www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

503210
اربعین امام حسین علیہ السلام کی گھڑیاں جیسے جیسے نزدیک آ رھی ہیں، عاشقان حسینی کے دلوں کی دھڑکنیں تیز ھوتی جا رھی ہیں، ھر دل کی دھڑکن کی ایک ھی صدا ہے لبیک یاحسین، لبیک یاحسین۔ فضاوں میں، ھواوں میں ھر طرف واحسیناہ کی صدائیں ہیں، کیوں نہ ھوں، ایک بھن اپنے بھائی کے چھلم کے لئے کربلا پھنچ رھی ہے، ایک بیٹا اپنے بابا کے چھلم کے لئے زندان سے چھوٹ کر کربلا کے دشت کی طرف گامزن ہے، ایک قافلہ ہے جو دھیرے دھیرے کربلا کی طرف رواں دواں ہے، اسی کے ساتھ ساتھ ھم بھی، آنکھوں میں اشکوں کے دیئے روشن کئے یاحسین (ع)، یاحسین (ع) کرتے اپنے مولا کی طرف چلے جا رھے ہیں۔ اب زیادہ وقت نھیں بچا ہے، ھم آھستہ آھستہ امام حسین علیہ السلام کے چھلم سے نزدیک ھو رھے ہیں، بھت سے زائرین اس وقت نجف پھنچ کر کربلا کے سفر پر نکلنے کی تیاری کر رھے ہیں، کچھ وہ ہیں جو پھلے ھی کربلا پھنچ چکے ہیں اور آنے والے زائرین کربلا کا انتظار کر رھے ہیں تو کچھ وہ ہیں، جو اپنے مستحکم عزم و ارادہ کے ساتھ گامزن ہیں تو کچھ وہ ہیں، جو قافلوں اور کاروانوں کے ساتھ نجف سے کربلا تک زائرین کی خدمت میں مشغول ہیں۔
ھر ایک اپنی اپنی محولہ ذمہ داری کو ادا کر رھا ہے، کوئی لوگوں کے کھانے کا انتطام کر رھا ہے تو کوئی پانی کا، کوئی زائرین کی استراحت کی فکر میں ہے تو کوئی کسی اور طرح خدمت کر رھا ہے، امام حسین علیہ السلام کے چھلم منانے کو لیکر عزاداروں اور ماتم داروں، دوستوں اور عاشقوں کے درمیان جو جوش و خروش ہے، اس کی تاریخ میں نظیر نھیں ملتی، اربعین امام حسین علیہ السلام نے ھر ایک کو ذمہ دار عزادار بنا دیا ہے۔
امام حسین علیہ السلام کا یہ چھلم جھاں ایک بھترین موقع ہے، اپنے وجود میں احساس ذمہ داری پیدا کرنے کا، اپنے وجود میں معرفت پیدا کرنے کا، وھیں اس بات کا سبب بھی ہے کہ ھم واقعہ کربلا کے پیش نظر اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور جانیں کہ آج کی کربلا میں ھم کھاں کھڑے ہیں؟ اور سیدالشھداء کا ھم سے مطالبہ کیا ہے۔؟
کربلا اور احساس ذمہ داری:
واقعہ کربلا ایک ایسا جاوداں واقعہ ہے، جو اپنے محرکات و مقاصد کے پیش نظر طول تاریخ میں محققین و طالبان حقیقت کے لئے تحقیق و جستجو کا ایک زندہ و جاوید موضوع رھا ہے اور اس کے وقوع پذیر ھونے کے بعد سے لیکر اب تک ھر ایک نے اپنے اپنے اعتبار سے اس سے مثبت نتائج اخذ کئے ہیں، جتنا جتنا لوگ کربلا کی پناہ میں آتے گئے، اتنا ھی ان کے عزم میں اضافہ ھوتا گیا۔ ان کا وقار بڑھتا گیا، ان کی شان و شوکت ھمہ گیر ھوتی چلی گئی، اس کی ایک مثال امام حسین علیہ السلام کا چھلم ہے، جو نہ صرف ھر سال گزرے ھوئے سال سے زیادہ عظمت کے ساتھ منعقد ھوتا ہے بلکہ اربعین میں لوگ پھلے سے زیادہ عزم و ھمت کے ساتھ امام حسین علیہ السلام کے حضور تجدید بیعت کرتے ھوئے پھلے سے زیادہ وقار کے ساتھ دنیا کے سامنے اپنے وجود کا احساس دلاتے ہیں، ساتھ ھی ساتھ ھر ایک کے اندر ایک ذمہ دار عزادار ھونے کا احساس جاگتا ہے۔
امام خمینی (رہ) سے لیکر علامہ طباطبائی(رہ) و شھید مطھری (رہ) جیسے مفکرین اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ سیدالشھداء علیہ السلام نے جب یزیدی حکومت کا حد درجہ انحراف دیکھا تو اس کے مقابل جو ردعمل پیش کیا، وہ حقیقت میں اپنی ذمہ داری کی ادائیگی کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ انھوں نے اپنی ذمہ داری کی تشخیص دیتے ھوئے نہ صرف یہ کہ بروقت ردعمل کا اظھار کیا بلکہ کوشش کی کہ دوسرے لوگ بھی اپنی شرعی ذمہ داری کو سمجھتے ھوئے اس کی ادائیگی کے لئے قدم آگے بڑھائیں۔[1] امام خمینی (رہ) نے تو بھت ھی واضح الفاظ میں بیان کر دیا کہ سیدالشھداء علیہ السلام نے جو کچھ کیا، وہ اپنی ذمہ داری پر عمل تھا، آپ اپنی ذمہ داری کو ادا کرنا چاھتے تھے اور آپ نے اپنی شرعی ذمہ داری پر عمل بھی کیا۔[2]
امام خمینی (رہ) نے یزید کے خلاف امام حسین علیہ السلام کے قیام کو ان کی شرعی ذمہ داری کی حیثیت سے پیش کرتے ھوئے یہ بیان کرنے کی کوشش کی ہے کہ جس طرح امام علیہ السلام یزید جیسے ظالم کے سامنے کھڑے ھونے کو اپنا فریضہ سمجھتے ہیں، ویسے ھی ھمیں بھی اپنے وقت کے یزید کو پھچانتے ھوئے اس کے مقابل اٹھ کھڑے ھونے کا عزم رکھنا چاھیے، چونکہ امام حسین علیہ السلام کی سیرت تمام ھی مسلمانوں اور خاص طور پر شیعان حیدر کرار کے لئے نمونہ عمل ہے، لھذا آپ کی سیرت کو دیکھ کر ھر انسان کے اندر احساس ذمہ داری جاگنا چاھیے، چونکہ ایسا نھیں ہے کہ یزید صرف 61 ھجری میں تھا اور اس کے مقابلہ کے لئے امام حسین علیہ السلام کھڑے ھوگئے اور بات ختم ھوگئی، ھر دور کی حسینیت کا تقاضا ہے کہ زمانے کی یزیدیت کے خلاف اٹھے اور اسے ذلیل و رسوا کرتے ھوئے پرچم حق کو بلند کرے۔
یھاں پر جو بات اھم ہے، وہ انسان کے وجود کے اندر ذمہ داری کے احساس کا جاگنا ہے، جب انسان کو اپنی ذمہ داری کا احساس ھوتا ہے تو وہ ھر کام سے پھلے یہ دیکھتا ہے کہ اس کا کام مرضی الھیٰ کے مطابق ہے یا نھیں؟ وہ تمام تر شرعی جوانب کو مدنظر رکھتے ھوئے آگے بڑھتا ہے، وہ زندگی کے امور میں اپنی ذات کو لیکر نھیں سوچتا بلکہ خدا کو محور قرار دیکر سوچتا ہے اور خدا محوری کا جذبہ ھی کسی عمل کے ترک یا اس کے انجام پذیر ھونے کا محرک قرار پاتا ہے۔[3]
امام خمینی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ نے اسی محرک کو مختلف مقامات پر بیان کرتے ھوئے اس بات کی کوشش کی ہے کہ امام کی شھادت کو ان کے وجود میں ذمہ داری کے احساس ساتھ جوڑ کر موجودہ دور میں شھادتوں کے محرک کی وضاحت اسی ذمہ داری کے محور پر کرتے ھوئے ظلم و ستم لوگوں کے سامنے سوئے ضمیر کو بیدار کریں، لھذا ایک مقام پر آپ فرماتے ہیں:"سیدالشھداء نے خود پر لازم جانا کہ اٹھ کھڑے ھوں اور شھادت کے درجے پر فائز ھو جائیں، امیر شام و اس کے بیٹے کے آثار کو صفحہ روزگار سے مٹا ڈالیں۔[4] اسی احساس ذمہ داری کو ایک اور مقام پر امام خمینی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ اس انداز سے بیان کرتے ہیں:"سیدالشھداء نے خود پر ضروری و فرض جانا کہ اس فاسد طاقت سے مقابلہ کرتے ھوئے شھید ھو جائیں، آپ نے واجب جانا کہ جھاں ضروری ہے، وھاں قیام کریں، اپنا لھو دیں، تاکہ یزید کا پرچم سرنگوں ھوسکے، آپ نے ایسا ھی کیا اور سب کچھ ختم ھوگیا۔[5]
رھبر انقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ ای بھی قیام امام حسین علیہ السلام کو دلیل بناتے ھوئے اسی احساس ذمہ داری کے پیش نظر امام خمینی(رہ) کے قیام کے سلسلہ سے فرماتے ہیں:"امام خمینی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ نے ایک فریضہ واجب کی ادائیگی کی خاطر قیام کیا، یہ ایسا واجب ہے، جو طول تاریخ میں ہر ایک مسلمان کو اپنی طرف کھینچ رھا ہے اور یہ واجب اس بات سے عبارت ہے کہ جب دیکھیں کہ اسلامی معاشرہ بنیادی فساد کا شکار ھوگیا ہے اور اس بات کا خطرہ لاحق ہے کہ کلی طور پر اسلامی احکامات تبدیل ھوسکتے ہیں تو ایسی صورت میں ھر مسلمان پر فرض ہے کہ اٹھ کھڑا ھو، قیام کرے، البتہ اس کے لئے مناسب شرائط کا ھونا ضروری ہے اور یہ جان لے کہ یہ اس کا اٹھ کھڑا ھونا رائیگاں نہ جائے گا، اس کا اثر ھوگا۔
یاد رھے کہ شرائط کے مناسب ھونے کا مطلب زندہ رھنا، شھید نہ ھونا، مصیبتوں کا برداشت نہ کرنا، اذیتوں کا نہ ھونا نھیں ہے، یہ سب شرائط کے اجزاء نھیں ہیں، لھذا ھم دیکھتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام نے قیام کیا اور عملی طور پر ایک واجب کو انجام دیا، تاکہ رھتی دنیا تک کے لئے ایک درس ھو جائے۔[6]
جب انسان حق کی سربلندی کے لئے، احیاء دین کے لئے اٹھ رھا ہے، نفاذ عدالت کے لئے کھڑا ھو رھا ہے، بدعتوں سے مقابلہ کے لئے کھڑا ھو رھا ہے، سیرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آثار و برکات کو محو ھونے سے بچانے کے لئے اٹھ رھا ہے، ولایت کے دفاع کی خاطر اٹھ رھا ہے تو یقیناً اسکے سامنے مشکلات بھی آئیں گی اور پریشانیاں بھی، لیکن جو کچھ بھی اسکے مقدس ھدف کے تحت اسے ملے گا، سب کے سب اسی بل پر حاصل ھوگا کہ کسی بھی بات کی پراہ کئے بنا اسے اپنی ذمہ داری کو ادا کرنا ہے اور بس اب ایسے میں یہ نھیں کہہ سکتا کہ زمانہ خراب ہے، ماحول سازگار نھیں ہے، ھمارا کیا ھوگا۔؟
رھبر انقلاب اسلامی اسی سلسلہ سے اپنی ایک تقریر میں فرماتے ہیں: اگر امام حسین علیہ السلام اپنے سامنے آنے والے دشوار حالات، تلخ حوادث کو دیکھتے، جیسے جناب علی اصغر (ع) کی شھادت، اھل حرم کا اسیر ھونا، بچوں کی تشنگی، جوانوں کا شھید ھو جانا، ان تمام چیزوں کو اگر آپ معمولی شریعت پر عمل کرنے والے عام انسان کی طرح دیکھتے تو آپ کو اپنی واقعی ذمہ داری کو بھلا دینا چاھیے تھا اور قدم بہ قدم "الضرورات تبیح المحظورات" کے تحت پیچھے کی طرف قدم بڑھانا چاھیے تھا اور یہ کھنا چاھیے تھا کہ یہ سب میری ذمہ داری نھیں ہے، لیکن امام علیہ السلام نے سخت ترین شرائط میں اپنی زندگی کے آخری لمحوں تک اپنی شرعی ذمہ داری کی ادائیگی پر اصرار کیا۔ اس لئے کہ انسان کے عقیدے اور اسکے دین کی اھمیت، آبرو، مال، جان اور ناموس سے کھیں بڑھ کر ہے، ایسی صورت میں اپنی دینی ذمہ داری کی ادائیگی کا احساس اور اس کے سلسلہ سے آپ کا موقف آپکی روحانی طاقت اور دینی بصیرت سے ماخوذ ہے۔[7]
امام حسین علیہ السلام اور شرعی ذمہ داری کے سلسلہ سے آپ کا موقف:
جب سیدالشھداء کا سامنا حر کے لشکر سے ھوا تو آپ نے فرمایا: "اے لوگو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو بھی ایسے ظالم و جابر حاکم کو دیکھے، جس نے حرام خدا کو حلال کیا ھو، عھد خدا کو توڑا ھو، سنت رسول خدا کی مخالفت کی ھو، لوگوں کے درمیان گناہ، سرکشی کے ساتھ عمل کیا ھو اور ایسے ظالم حاکم و جابر کے سامنے اپنے قول و فعل سے اپنی مخالفت کا اظھار نہ کرے تو یہ خدا پر حق ہے کہ ایسے نظارہ گر انسان کا ٹھکانہ وھی قرا ر دے، جو اس ظالم کا ہے۔ آگاہ ھو جاو کہ انھوں نے شیطان کی اطاعت کو خود پر لازم کر لیا ہے اور رحمن کی اطاعت کو ترک کر دیا ہے، فساد کو ظاھر کر دیا ہے، حدود الھیٰ کو معطل کر دیا ہے، بیت المال کو غارت کر دیا ہے، حلال الھیٰ کو حرام کر دیا ہے اور حرام کو حلال قرار دے دیا ہے، میں ان حالات کو تبدیل کرنے کے لئے اٹھ کھڑا ھونے میں زیادہ سزاوار ھوں۔ تمھارے خطوط مجھ تک پھنچے ہیں اور تمھاری جانب سے بھیجے گئے وفود و تمھارے نمائندے تمھاری بیعت کے ساتھ میرے پاس آئے ہیں اور انھوں نے یہ عھد کیا ہے کہ تم مجھے اپنے عھد و پیمان کے بعد تنھا نھیں چھوڑو گے۔ مجھے دشمن کے سامنے خوار و ذلیل نہ کروگے۔ اب اگر تم اپنی بیعت پر باقی رھے تو رشد و کمال سے جا ملو گے۔ میں حسین ابن علی فرزند فاطمہ زھرا سلام علیھا دختر رسول خدا ھوں، میں تمھارے سامنے ھوں، میرا خاندان تمھارے سامنے ہے، تمھارے لئے میری ذات نمونہ عمل ہے۔[8]
امام حسین علیہ السلام نے اس مقام پر واضح طور پر اپنے موقف کا اعلان کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کی طرف بھی ھمیں متوجہ کرنے کی کوشش کی ہے کہ جب کوئی ظالم حاکم حلال خدا کو حرام اور حرام خدا کو حلال کر رھا ھو، بیت المال کو ضائع کر رھا ھو تو اس کے مقابل کھڑا ھونا ھی حسینت ہے اور یہ کہہ کر امام حسین نے واضح کر دیا ہے کہ اگر کبھی ایسی صورت حال آئے تو میری زندگی کو دیکھنا، جو تمھارے لئے نمونہ عمل ہے، ھرگز ھرگز ظلم اور ظالمین کے خلاف خاموش نہ بیٹھنا کہ ایسی صورت میں تمھارا ٹھکانہ بھی وھی ھوگا، جو ظالمین کا ہے۔
آیئے اس اربعین حسینی کے روح پرور موقع پر بارگاہ امام حسین علیہ السلام میں دعاء کرتے ہیں کہ پروردگار ھمیں عزم حسینی اور زیبنی عطا فرما، تاکہ ھم اپنے معاشرہ و ملک میں انھیں خطوط پر گامزن ھوسکیں، جن پر چل کر دنیا کے غلام "حر" بن جاتے ہیں۔
تحریر: سید نجیب الحسن زیدی
حواشی:
[1]۔ سید رضا موسیٰ، نھضت خمینی جلد ۱ ص ۷۳
[2]۔ صحیفہ نور جلد ۴ ص ۱۶
[3]۔ ایضاً۔ جلد ۱ ص ۷۷
[4]۔ صحیفہ نور ، جلد ۳ ص ۱۸۲ جلد ۱۷، ص ۵۹
[5]۔ صحیفہ نور جلد ۱۳ ص ۱۵۸
[6] سید علی خامنہ ای، امانداران عاشورا و درس حا و عبرت ھای کربلا ص ۴۴
[7] ایضاً ۶۹
[8] ۔ اَیُّهَا النّاسُ؛ اِنَّ رَسُولَ اللّهِ(صلى اللهعلیه وآله) قالَ: «مَنْ رَاى سُلْطاناً جائِراً مُسْتَحِلاًّ لِحُرُمِ اللهِ، ناکِثاً لِعَهْدِ اللهِ، مُخالِفاً لِسُنَّهِ رَسُولِ اللهِ، یَعْمَلُ فِی عِبادِاللهِ بِالاِثْمِ وَ الْعُدْوانِ فَلَمْ یُغَیِّرْ عَلَیْهِ بِفِعْل، وَ لاَ قَوْل، کانَ حَقّاً عَلَى اللهِ اَنْ یُدْخِلَهُ مَدْخَلَهُ». الا وَ اِنَّ هوُلاءِ قَدْ لَزِمُوا طاعَهَ الشَّیْطانِ، وَ تَرَکُوا طاعَهَ الرَّحْمنِ، وَ اَظْهَرُوا الْفَسادَ، وَ عَطَّلُوا الْحُدُودَ وَاسْتَاْثَرُوا بِالْفَیءِ، وَ اَحَلُّوا حَرامَ اللّهِ، وَ حَرَّمُوا حَلالَ اللّهِ، وَ اَنَا اَحَقُّ مَنْ غَیَّرَ. قَدْ اَتَتْنی کُتُبُکُمْ، وَ قَدِمَتْ عَلَىَّ رُسُلُکُمْ بِبَیْعَتِکُمْ اَنَّکُمْ لا تُسَلِّمُونی وَ لا تَخْذُلُونی، فَاِنْ تَمَمْتُمْ عَلى بَیْعَتِکُمْ تُصیبُوا رُشْدَکم، فَاَنَا الْحُسَیْنُ بْنُ عَلِىٍّ، وَابْنُ فاطِمَهَ بِنْتِ رَسُولِ اللّهِ(صلى اللهعلیه وآله)، نَفْسی مَعَ اَنْفُسِکُمْ، وَ اَهْلی مَعَ اَهْلیکُمْ، فَلَکُمْ فِىَّ اُسْوَهٌ، ». تاریخ طبرى، ج 4، ص 304 ; کامل ابن اثیر، ج 4، ص 48 و فتوح ابن اعثم، ج 5، ص 144-145۔

Add comment


Security code
Refresh