www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

امام علی نقی علیہ السلام معتمد عباسی پر بھت گراں گذر رہے تھے چونکہ امام اسلامی معاشرہ میں عظیم مرتبہ پر فائز تھے جب امام (ع) کے فضائل شائع ھوئے

 تو اس کو امام سے حسد ھو گیا اور جب مختلف مکاتب فکر کے افراد اُن کی علمی صلاحیتوں اور دین سے اُن کی والھانہ محبت کے سلسلہ میں گفتگو کرتے تو وہ اور جلتا آخر کار اُس نے امام علیہ السلام کو زھر ھلاھل دیدیا۔
امام علی نقی علیہ السلام ائمہ ھدیٰ کی دسویں کڑی ہیں آپ محافظ اسلام اور تقوی وایمان کے ستاروں میں سے ہیں ،آپ نے طاغوتی عباسی حکمرانوں کے سامنے حق کی آوازبلندکی،اورآپ نے اپنی زندگی کے ایک لمحہ میں بھی ایسی چیز قبول نھیں کی جس کاحق سے اتصال نہ ھو،آپ نے ھرچیزمیں اللہ کی اطاعت کی نشاندھی کرائی۔ھم ذیل میں آپ کے چند فضائل و کمالات کی طرف مختصر طورپراشارہ کر تے ہیں:
امام (ع) کاجود و کرم
حضرت امام علی نقی علیہ السلام کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ آپ لوگوں میں سب سے زیادہ سخی اورسب سے نیکی و احسان کرنے والے تھے۔آپ کے جودوکرم کے بعض واقعات ذیل میں درج کئے جاتے ہیں:
۱۔اسحاق جلّاب سے روایت ہے:میں نے یوم الترویہ (۸ ذی الحجہ)امام علی نقی علیہ السلام کے لئے بھت زیادہ گوسفندخریدے جن کوآپ نے تمام دوستوں واحباب (۱) میں تقسیم فرمادیا۔شیعوں کے بزرگ افراد کی جماعت کاایک وفدآپ کے پاس پھنچاجس میں ابوعمروعثمان بن سعید، احمد بن اسحاق اشعری اور علی بن جعفر ھمدانی تھے ،احمد بن اسحق نے آپ سے اپنے مقروض ھونے کے متعلق عرض کیا توآپ نے اپنے وکیل عمروسے فرمایا:’"ان کواورعلی بن جعفر کوتین تین ھزاردیناردیدو"،آپ کے وکیل نے یہ مبلغ ان دونوں کوعطاکردی۔
ابن شھرآشوب نے اس علوی کرامت بیان پر یہ حاشیہ لگایا:(یہ وہ معجزہ ہے جس پر بادشاھوں کے علاوہ اور کوئی قادر نھیں ھوسکتا اور ھم نے اس طرح کی عطا وبخشش کے مثل کسی سے نھیں سنا ہے ۔(۲)
امام (ع) نے ان بزرگ افراد پر اس طرح کی بھت زیادہ جودوبخشش کی اور انھیں عیش وعشرت میں رکھااور یہ فطری بات ہے کہ بھترین بخشش کسی نعمت کا باقی رکھناہے ۔
۲۔ابوھاشم نے امام(ع) سے اپنی روزی کی تنگی کا شکوہ کیا اور امام (ع) نے آپ پر گذرنے والے فاقوں کا مشاھدہ فرمایاتوآپ نے اس کے رنج وغم کودورکرنے کیلئے اس سے فرمایا:"اے ابوھاشم! تم خودپر خدا کی کس نعمت کاشکریہ اداکرناچاھتے ھو؟اللہ نے تجھے ایمان کارزق دیااوراس کے ذریعہ تیرے بدن کوجھنم کی آگ پرحرام قراردیا،اس نے تجھے عافیت کارزق عطاکیاجس نے اللہ کی اطاعت کرنے پرتیری مددکی اور تجھے قناعت کارزق عطاکیاجس نے تجھے اصراف سے بچایا"۔
پھر آپ نے اس کو سو درھم دینے کا حکم صادر فرمایا۔(۳)
امام علی نقی (ع) نے لوگوں کو جو نعمتیں دی ہیں یہ وہ بھت بڑی نعمتیں ہیں جو اللہ نے اپنے بندوں کوعطا کی ہیں ۔
امام (ع) کا اپنے مزرعہ (زراعت کرنے کی جگہ )میں کام کرنا
امام (ع) اپنے اھل و عیال کی معیشت کیلئے مزرعہ میں کام کر تے تھے ،علی بن حمزہ سے روایت ہے :
میں نے امام علی نقی (ع) کو مزرعہ میں کام کرتے دیکھا جبکہ آپ کے قدموں پر پسینہ آرھا تھا ۔میں نے آپ کی خدمت با برکت میں عرض کیا :میری جان آپ پر فدا ھو! کام کرنے والے کھاں ہیں ؟
امام (ع) نے بڑے ھی فخر سے اس کے اعتراض کی تنقید کر تے ھوئے یوں فرمایا: "زمین پربیلچہ سے کام ان لوگوں نے بھی کیاجو مجھ سے اور میرے باپ سے بھتر تھے ؟"۔
وہ کون تھے ؟
"رسول اللہ(ص) ،امیر المو منین(ع)اور میرے آباء سب نے اپنے ھاتھوں سے کام کیا ،یہ انبیاء مرسلین ،اوصیاء اور صالحین کا عمل ہے "۔(۴)
ھم نے یہ واقعہ اپنی کتاب "العمل و حقوق العامل فی الاسلام"میں ذکر کیا ہے ۔اسی طرح ھم نے کام کی اھمیت پر دلالت کرنے والے دوسرے واقعات کا تذکرہ بھی کیا ہے اور یہ بھی بیان کیا ہے کہ یہ انبیاء اور صالحین کی سیرت ہے ۔
آپ (ع) کا زھد
حضرت امام علی نقی(ع) نے اپنی پوری زند گی میں زھد اختیار کیا ،اور دنیا کی کسی چیز کو کوئی اھمیت نھیں دی مگر یہ کہ اس چیز کا حق سے رابطہ ھو ،آپ نے ھر چیز پر اللہ کی اطاعت کو ترجیح دی۔ راویوں کا کھنا ہے کہ مدینہ اور سامراء میں آپ کے مکان میں کو ئی چیز نھیں تھی ،متوکل کی پولس نے آپ کے مکان پر چھاپا مارا اور بھت ھی دقیق طور پر تلاشی لی لیکن ان کو دنیا کی زند گی کی طرف ما ئل کر نے والی کو ئی چیز نھیں ملی ،امام (ع) ایک کھلے ھوئے گھر میں بالوں کی ایک ردا پھنے ھوئے تھے ،اور آپ زمین پر بغیر فرش کے ریت اور کنکریوں پر تشریف فرما تھے ۔
سبط احمد جوزی کا کھنا ہے : بیشک امام علی نقی(ع) دنیا کی کسی چیز سے بھی رغبت نھیں رکھتے تھے ، آپ مسجد سے اس طرح وابستہ تھے جیسے اس کالازمہ ھوں ،جب آپ کے گھر کی تلاشی لی تو اس میں مصاحف ، دعاؤں اور علمی کتابوں کے علاوہ اور کچھ نھیں پایا ۔
حضرت امام علی نقی علیہ السلام اپنے جد امیرالمو منین(ع) کی طرح زندگی بسر کر تے تھے جو دنیا میں سب سے زیادہ زاھد تھے ،انھوں نے دنیا کو تین مرتبہ طلاق دی تھی جس کے بعد رجوع نھیں کیا جاتا ہے ،اپنی خلافت کے دوران انھوں نے مال غنیمت میں سے کبھی اپنے حصہ سے زیادہ نھیں لیا ،آپ کبھی کبھی بھوک کی وجہ سے اپنے شکم پر پتھر باندھتے تھے،وہ اپنے ھاتھ سے لیف خرما کی بنائی ھوئی نعلین پھنتے تھے، اسی طرح آپ کا حزام "تسمہ " بھی لیف خرما کاتھا ،اسی طریقہ پر امام علی نقی (ع) اور دوسرے ائمہ علیھم السلام گامزن رھے انھوں نے غریبوں کے ساتھ زندگی کی سختی اور سخت لباس پھننے میں مواسات فرمائی ۔
امام علی نقی علیہ السلام کا علم
حضرت امام علی نقی(ع) علمی میدان میں دنیا کے تمام علماء سے زیادہ علم رکھتے تھے ،آپ تمام قسم کے علوم و معارف سے آگاہ تھے ،آپ نے حقائق کے اسرار اور مخفی امور کو واضح کیا ،تمام علماء و فقھاء شریعت اسلامیہ کے پیچیدہ اور پوشیدہ مسا ئل میں آپ ھی کے روشن و منور نظریے کی طرف رجوع کرتے تھے ،آپ اور آپ کے آباء و اجداد کا سخت دشمن متوکل بھی جس مسئلہ میں فقھا میں اختلاف پاتا تھا اس میں آپ ھی کی طرف رجوع کر تا تھا اور سب کے نظریات پر آپ کے نظریہ کو مقدم رکھتا تھاھم ذیل میں وہ مسائل پیش کررھے ہیں جن میں متوکل نے امام (ع) کی طرف رجوع کیا ہے :
۱۔متوکل کا ایک نصرانی کاتب تھا جس کی بات کو وہ بھت زیادہ مانتا تھا ،اس سے خالص محبت کرتا تھا ،اس کا نام لیکر نھیں پکارتا تھا بلکہ اس کو ابو نوح کی کنیت سے آواز دیا کر تاتھا، فقھاء کی ایک جماعت نے اس کو ابو نوح کی کنیت دینے سے منع کرتے ھوئے کھا :کسی کافر کومسلمان کی کنیت دینا جائز نھیں ہے ، دوسرے ایک گروہ نے اس کو کنیت دینا جا ئز قرار دیدیا،تو اس سلسلہ میں متوکل نے امام (ع) سے استفتا کیا۔امام(ع) نے اس کے جواب میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کے بعدیہ آیت تحریر فرمائی :"تَبَّتْ یَدَا أَبِی لَھبٍ وَتَبَّ "،(۵) (ابولھب کے ھاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ ھلاک ھو جائے )۔امام علی نقی(ع) نے آیت کے ذریعہ کافرکی کنیت کے جواز پردلیل پیش فرمائی اور متوکل نے امام (ع) کی رائے تسلیم کر لی ۔(۶)
۲۔متوکل نے بیماری کی حالت میں اللہ تبارک و تعالیٰ سے نذر کی کہ اگر میں اچھا ھوگیا تو درھم کثیرصدقہ دونگا ،جب وہ اچھا ھو گیا تو اُس نے فقھاء کو جمع کر کےاُ ن سے صدقہ کی مقدار کے سلسلہ میں سوال کیا فقھاء میں صدقہ دینے کی مقدار کے متعلق اختلاف ھو گیا ،متوکل نے اس سلسلہ میں امام (ع) سے فتویٰ طلب کیا تو امام (ع) نے جواب میں ۸۳دینار صدقہ دینے کے لئے فرمایا ،فقھاء نے اس فتوے سے تعجب کا اظھار کیا ، انھوں نے متوکل سے کھا کہ وہ امام (ع) سے اس فتوے کا مدرک معلوم کرے تو امام (ع) نے اُن کے جواب میں فرمایا : خداوند عالم فرماتا ہے :" لَقَدْ نَصَرَکُمْ اﷲُ فِی مَوَاطِنَ کَثِیرَۃٍ "، (۷)(بیشک اللہ نے کثیر مقامات پر تمھاری مدد کی ہے )اور ھمارے سب راویوں نے روایت کی ہے کہ سرایا کی تعداد ۸۳ تھی ۔(۸)
امام(ع) نے جواب کے آخر میں مزید فرمایا :"حب کبھی امیر المو منین (ع) اچھے نیک کام میں اضافہ فرماتے تھے تو وہ اُن سب کے لئے دنیا و آخرت میں سب سے زیادہ منفعت آور ھوتا تھا ‘‘۔(۹)
۳۔اور جن مسائل میں متوکل نے امام (ع)کی طرف رجوع کیا اُن میں سے ایک مسئلہ یہ ہے کہ متوکل کے پاس ایک ایسے نصرانی شخص کو لایا گیا جس نے مسلمان عورت سے زنا کیا تھا ،جب متوکل نے اُس پر حد جاری کرنے کا ارادہ کیا تو وہ مسلمان ھو گیا ،یحییٰ بن اکثم نے کھا :اس کے ایمان کے ذریعہ اُ س کا شرک اور فعل نابودھو گیا ،بعض فقھا ء نے اُس پر تین طرح کی حد جاری کرنے کا فتویٰ دیا ،بعض فقھا ء نے اس کے خلاف فتویٰ دیا ،تو متوکل نے یہ مسئلہ امام علی نقی(ع) کی خدمت میں پیش کیا،آپ نے جواب میں فرمایا کہ اس کو اتنا مارا جائے کہ وہ مرجائے ،یحییٰ اور بقیہ فقھاء نے اس کا انکار کرتے ھوئے کھا :ایسا کتاب و سنت میں نھیں آیا ہے ۔ متوکل نے ایک خط امام (ع) کی خدمت میں تحریر کیا جس میں لکھا : مسلمان فقھا اس کا انکار کر رھے ہیں اور ان کا کھنا ہے کہ یہ کتاب خدا اور سنتِ رسول میں نھیں آیا ہے۔ لہٰذا آپ ھمارے لئے یہ بیان فرما دیجئے کہ آپ نے یہ فتویٰ کیوں دیا ہے کہ اس کو اتنا مارا جائے جس سے وہ مرجائے ؟
امام (ع) نے جواب میں "بسم اللہ الرحمن الرحیم" کے بعد یہ آیت تحریر فرما ئی :
"فَلَمَّاجَاءَتْھُمْ رُسُلُھمْ بِالْبَیِّنَاتِ فَرِحُوابِمَا عِنْدَھُمْ مِنْ الْعِلْمِ وَحَاقَ بِھِمْ مَاکَانُوا بِہِ یَسْتَھزِءُون فَلَمَّارَأَوْا بَأْسَنَا قَالُواآمَنَّا بِاﷲِ وَحْدَہُ وَکَفَرْنَابِمَاکُنَّا بِہِ مُشْرِکِینَ "۔(۱۰)
"پھر جب اُن کے پاس رسول معجزات لیکر آئے تواپنے علم پر ناز کرنے لگے ،اور نتیجہ میں جس بات کا مذاق اڑارھے تھے اسی نے اپنے گھیرے میں لے لیا ہے ۔پھر جب انھوں نے ھمارے عذاب کو دیکھا تو کھنے لگے کہ ھم خدائے یکتا پر ایمان لائے ہیں اور جن باتوں کا شرک کیا کرتے تھے سب کا انکار کررھے ہیں "۔اور متوکل نے امام(ع) کا نظریہ تسلیم کر لیا۔(۱۱)
امام(ع) کے امتحان کے لئے متوکل کا ابن سکیت کو بلانا
متوکل نے ایک بھت بڑے عالم دین یعقوب بن اسحاق جو ابن سکیت کے نام سے مشھور تھے کو امام علی نقی(ع) سے ایسے مشکل مسائل پوچھنے کی غرض سے بلایا جن کو امام(ع) حل نہ کر سکیں اور اُ ن کے ذریعہ سے امام (ع)کی تشھیر کی جا سکے ۔ابن سکیت امام علی نقی(ع) کا امتحان لینے کیلئے مشکل سے مشکل مسائل تلاش کرنے لگا کچھ مدت کے بعد وہ امام(ع) سے سوالات کرنے کیلئے تیار ھو گیا تو متوکل نے اپنے قصر (محل )میں ایک اجلاس بلایاتو ابن سکیت نے امام علی نقی(ع) سے یوں سوال کیا :
اللہ نے حضرت موسیٰ (ع) کو عصا اور ید بیضا دے کر کیوں مبعوث کیا ،حضرت عیسیٰ کو اندھوں ، برص کے مریض اور مردوں کو زندہ کرنے کے لئے کیوں مبعوث کیا، اور حضرت محمد مصطفےٰ (ص) کو قرآن اور تلوار دے کر کیوں مبعوث کیا ؟
حضرت امام علی نقی علیہ السلام نے جواب میں یوں فرمایا :"اللہ نے حضرت مو سیٰ (ع) کو عصا اور ید بیضا دے کر اس لئے بھیجا کہ ان کے زمانہ میں جادو گروں کا بھت زیادہ غلبہ تھا ،جن کے ذریعہ ان کے جادو کومغلوب کردے، وہ حیران رہ جا ئیں اور ان کے لئے حجت ثابت ھو جا ئے ،حضرت عیسیٰ (ع) کواندھوں اور مبروص کوصحیح کرنے اور اللہ کے اذن سے مردوں کو زندہ کرنے کیلئے مبعوث کیا کیونکہ ان کے زمانہ میں طبابت اور حکمت کا زور تھا، خدا وند عالم نے آپ کو یہ چیزیں اس لئے عطا کیں تاکہ ان کے ذریعہ اُن کو مغلوب کردیں اور وہ حیران رہ جا ئیں ،اور حضرت محمد (ص)کوقرآن اور تلوار دے کر اس لئے مبعوث کیا کیونکہ آپ کے زمانہ میں تلوار اور شعر کا بھت زیادہ زور تھااور وہ نورانی قرآن کے ذریعہ ان کے اشعار پر غالب آگئے اور زبردست تلوار کے ذریعہ ان کی تلواروں کو چکا چوندکردیا اور ان پر حجت تمام فرما دی ۔۔۔"۔
امام (ع) نے اپنے حکیمانہ جواب کے ذریعہ ان معجزوں کے ذریعہ انبیاء کی تائید فرما ئی جو اس زمانہ کے لحاظ سے بھت ھی مناسب تھے، اللہ نے اپنے رسول حضرت مو سیٰ (ع) کی عصا دے کر تائید فرمائی جو ایک خطرناک اژدھا بن کر جادو گروں کی اژدھے کی شکل میں بنائی ھوئی رسیوں اور لکڑیوں کو نگل گیاتو وہ مو سیٰ (ع) کی طرح کی طرح معجزہ لانے سے عاجز آگئے اور وہ علی الاعلان موسیٰ (ع) کی نبوت پر ایمان لے آئے ،اسی طرح اللہ نے آپ کو ید بیضاء عطا کیا تھاجونور اورروشنی میں سورج کے مثل تھااور یہ معجزہ آپ کی سچا ئی کی ایک نشانی تھا۔
لیکن پروردگار عالم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اندھوں کو بینائی ،مبروص کو شفااور مردوں کو زندہ کرنے کی تائید فرما ئی کیونکہ آپ کے زمانہ میں طب کا زور اوج کمال پر تھالہٰذا اطباء آپ کا مثل لانے سے عاجز آگئے ۔
پروردگار عالم نے خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفےٰ (ص) کی قرآن کریم کے جاودانہ فصیح و بلیغ معجزہ کے ذریعہ تائید فرما ئی جس میں انسان کی کرامت اور اس کی امن دار حیات کو منظم طریقہ سے بیان کیا گیا ہے ، یھاں تک کہ بلغائے عرب اس کے ھم بحث اور اس کا مثل نہ لا سکے ۔۔۔جیسا کہ اللہ نے امیر المو منین علی(ع) کی کاٹنے والی تلواردے کر تا ئید فرمائی تھی جو عرب کے سر کشوں کے مشرکین کے سروں کو کا ٹتی جاتی تھی ،اور بڑے بڑے بہادر اس کا مقابلہ کرنے سے ڈرتے ھوئے کھا کرتے تھے :علی(ع) کی تلوار کے علاوہ جنگ سے فرار کرنا ننگ ہے وہ اس کو ندتی ھو ئی بجلی کے مانند تھی جومشرکین اور ملحدین کے ستونوں کوتباہ و برباد کر دیتی تھی ۔
بھر حال ابن سکیت نے امام (ع)سے سوال کیا کہ حجت کسے کھتے ہیں ؟آپ نے فرمایا :"العقل یُعرفُ بہ الکاذبَ علی اللّٰہ فیُکذَّبُ"۔
ابن سکیت امام (ع) کے ساتھ مناظرہ کرنے سے عاجز رہ گیایحییٰ بن اکثم نے اس کو پکارا تو اس نے جواب دیا:ابن سکیت اور اس کے مناظروں کو کیا ھو گیا ہے یہ صاحبِ نحو ،شعر اور لغت تھا۔(۱۲)
امام(ع) اپنے زمانہ میں صرف شریعت کے احکام میں ھی اعلم نھیں تھے بلکہ آپ تمام علوم و معارف میں اعلم تھے اور ھم نے اُن بحثوں کو اپنی کتاب "حیاۃالامام علی نقی (ع) "میں تحریر کیاہے۔
عبادت
ائمہ ھدی علیھم السلام کی ایک صفت خدا وند عالم سے توبہ کرنا ہے کیونکہ خدا سے محبت ان کے اعضا و جوارح میں مجذوب ھوگئی ہے ،وہ اکثر ایام میں روزہ رکھتے ہیں راتوں میں نمازیں پڑھتے ہیں،اللہ سے مناجات کرتے ہیں اور اس کی کتاب قرآن مجید کی تلاوت فرماتے تھے ،شاعر ابوفراس حمدانی نے ائمہ ھدیٰ اور ان کے دشمن عبا سیوں کے درمیان موازنہ کیا ہے ۔
تُمْسی الِّتلاوۃُ فی اییاتھم أَبدا
وفی بیوتکم الاوتارُوَالنُّغَمُ
"ان کے گھروں میں ھمیشہ رات کو تلاوت کی جاتی ہے جبکہ تمھارے گھروں میں ساز و گانا بجایاجاتا ہے "۔
حضرت امام علی نقی(ع)کے مانندعباد ت تقوی ٰاور دین کے معاملہ میں اتنا پابند انسان کوئی دکھائی نھیں دیتا، راویوں کا کھنا ہے :امام (ع)نے کبھی بھی کوئی بھی نافلہ نماز ترک نھیں کی آپ مغرب کی نافلہ نماز کی تیسری رکعت میں سورۂ الحمد اور سورۂ حدید اس آیت :"وعلیم بذات الصدور" (۱۳)تک پڑھتے تھے اور چوتھی رکعت میں سورۂ الحمد اور سورۂ حجرات کی آخری آیات کی تلاوت کرتے تھے، امام(ع) سے دورکعت نماز نافلہ منسوب کی گئی ہے جس کی پھلی رکعت میں آپ سورۂ فاتحہ اور سورۂ یس کی تلاوت کرتے تھے اور دوسری رکعت میں سورۂ فاتحہ اور سورۂ رحمن پڑھتے تھے۔
امام(ع) کے گھر پر حملہ
متوکل نے چند سپاھیوں کو رات میں امام (ع) کے گھر پر حملہ اور آپ کو گر فتار کرنے کا حکم دیا ، سپاھی اچانک امام کے گھر میں داخل ھو گئے اور انھوں نے یہ مشاھدہ کیا کہ امام (ع) بالوں کا کُرتا پھنے اور اُون کی چادر اوڑھے ھوئے تنھا ریگ اور سنگریزوں(۱۴) کے فرش پر رو بقبلہ بیٹھے ھوئے قرآن کی اس آیت کی تلاوت فرمارھے ہیں :
"أَمْ حَسِبَ الَّذِینَ اجْتَرَحُوا السَّیِّءَاتِ أَنْ نَجْعَلَہُمْ کَالَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَوَاءً مَحْیَاہُمْ وَمَمَاتُہُمْ سَاءَ مَا یَحْکُمُونَ "۔(۱۵)
"کیا برائی اختیار کرلینے والوں نے یہ اختیار کرلیا ہے کہ ھم انھیں ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کے برابر قرار دیدیں گے کہ سب کی موت و حیات ایک جیسی ھو یہ اُن لوگوں نے نھایت بدترین فیصلہ کیا ہے "۔
سپاھیوں نے اسی انبیاء کے مانند روحانی حالت میں امام (ع) کو متوکل کے سامنے پیش کیامتوکل اس وقت ھاتھ میں شراب کا جام لئے ھوئے دسترخوان پر بیٹھا شراب پی رھا تھا جیسے ھی اُس نے امام(ع) کو دیکھا تو وہ امام(ع) کی مذمت میں شراب کا جام امام (ع) کو پیش کرنے لگا امام(ع) نے اس کو تنبیہ کرتے ھوئے فرمایا :"خدا کی قسم میرا گو شت اورخون کبھی شراب سے آلودہ نھیں ھوا "۔
متوکل نے امام (ع) سے کھا :میرے لئے اشعار پڑھ دیجئے ؟
امام (ع) نے فرمایا:"میں بھت کم اشعار پڑھتا ھوں"۔
متوکل نہ مانا اور اُس نے اصرار کرتے ھوئے کھا ضرور پڑھئے ۔امام علی نقی(ع) نے مندرجہ ذیل اشعار پڑھے جن کو سُن کر حزن و غم طاری ھو گیا اور وہ گریہ کرنے لگا :
باتُواعلیٰ قُلَلِ الأَجْبَالِ تَحْرُسُھُمْ
غُلْبُ الرِّجَالِ فَما أَغْنَتْھُمُ الْقُلَلُ
وَاسْتُنْزِلُوا بَعْدَ عِزٍّ عَنْ مَرَاتِبِھِمْ
فَاُوْدِعُوا حُفَراً یَابِئسَ مانَزَلُوا
ناداھُم صارِخُ مِنْ بَعْدِ مَاقُبِرُوا
أَیْنَ الأَسِرَّۃُ وَالتَّیْجَانُ وَالْحِلَلُ؟
أَیْنَ الوُجُوْہُ الَّتِیْ کانَتْ مُنَعّمَۃً
مِنْ دُوْنِھَا تُضْرَ بُ الاَسْتَارُ وَالْکِلَلُ؟
فَأَفْصَحَ الْقَبْرُ عَنْھُمْ حِیْنَ سَأَلَھُمْ
تِلْکَ الْوُجُوْہُ عَلَیْھَا الدُّوْدُ یَقْتَتِلُ
قدْطَالما أَکَلُوْا دَھْراً وَمَا شَرِبُوْا
فأَصْبَحُوْا بَعْدَ طُوْلِ الأَکْلِ قَدْ أُکِلُوْا
زمانہ کے رؤسا ء و سلاطین جنھوں نے پھاڑوں کی بلندیوں پرپھروں کے اندر زندگی گزاری تھی ۔
ایک دن وہ آگیا جب اپنے بلند ترین مراکز سے نکال کر قبر کے گڈھے میں گرا دئے گئے جو اُن کی بد ترین منزل ہے ۔
اُن کے دفن کے بعد منادی غیب کی آواز آئی کہ وہ تخت و تاج و خلعت کھاں ہے اور وہ نرم و نازک چھرے کھاں ہیں جن کے سامنے بیش قیمت پردے ڈالے جاتے تھے ؟
تو بعد میں قبر نے زبانِ حال سے پکار کر کھاکہ آج اُن چھروں پر کیڑے رینگ رھے ہیں۔
ایک مدت تک مال دنیا کھاتے رھے اور اب انھیں کیڑے کھا رھے ہیں ۔
متوکل جھومنے لگا ،اس کا نشہ اُتر گیا،اُس کی عقل نے کام کر نا چھوڑ دیا،وہ زار و قطار رونے لگا،اس نے اپنے پاس سے شراب اٹھوادی ،بھت ھی انکساری کے ساتھ امام (ع) سے یوں گویا ھوا :اے ابوالحسن کیا آپ مقروض ہیں ؟
امام (ع) نے جواب میں فرمایا:"ھاں ،میں چار ھزار درھم کا مقروض ھوں" ۔
متوکل نے امام (ع) کو چار ھزار درھم دینے کا حکم دیااورامام (ع) آپ کے بیت الشرف پر پھنچا دیا ۔ (۱۶)
یہ واقعہ خدا وند عالم کے حرام کردہ تمام گناھوں کا ار تکاب کرنے والے سر کشوں سے امام(ع) کے جھاد کرنے کی عکا سی کرتا ہے ،امام(ع) نے اس کے ملک اور سلطنت کی کو ئی پروا نہ کرتے ھوئے اس کو نصیحت فرمائی اللہ کے عذاب سے ڈرایا ،دنیا سے مفارقت کے بعد کے حالات کا تعارف کرایا،اس کا لشکر ،سلطنت اور تمام لذتیں قیامت کے دن اس سے اس کے افسوس کرنے کو دفع نھیں کر سکتیں ،اسی طرح آپ نے اس کو یہ بھی بتایا کہ انسان کے مرنے کے بعد اُس کے دقیق بدن کا کیا حال ھوگا ،یہ حشرات الارض کا لقمہ ھو جائے گا ۔
متوکل نے کبھی اس طرح کا موعظہ سُنا ھی نھیں تھا بلکہ اُ س کے کانوں میں تو گانے بجانے کی آوازیں گونجاکرتی تھیں ،اس کو اس حال میں موت آگئی کہ گانے بجانے والے اس کے ارد گرد جمع تھے ،اُس نے تو اپنی زند گی میں کبھی خدا سے کئے ھوئے عھد کو یاد کیا ھی نھیں تھا ۔
امام علی نقی علیہ السلام پراقتصادی پا بندی
متوکل نے امام (ع) پر بھت سخت اقتصادی پابندی عائد کی ،شیعوں میں سے جو شخص بھی امام (ع)کو حقوق شرعیہ یا دوسری رقومات ادا کرے گا اس کو بے انتھاسخت سزا دینا معین کر دیا ،امام(ع) اور تمام علوی افراد متوکل کے دور میں اقتصادی لحاظ سے تنگ رھے ،مومنین حکومت کے خوف سے آپ تک حقوق نھیں پھنچا پاتے تھے ، مومنین اپنے حقوق شرعیہ ایک روغن فروش کے پاس پھنچا دیتے تھے اور وہ اُن کو آپ کے لئے بھیج دیا کرتا تھا اور حکومت کو اس کی کوئی خبر نھں تھی ،اسی وجہ سے امام (ع) کے بعض اصحاب کو دھانین(روغن فروش ) کے لقب سے یاد کیاگیا ہے ۔(۱۷)
امام(ع) کو نظر بند کرنا
متوکل نے امام(ع) کو نظر بند کرنے اور قید خانہ میں ڈالنے کا حکم دیدیا ،جب آپ کچھ مدت قید خانہ میں رھے تو صقر بن ابی دلف آپ سے ملاقات کیلئے قید خانہ میں آیا ،نگھبان نے اُس کا استقبال کیا اور تعظیم کی ، دربان جانتا تھا کہ یہ شیعہ ہے تو اُ س نے کھا :آپ کا کیا حال ہے اور آپ یھاں کیوں آئے ہیں ؟
خیر کی نیت سے آیاھوں ۔۔۔
شاید آپ اپنے مولا کی خبر گیری کے لئے آئے ہیں ؟
میرے مو لا امیر المو منین ،یعنی متوکل ۔
دربان نے مسکراتے ھوئے کھا :خا موش رھئے ،آپ کے حقیقی اور حق دار مو لا (یعنی امام علی نقی(ع) )، مت گھبراؤ میں بھی شیعہ ھی ھوں ۔
الحمد للّٰہ ۔
کیا آپ امام (ع) کا دیدار کرنا چا ھتے ہیں ؟
ھاں ۔۔۔
ڈاکیہ کے چلے جانے تک تشریف رکھئے ۔۔۔
جب ڈاکیہ چلا گیا تو دربان نے اپنے غلام سے کھا :صقر کا ھاتھ پکڑ کر اُ س کمرہ میں لے جاؤ جھاں پر علوی قید ہیں اور اِن دونوں کو تنھا چھوڑ دینا ،غلام اُن کا ھاتھ پکڑ کر امام (ع) کے پاس لے گیا ،امام (ع) ایک چٹا ئی پر بیٹھے ھوئے تھے اور وھیں پر آپ کے پاس قبر کھدی ھوئی تھی متوکل نے اس سے امام (ع) کوڈرانے کا حکم دیا، امام (ع) نے صقر سے فرمایا:اے صقر کیسے آنا ھوا ؟
صقر :میں آپ کی خبر گیری کے لئے آیا ھوں ۔
صقر امام(ع) کے خوف سے گریہ کرنے لگے تو امام (ع) نے ان سے فرمایا :"اے صقر مت گھبراؤ وہ ھم کو کو ئی گزند نھیں پھنچا سکتا ۔۔۔"۔
صقر نے ھمت با ندھی ،خدا کی حمد و ثنا کی ،اس کے بعد امام (ع) سے کچھ شرعی مسا ئل دریافت کئے اور امام (ع) نے ان کے جوابات بیان فرمائے اور صقر امام (ع) کو خدا حافظ کرکے چلے آئے ۔(۱۸)
امام(ع) کا متوکل کے لئے بد دعا کرنا
امام علی نقی علیہ السلام متوکل کی سختیوں سے تنگ آگئے ، اُس نے اپنی سنگد لی کی بنا پر امام (ع) پر ھر طرح سے سختیاں کیں اُ س وقت امام (ع) نے اللہ کی پناہ ما نگی اور ائمہ اھل بیت (ع) کی سب سے اجلّ و اشرف دعا کی جس کو مظلوم کی ظالم پر بد دعا کے نام سے یاد کیا جاتا ہے وہ دعاؤں کے خزانہ میں سے ہے ،اس دعا کو ھم اپنی کتاب حیاۃ الامام علی نقی (ع) میں ذکر کر چکے ہیں ۔ائمہ طا ھرین(ع) کی اس مختصر سوانح حیات میں اس کو بیان کرنے کی کو ئی ضرورت نھیں ہے ۔
امام (ع) کا متوکل کے ھلاک ھونے کی خبر دینا
متوکل نے مجمع عام میں امام علی نقی (ع) کی شان و منزلت کم کرنے کیلئے ھر طرح کے ھتھکنڈے اپنائے ، اُ س نے اپنی رعایا کے تمام افراد کو امام (ع) کے پاس چلنے کا حکم دیا ،انھوں نے ایسا ھی کیا ،گر می کا وقت تھا ،گر می کی شدت کی وجہ سے امام (ع) اُن کے سامنے پسینہ میں شرابور ھوگئے ،متوکل کے دربان نے جب امام (ع) کو دیکھا تو فوراً آپ کو دھلیز میں لا کر بٹھایا رومال سے امام (ع) کا پسینہ صاف کر نے لگا اور یہ کھہ کر حزن و غم دور کرنے لگا:"ابن عمک لم یقصدک بھذ ا دون غیرک ۔۔۔"تیرے چچا زاد بھائی کا اس سے تیرے علاوہ اور کو ئی ارادہ نھیں ہے ۔
امام (ع) نے اس سے فرمایا :"ایھا عنک "،اُس کے بعد قرآن کریم کی اس آیت کی تلاوت فرما ئی : "َ تَمَتَّعُوا فِی دَارِکُمْ ثَلَاثَۃَ أَیَّامٍ ذَلِکَ وَعْدٌ غَیْرُ مَکْذُوب"۔(۱۹)
"اپنے گھروں میں تین دن تک اور آرام کرو کہ یہ وعدۂ الٰہی ہے جو غلط نھیں ھو سکتا ہے "۔
زراقہ کا کھنا ہے کہ میرا ایک شیعہ دوست تھا جس سے بھت زیادہ ھنسی مذاق کیا کرتا تھا، جب میں اپنے گھر پھنچا تو میں نے اس کو بلا بھیجا جب وہ آیا تو میں نے امام (ع) سے سنی ھو ئی خبر اس تک پھنچائی تو اس کے چھرے کا رنگ متغیر ھو گیا اور اس نے مجھ سے کھا :دیکھو جو کچھ تمھارا خزانہ ہے اس کو اپنے قبضہ میں لے لو ،چونکہ متوکل کو تین دن کے بعد موت آجا ئے گی یا وہ قتل ھو جا ئے گا ، اور امام(ع) نے شھادت کے طور پر قرآن کریم کی یہ آیت پیش کی ہے ،معلم کی بات زراقہ کی سمجھ میں آگئی اور اُس نے کھا : میرے لئے اس بات پر یقین کرنے میں کو ئی ضرر نھیں ہے، اگر یہ بات صحیح ہے تو میں نے یقین کر ھی لیا ہے اور اگر ایسا نھیں ہے تو اس میں میرا کوئی نقصان نھیں ہے ۔میں متوکل کے گھر پھنچا ،اور وھاں سے اپنا سارا مال لے کر اپنے جاننے والے ایک شخص کے پاس رکھ دیا ،اور تین دن نھیں گذرے تھے کہ متوکل ھلاک ھوگیا ،یہ سبقت زراقہ کی راھنما ئی اور اس سے امامت سے سخت لگاؤ کا سبب بن گئی ۔(۲۰)
امام(ع) پر قاتلانہ حملہ
امام (ع)،معتمد عباسی پر بھت گراں گذر رھے تھے ،امام اسلامی معاشرہ میں عظیم مرتبہ پر فائز تھے جب امام (ع) کے فضائل شائع ھوئے تو اس کو امام (ع) سے حسد ھو گیا اور جب مختلف مکاتب فکر کے افراد اُن کی علمی صلاحیتوں اور دین سے اُن کی والھانہ محبت کے سلسلہ میں گفتگو کرتے تو وہ اور جلتا اُس نے امام (ع) کو زھر ھلاھل دیدیا ، جب امام (ع) نے زھر پیا تو آپ کا پورا بدن مسموم ھو گیا اور آپ کے لئے بستر پر لیٹنا لازم ھوگیا(یعنی آپ مریض ھو گئے )آپ کی عیادت کے لئے لوگوں کی بھیڑ اُمڈ پڑی ،منجملہ اُن میں سے ابوھاشم جعفری نے آپ کی عیادت کی جب اُ نھوں نے امام (ع) کو زھر کے درد میں مبتلا دیکھا تو پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے ،اور مندرجہ ذیل اشعار پر مشتمل قصیدہ نظم کیا :
مَا دتِ الدنیا فُؤادي العلیلِ
وَاعْتَرَتْنِیْ مَوَارِدُ اللأْواءِ
حِینَ قِیْلَ الْاِمَامُ نِضُوْ عَلِیْل
قُلْتُ نَفْسِیْ فَدَتْہُ کُلَّ الفِدَاءِ
مَرِضَ الدِّیْنُ لَاعْتِلَالِکَ وَاعْتَدْ لَ
وَغَارَتْ نُجُوْمُ السَّمَاءِ
عَجَباً اِنْ مُنِیْتَ بِالدَّاءِ وَالسُّقْمِ
وَأَنْتَ الاِمَامُ حَسْمُ الدَّاءِ
أَنْتَ أَسِیْ الأَدْوَاءَ فِي الدِّیْنِ والدُّنْیَا
وَمُحْیي الأَمْوَاتِ وَالْأَحَیَاءِ (۲۱)
دنیا نے میرے بیمار قلب کو ھلا کر رکھ دیا اور مجھے وا دی ھلاکت میں ڈال دیا ہے۔
جب مجھ سے کھا گیا امام (ع) کی حالت نھایت نازک ہے تو میں نے کھا میری جان اُن پر ھر طرح قربان ہے ۔
آپ کے بیمار ھونے کی وجہ سے دین میں کمزوری پیدا ھو گئی اور ستارے ڈوب گئے۔
تعجب کی بات ہے کہ آپ بیمار پڑگئے جبکہ آپ کے ذریعہ بیماریوں کا خاتمہ ھوتا ہے ۔
آپ دین و دنیا میں بھترین دوا اور مردوں کو زندہ کرنے والے ہیں ۔
آپ کی روح پاک ملائکۂ رحمن کے سایہ میں خدا کی بارگاہ میں پھنچ گئی ،آپ کی آمد سے آخرت روشن و منور ھو گئی ،اور آپ کے فقدان سے دنیا میں اندھیرا چھا گیا ،کمزوروں اور محروموں کے حقوق سے دفاع کرنے والے قائد ور ھبر نے انتقال کیا ۔
تجھیز و تکفین
آپ کے فرزند ارجمند کی امام حسن عسکری (ع)نے آپ کی تجھیز و تکفین کی ،آپ کے جسد طاھر کو غسل دیا،کفن پھنایا،نماز میت ادا فرمائی ،جبکہ آپ کی آنکھوں سے آنسورواں تھے آپ کا جگر اپنے والد بزرگوار کی وفات حسرت آیات پر ٹکڑے ٹکڑے ھوا جا رھا تھا ۔
تشییع جنازہ
سامرا ء میں ھر طبقہ کے افراد آپ کی تشییع جنازہ کیلئے دوڑ کر آئے ،آپ کی تشییع جنازہ میں آگے آگے وزراء ،علماء ،قضات اور سربراھان لشکر تھے ، وہ مصیبت کا احسا س کر رھے تھے اور وہ اس خسارہ کے سلسلہ میں گفتگو کر رھے تھے جس سے عالم اسلام دو چار ھوا اور اس کا کو ئی بدلہ نھیں تھا ، سامراء میں ایسا اجتماع بے نظیر تھا ،یہ ایسا بے نظیر اجتماع تھا جس میں حکومتی پیمانہ پر ادارے اور تجارت گاھیں وغیرہ بند کر دی گئی تھیں ۔
ابدی آرام گاہ
امام علی نقی علیہ السلام کا جسم اقدس تکبیر اور تعظیم کے ساتھ آپ کی ابدی آرامگاہ تک لایا گیاآپ کوخود آپ کے گھرمیں دفن کیا گیاجو آپ کے خاندان والوں کے لئے مقبرہ شمار کیا جاتا تھا ،انھوں نے انسانی اقدار اور مُثُل علیا کو زمین میں چھپا دیا ۔
آپ کی عمر چا لیس سال تھی آپ نے ۲۵ جما دی الثانی ۲۵۴ ھ میں پیر کے دن وفات پائی اسی پر مارے امام علی نقی (ع) کے سلسلہ میں گفتگو کا اختتام ھوتا ہے ۔
آپ کے اقوال زرّیں
امام علی نقی(ع) نے کچھ نورانی کلمات کا مجموعہ بیان فرمایا ہے جس میں مختلف تربیتی اور فطری اسباب بیان فرمائے ہیں جو عالم اسلام میں تفکر کی سب سے بھترین دولت شمار کئے جاتے ہیں :
۱۔امام علی نقی (ع) کا فرمان ہے: "خیر (اچھا ئی )سے بہھتر خود اس کا انجام دینے والا ہے ،جمیل سے صاحب جمال خود اس کا کھنے والا ہے ،اور علم عمل کرنے والے ترجیح رکھتا ہے۔۔۔ "۔
امام (ع) نے اِن کلمات کے ذریعہ اُن اشخاص کی توصیف کی ہے جو اِن صفات سے آراستہ ہیں :
الف:نیک کام کرنے والا اخلاقی ارزشوں کے لحاظ سے اچھائی سے بھتر ہے ۔
ب۔اچھی بات کھنے والا ،چونکہ یہ شخص لوگوں کو فائدہ پھنچاتا ہے ۔
ج۔اپنے علم پر عمل کرنے والا ،علم پر ترجیح رکھتا ہے ،بیشک علم عمل کے لئے وسیلہ اور تھذیب چاھتا ہے ،جب علم پر عمل ھوتا ہے تو اس کی رسالت کا حق ادا ھوجاتا ہے ،علم محفوظ ھوجاتا ہے ،اس کی شان و منزلت بڑھ جا تی ہے اور یہ علم سے بھتر ہے ۔
۲۔امام علی نقی(ع) کا فرمان ہے:کرامت سے نا آشنا شخص کی بھتری اس میں ہے کہ وہ ذلیل ھوجائے ۔
یہ کلمہ کتنا زیبا ہے کیونکہ جو شخص کرامت انسانی سے نا آشنا ہے اور انسانی اقدار کی خبر نھیں رکھتا اس کی بھتری اسی میں ہے کہ اس سے رو گردانی کی جائے ۔
۳۔امام علی نقی (ع) کا فرمان ہے:"سب سے بڑا شر بری عادت ہے "۔
بیشک سب سے بڑی مصیبت بری عادت ہے، اس سے انسان عظیم شرّ میں مبتلا ھوجاتا ہے جس سے متعدد مصیبتیں اور مشکلیں پیدا ھو جاتی ہیں ۔
۴۔امام علی نقی(ع) کا فرمان ہے:"جھالت اور بخل سب سے بری عا دتیں ہیں۔۔۔"۔
اس میں کوئی شک و شبہ نھیں ہے کہ جھالت اور بخل بری عادتیں ہیں ،یہ دونوں انسان کو اس کے پروردگار سے دور کردیتی ہیں اوروہ اُن دونوں کے ساتھ حیوان سائم کی طرح زندگی بسر کرتا ہے ۔
۵۔امام علی نقی(ع) کا فرمان ہے:"نعمتوں کا انکار سستی کی علامت ہے اور ردّو بدل کا سبب ھوتا ہے "۔
بیشک جس نے کفرانِ نعمت کیا اور نعمتوں کا شکر ادا نھیں کیا وہ کاھل ہے ،منعم کے دائرۂ اطاعت سے خارج ہے ۔جیسا کہ نعمتوں پراکڑنانعمتوں کے زوال کا کا سبب ھوتا ہے ۔
۶۔امام علی نقی (ع) کا فرمان ہے:’’لڑائی جھگڑا پرانی صداقت "بھا ئی چارگی "کو ختم کر دیتا ہے مورد اعتماد معاملات کو منحل کر دیتا ہے ،جھگڑے کی کم سے کم حد یہ ہے کہ ایک دوسرے پر برتری طلب کی جائے ، جبکہ برتری طلبی جدائی کے اسباب کی بنیاد ہے۔۔ ۔"۔(۲۲)
مراء مجادلہ کو کھتے ہیں جو صداقت کی ریسمان کو توڑ دیتا ہے ،محبت و مودّت کو منحل کر دیتا ہے اور دونوں کے درمیان بغض و عداوت کورائج کر دیتا ہے ۔
حوالہ جات:
۱۔حیاۃالامام علی نقی (ع) ،صفحہ ۲۴۳۔
۲۔المناقب، جلد۴، ص۴۴۱۔
۳۔امالی صدوق ،صفحہ ۴۹۸۔
۴۔حیاۃالامام علی نقی۔
۵۔سورۂ مسد، آیت ۱۔
۶۔حیاۃ الامام علی نقی (ع) ، صفحہ ۲۳۹۔ صفحہ ۴۶۔
۷۔سورۂ توبہ، آیت ۲۵۔
۸۔تاریخ اسلامِ ذھبی ،چھبیسویں طبقہ کے رجال ۔تذکرۃ الخواص ،صفحہ ۳۶۰۔
۹۔المنتظم، جلد ۱۲، صفحہ ۲۶۔
۱۰۔سورۂ غافر، آیت ۸۳۔۸۴۔
۱۱۔شرح شافیہ مؤلف ابو فراس ،جلد ۲،صفحہ ۱۶۷۔
۱۲۔حیاۃالامام علی نقی (ع) ، صفحہ ۲۴۲۔۲۴۳۔
۱۳۔سورۂ حدید آیت ۶۔
۱۴۔دائرۃ معارف بیسویں صدی ھجری، جلد ۶،صفحہ ۴۳۷۔
۱۵۔سورۂ جا ثیہ، آیت ۲۱۔
۱۶۔مرآۃ الجنان ،جلد ۲،صفحہ ۹۶۰۔تذکرۃ الخواص، صفحہ ۳۶۱۔الاتحاف بحب الاشراف ،صفحہ ۶۷۔
۱۷۔حیاۃ الامام علی نقی (ع) ، صفحہ ۲۶۲ ۔۲۶۴۔
۱۸۔حیاۃ الامام علی نقی (ع) ، صفحہ ۲۶۳۔۲۶۴۔
۱۹۔سورۂ ھود، آیت ۶۵۔
۲۰۔تاریخ ابن اثیر، جلد ۵،صفحہ ۳۱۱۔
۲۱۔اعلام الوریٰ ،صفحہ ۳۴۸۔
۲۲۔حیاۃ الامام علی نقی (ع) ، صفحہ ۱۵۸۔۱۶۰۔ 

Add comment


Security code
Refresh