www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

806232
حضرت امام علی نقی علیہ السلام سن 212 ھ کو اس دنیا تشریف لاتے ہیں۔ 8 سال کی عمر مبارک میں سن 220 ھ میں والد گرامی امام محمد تقی علیہ السلام کی شھادت ھوتی ہے۔ تقریباً 22 سال تک مدینہ منورہ میں زندگی بسر کرتے ہیں اور 233 ھ میں متوکل عباسی اجباراً مدینہ سے سامرا بلاتا ہے۔ 6 عباسی خلفاء معتصم، واثق، متوکل، منتصر، مستعین اور معتز جیسے ظالم حکمرانوں کے ظلم و ستم سے گزرنے کے بعد، معتز ھی کے زمانے میں اسی کے ظالمانہ حکم سے رجب 254 ھ میں 42 یا 43 سال کی عمر میں درجہ شھادت پر فائز ھوتے ہیں۔
عباسی حکومت کے مظالم
عباسی حکومت کے زمانے میں مسلمانوں کی سلطنت میں بھت اضافہ ھوا، علوم میں بھت ترقی ھوئی، مسلمانوں کا چرچا تھا، مسلمانوں کی ایک ھیبت تھی، دبدبہ تھا، رشد اور ترقی ھو رھی تھی، لیکن یہ سب کچھ طاغوت، ظالم اور استعمار و استکبار کی خدمت میں تھا۔ شیطان کی خدمت میں تھا۔ جس کی دلیل یہ ہے کہ سب کچھ ھونے کے باوجود پاک ترین انسان، تقویٰ کی انتھا پر پھنچے ھوئے افراد، عالم ترین بندگان خدا بلکہ واضح طور پر جن کو اللہ اور اس کے رسول (ص) نے امت کا حاکم اور حکمران بنایا، ان کو پابند سلاسل کر دیا جاتا ہے یا ایک ایسی فضا ان کے لئے بنا دی جاتی ہے کہ ان کا نور ولایت مستقیم طور پر لوگوں تک نہ پھنچ سکے۔
امام موسٰی کاظم علیہ السلام ھوں یا امام رضا علیہ السلام ، امام محمد تقی علیہ السلام ھوں یا امام علی نقی علیہ السلام یا حتٰی امام حسن عسکری علیہ السلام یا حتٰی امام زمان (عج)، ان کی سیرت کا مطالعہ کریں، کس قدر ان الٰھی نمائندوں پر ظلم کیا گیا، کیوں ان کو لوگوں سے اور لوگوں کو ان سے دور رکھا گیا؟ بنو امیہ کی حکومت میں کیوں نام علی پر پابندی لگائی گئی، ذکر علی پر پابندی لگائی، امام باقر و امام صادق علیھما السلام کے مقابلے میں اور لوگوں کو بطور عالم مشھور کیا گیا۔
مر گئے مردود نہ فاتحہ نہ درود
سب سرمایہ، سب بیت المال، فتوحات کا سب کچھ و مال غنیمت ظالم ھارون الرشید، مامون، معتصم، واثق، متوکل، منتصر، مستعین اور معتز جیسے ظالم حکمرانوں پر خرچ ھو رھا تھا۔ علم و درباری علماء، درباری محدثین، درباری مفتی ان ظالم حکمرانوں کی تعریف اور خدمت میں تھے۔ حق اور آل محمد سے لوگوں کو دور کرنے پر لگے ھوے تھے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایسا ھوا؟ آج کھاں ہے ھارون؟ کیا اس کی قبر پر کوئی آنے والا ہے؟ مامون کھاں ہے؟ متوکل بد بخت کھاں ہے؟ معتصم کھاں ہے؟ مر گئے مردود نہ فاتحہ نہ درود۔
جبکہ آج کروڑوں انسانوں کے دلوں کا مرکز و محور حرم امام رضا، حرم امام علی، حرم امام حسین، حرم امام موسٰی کاظم، حرم امام محمد تقی، حرم امام علی نقی اور حرم امام حسن عسکری علیھم السلام ہیں۔
ایسا نظام جس کی باگ ڈور شیطان صفت افراد کے ھاتھ میں ھو، حکومت حق کی نہ ھو بلکہ شیطان کی ھو، تو یہ نظام اس طوفان اور سیلاب کی مانند ھوتا ہے، جو اپنے ساتھ ھر چیز کو بھا کر لے جاتا ہے۔ اس طوفانی سیلاب کی مخالف سمت میں اگر کویی انسان حرکت کرنا چاھے تو کیا ایسا کر سکتا ہے؟
اگر حرکت کرنی شروع بھی کرے تو کس قدر حرکت کرے گا؟ کیا ایسا نھیں ہے کہ اگر یہ سیدھا بھی کھڑا ھونا چاھے تو کھڑا نھیں ھوسکے گا۔ طاغوتی اور شیطانی نطام میں انسان کا الٰھی، مخلص اور کامل بننا تو کجا، ایک سادہ مسلمان رھنا بھی مشکل ھو جاتا ہے۔ ریاکاری، خوشامد، بزدلی، کم ھمتی و مایوسی جیسی مشکلات میں غرق ھو کر انسان طاغوت، ظالم بادشاھوں اور سفاک حکمرانوں کی خدمت میں ھی اپنی نجات سمجھتا ہے، جو اسے بھی اپنے ساتھ جھنم کا ایندھن بنا دیتے ہیں۔
امام علی نقی علیہ السلام اور جنیدی نامی عالم
ایسے نظام کے ھوتے ھوئے بھی اس سورج کی طرح جو بادلوں میں چھپ جانے کے باوجود اپنی روشنی سے عالم کو منور کرتا ہے، خورشید امامت یعنی امام معصوم بھی ظلم و ستم کے بادلوں کے باوجود، پورے عالم اور بالخصوص تشنگان حقیقت کو اپنے نور ھدایت سے منور فرما رھا ھوتا ہے۔
امام محمد تقی علیہ السلام کی شھادت کے بعد چونکہ امام علی نقی علیہ السلام کی عمر مبارک 6 سال یا 8 سال ہے۔ معتصم نے اپنے ایک قریبی شخص کو بغداد سے مدینہ جنیدی نامی عالم دین کے پاس بھیجا، جو دشمن اھلبیت تھا۔ اس سے کھا کہ مجھے یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ تمھیں اس بچے کا استاد مقرر کروں، تاکہ تم اس کی ویسی پرورش کرو، جیسی ھم چاھتے ہیں۔
حضرت امام علی نقی علیہ السلام کی عمر چھ سال تھی اور معاملہ حکومت کا تھا، کون اس کے سامنے کھڑا ھوسکتا تھا۔ کچھ دنوں کے بعد دربار خلافت سے وابستہ ایک شخص نے الجنیدی سے ملاقات کی اور اس سے اس بچے کے بارے میں پوچھا، جسے اس کے حوالے کیا گيا تھا۔ الجنیدی نے کھا: بچہ؟! یہ بچہ ہے؟! میں ادبیات کی کوئی بات اسے بتانا چاھتا ھوں تو وہ ادب کے ایسے ایسے گوشے میرے سامنے کھول دیتا ہے کہ جن کا مجھے بھی علم نھیں ھوتا! ان لوگوں نے کھاں تعلیم حاصل کی ہے؟! کبھی کبھی جب وہ حجرے میں داخل ھونا چاھتا ہے تو میں اس سے کھتا ھوں کہ پھلے قرآن مجید کے ایک سورہ کی تلاوت کرو اور پھر حجرے میں داخل ھو، تو وہ پوچھتا ہے کہ کون سا سورہ پڑھوں؟ میں اس سے کھتا ھوں کہ کوئی بڑا سورہ؛ جیسے سورہ آل عمران پڑھو۔ وہ بچہ پوری سورۃ پڑھتا ہے اور اس کے مشکل الفاظ کے معنی بھی مجھے بتاتا ہے۔ یہ لوگ عالم ہیں، حافظ قرآن ہیں، قرآن مجید کی تاویل اور تفسیر کے عالم ہیں اور تم کہہ رھے ھو بچہ؟! اس بچے کا، جو بظاھر بچہ ہے لیکن ولی اللہ ہے؛ ((وآتیناه الحکم صبیا)) - استاد سے رابطہ کچھ عرصے تک جاری رھا اور استاد، اھلبیت علیھم السلام کا سچا شیعہ بن گیا۔
امام علی نقی کو سامرا بلانا
امام علی نقی علیہ السلام مدینہ میں رہ کر 22 سال کی عمر مبارک تک جب لوگوں کو حق و حقیقت سے روشناس فرماتے ہیں تو بھت سارے لوگ ابوزر و میثم تمار کی طرح بنو عباس کے ظلم و ستم کے طوفانی سیلاب کی مخالف سمت میں حرکت کرتے ہیں۔ پوری دنیا سے تشنگان اسلام و حق و حقیقت امام کی قرآنی اور الٰھی تعلیمات کی شعاعوں کو حس کرنے کے بعد اپنی پناہ گاہ امام علی نقی علیہ السلام کو قرار دیکر اس کشتی نجات کو سھارا بناتے ہیں۔
بنو عباس کی طرف سے مدینہ کا حاکم، سامرا میں موجود متوکل عباسی کو امام کے ان تمام کارناموں کی اطلاع دیکر امام کو اذیت اور تکلیف پھنچانا شروع کر دیتا ہے۔ متوکل عباسی ایسا ظالم اور دشمن اھلبیت ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے حرم کے ارد گرد سب مکانات گروا دیتا ہے۔ حرم کی زمین میں کھیتی باڑی کا حکم دیتا ہے۔ زیارت امام حسین علیہ السلام کو ممنوع قرار دیتا ہے۔ امام علی نقی علیہ السلام کو مدینہ سے 233 ھ میں اپنی حکومت کے ایک سال بعد ھی سامرا یحٰی ابن ھرثمہ کو بھیج کر بلوا لیتا ہے اور امام کو ایک گھر ملتا ہے اور اسی میں امام کو رھنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔
ابن سکیت اور متوکل کا سوال
اتنے سخت حالات میں امام کس طرح اپنے ماننے والوں سے ارتباط رکھے ھوئے ہیں، یہ انتھائی حیرت کی بات ہے۔ امام اسی سامرا میں، اس خطرناک ماحول میں بھی اپنے نمایندے بنا کر پوری دنیا کے شیعوں سے ارتباط رکھنے میں کامیاب ھو جاتے ہیں۔ متوکل کے قریبی ترین افراد میں سے بھی امام کے پیروکار بن جاتے ہیں۔ ایک نمونہ یہ ہے کہ متوکل کے بچوں کو پڑھانے والا استاد امام کے محبین میں سے ھو جاتا ہے اور آل محمد کا ایسا عاشق بنتا ہے کہ جب متوکل کو شبہ ھوتا ہے کہ یہ شیعہ ہے تو پوچھتا ہے کہ: ابن سکیت بتا تیرے نزدیک علی و فاطمہ کے بیٹے حسن و حسین عزیز ہیں یا میرے یہ دو بیٹے، تو یھاں پر امام علی نقی علیہ السلام کا یہ شاگرد، امام علی نقی علیہ السلام کا یہ شیعہ حقیقی، معلوم ہے کیا جواب دیتا ہے؟ اب آپ کو محسوس کرنا ہے امام علی نقی علیہ السلام کی تربیت کے انداز کو، امام علی نقی علیہ السلام کی مدیریت کو، اگر ھر زمانے میں ایک خاص انداز میں طاغوتی نظام کی مخالف سمت میں چلنے والے ابن سکیت کی طرح افراد نہ ھوتے تو آج یہ حقیقی اسلام ھم تک نہ پھنچ پاتا۔
ابن سکیت کھتا ہے تو تو حسن و حسین کے مقابلہ میں کھتا ہے تو اور تیرے یہ دونوں بیٹے علی کے غلام قنبر کے برابر نھیں ھوسکتے، علی کے بیٹوں کی منزل تو بھت دور ہے۔ اس جرم میں ابن سکیت کی زبان کھینچ کر اسے شھید کر دیا جاتا ہے۔
شھادت
بالآخر تین رجب سن 252 ھ میں معتز ظالم خلیفہ عباسی کے حکم سے امام علی نقی علیہ السلام کو سامرا میں زھر دے کر شھید کر دیا جاتا ہے۔
تحریر: محمد اشرف ملک

Add comment


Security code
Refresh