www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

ان تمام احکام کی بار بار تاکید کرنے کے بعد افسوس کہ بھت سے لوگوں نے اس کے احترام سے چشم پوشی کرلی

 اور اس کی بے احترامی کی جبکہ یہ ایسا مسئلہ نھیں ہے جس سے چشم پوشی کی جائے۔
اس سے متعلق اھل سنت کی کتابوں سے چند روایات کو ھم یھاں پر بیان کرتے ہیں تاکہ یہ بات روشن ھوجائے کہ حضرت زھرا (علیھا السلام) کے گھر کی بے حرمتی اور اس کے بعد رونما ھونے والے واقعات تاریخی اورحقیقی ہیں ، نہ ایک افسانہ! اور دوسری بات یہ کہ خلفاء کے زمانے میں اھل بیت(علیھم السلام) کے فضایل و مناقب لکھنے سے سخت منع کیا جاتا تھا لیکن اس بناء پر کہ "ھر چیز کی حقیقت خوداس چیز کی حفاظت کرتی ہے" یہ حقیقت بھی تاریخی اور حدیثی کتابوں میں زندہ اور محفوظ ہے، ھم یھاں پر دلایل کو زمانے کی ترتیب کے ساتھ پھلی صدی سے شروع کریں گے اور عصر حاضر کے موْلفین تک پھونچائیں گے۔
 اھل سنت کے مشھور محدث ،ابن ابی شیبہ کی کتاب "المصنف"
ابوبکر بن ابی شیبہ (۲۳۵۔۱۵۹) کتاب المصنف کے موْلف صحیح سند سے اس طرح نقل کرتے ہیں:
"انہ حین بویع لابی بکر بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کان علی و الزبیر یدخلان علی فاطمة بنت رسول اللہ، فیشاورونھا و یرتحعون فی امرھم۔ فلما بلغ ذلک عمر بن الخطاب خرج و دخل علی فاطمة، فقال: یا بنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ ) و اللہ ما احد احب الینا من ابیک و ما من احد احب الینا بعد ابیک منک، و ایم اللہ ما ذاک بمانعی ان اجتمع ھوْلاء النفر عندک ان امرتھم ان یحرق علیھم البیت"
جس وقت لوگ ابوبکر کی بیعت کر رھے تھے، علی اور زبیرحضرت فاطمہ زھرا کے گھر میں گفتگو اور مشورہ کر رھے تھے اور یہ بات عمر بن خطاب کو معلوم ھوگئی۔ وہ حضرت فاطمہ کے گھر آیا اور کھا : اے رسول کی بیٹی، سب سے محبوب انسان ھمارے نزدیک تمھارے والد گرامی تھے اور ان کے بعد اب تم سب سے زیادہ محترم ھو لیکن خدا کی قسم یہ محبت اس بات کے لئے مانع یا رکاوٹ نھیں بن سکتی کہ یہ لوگ تمھارے گھر میں جمع ھوں اور میں اس گھر کو ان لوگوں کے ساتھ جلانے کا حکم نہ دوں۔
اس جملہ کو کھہ کر باھر چلا گیا جب حضرت (علی علیہ السلام) اور زبیر گھر میں واپس آئے تو حضرت فاطمہ زھرا (س)نے حضرت علی(ع) اور زبیر سے کھا: عمر یھاں آیا تھا اور اس نے قسم کھائی ہے کہ اگر تم دوبارہ اس گھر میں جمع ھوئے تو تمھارے گھر کو ان لوگوں کے ساتھ آگ لگا دوں گا، خدا کی قسم ! اس نے جو قسم کھائی ہے وہ اس کو انجام دے کر رھے گا ۔
دوبارہ وضاحت کرتا ھوں کہ یہ واقعہ المصنف نامی کتاب میں صحیح سند کے ساتھ نقل ھوا ہے۔
 اھل سنت کے دوسرے بزرگ محدث، بلاذری کی کتاب"انساب الاشراف"
مشھور مولف اور تاریخ نگار ،احمد بن یحیی بن جابر بلاذری (م ۲۷۰) اس تاریخی واقعہ کو اپنی کتاب" انساب الاشراف" میں اس طرح نقل کرتا ہے:
"ان ابابکر ارسل الی علی یرید البیعة فلم یبایع، فجاء عمر و معہ فتیلة! فلقیتہ فاطمة علی الباب فقالت فاطمہ: یابن الخطاب، اتراک محرقا علی بابی؟ قال : نعم، و ذلک اقوی فیما جاء بہ ابوک..."
ابوبکر نے حضرت علی (علیہ السلام) کو بیعت کیلئے بلوایا، لیکن حضرت علی علیہ السلام نے بیعت کرنے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد عمر ، مشعل لے کر وھاں سے نکلا اور حضرت فاطمہ(س) کے گھر کے دروازے کے سامنے حضرت فاطمہ (س)کے سامنے کھڑا ھوگیا، حضرت فاطمہ (س) نے کھا : اے خطاب کے بیٹے، کیا تم ھمارے گھر میں آگ لگا دو گے؟ ! عمر نے کھا : ھاں ، یہ کام اس چیز کی مدد کرے گا جس کے لئے تمھارے والد مبعوث ھوئے تھے!۔
 ابن قتیبہ اور کتاب "الامامة والسیاسة"
مشھور مورخ عبداللہ بن مسلم بن قتیبہ دینوری(۲۱۲۔۲۷۶)تاریخ اسلام کا سب سے زیادہ لکھنے والا انسان اور کتاب تاویل مختلف الحدیث اور ادب الکاتب وغیرہ کا موْلف ہے وہ "الامامة والسیاسة" میں اس طرح لکھتا ہے:
"ان ابابکر(رض)تفقد قوما تخلفوا عن بیعتہ عند علی کرم اللہ وجھہ فبعث الیھم عمر فجاء فناداھم و ھم فی دار علی، فابوا ان یخرجوا فدعا بالحطب و قال : والذی نفس عمر بیدہ لتخرجن او لاحرقنھا علی من فیھا، فقیل لہ : یا ابا حفص ان فیھا فاطمة فقال، وان! "
ابوبکر نے ان لوگون کی جستجو کی جو ان کی بیعت کے منکر ھو کر حضرت علی علیہ السلام کے گھر میں جمع ھوگئے تھے اورپھر عمر کو انھیں بلانے کے لئے بھیجا، وہ حضرت علی(علیہ السلام) کے گھر کے دروازہ پر آیا اور سب کو آواز لگائی کہ باھر آجاؤ، اور وہ لوگ گھر سے باھر نھیں نکلے، اس وقت عمر نے لکڑیاں منگوائیں اورکھا: خدا کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر باھر نھیں آؤ گے تو میں گھر کو آگ لگا دوں گا۔ کسی نے عمر سے کھا: اے حفص کے باپ(عمر کی کنیت) اس گھر میں پیغمبر(ص) کی بیٹی فاطمہ (س) ہیں ، عمر نے کھا : کوئی بات نھیں۔
ابن قتبیہ نے اس واقعہ کو بھت دردناک بیان کیا ہے وہ کھتا ہے :
"ثم قام عمرفمشی معہ جماعة حتی اتوا فاطمة فدقوا الباب فلما سمعت اصواتھم نادت یا علی صوتھا یا ابتاہ یا رسول اللہ ماذا لقینا بعدک من ابن الخطاب و ابن ابی القحافة فلما سمع القوم صوتھا و بکائھا انصرفوا و بقی عمر و معہ قوم فاخرجوا علیا فمضوا بہ الی ابی بکر فقالوا لہ بایع، فقال: ان انا لم افعل فمہ؟ فقالوا : اذا واللہ الذی لا الہ الا ھو نضرب عنقک ۔ ۔ ۔"
عمر ایک گروہ کے ساتھ حضرت فاطمہ(س) کے گھر آیا اور دروازہ کھٹکھٹایا، جس وقت حضرت فاطمہ(س) نے ان کی آواز سنی تو بلند آواز سے کھا : اے رسول خدا تمھارے بعد ، خطاب اور ابو قحافہ کے بیٹے نے کیا کیا مصیبتیں ھمارے اوپر ڈالی ہیں، جو لوگ عمر کے ساتھ آئے تھے انھوں نے جب حضرت فاطمہ(س) کی آواز اور ان کے رونے کی آواز کو سنا تو واپس چلے گئے، لیکن عمر کچھ لوگوں کے ساتھ وھیں کھڑا رھا اور پھر وہ حضرت علی(ع) کو گھر سے باھر لے آئے اور ابوبکر کے پاس لے گئے اور ان سے کھا : بیعت کرو، علی (علیہ السلام) نے کھا : اگر بیعت نہ کروں تو کیا ھوگا؟ انھوں نے کھا : اس خدا کی قسم جس کے علاوہ کوئی خدا نھیں ہے، تمھیں قتل کردیں گے...۔
تاریخ کا یہ حصہ شیخین کے چاھنے والوں کے لئے بھت سخت اور ناگوار ہے ، لھذا بھت سے لوگوں نے ابن قتیبہ کی اس کتاب سے انکار کردیا جبکہ ابن ابی الحدید، فن تاریخ کا استاد، اس کتاب کو ابن قتیبہ ھی کی بتاتا ہے اور ھمیشہ اس سے مطالب کو نقل کرتا ہے ، افسوس اس کتاب میں بھت زیادہ تحریف ھوچکی ہے اور اس کے بھت سے مطالب کو چھاپتے وقت حذف کردئیے ہیں جب کہ وہ سب مطالب ، ابن ابی الحدید کی شرح نھج البلاغہ میں موجود ہیں۔
زرکلی نے بھی اپنی کتاب الاعلام میں اس کتاب کو ابن قتیبہ ھی کی کتابوں میں سے شمار کیا ہے اور مزید کھتا ہے کہ اس کتاب کے متعلق بھت سے علماء کا خاص نظریہ ہے یعنی وہ دوسروں کی طرف شک و تردید کی نسبت دیتا ہے اپنی طرف نھیں، الیاس سرکیش نے بھی اس کتاب کو ابن قتیبہ ھی کے ایک کتاب جانا ہے۔

طبری اور اس کی تاریخ
مشھورمورخ محمد بن جریر طبری(م۳۱۰) اپنی کتاب میں آپ کے گھر کی بے احترامی کے متعلق اس طرح بیان کرتا ہے :
"اتی عمر بن الخطاب منزل علی و فیہ طلحة والزبیر و رجال من المھاجرین، فقال واللہ لاحرقن علیکم او لتجرجن الی البیعة، فخرج علیہ الزبیر مصلتا بالسیف فعثر فسقط السف من یدہ، فوثبوا علیہ فاخذوہ "۔
عمر بن خطاب، حضرت علی(ع) کے گھر آیا جبکہ طلحہ، زبیر اور کچھ مھاجرین وھاں پر جمع تھے، اس نے ان کی طرف منہ کرکے کھا: خدا کی قسم اگر بیعت کیلئے باھر نھیں آؤ گے تو اس گھر میں آگ لگا دوں گا ، زبیر تلوار کھینچ کر باھر نکلا، اچانک اس کو ٹھوکر لگ گئی اور تلوار اس کے ھاتھ سے چھوٹ گئی پھر تو دوسرے لوگوں نے اس کے اوپر حملہ کردیا اور اس کو پکڑ لیا۔
تاریخ کے اس حصہ سے معلوم ھوتا ہے کہ خلیفہ کی بیعت رعب و وحشت اور دھمکی دے کر لی جاتی تھی، لیکن اس بیعت کا کیا فائدہ ہے اس کا فیصلہ خود قاری محترم کے اوپر ہے۔
 ابن عبد ربہ اور کتاب "العقد الفرید"
شھاب الدین احمد معروف بہ ابن عبد ربہ اندلسی، کتاب "العقد الفرید" (م ۴۶۳) کے مولف نے اپنی کتاب میں سقیفہ کی تاریخ سے متعلق وضاحت کی ہے اور جن لوگوں نے ابوبکر کی بیعت نھیں کی تھی اس عنوان کے تحت لکھتا ہے :
"فاما علی والعباس والزبیر فقعدوا فی بیت فاطمة حتی بعث الیھم ابوبکر، عمر بن الخطاب لیخرجھم من بیت فاطمة وقال لہ: ان ابوا فقاتلھم، فاقبل یقیس من ناز ان یضرم علیمھم الدار، فلقیتہ فاطمة فقال : یا ابن الخطاب اجئت لتحرق دارنا؟! قال: نعم، او تدخلوا فیما دخلت فیہ الامة"۔
علی، عباس اور زبیر حضرت فاطمہ(س) کے گھر میں بیٹھے ھوئے تھے کہ ابو بکر نے عمر بن خطاب کو بھیجا تاکہ ان کو حضرت فاطمہ(س) کے گھر سے باھر نکالے اور اس سے کھا : کہ اگر باھر نہ آئیں تو ان سے جنگ کرو! عمر بن خطاب تھوڑی سی لکڑیاں لے کر حضرت فاطمہ(س) کے گھر کی طرف چلا تاکہ گھر کو آگ لگائے اچانک حضرت فاطمہ(س) سے سامنا ھوا ، پیغمبر اکرم (ص) کی بیٹی نے کھا : اے خطاب کے بیٹے کیا ھمارے گھر کو آگ لگانے آئے ھو؟ اس نے جواب دیا : ھاں ، مگر یہ کہ جس چیز کو امت نے قبول کرلیا ہے تم بھی اس کو قبول کر لو!
یھاں تک اس بحث کی وضاحت کی گئی ہے جس میں بے حرمتی کا ارادہ کیا گیا ہے اب اس مقالہ کے دوسرے حصہ سے بحث کرتے ہیں جس میں بیان کیا جائے گا کہ انھوں نے اپنے اس برے ارادہ کو عملی جامہ بھی پھنا یا ہے تاکہ یہ تصور نہ کیا جائے کہ اس سے مراد ڈرانا اوردھمکانا تھا تا کہ علی(علی علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو بیعت کیلئے مجبور کریں اور ایسی دھمکی کو عملی جامہ نھیںپھنانا چاھتے تھے۔حملہ ھوگیا!
یھاں تک ان لوگوں کی باتوں کو بیان کیا گیا ہے جنھوں نے خلیفہ اور اس کے دوستوں کی بری نیت کی طرف اشارہ کیا ہے ، وہ گروہ جو اس واقعہ کو اچھی طرح یالکھنا نھیں چاھتے تھے یا نھیں لکھ سکے، جب کہ بھت سے علماء ایسے ہیں جنھوں نے اصل واقعہ یعنی حضرت زھرا (س) کے گھر پر حملہ کی طرف اشارہ کیا ہے اور اب ھم حضرت فاطمہ (س) کے گھر پر حملہ اور اس کی بے احترامی کے متعلق دلیلیں بیان کرتے ہیں(اور اس حصہ میں مآخذ و منابع کو بیان کرنے میں زمانے کی ترتیب کو رعایت کریں گے)۔
 ابوعبید اور کتاب "الاصول"
ابوعبید، قاسم بن سلام (م۲۲۴) کتاب الاموال جس پر اھل سنت کے فقھاء اعتماد کرتے ہیں،میں لکھتا ہے : عبدالرحمن بن عوف کھتا ہے : جب ابوبکر بیمار تھا تو میں اس کی عیادت کیلئے گیا اس نے بھت سی باتیں کرنے کے بعد کھا : اے کاش کہ تین کام جو میں نے اپنی زندگی میں انجام دئیے ان کو انجام نہ دیتا اور تین کام جو انجام نھیں دئیے ان کو انجام دیتا اسی طرح آرزو کرتا ھوں کہ پیغمبر اکرم(ص) سے تین چیزوں کے بارے میں سوال کرتا جن میں سے ایک کو میں انجام دے چکا ھوں اور آرزو کرتا ھوں کہ اے کاش انجام نہ دیتا "وددت انی لم اکشف بیت فاطمة و ترکتہ و ان اغلق علی الحرب " ۔ اے کاش حضرت فاطمہ(س) کے گھر کی بے حرمتی نہ کرتا اور اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیتا اگر چہ وہ جنگ ھی کیلئے بند کیا گیا تھا ۔
ابوعبیدہ جب اس جگہ پھنچتے ہیں تو "لم یکشف بیت فاطمة و ترکتہ" کے جملہ کی جگہ کو"کذا و کذا" لکھ کر کھتے ہیں کہ میں ان کو بیان نھیں کرنا چاھتا۔
ابوعبید نے اگرچہ مذھبی تعصب یا کسی اور وجہ سے حقیقت کو نقل نھیں کیا ہے لیکن کتاب الاموال کے محققین نے اس کے حاشیہ پر لکھا ہے : جس جملہ کو حذف کردیا گیا ہے وہ کتاب میزان الاعتدال (جس طرح بیان ھوا ہے) میں بیان ھوا ہے اس کے علاوہ طبرانی نے اپنی معجم میں او رابن عبد ربہ نے عقدالفرید اور دوسرے افراد نے اس جملہ کو بیان کیا ہے(ملاحظہ فرمائیں)۔
طبرانی اور "معجم الکبیر"
ابوالقاسم سلیمان بن احمد طبرانی(۲۶۰۔۳۶۰) جن کو ذھبی اپنی کتاب میزان الاعتدال میں معتبر سمجھتے ہیں کتاب المعجم الکبیرمیں جو کہ کئی مرتبہ چھپ چکی ہے ابوبکر، اس کے خطبہ اور اس کی وفات کے متعلق لکھتا ہے :
ابوبکر نے مرتے وقت کچھ چیزوں کی تمنا کی اور کھا : اے کاش تین کاموں کو انجام نہ دیتا، تین کاموں کو انجام دیتا اورتین کاموں کے متعلق پیغمبر اکرم (ص) سے سوال کرتا: "اما الثلاث اللائی وددت انی لم افعلھن، فوددت انی لم اکن اکشف بیت فاطمة و ترکتہ، ..."
وہ تین کام جن کی میں آرزو کرتا ھوں کہ اے کاش انجام نہ دیتا ان میں سے ایک حضرت فاطمہ(س) کے گھر کی بے حرمتی ہے کہ اے کا ش میں ان کے گھر کی بے حرمتی نہ کرتا اور اس کو اسی حالت پر چھوڑ دیتا ۔
ان تعبیروں سے بخوبی ظاھر ھوتا ہے کہ عمر کی دھمکی کو عملی جامہ پھنایا گیا اور گھر کو زبردستی (یا آگ لگانے کے ذریعہ) کھولا گیا۔
 ابن عبد ربہ اور "عقد الفرید" کا ایک بار پھر جائزہ
ابن عبد ربہ اندلسی ، کتاب العقد الفرید(م ۴۶۳) کا موْلف اپنی کتاب میں عبدالرحمن بن عوف سے نقل کرتا ہے :
جب ابوبکر بیمار تھا تو میں اس کی عیادت کیلئے گیا اس نے کھا : اے کاش کہ تین کام جو میں نے اپنی زندگی میں انجام دئیے ، ان کو انجام نہ دیتاان تین کاموں میں سے ایک کام یہ ہے "وددت انی لم اکشف بیت فاطمة عن شئی وان کانوا اغلقوہ علی الحرب "۔ اے کاش حضرت فاطمہ (س)کے گھر کی بے حرمتی نہ کرتا اور اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیتا اگر چہ انھوں نے جنگ کرنے ھی کے لئے اس دروازہ کوکیوں نہ بند کر رکھا ھو ۔
آئندہ کی بحثوں میں بھی ان لوگوں کے نام اور ان شخصیتوں کی عبارات کو بیان کیا جائے گا جنھوں نے خلیفہ کی اس بات کو نقل کیا ہے۔
 کتاب "الوافی بالوفیات" میں نظام کی گفتگو
ابراھیم بن سیار نظام معتزلی (۱۶۰۔۲۳۱) جو نظم و نثر میں اپنے کلام کے حسن کی وجہ سے نظام کے نام سے مشھور ہے اس نے اپنی مختلف کتابوں میں حضرت فاطمہ(س) کے گھر پر حاضر ھونے کے بعد والے واقعہ کو نقل کیا ہے وہ کھتا ہے :
"ان عمرضرب بطن فاطمة یوم البیعة حتی القت المحسن من بطنھا۔"
عمر نے جس روز ابوبکر کی بیعت لی اس روز حضرت فاطمہ(س) کے شکم مبارک پرایک ضرب ماری، ان کے شکم میں جو بچہ تھا جس کا نام محسن تھا وہ ساقط ھوگیا!۔
مبرد اور کتاب "کامل"
ابن ابی الحدید لکھتا ہے : محمد بن یزید بن عبدالاکبر بغدادی(۲۱۰۔ ۲۸۵) مشھور ادیب اور لکھنے والا، مشھور کتابوں کا مالک، اپنی کتاب الکامل میں عبدالرحمن بن عوف سے خلیفہ کی آرزووں کی داستان کو نقل کرتا ہے اور اس طرح یاد دھانی کراتا ہے :
"وددت انی لم اکن کشفت عن بیت فاطمة و ترکتہ و لو اغلق علی الحرب"۔
مسعودی اور"مروج الذھب"
مسعودی (متوفی ۳۲۵) اپنی کتاب مروج الذھب میں لکھتا ہے : جس وقت ابوبکر احتضار کی حالت میں تھا اس نے یہ کھا :
اے کاش تین کام جو میں نے اپنی زندگی میں انجام دئیے ان کو انجام نہ دیتاان میں سے ایک کام یہ ہے "فوددت انی لم اکن فتشت فاطمة و ذکر فی ذلک کلاما کثیرا " ۔ اے کاش حضرت فاطمہ(س) کے گھر کی بے حرمتی نہ کرتا اس نے اس سلسلہ میں اور بھت سی باتیں بیان کی ہیں۔
مسعودی اگر چہ اھل بیت(ع) سے محبت رکھتا ہے لیکن یھاں پر اس نے خلیفہ کی باتوں کو بیان نھیں کیا ہے اور کنایہ کے ساتھ آگے بڑھ گیا ہے البتہ سبب کو خدا جانتا ہے لیکن اس کے بندے بھی اجمالی طور سے جانتے ہیں۔
عبدالفتاح عبدالمقصود اور کتاب "امام علی"
اس نے حضرت فاطمہ(س) کے گھر پر حملہ سے متعلق اپنی کتاب میں دو جگہ بیان کیا ہے اور ھم اس میں سے ایک کو نقل کرنے پراکتفاء کرتے ہیں :
عمر نے کھا : "والذی نفس عمر بیدہ، لیخرجن او لاحرقنھا علی من فیھ...! قالت لہ طائفة خافت اللہ و رعت الرسول فی عقبہ: یا اباحفص، ان فیھا فاطمة...! فصاح: لایبالی و ان...! و اقترب و قرع الباب، ثم ضربہ و اقتحمہ... و بدالہ علی... و رن حینذیک صوت الزھراء عند مدخل الدار... فانی ھی الا طنین استغاثة"۔
اس کی قسم جس کے قبضہ میں عمر کی جان ہے یا گھر سے باھر نکل جاؤ یا اس گھر کے رھنے والوں سمیت اس میں آگ لگا دوں گا۔
کچھ لوگ جو خدا سے ڈرتے تھے اور پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کی وفات کے بعد آپ کا احترام کرتے تھے انھوں نے کھا: اے حفصہ کے باپ، اس گھر میں فاطمہ بھی ہیں، اس نے بغیر کسی کی پروا کئے ھوئے پکارا: ھوا کرے! اس کے بعد دروازے کو کھٹکھٹایا اور پھر گھر میں داخل ھوگیا، علی علیہ السلام ظاھر ھوگئے... حضرت زھرا (س)کی آواز گھر میں گونجی... یہ ان کے نالہ و شیون کی آواز تھی!
اس بحث کو دوسری حدیث کے ذریعہ جس کو مقاتل بن عطیہ نے اپنی کتاب میں "الامامة والخلافة" میں بیان کیا ہے ختم کرتے ہیں(اگر چہ ابھی بھت کچھ کھنا باقی ہے!)۔
وہ اس کتاب میں اس طرح لکھتا ہے :" ان ابا بکر بعد ما اخذ البیعة لنفسہ من الناس بالارھاب والسیف والقوة ارسل عمر و قنفذ و جماعة الی دار علی و فاطمة (علیھما السلام) و جمع عمر الحطب علی دار فاطمة و احرق باب الدار..."
جس وقت ابوبکر لوگوں سے رعب و وحشت اور تلوار کے زور پر بیعت لے رھا تھا ، عمر ، قنفذ اور ایک گروہ کو حضرت علی و فاطمہ (علیھما السلام) کے گھر کی طرف بھیجا ، عمر نے لکڑیاں جمع کرکے گھر میں آگ لگا دی۔
اس روایت کے ذیل میں اور بھی بھت سی تعبیریں ہیں جن کو بیان کرنے سے قلم عاجز ہے۔
نتیجہ:
ان سب واضح دلیلوں کے باوجود جو اھل سنت کی کتابوں سے نقل ھوئی ہیں پھر بھی بھت سے لوگ اس واقعہ کو "افسانہ شھادت" کے نام سے یاد کرتے ہیں اور اس تلخ و ناگوار حادثہ کو جعلی بتاتے ہیں اگر یہ لوگ اس واقعہ کے انکار پر اصرار نہ کرتے تو ھم بھی اس سے زیادہ اس کی وضاحت نہ کرتے۔
سوئے ھوئے افراد کو ان حقائق کے ذریعہ بیدار کیا جائے تاکہ تاریخی حقیقت کو تعصبات کے اندر نہ چھپایا جائے اور اس کا انکار نہ کریں۔

Add comment


Security code
Refresh