیم ھو گیا ھوں میرا سب کچھ اس کا ہے "إِنَّ صَلاَتِی وَنُسُکِی وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِی لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِینَ."(۴) اس وقت مجھے یہ محسوس کرنا چاھیے کہ میرے پاس اپنا کچھ بھی نھیں ہے۔ میں کون ھوں جو تکبر کروں؟ میں کون ھوں جو کسی سے انتقام لوں؟ میں تو ایک ناتوان، ضعیف اور بے کس موجود ھوں۔
یہ نماز کے معنی کا خلاصہ ہے لیکن اس کا مطلب یہ ھر گز نھیں ہے کہ میں شیطان، دشمنوں اور ظالموں کے مقابلہ میں بھی ضعیف اور ناتوان بنا رھوں۔ اس لیے کہ ھماری قدرت اور طاقت اللہ کے لیے ہے نہ ھماری ذات کے لیے۔
یھاں پر میں آپ کی توجہ کو اس اصطلاح "اعتماد بالنفس" کی طرف مبذول کرنا چاھوں گا۔ اعتماد بالنفس کا کیا مطلب ہے؟ کھتے ہیں فلاں کے اندر اعتماد بالنفس پایا جاتا ہے۔ یعنی وہ نڈر اور شجاع ہے۔ اعتماد بالنفس غرور اور تکبر سے الگ ہے۔ توکل اور اعتماد بالنفس ایک قسم کا کمال ہے یعنی جب میں کسی مشکل میں گرفتار ھوتا ھوں، جب میں میدان جنگ میں جاتا ھوں، جب میں زندگی کے کسی کام میں مشغول ھوتا ھوں تو اگر خدا پر بھروسہ کرتا ھوں تو قوی ھوں خدا پر بھروسے کے ذریعے قوی ھوں لیکن خود متواضع ھوں۔
لیکن انسان اگر خود اپنے آپ پر بھروسہ کرے تو مغرور ھو جائے گا حق اور باطل کے درمیان تمیز پیدا نھیں کر پائے گا۔ کبھی حق کی راہ پر چلے گا اور کبھی باطل کی راہ پر۔ لیکن اگر خدا پر بھروسہ ہے تو نہ مغرور ھو گا اور نہ متکبر، اس لیے کہ وہ جانتا ہے کہ خدا اس کی صحیح راہ میں ھدایت کرے گا۔
لھذا نماز بندوں کی صحیح تربیت کے لیے تمرین اور مشق ہے۔ نماز ایسا کارخانہ ہے جس میں انسان کی اصلاح ھوتی ہے۔ نماز یعنی خدا کے ساتھ زندگی کرنا اور خدا کی صفات کو اپنے اندر پیدا کرنا۔ جانتے ہیں انسان نماز سے کیا چیز حاصل کرتا ہے؟ خدا کی راہ میں قوی ھونا اور باطل کی راہ میں ناتوان ھونا۔ نہ باطل کے مقابلہ میں۔ نماز مومن کی معراج کا ذریعہ ہے۔ نماز اسے برائیوں سے محفوظ رکھتی ہے۔
حضرت زھرا (س) لوگوں سے یہ سوال کرتی ہیں کہ اے لوگو! کیسے تم نمازیں بھی پڑھتے ھو اور باطل کے مقابلے میں گھبراتے بھی ھو! تم نمازیں بھی پڑھتے ھو اور حق کو چھپاتے بھی ھو! کل خلافت کو غصب کر لیا اور آج فدک کو۔ تم جانتے ھو یہ میرے بابا کا مجھے دیا ھوا ھدیہ ہے۔ لیکن تم خاموش ھو گئے ھو۔ تم سب نے پیغمبر(ص) کی میری نسبت سفارشات کو سن رکھا ہے۔ پس کیوں خاموش ھو؟ تم میں سے ایک گروہ طمع اور لالچ کی خاطر اور دوسرا گروہ خوف اور ڈر کی خاطر خاموش ھو گیا۔ ایک گروہ لوٹ رھا ہے دوسرا ڈر رھا ہے۔ وہ نمازی جو خدا کے ساتھ ھم پیمان ھو کر زندگی گزارتے ہیں قوی ھوتے ہیں نہ ڈرپوک۔ جو انسان نماز پڑھتا ہے در حقیقت دن میں پانچ مرتبہ خدا کے ساتھ رابطہ پیدا کرتا ہے۔ کیا تمھارا خدا کےساتھ کوئی سروکار نھیں ہے؟ کیا تم خدا سے گفتگو نھیں کرتے؟ کیا تم نھیں کھتے صرف تیری عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ھی مدد مانگتے ہیں۔ اگر خدا تمھارے دلوں میں نھیں ہے تمھارے سامنے حاضر اور ناظر نھیں ہے تو تم یہ کھنے کا حق نھیں رکھتے ھم صرف تیری عبادت کرتے ہیں۔ کھو اس کی عبادت کرتے ہیں۔ کیا ایسا نھیں ہے؟ جب تم خدا کو اپنے سامنے دیکھ کر اس کی عبادت کرتے ھو اس سے گفتگو کرتے ھو تو تمھیں کسی دوسرے سے نھیں ڈرنا چاھیے چونکہ جس شخص کا رابطہ اللہ سے ہے وہ کبھی نھیں ڈرتا۔ وہ کسی چیز کا طمع نھیں کرتا اس لیے کہ طمع بھی فقر کی وجہ سے پیدا ھوتا ہے جو باطنی طور پر فقیر ھو وہ دوسروں کی چیزوں کی لالچ کرتا ہے لیکن جس کے پاس خدا ھو وہ غنی اور بے نیاز ھوتا ہے۔ جناب زھرا (س) پوچھ رھی ہیں کیا تم نماز پڑھتے ھو؟ کیا تمھاری نمازیں تمھیں برائیوں سے نھیں روکتی ہیں؟ کیا تمھاری نمازیں تمھارے فقر کو دور نھیں کرتی؟ پس کیوں خاموش ھو؟
واضح ہے تمھاری عبادتیں عادتیں بن چکی ہیں اپنی اصلیت کھو چکی ہیں۔ سلام ھو آپ پر اے فاطمہ زھرا(ص)! گویا چودہ سال بعد بھی آپ کا خطاب ھمیں جھنجھوڑ رھا ہے ایسا لگ رھا ہے کہ آپ ابھی ھم سے مخاطب ہیں۔ گویا آپ ھم سے فرما رھی ہیں: اے مسلمانو!، اے نماز گزارو! اے عبادت کرنے والو! کیسے تم نمازیں بھی پڑھتے ھو اور برائیاں بھی کرتے ھو؟
حقیقی نماز ایسی نھیں ھوا کرتی۔ نماز جھاد کی مشق کرواتی ہے۔ "إِنَّ اللَّهَ یُحِبُّ الَّذِینَ یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِهِ صَفًّا کَأَنَّهُم بُنیَانٌ مَّرْصُوصٌ."(۵) نھیں دیکھتے نماز میں کیسے صفیں بچھتی ہیں اور کیسے سب ایک ساتھ تمام حرکات انجام دیتے ہیں کیسے سب ایک ساتھ رکوع و سجود کرتے ہیں؟ محراب کس لیے ھوتا ہے؟ کیوں ھر مسجد میں ایک محراب کی ضرورت ھوتی ہے؟ محراب یعنی جنگ کا ذریعہ۔ نماز انسان کو شیطان کے ساتھ جنگ کرنے کی مشق کرواتی ہے۔
نماز سماجی اقتدار کے حصول کی تمرین اور مشق ہے لیکن کون سا اقتدار؟ وہ اقتدار جس میں غرور نہ ھو۔ وہ اقتدار جو خود اپنے بل بوتے پر نہ ھو بلکہ خدا کی مدد سے ھو۔
لھذا فاطمہ زھرا (س) فرما رھی ہیں: کیوں تمھاری نمازوں نے تمھیں قوی نھیں کیا؟ کیوں تمھاری نمازوں نے تمھارے غرور کو نھیں توڑا؟ آپ یہ کھنا چاھتی ہیں: اے مسلمانو صحیح ہے کہ خدا نے نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے لیکن یہ حکم اس لیے نھیں ہے کہ اسے تمھاری نمازوں کی ضرورت ہے بلکہ خدا نے خود تمھاری تربیت کے لیے یہ حکم دیا ہے تاکہ تم خود اس کے ذریعے اپنی اصلاح کر سکو لیکن تم لوگوں نے جیسا کہ ظاھر ہے اس سے کما حقہ استفادہ نھیں کیا ہے اس لیے کہ تم لالچ اور خوف کی وجہ سے حق کے مقابلہ میں خاموش ھو گئے ھو جو پائمال ھو چکا ہے۔
اس کے بعد حضرت زھرا(س) ھم سے مخاطب ھوتی ہیں اور فرماتی ہیں: اے مسلمانو! کیا تم بھی نماز پڑھتے ھو اور حق کے غصب ھونے پر راضی ھو؟ تم جانتے ھو کس وقت نماز قابل قبول ہے؟ تم جانتے ھو کہ تمھاری نمازیں قبول ھوتی ہیں یا نھیں؟ جب تم نماز پڑھو، اور خدا کی بارگاہ میں اپنے اندر ایک نئی قوت کے پیدا ھونے کا احساس کرو تو سمجھ لو کہ نماز قبول ھو گئی لیکن اگر نماز کے بعد اپنے اندر ضعف اور خوف کا احساس کرو تو جان لو کہ نماز رد ھو گئی۔ بزرگی اور عزت اللہ کی بندگی میں ہے اس لیے کہ حقیقی بڑھائی اور عزت کا مالک وھی ہے۔ حضرت زھرا (س) پوچھتی ہیں: کیوں خدا نے نماز تم پر واجب کی ہے؟ نماز انسان کو کامل کرنے کا کارخانہ ہے۔ کیا ھماری نمازوں کے اندر ایسی تاثیر پائی جاتی ہے؟
کسی حد تک حضرت زھرا سلام اللہ علیھا کے اس فقرے پر گفتگو ھو چکی ہے اور امید ہے کہ اس کے معنی کسی حد تک واضح ھو چکے ھوں گے۔ والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔
حوالہ جات:
۱۔ نماز انسان کو فحشا و منکر سے روکتی ہے (عنکبوت، ۴۵)
۲۔ میں صرف تیری عبادت کرتا ھوں اور صرف تجھ سے مدد چاھتا ھوں.» (فاتحه، ۵)
۳۔اکڑ کر زمین پر مت چلو نہ تم زمین کو ھلا پاؤ گے اور نہ پھاڑوں کی چوٹیوں تل پھنچ پاؤ گے. (اسرا، ۳۷)
۴۔ کھوں میری نماز، میری قربانی، میری زندگی، اور میری موت سب اللہ کے لیے ہے جو عالمین کا پالنے والا ہے. (انعام، ۱۶۲)
۵۔ خدا ان لوگوں کو دوست رکھتا ہے جو خدا کی راہ میں اس سیسہ پلائی ھوئی دیوار کی طرح صف آوار ھوتے ہیں. (ص، ۴) 

Add comment


Security code
Refresh