www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

نہ صرف شیعہ مسلمانوں کے لۓ بلکہ اھل سنت بلکہ تمام آزاد ضمیر انسانوں کے لۓ مقدس ومحبوب اور قابل صد احترام ہے بنا بریں

 امام حسین علیہ السلام کی ذات والا صفات دشمنان اسلام کی تفرقہ انگيزسازشوں کے باوجود مسلمانوں کے درمیان محور اتحاد تالیف قلوب اور آپسی محبت کاسرچشمہ بن سکتی ہے ۔

حضرت امام حسین علیہ السلام کی ولادت باسعادت
حضرت امام حسین بن علی علیھما السلام مدینہ منورہ میں ھجرت کے چوتھے سال تیسری شعبان کو منگل یا بدہ کے روزپیدا ھوۓ بعض مورخین کے مطابق آپ کی ولادت ھجرت کے تیسرے سال ربیع الاول اور بعض کے مطابق ھجرت کے تیسرے یا چوتھے سال جمادی الاول کی پنجم کو ھوئي ہے بنابریں آپ کی تاریخ پیدائيش کے بارے میں مختلف اقوال ہیں لیکن قول مشھوریہ ہے کہ آپ تیسری شعبان ھجرت کے چوتھے سال میں پیدا ھوۓ۔
ولادت کے بعد آپ کوآپ کے جد بزرگوار رسول اکرم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے پاس لایا گياآپ کو دیکھ کر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسروروشادمان ھو‌ۓ آپ کے دائيں کان میں اذان کھی اور بائيں کان میں اقامت،اور ولادت کے ساتویں دن ایک گوسفند کی قربانی کرکے آپ کا عقیقہ کیا اور آپ کی والدہ جناب صدیقہ طاھرہ سلام اللہ علیھا سے فرمایا کہ "بچے کا سرمونڈہ کربالوں کے وزن کے برابر چاندی صدقہ دیدو"
حضرت امام حسین علیہ السلام نے چھ سال چند ماہ کا عرصہ اپنے جد امجد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زیر سایہ گزارا اور انتیس سال وگیارہ ماہ اپنے پدر بزرگوار امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام اور دس سال کا عرصہ اپنے برادربزرگوارحضرت امام حسن مجتبی(ع) کے ساتھ گزارا، امام حسن علیہ السلام کی شھادت کے بعد آپ کی امامت کی مدت دس برسوں پر مشتمل ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کا نام رکھا
روایات میں آیا ہےکہ سبطین علیھما السلام کے اسماء مبارکہ کا انتخاب خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے اور یہ نام خدا کے حکم سے رکھے گۓ ہیں۔
حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہےکہ آپ نے فرمایا جب حسن کی ولادت ھوئي تو میں نے اس کا نام اپنے عم محترم حمزہ کے نام پر رکھا اورجب حسین پیداھوۓ تو اس کانام اپنے دوسرے چچا جعفر کے نام پر رکھا ایک دن رسول اکرم(ص) نے مجھے طلب فرمایا اور کھا مجھےخدانے حکم دیا ہےکہ ان دونوں بچوں کے نام بدل دوں اور آج سے ان کے نام حسن وحسین ھونگے ۔
ایک اور رویت میں ہےکہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا میں نے اپنے بچوں حسن و حسین(ع) کے نام فرزندان ھارون کے ناموں پر رکھے ہیں اور وہ اپنے بچوں کو شبر وشبیرکہتے تھے اورمیں نے اپنے بچوں کا نام اسی معنی میں عربی میں حسن وحسین رکھا ہے
ولادت کے بعد خبر شھادت
اسماء بنت عمیس کھتی ہیں کہ جب حضرت امام حسین علیہ السلام کی ولادت ھوئي تو رسول اللہ تشریف لاۓ اور فرمایا اسماء میرے بیٹے کو میرے پاس لاؤمیں نے بچے کوسفید کپڑے میں لپیٹ کررسول اللہ(ص) کی گود میں دیا آپ نے بچے کے دائيں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کھی اور ایسے عالم میں جب آپ امام حسین علیہ السلام کو گود میں لۓ ھوۓ تھے گریہ بھی فرمارھے تھے۔
میں نے عرض کیا میرے ماں باپ آپ پرقربان آپ کے گریے کا کیا سبب ہے؟
آپ نے فرمایا اس بچے کے لۓ گریہ کررھاھوں
میں نے کھا یہ بچہ تو ابھی پیدا ھوا ہے پس گریہ کیسا؟
آپ نے فرمایا ھاں اسماء ایک سرکش گروہ اس کو قتل کرے گا خدانھیں میری شفاعت سے محروم کرے ،اس کے بعد آپ نے فرمایا یہ بات فاطمہ سے مت بتانا ابھی اس کے بچے کی ولادت ھوئي ہے ۔
ایک دن ام الفضل رسول اکرم(ص) کے چچا عباس کی زوجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پھونچيں اور کھا یا رسول اللہ(ص) میں نے گذشتہ شب بڑا براخواب دیکھا ہے میں نے دیکھا ہےکہ آپ کے بدن مبارک کا ایک ٹکڑا جدا ھوکر میرے دامن میں گرگيا ہے ،آپ نے فرمایا خیر ہے فاطمہ کے ھاں ایک بچہ ھوگا جس کی پرورش آپ کریں گي میں رسول اللہ کی خدمت میں پھونچی اور بچے کو آپ کی گود میں دیدیا جب دوبارہ میں آپ کی طرف متوجہ ھوئي تو دیکھتی ھوں کہ آپ کی آنکھوں سے اشک جاری ہیں۔
میں نے عرض کیا میرے ماں باپ آپ پر فداھوں آپ کس وجہ سے گریہ فرمارھے ہیں؟
آپ نے فرمایا ابھی ابھی جبرائيل آے تھے اور مجھے بتایا ہےکہ میری امت اس بچے کو قتل کردے گی ۔
صفین جاتے ھوۓ حضرت امیرالمومنین(ع) کا گزر کربلا سے ھوا آپ وھاں کچھ دیر کے لۓ رکے اور اس قدر گریہ کیا کہ زمین آپ کے آنسووں سے ترھوگئي،آپ نے فرمایا ایک دن ھم رسول اللہ کی خدمت میں پھنچے تو دیکھا آپ گریہ فرمارھے ہیں میں نے عرض کیا میرے ماں باپ آپ پرقربان آپ کیوں گریہ فرمارھے ہیں؟رسول اللہ نے فرمایا کہ ابھی ابھی جبرائيل آۓ تھے انھوں نے مجھے بتایا کہ میرابیٹا حسین دریاۓ فرات کے کنارے کربلاءنامی زمیں پر ماراجاۓ گا اور جبرئيل مجھے سنگھانے کے لۓ کربلا کی ایک مٹھی خاک لیکر آۓ تھے جسے دیکھ میں گريے پرضبط نہ کرسکا۔
اس کے بعد امیرالمومنین علی علیہ السلام نے فرمایا کہ یھیں ان کا پڑاو ھوگا یھاں ان کا خون بھایا جاۓ گا اور آل محمد کے بعض لوگ اس صحرا میں قتل کۓ جائيں گے جن کے حال پر زمیں و آسماں گریہ کریں گے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شباھت
متعدد روایات میں وارد ھوا ہےکہ حضرت امام حسین علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سب سے زیادہ شباھت رکھتے تھے اصحاب رسول اللہ نے اس بات کا ذکر امام حسین علیہ السلام کی صورت و سیرت کے سلسلے میں متعدد مرتبہ کیا ہے خاص طورسے آپ کی قامت رسول اسلام سے بھت زیادہ مشابھت رکھتی تھی اور جو بھی آپ کو دیکھتا اسے رسول خدا(ص) یاد آجاتے ۔
عاصم بن کلیب نے اپنے باپ سے نقل کیا ہےکہ ایک دن میں نے رسول اللہ کو خواب میں دیکھا اور اس خواب کی تعبیر ابن عباس سے دریافت کی کہ آیا یہ خواب صحیح ہے یا نھیں ابن عباس نے کہا جب تونے رسول اللہ کودیکھاتو کیاتمھیں امام حسین کا خیال نھیں آیا؟ میں نے کھا خدا کی قسم رسول اللہ(ص) کے قدم اٹھانے کا اندازاسی طرح تھا جس طرح حسین قدم اٹھاتے ہیں۔ اس وقت ابن عباس نے کھا کہ ھم نے ھمیشہ حسین کو رسول اللہ سے مشابہ پایا ہے ۔
انس بن مالک کھتے ہیں کہ میں عبیداللہ بن زیاد کے پاس تھا حسین ابن علی کے سرکو ایک طشت میں دربار میں لایا گيا ابن زیادنے چھڑی سے آپ کی ناک اور صورت کی طرف اشارہ کیا اور کھا میں نے اس سے اچھا چھرہ نھیں دیکھا ہے میں نے کھا اے ابن زیاد کیا تو نھیں جانتا کہ حسین ابن علی رسول اللہ سے سب سے زیادہ شباھت رکھتے تھے ۔

امام حسین علیہ السلام سے رسول خدا کی محبت
امام حسین علیہ السلام کی ذات مبارک کا ایک خوبصورت ترین اور ممتازپھلوآپ اور آپ کے بردار بزرگوار امام حسن علیہ السلام سے رسول اللہ کی شدید محبت اور بے انتھا توجہ ہے یہ امر اس قدر واضح اور عیان تھا کہ اھل سنت کی متعدد کتب حدیث و تاریخ میں اس کا ذکر ملتا ہے یھاں پر ھم اختصار سے بعض امور کا ذکر کررھے ہیں۔
حضرت امام حسین علیہ السلام سے محبت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے بعض اصحاب کے ساتھ کسی کے گھر دعوت پر تشریف لےجارھے تھے راستے میں امام حسین علیہ السلام کودیکھا آپ کھیل میں مشغول تھے رسول اللہ(ص) آگے بڑھے اور حسین کو گود میں لینا چاھا لیکن امام حسین علیہ السلام آپ کے ھاتھ نھیں آرھے تھے رسول اللہ(ص) بھی ھنستے ھوئے آپ کے پیچھے پیچھے آرھے تھے یھاں تک کہ آپ کو آغوش میں لے لیا اس کے بعد گردن پر ایک ھاتھ اور ٹھڈی کے نیچے ایک ھاتھ رکھ کر آپ کے لبوں پر بوسہ دیا اس کے بعد فرمایا "حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ھوں خدا اسے دوست رکھتاہے جو حسین کو دوست رکھتا ہے ۔
زید بن حارثہ نقل کرتے ہیں کہ میں کسی کام سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پھنچنا چاھتا تھا رات میں بیت الشرف گيا اور دق الباب کیا،رسول اللہ(ص) نے دروازہ کھولا میں نے دیکھا آپ کی عبامیں کچھ ہے آپ باھر تشریف لاۓ میں نے اپنے کام کے بجاۓ یہ پوچھا کہ اے رسول اللہ آپ کی عبامیں کیا ہے؟
آپ نے اپنی عبا ہٹائي اور حسن و حسین کو جو آپ کی گود میں تھے مجھے دکھایا اور فرمایا یہ میرے بچے اور میری بیٹی کے بچے ہیں اس وقت آسمان کی طرف دیکھا اور فرمایا خدا یا توجانتا ہے میں انھیں دوست رکھتاھوں تو بھی انھیں دوست رکھ اور ان سے محبت کرنے والوں کو دوست رکھ ۔
سلمان فارسی نے حسنین علیھما السلام سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کے بارے میں نقل کیا ہےکہ رسول اللہ نے فرمایا "من احبھما احببتہ ومن احببتہ احبہ اللہ ومن احبہ اللہ ادخلہ جنات النعیم و من ابغضھمااوبغی علیھما ابغضتہ ومن ابغضتہ ابغضہ اللہ ومن ابغضہ اللہ ادخلہ نارجھنم ولہ عذاب مقیم "
جو میرے بیٹوں حسن وحسین سے محبت کرے گا میں اسے دوست رکھوں گا اور میں جسے دوست رکھوں خدا اسے دوست رکھے گا اور خدا جسے دوست رکھے اسے نعمتوں سے سرشار بھشت میں داخل کرے گا لیکن جو ان دونوں سے دشمنی رکھے گا اوران پر ستم کرےگا میں اس سے دشمنی کرونگا اور جس کامیں دشمن ھوں خدا اس کا دشمن ہے اور جس کا خدا دشمن ہے خدا اسے جھنم میں ڈال دے گا اور اس کے لۓ ھمیشہ کے لۓ عذاب ہے ۔
اھل بیت(ع) اور امام حسین علیھم السلام سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کورشتہ داری کی بنا پر محض ایک جذباتی لگاؤنھیں کھا جاسکتا بلکہ اھل سنت کی کتب میں منقول روایات کے مضامین پر توجہ کرنے سےواضح ھوتاہے کہ رسول اللہ(ص) جنھیں اسلامی معاشرہ کے مستقبل کا علم تھا اس طرح حق و باطل میں امتیازکرنا چاھتے تھے درحقیقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ان احادیث سے راہ حق کے پیرووں کومستقبل میں اھل بیت علیھم السلام کے خلاف ھونے والی عداوتوں اوردشمنیوں سے آگاہ کردیا تھاان روایات کے علاوہ دیگر روایات میں رسول خدا (ص)نے اھل بیت(ع) سے جنگ کو اپنے خلاف جنگ سے تعبیرفرمایا ہے۔

اہل سنت کے ممتازعلماءنے زید بن ارقم اورابو ھریرہ سے اور دیگر افراد سے نقل کیا ہے کہ وصال کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی و فاطمہ و حسن و حسین علیھم السلام سے فرمایا کہ" انی حرب لمن حاربکم وسلم لمن سالمکم" میں اس کے خلاف جنگ کرونگا جو تمھارے خلاف جنگ کرے گا اور اس سے دوستی کرونگا جو تم سے دوستی کرے گا ۔
براء بن عازب نے روایت کی ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امام حسین علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہےکہ "یہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ھوں اور جو چیزیں مجھ پر حرام ہیں حسین پر بھی حرام ہیں ۔
امام حسین علیہ السلام سے جبرئیل کی محبت
روایات میں آیا ہے کہ ایک دن حسن و حسین علیھماالسلام رسول اللہ(ص) کے سامنے کشتی لڑرھے تھے اور رسول اللہ(ص) امام حسن(ع) کی حوصلہ افزائي فرمارھے تھے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھما نے کھا بابا آپ حسن کا حوصلہ بڑھارھے ہیں جبکہ وہ بڑے ہیں۔آپ نے فرمایا: جبرئيل بھی یہ کھیل دیکھ رھے ہیں اور حسین کا حوصلہ بڑھارھے ہیں اورمیں حسن کا۔
امام حسین علیہ السلام سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت
امام حسین(ع) اور آپ کے برادر بزرگوار امام حسن علیھماالسلام سے رسول اللہ(ص) کی محبت زبانزد خاص وعام ہے جو روایات پیش کی گئي ہیں ان کے علاوہ ایسی بھت سی حکایات ہیں جن سے حسنین علیھماالسلام کے لۓ رسول اللہ(ص) کی محبت کا اندازہ ھوتاہے ۔
روایت ہے کہ نمازجماعت کے موقع پربچپن میں کبھی کبھی حسن و حسین علیھماالسلام اپنے جد بزرگوار کے پاس آتے تھے اور جب آپ سجدہ میں جاتے تھے تو آپ کی پیٹھ پرسوار ھوجاتے بعض اصحاب بچوں کو رسول اللہ کی پیٹھ پرسے ھٹانے کی کوشش کرتے تھے لیکن آپ اشارے سے منع فرماتے اور خود بڑے پیار سے دونوں کے ھاتھ تھام کر انھیں نیچے لاتے اور اپنے زانووں پر بٹھالیتے ۔
ایک دن رسول اللہ نے معمول کے برخلاف سجدہ کو طول دیا نمازتمام ھونے کے بعد نمازیوں نے آپ سے استفسار کیا کہ آج آپ نے سجدہ کو خاصہ طول دیا کیا آپ پر وحی نازل ہوئي تھی اور کوئي نیا حکم آیا ہے؟آپ نے فرمایا ایسی بات نھیں ہے میرابیٹا حسین میرے کندھے پر بیٹھا ھواتھا میں نے سجدہ کوطول دیا تاکہ وہ خود اترآے اور میں نے خود اسے کند ھے پرسے اتارنا نھیں چاھا۔
عمرابن خطاب سے روایت ہےکہ ایک دن میں نے دیکھا کہ رسول اللہ(ص) کے شانوں پر حسن و حسین بیٹھے ھوۓ ہیں میں نے ان کی طرف دیکھا اور کھا کتنی اچھی سواری ہے۔ پیغمبر نے فرمایا کتنے اچھے سوار ہیں۔
امام حسین علیہ السلام کا گریہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک دن حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کے گھر کے قریب سے گزررھے تھے آپ کوحسین کے رونے کی آوازسنائي دی آپ نے فرمایا بیٹی حسین کو چپ کروکیا تم نھیں جانتیں کہ اس بچہ کے رونے سے مجھے تکلیف ھوتی ہے ۔
امام حسین علیہ السلام سب سے بھتر
حذیفہ یمان روایت کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسے عالم میں مسجد میں داخل ھوۓ کہ امام حسین علیہ السلام آپ کے شانے پر بیٹھے ھوۓ تھے اور آپ امام حسین علیہ السلام کے پیروں کو اپنے سینے پر دبارھے تھے،آپ نے فرمایا میں جانتاھوں آپ لوگ کس مسئلے کے بارے میں اختلاف کا شکار ہیں (آپ کی مراد آپ کے بعد بھترین افراد سے تھی )یہ حسین ابن علی ہیں جن کی دادی بھترین دادی ہیں ان کے جد محمد رسول اللہ سید المرسلین ہیں ان کی نانی خدیجۃ بنت خویلد وہ پھلی خاتوں ہیں جوخدا اوراس کے رسول پر ایمان لائي تھیں،یہ حسین ابن علی ہیں جن کے والدین بھترین والدین ہیں ان کے والد علی ابن ابیطالب ہیں جو رسول خدا(ص) کے بھائي وزیر اور چچازاد بھائي ہیں اوروہ پھلے شخص ہیں جو خدا اوراس کے رسول پر ایمان لاے تھے ،اور ان کی والدہ فاطمہ بنت محمد سیدۃ النساء العالمین ہیں۔یہ حسین ابن علی ہیں جن کے چچااور پھوپھی بھترین چچااور پھوپھی ہیں ان کے چچا جعفر ابن ابیطالب ہیں جنھیں خدا نے دوپرعطاکۓ ہیں جن سے وہ جنت میں جھاں چاھتے ہیں پروازکرکے جاسکتے ہیں۔ان کی پھوپھی ام ھانی بنت ابی طالب ہیں۔یہ حسین ابن علی ہیں جن کے ماموں اور خالہ بھترین ماموں اور خالہ ہیں۔ان کے ماموں قاسم ابن رسول اللہ(ص) ہیں اور خالہ زینب بنت رسول اللہ(ص) ہیں۔اس کے بعد رسول اللہ(ص) نے حسین کو اپنے شانے سے نیچے اتارا اور فرمایا اے لوگو یہ حسین ہے جس کے دادا اور دادی بھشت میں ہیں اس کے ماموں اور خالہ بھشت میں ہیں اور یہ بھی اوراس کا بھائي بھی بھشتی ہیں۔
امام حسین علیہ السلام کے فضائل ومناقب
امام حسین علیہ السلام کے فضائل اس قدر زیادہ ہیں کہ انھیں ایک یا چند کتابوں میں جمع نھیں کیا جاسکتا بنابریں ھم یھاں پر نھایت اختصار سے چند فضائل بیان کرنے پر ھی اکتفاکریں گے۔یھاں اس بات کا ذکر کرنا بھی ضروری ہےکہ مندرجہ ذیل ھرفضیلت کے بارے میں برادران اھل سنت نے دسیوں حدیثیں نقل کی ہیں۔
۱۔ امام حسین علیہ السلام جنت کے جوانون کے سردار ہیں
امام علی علیہ السلام نے رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا "الحسن والحسین سیداشباب اھل الجنۃ "۔یعنی حسن و حسین جنت کے جوانون کے سردار ہیں۔
ابن عباس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کی ہےکہ" الحسن و الحسین سیدا شباب اھل الجنۃ من احبھما فقد احبنی ومن ابغضھما فقد ابغضنی" ۔
حسن وحسین جنت کے جوانوں کے سردار ہیں جو ان سےمحبت کرےگا اس نے مجھ سے محبت کی اور جوان سے بغض رکھے گا اس نے مجھ سے بغض رکھا۔
اسی روایت کو عمرابن خطاب اور ان کے بیٹے عبداللہ بن عمرنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کیا ہے۔
رسول اللہ کے معروف صحابی حذیفہ بن یمان روایت کرتے ہیں کہ ایک شب میں رسول اللہ کی خدمت میں گیا اور آپ کے پیچھے مغرب کی نمازپڑھی حضرت اٹھے اور نمازمیں مشغول ہوگۓ یہانتک کے عشاء کاوقت ہوگيانمازعشاءبھی آپ کی امامت میں اداکی،پھرانتظارکرنے لگا رسول اللہ مسجد سے باھر تشریف لے جانے لگے تاکہ اپنے گھر کی طرف روانہ ہوں میں بھی آپ کے پیچھے چل پڑا میں نے دیکھا آپ کسی سے گفتگو فرمارہے ہیں تاہم یہ نہ سمجھ سکا کہ آپ کیا فرمارہے ہیں آپ نے اچانک پیچھے مڑکردیکھا اور فرمایا کون ھو،میں نے کہا حذیفہ ھوں۔
آپ نے فرمایا تم سمجھے میں کس سے بات کررھاتھا؟
میں نے کھا جی نھیں
آپ نے فرمایا جبرئيل امین تھے انھوں نے خدا کا سلام پھنچانے کے بعد مجھے بشارت دی کہ فاطمہ (س)جنت کی عورتوں کی سردار اور حسن و حسین جنت کے جوانوں کے سردارہیں۔
میں نے عرض کیا یا رسول اللہ(ص) میرے لۓ اور میری والدہ کے لۓ استغفار فرمائيں۔
آپ نے فرمایا خدا تمھاری اور تمھاری ماں کی مغفرت کرے۔
جابرابن عبداللہ انصاری نے رسول اللہ(ص) سےروایت کی ہے کہ ایک دن ھم رسول اللہ(ص) کے ساتھ مسجد میں بیٹھے ہوۓ تھے اتنے میں حسین مسجد میں داخل ہوتے ہیں آپ نے ہمیں مخاطب کرکے فرمایا :"من اراد ان ینظر الی سید شباب اھل الجنۃ فلینظر الی حسین ابن علی "۔
جو جنت کے سردار کو دیکھنا چاھتاھووہ حسین ابن علی کودیکھے ۔
۲۔ امام حسین علیہ السلام باب بھشت ہیں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اے لوگو میرے ذریعے تمھیں دین حق سے آگاھی حاصل ھوئي اور علی کے ذریعے تمھیں صحیح راہ ملی اور تمھاری ھدایت ھوئي۔حسن کے وسیلہ سے تمھیں نیکیاں عطاھوئيں لیکن تمھاری سعادت وشقاوت حسین کے ساتھ تمھارے رویے پر منحصر ہے آگاہ ھوجاؤکے حسین جنت کا ایک دروازہ ہے جو بھی اس سے دشمنی کرے گا خدا اس پر جنت کی خوشبو حرام کردیے گا۔
۳۔امام حسین علیہ السلام اور آیۃ تطھیر
رسول اللہ(ص) کی زوجہ باوفاام سلمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سے نقل کرتی ہیں کہ ایک دن فاطمہ زھراسلام اللہ علیھا رسول اللہ(ص) کے لۓ غذا لے کرآئيں اس دن رسول اللہ میرے گھر میں تشریف رکھتے تھے رسول اللہ(ص) نے اپنی بیٹی کی تعظیم کی اور فرمایا جاؤ میرے چچازاد بھائي علی اور میرے بچوں حسن و حسین کو بھی بلالاؤتاکہ ھم مل کرکھانا کھائيں کچھ دیر بعدعلی و فاطمہ حسنین کا ھاتھ تھامے ھوۓ رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ھوۓ اسی وقت جبرئيل آیۃ تطھیر لے کر نازل ھوۓ اور کھا:" انمایریداللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ویطھرکم تطھیرا"(احزاب 33 )۔
اے پیغمبر کے اھل بیت خدا تو بس یہ چاھتاہے کہ تم کوھر طرح کی برائي سے دور رکھے اور جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے ویساپاک و پاکیزہ رکھے۔
ام سلمہ کھتی ہیں کہ رسول اللہ(ص) نے مجھ سے فرمایا کساءخیبری لے آو(یہ ایک بڑی عباتھی)رسول اللہ(ص) نے علی کو اپنے داھنے طرف زھراکو بائيں طرف اور حسن و حسین کو زانووں پر بٹھایا اور یہ عباسب پرڈال دی اپنے بائيں ھاتھ سے عباکو سختی سے تھاما اور سیدھا ھاتھ آسمان کی طرف اٹھاکر تین بار فرمایا :"اللھم ھؤلاء اھل بیتی و حامتی اللھم اذھب عنھم الرجس وطھر ھم تطھیرا انا حرب لمن حاربتم وسلم لمن سالمتم و عدولمن عاداکم "۔خدا یا یہ میرے اھل بیت اور میرا خاندان ہے جیسا کہ تونے وعدہ کیا ہے ان سے ھرطرح کی برائي کودور رکھ اور انھیں معصوم و پاک رکھ میں اس کے ساتھ جنگ کروں گا جو ان کے ساتھ جنگ کرے اور اس سے میری صلح ہے جو ان سے صلح رکھے اوردشمن ھوں اس کا جوان سے عداوت رکھے ۔
یہ روایت مختلف کتب احادیث میں مختلف طریقوں سے نقل ھوئي ہے اور اس پر شیعہ و اھل سنت کا اتفاق ہے اس اتفاق سے واضح ھوتاہے کہ امام حسین علیہ السلام آيت تطھیر کا ایک مصداق ہیں۔مختلف روایات و قرائن سے ثابت ھوتاہےکہ آیت تطھیر کے نزول کے وقت صرف یھی پانچ افراد کے علاوہ کوئي اور شامل آيۃ تطھیر نھیں تھا اسی بنا پر ان حضرات کو اصحاب کساء کھا جاتاہے اورامام حسین علیہ السلام کو خامس اصحاب کساءکا لقب دیا گیا ہے۔
اھل سنت کے بزرگ محدثین احمد بن حنبل اور ترمذی نے اپنی کتابوں سنن اور مسند میں نقل کیا ہے کہ آيت تطھیر کے نازل ھونے کےبعد چھے مھینوں تک رسول اللہ(ص) ھرروزجب نمازصبح کے لۓ تشریف لے جاتے تھے علی و فاطمہ علیھماالسلام کے دروازے کے پاس رک کر بلند آوازمیں فرمایا کرتے تھے کہ" الصلواۃ یا اھل بیت محمد انمایرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ویطھر کم تطھیرا"۔
۴۔ امام حسین علیہ السلام اور آيہ مباھلہ
شیعہ اور سنی علماء اس بات پر اتفاق نظر رکھتے ہیں کہ نصاری نجران سے سے مباھلہ کے وقت رسول اللہ(ص) نے علی و فاطمہ حسن و حسین علیھم السلام کو اپنے ساتھ لیا اور انھیں آیۃ شریفہ کے الفاظ "ابنائنا ونسائنا و انفسنا" کا مصداق قراردیا یہ امر اس قدر مشھورومسلم ہے کہ اھل سنت کے بزرگ عالم دین حاکم نیشاربوری نے اپنی کتاب معرفت الحدیث میں اس واقعےکو متوارترروایات کا مصداق قراردیا ہے ۔
۵۔امام حسین علیہ السلام وارث علم پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ابن عباس کے شاگردرشید عکرمہ نقل کرتے ہیں کہ ایک دن ابن عباس مسجد میں لوگوں کو حدیثیں سنارھے تھے کہ نافع بن ازرق اٹھااور کھنے لگا اے ابن عباس کیا تم کیڑے مکوڑوں کے احکام سے لوگوں کے لۓ فتوے صادر کرتے ھو؟اگرتم صاحب علم ھوتو مجھے اس خدا کے بارے میں بتاؤجسکی تم پرستش کرتے ھوابن عباس نے یہ سن کر سرجھکالیا اور خاموش ھوگۓ،امام حسین علیہ السلام مسجد کے ایک گوشہ میں بیٹھے ھوۓ تھے آپ نے رافع سے مخاطب ھوکرفرمایا اے نافع میرے پاس آؤتاکہ میں تمھارے سوال کا جواب دے سکوں ۔
نافع نے کھا میں نے توآپ سے سوال نھیں پوچھا تھا۔
ابن عباس نے کھا:" یابن الازرق انہ من اھل البیت النبوہ وھم ورثۃ العلم"
اے ابن ازرق حسین اھل بیت نبوت میں سے ہیں اور اھل بیت علم کے وارث ہیں۔
نافع امام کے پاس گیا آپ نے اس کا تسلی بخش جواب دیا
نافع نے کھا اے حسین آپ کا کلام پرمغزاور فصیح ہے
امام نے فرمایا: میں نے سنا ہے تم میرے والد اور بھائی پر کفرکا الزام لگاتے ھو؟
نافع نے کھا: خدا کی قسم میں نے جوآپ کی باتیں سنیں تو مجھے یقین ھوگیا کہ آپ ھی نوراسلام کا سرچشمہ اور احکام کا منبع ہیں۔
امام نے فرمایا: میں تجھ سے ایک سوال کرتاھوں
نافع نے کھا: پوچھیے یابن رسول اللہ(ص)
آپ نے فرمایا :کیاتونے یہ آیت" فامالجدار فکان لغلامین یتیمین فی المدینہ" پڑھی ہے؟اے نافع کس نے ان دویتیم بچوں کے لۓ دیوارکے نیچے خزانہ چھپارکھا تھا تاکہ ان کو وارثت میں مل سکے؟
نافع نے کھا: ان کے باپ نے
امام نے فرمایا: سچ بتاؤکیا ان کا باپ زیادہ مھربان ہے یااپنی امت کے لۓ رسول اللہ (ص)زیادہ مھربان ہیں؟کیا یہ کھا جاسکتاہے کہ رسول اللہ(ص) نے اپنے بچوں کے لۓ علم نھیں چھوڑاہے اورھمیں اس سے محروم رکھا ہے؟
۶۔ ریحانۃ الرسول
جابرابن عبداللہ انصاری کھتے ہیں کہ ایک دن ھم رسول اللہ(ص) کے حضور بیٹھے ھوۓ تھے کہ علی علیہ السلام تشریف لاتے ہیں اس وقت رسول اللہ(ص) نے حضرت علی(ع) کی طرف رخ کرکے فرمایا:" السلام علیک یا ابالریحانتین اوصیک بریحانتی من الدنیا خیرافعن قلیل ینھدم رکناک واللہ عزوجل خلیفتی علیک" ۔
جابر کا کھنا ہےکہ جب رسول اللہ (ص)کا وصال ھواتو حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا یہ ایک رکن تھا جس کے بارے میں رسول اللہ(ص) نے فرمایا تھا اور جس وقت جناب فاطمہ(س) نے وفات پائي تو آپ نے فرمایا یہ دوسرارکن تھا جسکے بارے میں رسول اللہ(ص) نے فرمایا تھا۔
اسی سلسلے میں ایک روایت عبداللہ ابن عمرابن خطاب سے نقل ھوئي ہے جو واقعہ عاشورہ کے بعد امام حسین(ع) سے متعلق ہے ابن نعیم نقل کرتاہے کہ ایک دن ھم عبداللہ ابن عمر کے پاس بیٹھے ھوۓ تھے ایک شخص آیا اور اس نے مچھر کے خون کے بارےمیں سوال کیا کہ اگر مچھر کا خون نمازی کے لباس پرلگا ھوتو اسکی نمازصحیح ہے یا نھیں؟
عبداللہ نے پوچھا کھاں سے آے ھواور کھاں کے رھنے والے ھو؟
سائل نے کھا:عراق کا رھنےوالاھوں
عبداللہ نے کھا : اس شخص کو دیکھوکہ مچھر کے خون کے بارے میں سوال کررھا ہے جبکہ انھوں نے رسول خدا(ص) کے بیٹے کو قتل کیا اور خاموشی بھی اختیارکی میں نے رسول اللہ(ص) سے سنا ہےکہ آپ نے فرمایا کہ حسن و حسین علیھما السلام اس دنیا میں میرے دوپھول ہیں۔
۷۔ سخاوت و تواضع
ایک دن حضرت امام حسین علیہ السلام نے دیکھا کہ کئي بچے ملکر روٹی کا ایک ٹکڑا مل بانٹ کرکھارہے ہیں ان بچوں نے امام سے بھی درخواست کی کہ آپ بھی اس روٹی میں سے تناول فرمائيں آپ نے بچوں کی بات مان لی اور ان کی روٹی کے ٹکڑے میں سے تناول فرمایا اس کے بعد ان سب کو اپنے گھر لے کرآے انھیں کھانا کھلایا اور نۓ کپڑے پھنائے اس کے بعد آپ نے فرمایا یہ مجھ سے زیادہ سخی ہیں کیونکہ انھوں نے اپنے داروندار کی بخشش کردی تھی لیکن میں نے اپنے مال میں سے کچھ حصہ انھیں دیا ہے ۔
۸۔ جودو شجاعت
زینب بنت ابورافع نقل کرتی ہیں کہ رسول اللہ(ص) کی وفات کے بعد حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا سخت رنجور ومتالم تھیں اور ھروقت گریہ و زاری کیا کرتی تھیں ایک دن آپ نے حسن وحسین علیھما السلام کا ھاتھ تھاما اور اپنے باباکی قبر پر آئيں اور شدید گریہ کیا آپ نے عرض کیا اے بابا ان بچوں کے لۓ وارثت میں کیا چھوڑگۓ ہیں؟
قبر رسول اللہ(ص) سے صدا آئي میں نے حسن کے لۓ اپنی ھیئبت اور حسین کے لۓ جرات و جود چھوڑا ہے ۔یہ سن کر شھزادی کونین(س) نے کھا بابا میں اس عطا پر راضی اور خوش ھوں ۔
۹۔ امام حسین علیہ السلام کا حج
امام حسین علیہ السلام نے اپنی حیات طیبہ میں پچیس مرتبہ پیادہ حج کیا ہے جب کہ آپ کے ھمراہ عربی نسل کے گھوڑے بغیر سوارکےھواکرتے تھے
امام حسین علیہ السلام کافی وسائل و ذرایع کے حامل تھے اور ان سے استفادہ بھی کرسکتے تھے لیکن آپ نے بندگي اور خضوع وخشوع کے تقاضوں کے مطابق پیادہ سفر حج کیا
بغیر سوار کے گھوڑوں کا اپنے ساتھ رکھنے کے دواسباب ھوسکتے ہیں ایک یہ کہ آپ واپسی میں ان سے استفادہ کرتے تھے اور دوسرا یہ کہ نوکروں اور خادموں کی طرح سفرکرنا نھایت بندگي ہے ۔
مسجد مدینہ میں امام حسین علیہ السلام کو سجدہ میں خدا سے یہ مناجات کرتے سنا گیا "پروردگار اگر مجھ سے میرےگناھوں کی بناپربازخواست کرے گا تو میں تیرے کرم کا دامن تھام لوں گا اور اگر مجھے خطاکاروں کے ساتھ شامل کردےگا تو ان سے کھوں گا کہ میں تجھ سے محبت کرتاھوں میرے مولا میری اطاعت تجھے کوئي فائدہ نھیں پھنچاتی اور نہ میری معصیت تجھے کوئي نقصان پھنچاسکتی ہے پس وہ چيز جوتجھے نفع نھیں پھنچاسکتی اگر میں اسے بجانہ لایا ھوں اسے معاف فرما اور وہ چیزجوتجھے نقصان نھیں پھنچاسکتی اگر اس کا مرتکب ھواھوں تو درگذرفرما کہ تو ارحم الراحمین ہے ۔
منابع و ماخذ:
تاریخ دمشق
صحیح بخاری
مقتل خوارزمی
فرائد السمطین
طبقات ابن سعد
تاریخ ابن عساکر
سنن ترمذی
اسداالغابہ
مستدرک حاکم نیشاپوری
کنزالعمال
تفسیرجامع البیان
حلیۃ الاولیاءابونعیم اصفھانی  

Add comment


Security code
Refresh