www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

012344
اللہ تعالی ارشاد فرمارھا ہے :" وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ " ﴿سورۂ غافر ،آیت٦٠﴾
(مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا اور یقینا جو لوگ میری عبادت سے اکڑتے ہیں وہ عنقریب ذلت کے ساتھ جھنم میں داخل ھوں گے ) اور اللہ تعالی اپنے بندے کی اتنی ھی پروا کرتا ہے جتنی وہ دعا کرتا ہے اور اس کو قبول کرتا ہے " قُلْ مَا يَعْبَأُ بِكُمْ رَبِّي لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ "(سورۂ فرقان ،آیت۷۷) ؛( پیغمبر ﷺ آپ کھہ دیجئے کہ اگر تمھاری دعائیں نہ ھوتیں تو پروردگار تمھاری پروا بھی نہ کرتا ) تو جو اللہ سے منہ موڑتا ہے تو خداوند عالم بھی اس کی پروا نھیں کرتا اور نہ ھی اللہ کے نزدیک اس کی کوئی قدر و قیمت ہے ۔
اس نگارش میں موجود مطالب سے معلوم ھوتا ہے کہ انبیاء علیھم السلام نے کس طرح مشکلات میں اللہ تعالی کو پکارا ہے اور اللہ نے ان کی فریاد اور آواز کو سن کر کس طرح نجات دی ہے ۔
انبیاء اور اولیاء کی دعائیں درحقیقت انسانوں کو سیدھا راستہ دکھانے اور مالک حقیقی کے ساتھ صحیح رابطہ قائم کرنے کے طریقہ کی تعلیم ہے ۔ ان کی سیرت کو اپناتے ھوئے ھمیں بھی ان دعاؤں کی تلاوت اور حفظ کرکے روزمرہ کی زندگی میں پڑھتے رھنا چاھئے ۔
قرآن مجید ھدایت کی کتاب ہے ۔ سورج کی طرح ھر زمانہ ، قوم و نسل کو روشنی دیتی ہے تاکہ لوگ روشنی سے مدد لیتے ھوئے ھدایت کے راستے پر گامزن ھوسکیں ، اسلئے کوشش کی ہے کہ انبیاء علیھم السلام کی قرآن مجید میں نقل ھونے والی دعاؤں پر ایک اجمالی نظر ڈالی جائے ۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کی دعا
"۔۔۔ رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَىٰ وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَدْخِلْنِي بِرَحْمَتِكَ فِي عِبَادِكَ الصَّالِحِينَ'' ﴿سورۂ نمل ،آیت ۱۹﴾
خدا نے جناب سلیمان علیہ السلام کو ایک بے مثال حکومت عطا کی تھی۔ اس کا مقصد لوگوں کو توحید اور اھداف الھی کی طرف دعوت دینا تھا سارے چرند، پرند اور حیوانات آپ کے مطیع اور فرمانبردار تھے ۔ اللہ نے آپ کو سب مخلوقات کی زبانوں کا علم بھی دیا تھا جس کو حضرت سلیمان علیہ السلام خود بھی اللہ کا کھلا ھوا فضل اور کرم سمجھتے تھے ۔ ایک دن حضرت سلیمان علیہ السلام اپنے عظیم لشکر ( جو جنات ، انسان اور پرندوں سے تشکیل پایا تھا ) کے ساتھ وادی نمل تک آئے ۔
ایک چیونٹی نے دوسری چیونٹیوں کو آواز دی کہ اے چیونٹیو ! سب اپنے اپنے سوراخوں میں داخل ھوجاؤ کہ سلیمان اور ان کا لشکر تمھیں پائمال نہ کر ڈالے اور انھیں اس کا شعور بھی نہ ھو تو جناب سلیمان اس کی بات پر مسکرادئے اور کھا :" رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَى وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَدْخِلْنِي بِرَحْمَتِكَ فِي عِبَادِكَ الصَّالِحِينَ" ؛ (پروردگار مجھے توفیق دے کہ میں تیری اس نعمت کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھے اور میرے والدین کو عطا کی ہے اور یہ کہ میں ایسا صالح عمل انجام دوں جو تجھے پسند آئے اور اپنی رحمت سے مجھے اپنے صالح بندوں میں داخل فرما) ۔
اھمیت اس بات کی ہے کہ آیہ کریمہ نے واضح کردیا کہ چیونٹیوں کے پاس بھی شعور اور ادراک ہے اور ان کے پاس بھی قومی تنظیم کی صلاحیت اور سردار لشکر کی معرفت حاصل ہے اور یہ بات ہے کہ یہ معرفت اس قدر کامل نھیں ہے کہ سلیمان کی طرف ایسے عمل کی نسبت نہ دی جائے جو نبی خدا کے شایان شان نہ ھو اور شاید یہ نسبت لشکر کے اعتبار سے تھی کہ نبی کا معصوم ھونا اصحاب کے بے عیب ھونے کی ضمانت نھیں ہے ۔
جناب سلیمان علیہ السلام بھی شکر خدا کی دعا کر کے یہ واضح کردیا کہ اقتدار کا مصرف یہ نھیں ہے کہ انسان اس بات پر اکڑ جائے کہ رعایا میرے خوف سے سوراخوں میں داخل ھوتی جارھی ہے بلکہ اقتدار کا مصرف یہ ہے کہ انسان اس بات پر شکر ادا کرے کہ اس نے مجھے یہ شرف بخشا ہے اور دوسری مخلوقات کو اس کی عزت اور کرامت سے نھیں نوازا ہے ۔
بے مثال حکومت کے لئے حضرت سلیمان علیہ السلام کی دعا :
"قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِي وَهَبْ لِي مُلْكًا لَّا يَنبَغِي لِأَحَدٍ مِّن بَعْدِي ۖ إِنَّكَ أَنتَ الْوَهَّابُ"(سورۂ ص،آیت ۳۵)
اللہ تعالی نے حضرت سلیمان علیہ السلام سے امتحان لینے کے خاطر، ان کے تخت پر ایک بے جان جسم ڈال دیا ۔ یھاں پر بے جان جسم کے بارے میں مختلف اقوال ہیں۔
بعض حضرات کا کھنا ہے کہ جناب سلیمان علیہ السلام ھی شدید بیماری کے شکل میں تخت پر ڈال دئے گئے تھے اور یہ کسی ترک اولی کا نتیجہ تھا ۔اور بعض کا کھنا ہے کہ انھوں نے وارث تخت و تاج کا انتظام شروع کیا اور یہ تمنا کی کہ شجاع اور قدرتمند اولاد انھیں نصیب ھو تا کہ ملک کو چلانے خصوصا اللہ کے راہ میں جھاد کر کے کام آجائے چونکہ ان کی بیویاں زیادہ تھیں جناب سلیمان علیہ السلام نے سب کے ساتھ نزدیکی کرنے کا ارادہ کیا تاکہ بچے زیادہ پیدا ھوجائیں لیکن انشاء اللہ کھنے سے غفلت کی ۔ اور اس زمانے میں کوئی بچہ پیدا نھیں ھوا سوائے بے جان کی طرح ایک ناقص الخلقہ بچہ کے ، جس کو جناب سلیمان علیہ السلام کے تخت پر گرادیا گیا پھر انھوں نے خدا کی طرف توجہ کی اور فرمایا :" رَبِّ اغْفِرْ لِي وَهَبْ لِي مُلْكًا لَّا يَنبَغِي لِأَحَدٍ مِّنْ بَعْدِي إِنَّكَ أَنتَ الْوَهَّابُ " (میرے رب ! مجھے معاف کردے اور مجھے ایسی بادشاھی عطا کر جو میرے بعد کسی کے شایان شان نہ ھو یقینا تو بڑا عطا کرنے والا ہے) ۔
اللہ تعالی نے ان کی دعا کو قبول کرلیا اور تمام مخلوقات کو ان کے لئے مسخر بنادیا اور جناب سلیمان علیہ السلام کی بادشاھت کی عظمت آج تک بے مثال ہے ۔

Add comment


Security code
Refresh