www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

وہ پر آشوب دور جس میں ظلم و تشدد کا دور دورہ تھا جس میں انسانیت کا دور دور تک نام و نشان نھیں تھا

جس زمانہ کے ضمیر فروش بے حیا انسان کے لبادہ میں حیوان صفت افراد انسان کو زندہ در گور کر کے فخر و مباھات کیا کرتے تھے جو عورت ذات کو ننگ و عار سمجھتے تھے یہ وہ تشدد آمیز ماحول تھا جس میں ھر سمت ظلم و ستم کی تاریکی چھائی ھوئی تھی اسی تاریکی کو سپیدی سحر بخشنے کے لئے افق رسالت پر خورشید عصمت طلوع ھوا جس کی کرنوں نے نگاہ عالم کو خیرہ کر دیا اسی منجلاب میں ایک گلاب کھلا جس کی خوشبو نے مشام عالم کو معطر کر دیا ایسے ماحول میں دختر رحمة العالمین نے تشریف لا کر اس جاھل معاشرہ کو یہ سمجھا دیا کہ ایک لڑکی باپ کے لئے کبھی بھی سبب زحمت نھیں ہھوتی بلکہ ھمیشہ رحمت ھوتی ہے لیکن وہ حقیقت فراموش اس حقیقت کو بھلا بیٹھے تھے کہ جو وجہ خلقت انسان ہے وہ بھی ایک عورت ہے فاطمہ زھرا (س) دنیا میں کیا آئیں معاشرہ عرب میں ایک انقلاب برپا ھو گیا اگر اس بات کی ان جملوں کے ذریعے وضاحت کی جائے تو شاید غلط نہ ھوگا کہ گنگا الٹی بھنے لگی آفتاب مغرب سے طلوع ھونے لگا عرش فرش اور فرش و عرش سے تبدیل ھو گئے چونکہ ایسے پر آشوب ماحول میں امن و امان ھو جانا ایک نا ممکن امر ہے جو معاشرہ بیٹی کا وجود اپنے اوپر بار سمجھتا تھا وہ معاشرہ آج بیٹی کو سر کا تاج شمار کرنے لگا جو سماج کل تک بیٹی کو منجلاب گرا دانتا تھا وہ سماج آج بیٹی کو گلاب سمجھنے لگا گویا کہ کل انسان تاریکی میں تھا فاطمہ کی آمد نے اس کی تاریکی کو تنویر سے بدل دیا اور زیادہ وضاحت کے لئے اس طرح تعبیر کیا جائے کہ فاطمہ زھرا (س) باغ رسالت کا وہ تنھا ترین پھول ہے جس کی نظیر نا ممکن ہے پروردگار نے مردوں کی ھدایت کے لئے ایک لاکھ چوبیس ھزار انبیاء کو روئے زمین پر بھیجا نبوت کے بعد سلسلہ امامت جاری کیا لیکن فاطمہ زھرا (س) عالم نسواں کی تنھا ترین سردار ہیں شاعر نے کیا خوب کھا ہے :
اکلوتی فاطمہ (س) ہیں قسم لا شریک کی
قرآن مصطفی میں اضافہ نہ کیجئے (نجمی فیض آبادی)
یعنی جس طرح خدا کا کوئی ثانی نھیں اسی طرح فاطمہ(س) بھی بے مثل ہیں جس طرح قرآن پاک میں اضافہ ممکن نھیں اسی طرح دختر رسول بھی یک و تنھا ہے شاعر نے آواز دی:
آپ ھی سورہ کوثر کی فقط ہیں مصداق
بیٹیاں چاھے بناتی رھے تاریخ ھزار (غافر چھولسی )
تاریخ فاطمہ(س) کے سوا تین بیٹیاں کیا اگر ھزار بیٹیاں بھی بتاتی رھے تو سورہ کوثر پھر بھی فاطمہ (س) کی توصیف کرتا رھے گا یہ سورہ ایسا ہے کہ جن حضرات کو اپنی فصاحت و بلاغت پر ناز تھا وہ بھی اس مختصر سورہ کے آگے منہ کی کھاتے نظر آئے یہ ان کا ذوق شاعری تھا کہ ایک مصرعہ کا اور اضافہ کر دیا :
انا اعطیناک الکوثر فصل لربک وانحر
ان شانئک ھو الابتر ما ھذا کلام البشر
یہ کلام کسی بشر کا نھیں ہے بلکہ اس سے تو خا لق بشر کی جھلک آرھی ہے چونکہ عرب کے بددئوں کو عورت کی قدر و منزلت معلوم نھیں تھی اسی عدم علمی کی بنیاد پر عورت کو ھر وراثت سے محروم کر دیا گیا اور جعلی حدیث لا کر خرافات شروع کر دیں کہ رسول اکرم (س) کا فرمان ہے : "نحن معاشر الانبیاء لا نورث ولا نورث"
ھم گروہ انبیاء نہ تو کسی کو وارث بناتے ہیں نہ کسی کے وارث بنتے ہیں لیکن دختر رسول نے باغ فدک کے مسئلہ میں قیام کر کے یہ سمجھا دیا کہ اسلام نے عورت کو بھی وراثت سے محروم نھیں رکھا بلکہ اسلام میں عورت کا حق ہے اور ایک مقام ہے چونکہ فاطمہ زھرا(س)نے رسول اکرم(ص)کے دھن مبارک سے یہ فرماتے ھوئے سنا تھا :
"یا فاطمہ ان اللہ تعالیٰ امر نی ان ادفع الیک فدک … "اے ( میری بیٹی ) فاطمہ مجھے پروردگار عالم نے حکم دیا ہے کہ میں باغ فدک تمھیں بخش دوں ۔
اب دنیا وراثت کے سلسلہ میں چاھے کتنی ھی حدیثیں گڑھتی رھے ۔ فاطمہ زھرا (س) رسول (ص) سے اس قدر محبت و شفقت سے پیش آتی تھیں کہ رسول (ص) فرماتے نظر آئے : "فاطمة ام ابیھا " فاطمہ اپنے باپ کی ماں ہے رسول بے جب فاطمہ میں ماں والی شفقت دیکھی توماں کھہ دیا یا شاید اسی وجہ سے رسول (ص) فاطمہ کی تعظیم کیا کرتے تھے اب اعتراض کی گنجائش باقی نھیں رھتی چونکہ ماں کی تعظیم واجب ہے لیکن ھو سکتا ہے کہ یھاں ایک سوال سر اٹھائے کہ رسول نے فاطمہ کو ماں جو کھا ہے وہ مجاز کھا ہے حقیقت میں ماں تو نھیں بن گئیں ؟ بیٹی ھی رھیں گی اور بیٹی پر باپ کا احترام واجب ھوتا ہے نہ کہ باپ پر بیٹی کا اور یھاں منظر بالکل بر عکس نظر آرھا ہے اس جگہ پر آپ کا اعتراض بالکل صحیح ہے چونکہ منظر واقعاً بر عکس ہے تو سن لیجئے نہ تو رسول فاطمہ کی عزت بیٹی کی حیثیت سے کرتے تھے نہ ماں کھنے کی وجہ سے احترام کرتے تھے بلکہ رسالت تعظیم عصمت کے لئے کھڑی ھوتی تھی رسول اسلام فاطمہ(س)کی توصیف میں گویا ہیں ( کتاب بشارة المصطفیٰ ) اب کلام رسول کی توجیہ کسی بھی طرح کر لیجئے یا تو کھئے بیٹی تھیں اسی وجہ سے عزیز تھیں یا بمطابق قول رسول ماں کی حیثیت سے عزیز تھیں دوسری جگہ ارشاد فرمایا : فاطمہ کا غم و غصہ خدا کا غیظ و غضب ہے اور فاطمہ کی خوشی خوشنودی خدا ہے ۔( کتاب کنز العمال )
فاطمہ زھرا بحیثیت زوجہ :
فاطمہ زھرا (س) بیاہ کر علی مرتضیٰ کے بیت الشرف میں تشریف لے گئیں دوسرے روز رسول اکرم(ص) بیٹی اور داماد کی خیریت معلوم کرنے گئے ۔ علی (ع) سے سوال کیا یا علی تم نے فاطمہ کو کیسا پایا ؟ علی نے مسکراتے ھوئے جواب دیا ، یا رسول اللہ (ص) میں نے فاطمہ کو عبادت پروردگار میں بھترین معین و مددگار پایا۔ ( کتاب بحار الانوار ج٤٣ )
گویا علی یہ واضح کرنا چاھتے ہیں کہ زوجہ قابل تعریف وھی ہے جو اطاعت شوھر کے ساتھ ساتھ مطیع پروردگار بھی ھو شاعر نے اس بات کو ایسے نظم کیا ۔
حسن سیرت کے لئے خوبی سیرت ہے ضرور
گل و ھی گل ہے جو خوشبو بھی دے رنگت کے سوا
چونکہ حسن دائمی نھیں ھوتا عمل دائمی ھوتا ہے آخرت میں دنیا وی حسن کام آنے والا نھیں بلکہ نیک اعمال ساتھ دینگے ۔ علی سے جواب دریافت کرنے کے بعد رسول (ص) فاطمہ(س)کی طرف متوجہ ھوئے تو عجیب منظر نظر آیا ایک شب کی بیاہی بوسیدہ لباس پھنے بیٹھی ہے رسول نے سوال کیا بیٹی تمھارا لباس عروسی کیا ھوا بوسیدہ لباس کیوں پھن رکھا ہے ؟ فاطمہ(س) نے جواب دیا بابا میں نے آپ کے دھن مبارک سے یہ سنا ہے کہ راہ خدا میں عزیز ترین چیز قربان کرنی چاھئے بابا آج ایک سائل نے دروازہ پر آکر سوال کیا تھا مجھے سب سے زیادہ عزیز وھی لباس تھا بابا میں نے وہ لباس راہ خدا میں دیدیا ۔ فاطمہ(س) نے اپنے شیعوں کو درس دیا کہ خدا کو ھر حال میں یاد رکھنا چاھیئے اگر تمھارے پاس صرف دو لباس ہیں اور ان میں سے ایک زیادہ عزیز ہے تو اس لباس کو راہ خدا میں خیرات کر دو ۔
لاکھوں سلام ھو ھمارا اس شھزادی پر جس کا مھر ایک زرہ (جس کی ارزش پانچ سو درھم تھی ) اور ایک کتان کا بنا ھوا معمولی ترین لباس اور ایک رنگی ھوئی گوسفند کی کھال …… تھا ( وافی کتاب النکاح ) فاطمہ(س) کا یہ معمولی سا مھر خواتین عالم کو درس قناعت دے رھا ہے کہ جتنا بھی ملے اس پر شکر خدا کر کے راضی رھنا چاھئے یھی وجہ تھی کہ رسول اکرم (ص) فرمایا : میری امت کی بھترین خواتین وہ ہیں جن کا مھر کم ھو ( وافی کتاب النکاح )
مصحف ناطق امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرماتے ہیں : کسی خاتون کا مھر زیادہ ھونا باعث فضیلت نھیں قابل مذمت ہے بلکہ مھر کا کم ھونا باعث عزت و شرافت ہے ( وافی کتاب النکاح )
لیکن ھزار حیف امت رسول کو کیا ھوگیا ؟ بیٹی کے گھر والے یہ سوچ کر مھر زیادہ معین کرتے ہیں کہ مھر زیادہ رھے گا تو لڑکا اس کے وزن میں دبا رھے گا اور ھماری لڑکی طلاق سے محفوظ رھے گی اور جب مھر معین پر لڑکے سے معلوم کیا جاتا ہے کہ کیا تم اس مھر پر راضی ھو تو لڑکا یہ سوچ کر جواب اثبات میں سر ھلا دیتا ہے کہ دینا تو ہے ھی نھیں ھاں کرنے میں کیا جاتا ہے ۔
لیکن عزیزو ! مھر واجب الادا ھوتا ہے صرف سر ھلانے سے کام چلنے والا نھیں ہے بلکہ عمل کا جامہ پھنانا واجب و لازم ہے ۔ جس طرح فاطمہ(س) کا مختصر سا مھر تھا اسی طرح جھیز بھی مختصر سا تھا اس زمانہ ( حال حاضر ) کے اعتبار سے تو بھت ھی کم نظر آتا ہے ۔ یہ بات صحیح ہے کہ زمانے کے کچھ تقاضے ھوا کرتے ہیں وقت بھی کچھ اقتضا کرتا ہے لیکن … اساس شریعت اسلام عقل و شعور ہے کسی بھی حال میں عقل سلیم اس بات کے آگے سر تسلیم خم نھیں کرتی کہ اپنے دولت خانہ کو غریب خانہ بنا کر دوسرے کے گھر کو دولت کدہ بنا دیا جائے بلکہ زمانہ اور وقت چاھے کتنے ھی چیختے چلاتے رھیں عقل کا تقاضہ یہ ہے کہ خوش و خرم اپنی حیثیت کے مطابق لڑکی کو جھیز دیا جائے ھمارے معاشرہ میں مثال مشھور ہے پیر صرف اتنے پھیلانے چاھئیں جتنی وسیع چادر ھو اگر وسعت سے زیادہ پیر پھیلائیں گے تو اس کا نتیجہ واضح ہے ۔
فاطمہ ز ھرا (س) بحیثیت مادر :
چونکہ پروردگار عالم کا یہ مصمم ارادہ تھا کہ پیشوائے دین اور خلفائے رسول صدیقہ طاھرہ کی نسل سے ھوں اسی لئے آپ کی سب سے بڑی اور سخت ذمہ داری تربیت اولاد تھی ، تربیت اولادظاھر میں ایک مختصر سا جملہ ہے لیکن اس میں بھت مھم اور وسیع معنی مخفی ہیں ۔ تربیت صرف اسی کا نام نھیں ہے کہ اولاد کے لئے لوازم زندگی اور عیش و آرام فراھم کر دئے جائیں اور بس …… بلکہ یہ لفظ والدین کو ان کے ایک عظیم وظیفہ کا مسئول قرار دیتا ہے ۔ اسلامی نقطہ نگاہ سے اولاد کا کسی عھدہ پر فائز ھونا بھی تربیت والدین کا مرھون منت ہے فاطمہ اس بات سے بخوبی واقف تھیں کہ انھیں اماموں کی پرورش کرنی ہے ایسے بچوں کی پرورش کرنی ہے کہ اگر اسلام صلح و آشتی سے محفوذظ رھتا ہے تو صلح کریں اگر اسلام کی حفاظت جنگ کے ذریعہ ھو رھی ہے تو جھاد فی سبیل اللہ کے لئے قیام کریں چاھے ظھر سے عصر تک بھرا گھر اجڑ جائے لیکن اسلام پر آنچ نہ آئے اگر اسلام ان کے گھر انہ کے برھنہ سر ھونے سے محفوظ رھتا ہے تو سر کی چادر کو عزیز نہ سمجھیں عزیزو دوستو ! فاطمہ (س) ان کوتاہ فکر خواتین میں سے نھیں تھیں کہ جو گھر کے ماحول کو معمولی شمار کرتی ہیں بلکہ آپ گھر کے ماحول کو بھت بڑا اور حساس گردانتی تھیں آپ کے نزدیک دنیا کی سب سے بڑی درسگاہ آغوش مادر تھی اس کے بعد گھر کا ماحول اور صحن خانہ بچوں کے لئے عظیم مدرسہ تھا ، ایسا نہ ھو ھم خود کو ان کا شیعہ شمار کرتے رھیں لیکن ان کی سیرت سے دور دور تک تعلق نہ ھو ان کے احکام و فرامین پس پشت ڈالدیں۔
پروردگار ھمیں سیرت اھل بیت علیھم السلام پر عمل پیرا ھونے کی توفیق عنایت فرما ۔
آمین والسلام علیکم و رحمة اللہ و برکاتہ
(تحریر: سید غافر حسن رضوی چھولسی) 

Add comment


Security code
Refresh