www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

411695
جوق در جوق لوگ کربلا کی طرف رواں دواں ہیں عالم انسانیت کا ایک عظیم اجتماع ، نجف سے کربلا تک حریت پسندوں کا ایک جم غفیر، ہر طرف سے لبیک یا حسین کی صدائیں اس بات کا اظھار ہیں کہ آقا جس کربلا کو ۶۱ ھجری میں آپ نے تعمیر کیا تھا ھم اسے اپنے دل میں بسائے تجدید عھد کے لئے آپ کے حضور موجود ہیں ، یوں تو فی نفسہ ھی یہ اجتماع اپنے اندر بے شمار برکتوں کا حامل ہے، لیکن اس اجتماع کا حصہ بن کر ھم دنیا والوں کے سامنے اپنی فکر و اپنی منطق کو رکھ سکتے ہیں اس لئے یہ پھلو بھت اھم ہے، یہ اجتماع معمولی اجتماع نھیں ہے بلکہ بقول رھبر انقلاب اسلامی “اربعین کا عظیم اجتماع اس وقت عالم اسلام کی ایک نشانی اور علامت میں تبدیل ھوگیا ہے کہ جو درحقیقت ظلم سے مقابلے کے خلاف انسانی معاشروں اور مسلمانوں میں بیداری کے پھلو کو آشکارا کر رھا ہے۔
یہ ایک مناسب موقع ہے تاکہ لوگ امام حسین علیہ السلام سے اپنے عشق و محبت کے جذبے کو ھر سال تازگی بخشیں اور اربعین کو ھر سال گذشتہ سال سے زیادہ عاشقانہ اور والھانہ انداز میں منائیں۔ کوئی مسئلہ نھیں کہ ھم اسے چھلم کھیں یا اربعین ، ۲۰صفر شھدائے کربلا اور سرور و سالار شھیدان کے پیغام کو زندہ و تابندہ رکھنے کے لئے تجدید عھد و وفا کا دن ہے”۔ یقینا یہ تجدید عھد حسینی پیغام کو زندہ رکھنے کا ذریعہ تو ہے ھی حسینی سماج کی بنیادوں کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کابھی ایک ذریعہ ہے البتہ اس کے لئے محض اس اجتماع کا حصہ بن جانا ہی کافی نھیں ہے بلکہ اس کے لئے ضروری ہے کہ ایک بار ھم اس کربلا پر ایک نظر ڈالیں جو ۶۱ ھجری کی کربلا تھی اور اس تحریک کے پیغام کو اپنے وجود کی گھرائیوں میں اتاریں جسے امام حسین علیہ السلام نے ھم تک پھنچانا چاھا تھا اس کے لئے صفحات کربلا کی ورق گردانی کی ضرورت ہے یوں تو سید الشھداء علیہ السلام کی تحریک میں آپ مختلف ایسے عناصر تلاش کر سکتے ہیں جو اس تحریک کی بنیاد و اساس کو تشکیل دے رھے ہیں جیسے، اللہ کی بندگی، عدل و انصاف کا قیام ، ظلم و ستم سے مقابلہ ، لیکن تین ایسے بنیادی عناصر اس تحریک میں نظر آتے ہیں جو تمام الھی اھداف کے حصول کے ساتھ اس تحریک کے طرز فکر اور اس کی نھج کو بیان کرتے ہیں۔
اور وہ ہیں :
۱۔ عقل و منطق ۔ ۲
۔ عزت و سربلندی اور شجاعت ( حماسہ )۳
۔ جذبات و احساسات
عقل و منطق :
کربلا کی اس تحریک میں عقل ومنطق کے پھلو کو مکمل طور پر دیکھا جا سکتا ہے اگر امام علیہ السلام کی کلمات و ان کے فرمودات کی طرف نظر ڈالی جائے تو ھمیں ملے گا کہ مدینہ سے کربلا تک ، اور کربلا پھنچنے سے شھادت کے آخری مرحلہ تک ایک مستحکم و پائدار منطق کارفرما ہے ، اور اس منطق کا نچوڑ یہ ہے کہ ایسے حالات میں جب یزید جیسا حاکم امت اسلامی پر مسلط ھو تو ضروری و لازم ھو جاتا ہے کہ مسلمان اپنی ذمہ داری کو پھچانتے ھوئے قدم اٹھائیں ، لھذا اب اگر خطرہ بھی ھو توانسان خطرہ کو دیکھتے ھوئے بھاگتا نھیں ہے بلکہ ایسا قدم اٹھاتا ہے جو خطرہ کے مقابلہ کے لئے مناسب و سزاوار ھو ، اب ان حالات میں بالکل واضح سی بات ہے کہ انسان اس طرح آگے بڑھے کہ دنیا اس کو روک نہ سکے ، انسان کی لذتیں اور خواھشیں اس کے پیروں میں زنجیریں نہ ڈال دیں انسان کی عافیت طلبی و مصلحت اس کی حرکت میں کندی کا سبب نہ بن سکے یھی وجہ کہ امام علیہ السلام واضح طور پر یزید کے مقابل اپنے موقف کا اظھار کرتے ھوئے فرماتے ہیں :
اَیُّهَا النّاسُ؛ اِنَّ رَسُولَ اللّهِ(صلى اللهعلیه وآله) قالَ: «مَنْ رَاى سُلْطاناً جائِراً مُسْتَحِلاًّ لِحُرُمِ اللهِ، ناکِثاً لِعَهْدِ اللهِ، مُخالِفاً لِسُنَّهِ رَسُولِ اللهِ، یَعْمَلُ فِی عِبادِاللهِ بِالاِثْمِ وَ الْعُدْوانِ فَلَمْ یُغَیِّرْ عَلَیْهِ بِفِعْل، وَ لاَ قَوْل، کانَ حَقّاً عَلَى اللهِ اَنْ یُدْخِلَهُ مَدْخَلَهُ». الا وَ اِنَّ هوُلاءِ قَدْ لَزِمُوا طاعَهَ الشَّیْطانِ، وَ تَرَکُوا طاعَهَ الرَّحْمنِ، وَ اَظْهَرُوا الْفَسادَ، وَ عَطَّلُوا الْحُدُودَ وَاسْتَاْثَرُوا بِالْفَیءِ، وَ اَحَلُّوا حَرامَ اللّهِ، وَ حَرَّمُوا حَلالَ اللّهِ،.[۱]
اے لوگو! جان لو : کہ اگر کوئی ایسے ظالم و جابر حاکم کو دیکھے جس نے حرام خدا کو حلال کیا ھو، عھد الھی کو توڑا ھو ، سنت رسول اللہ کی مخالفت کی ھو ، بندگان خدا کے درمیان گناہ و ستم روا رکھا ھو ، اور اپنے قول و فعل سے اس کی مخالفت نہ کرے تو خدا کے لئے سزاوار ہے کہ اس کو اسی ظالم و جابر حاکم کی جگہ قرار دے ۔ آگاہ ھو جاو کہ اس جماعت نے شیطان کی اطاعت و بندگی کو خود پر لازم کر لیا ہے اور رحمن کی اطاعت کو ترک کر دیا ہے فساد کو ظاھر کر دیا ہے حدوود الھی کو معطل کر دیا ہے ، بیت المال کو لوٹا ، حلال خدا کو حرام کیا اور حرام خدا کو حلال کیا …
اپنے ان نورانی کلمات کے ذریعہ امام علیہ السلام اس بات کی طرف معاشرے کو متوجہ کرنا چاھتے ہیں کہ جب دین کی بنیاد و اساس خطرے میں پڑ جائے اور ایسی صورت میں بھی لوگ خود میں مشغول رھیں تو یہ خدا پر حق ہے کہ ایسے دور میں زندگی گزارنے والے غیر ذمہ دار افراد کا مواخذہ کرے اور اپنے شدید عذاب میں گرفتار کر دے ۔
لھذا چاھے جان ھی کی قیمت پر کیوں نہ ھو عذاب الھی سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ انسان ایسے ظالم و جابر حاکم کے خلاف کھڑا ھو اب اگر ایسے ظالم و جابر کے سامنے انسان آٗٹھے گا تو اس کا قھری نتیجہ یہ ھوگا کہ اسے اپنی جان بھی گنوانا پڑ سکتی ہے ، لیکن حلال خدا کو حرام کرنے والا اور حرام خدا کو حلال کرنے والا بیت المال کو لوٹنے والا حاکم حکومت کرتا رھے اور لوگ اپنی جان بچانے میں لگے رھیں ایسی جان کی کوئی قیمت نھیں ہے اس لئے کہ جان کی قیمت وھاں پر ہے جھاں انسان احقاق حق و ابطال باطل کر سکتا ھو اور عزت و سربلندی کے سایہ میں زندگی گزار رھا ھو [۲]
لھذا کوئی یہ نہ کھے کہ امام علیہ السلام انجام سے بے خبر تھے کہ ایسے ظالم و جابر حاکم کے سامنے کھڑے ھونے کا انجام کیا ھوگا قطعا ایسا نھیں تھا امام واقف تھے کہ کیا رد عمل ھوگا لیکن آپ کی نظر میں سماج و معاشرہ کو اس کی حالت پر نھیں چھوڑا جا سکتا تھا کہ ھم بس اپنی جان کی فکر کریں اور بس جو سماج میں ھو رھا ہے وہ سب کچھ ھوتا رھے ، لھذا عقل و منطق کا فیصلہ تھا کہ سماج میں برائیوں کی حاکمیت کو روکنے کے لئے ایک انسان آگے بڑھتا اور قربانی دیتا تاکہ رھتی دنیا تک پیغام پھنچ جاتا کہ جان بھت اھم ہے لیکن جب معاشرہ میں ایسا ظالم و جابر حاکم مسلط ھو جائے جو دین کے ساتھ کھلواڑ کر رھا ھو تو یھی قیمتی جان دین پر لٹا دینا عقل و منطق کا تقاضا ہے ۔
ھم سب کے لئے بھی ضروری ہے کہ دیکھیں ھم آج کھاں ہیں ؟ کھیں ایسا تو نھیں کچھ لوگ دین سے کھلواڑ کر رھے ھو حلال خدا کو حرام اور حرام خدا کو حلال کر رھے ھو اور ھم خاموش ھوں ، اربعین امام حسین علیہ السلام کا حصہ بننا اپنے آپ میں ایک بڑی فضیلت ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اگر ھم نجف سے کربلا تک امام علیہ السلام کے سامنے عھد کرتے ھوئے قدم بڑھاتے چلے کہ مولا اپنی زندگی میں تعقل و منطق کو کارفرما رکھیں گے اور ایسا کوئی کام نھیں کریں گے جس سے فکر کربلا بدنام ھو تو یقینا یہ وہ عمل ھوگا جو ھمارے اس اجتماع کے پر بار تر ھونے کا سبب بنے گا ۔
تحریر: سید نجیب الحسن زیدی
حواشی:
۱۔ تاریخ طبرى، ج ۴، ص ۳۰۴ ; کامل ابن اثیر، ج ۴، ص ۴۸ و فتوح ابن اعثم، ج ۵، ص ۱۴۴-۱۴۵٫
۲ ۔ ألا ترون أن الحق لا يعمل به وأن الباطل لا يتناهى عنه، ليرغب المؤمن في لقاء الله محقا، فإني لا أرى الموت إلا سعادة ولا الحياة معالظالمين إلا برما، تحف العقول – ابن شعبة الحراني – ص٢٤٥

Add comment


Security code
Refresh