www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

714370

تقلید کے بارے میں قرآن مجید کا کیا نظریہ ہے؟ کیا قرآن تقلید کی ستائش کرتا ہے یا اس کی نھی کرتا ہے؟ دونوں صورتوں کے سلسلہ میں مثالیں پیش کیجئیے۔

 

ایک مختصر
اصطلاح میں تقلید دلیل کے بغیر کسی کی پیروی کرنا ہے۔ تقلید، من جملہ ان موضوعات میں سے ہے ، جن میں اچھے اور برے ھونے کی قابلیت پائی جاتی ہے اور شرائط کے مطابق کبھی اچھے اور کبھی برے شمار ھوتے ہیں۔ حقیقت میں تقلید ان لوگوں کے لئے ہے، جو کسی امر کے بارے میں اجتھاداور تخصص حاصل نھیں کرسکتے ہیں اور مھارت اور علم میں صاحب نظر نھیں ھوتے ہیں۔ اگر چہ وہ حقیقی علم تک نھیں پھنچے ہیں لیکن اس علم کے ماھرین کی پیروی اور تقلید سے حقیقت تک پھنچنے میں شریک ھوں گے۔
تقلید کی مذمت میں بیان کی گئی آیات حقیقت میں خداشناسی ہے۔ اس کے علاوہ اعتقادی اصول میں تقلید کی مذمت کی گئی ہے اور عقل کی منافی موضوعات میں بھی قرآن مجید میں تقلید کی مذمت کی گئی ہے اس بنا پر قرآن مجید کی آیات کے مطابق اعتقادی اصول میں تقلید کی راہ کا انتخاب نھیں کرنا چاھئیے ۔
اس کے مقابلے میں ایسی آیات بھی پائی جاتی ہیں، جن کے مضمون سے تقلید کا ضروری ھونا ثابت ھوتا ہے، مثال کے طور پر اھل اعلم سے پوچھنے کی تاکید کرنے والی جیسی آیات۔
تفصیلی جوابات
تقلید، مادہ " ق ل د" سے ہے، اصطلاح میں دلیل پوچھے بغیر کسی کی پیروی کرنے کے معنی میں ہے۔[1] تقلید، ایسے موضوعات میں سے ہے، جن کے بارے میں کلی حکم صادر نھیں کیا جاسکتا ہے، بلکہ ان کا اچھا اور برا ھونا شرائط اور حالات کے مطابق بدلتا رھتا ہے۔ کبھی قابل قدر و تحسین ھوتے ہیں اور عقل ان کی تائید کرتی ہے اور کبھی قابل مذمت ھوتے ہیں اور ان کا کوئی دفاع نھیں کرسکتا ہے۔
آج، انسان نے ترقی کی ہے اور معاشرہ میں نئی ضروریات اور معلومات کی وسعت اور مختلف مباحث کے پیش نظر اس امر کی ضرورت پیدا ھوئی ہے کہ ھر علم میں اس علم کا ماھر اور متخصص موجود ھو جو اپنی عمر کو اس علم کو حاصل کرنے میں صرف کرے۔ لیکن علم کی وسعت اور انسان کی عمر مختصر ھونے کے پیش نظر ایک انسان کے لئے تمام ضروری علوم میں تخصص حاصل کرنا ممکن نھیں ہے۔ اس لئے ھم کسی ایسے انسان کو نھیں پاسکتے ہیں جس نے تمام ضروری علوم میں تخصص حاصل کیا ھو اور اپنے علم سے استفادہ کرے اور اسے کسی علم میں تقلید کرنے کی ضرورت نہ ھو۔
جس اھم موضوع پر یھاں تاکید کی جانی چاھئیے، وہ تمام انسانوں کے لئے علم کا راستہ کھلا ھونا ہے۔ بہ الفاظ دیگر علم کا دروازہ سبوں کے لئے کھلا ہے اور ھر ایک اپنی تلاش و کوشش سے اسے حاصل کرسکتا ہے، لیکن بھت سے لوگ مختلف وجوھات کی بناپر علم تک رسائی حاصل نھیں کرسکتے ہیں اور صرف مختصر معلومات پر اکتفا کرتے ہیں، ایسے افراد کے لئے ماھرین اور متخصصین سے تقلید کرنے کا راستہ کھلا ہے اور عقل و شرع نے بھی اس کی تائید کی ہے۔
حقیقت میں تقلید ان لوگوں کے لئے ہے جو کسی امر میں اجتھاد اور تخصص تک نھیں پھنچ سکتے ہیں اور اس سلسلہ میں صاحب نظر نھیں ہیں۔ اگر چہ ایسے لوگ حقیقی علم تک نھیں پھنچے ہیں، لیکن ایسے امور میں متخصص افراد کی پیروی اور تقلید کرکے حقیقت تک پھچنے میں ان کے شریک ھوسکتے ہیں۔
قرآن مجید نے بھی اس نظریہ کو واضح طور پر بیان کرکے اس کی تاکید فرمائی ہے۔ قرآن مجید کلی طور پر نہ تقلید کو مسترد کرتا ہے اور نہ کلی طور پر اس کی تائید کرتا ہے۔ بلکہ مناسب حالات اور شرائط میں کچھ احکام صادر کئے ہیں جن سے کچھ مطالب حاصل کئے جاسکتے ہیں۔
سب سے پھلے ھم ان آیات پر بحث کرتے ہیں جو تقلید کی مذمت میں نازل ھوئی ہیں تاکہ قابل مذمت تقلید سے متعلق آیات کے بارے میں ایک کلی نظریہ حاصل کرسکیں۔
عام طور پر جو تقلید پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ میں زیر بحث تھی ، وہ بت پرستی میں تقلید تھی، جو قدیم زمانہ سے عربوں میں رائج تھی اور جاھلیت کے عرب بھی اس کی پیروی کرتے تھے اور حق کے مقابلے میں نافرمانی کرتے تھے اور پیغمبر (ص) کے کلام کو قبول نھیں کرتے تھے۔
قرآن مجید اس قسم کی خداشناسی جیسے اصول میں اندھی تقلید کے بارے میں سخت موقف اختیار کرتا ہے اور ایسے افراد سے مخاطب ھوکر ارشاد فرماتا ہے؛" اور جب ان سے کھا جاتا ہے کہ خدا کے نازل کئے ھوئے احکام اور اس کے رسول کی طرف آؤ تو کھتے ہیں کہ ھمارے لئے وھی کافی ہے جس پر ھم نے اپنے آباء و اجداد کو پایا ہے ان کے آباء و اجداد نہ کچھ سمجھتے ھوں اور نہ کسی طرح کی ھدایت رکھتے ھوں۔ ( تو کیا پھر بھی وہ ان کی پیروی کرتے ؟) [2] " اور ان لوگوں نے کھا کہ تم یہ پیغام اس لئے لائے ھو کہ ھمیں باب دادا کے راستہ سے منحرف کردو اور تم دونوں کو زمین میں حکومت و اقتدار مل جائے اور ھم ھرگز تمھاری بات ماننے والے نھیں ہیں۔"[3] " ان لوگوں نے کھا کہ ھم نے اپنے باپ دادا کو بھی انھیں کی عبادت کرتے ھوئے دیکھا ہے۔ ابراھیم نے کھا: یقینا تم اور تمھارے باپ دادا کھلی ھوئی گمراھی میں ھو۔"[4]
ان آیات سے معلوم ھوتا ہے کہ اصول دین میں تقلید نھیں کی جاسکتی ہے۔ لیکن تقلید دوسروں سے علم حاصل کرنے کے علاوہ ہے اور یہ آیات اس کے منافی نھیں ہیں کہ اصول دین کے سلسلہ میں دوسروں سے سیکھیں اور ان کے استدلالات سے استفادہ کریں۔ یھاں پر نفی کی گئی تقلید، وہ تقلید ہے جو معرفت اور شناخت کے بغیر صرف دوسروں کی بات پر مبنی ھو۔[5]
اس سلسلہ میں دوسری آیات بھی پائی جاتی ہیں جو اس قسم کی تقلید کی مذمت کرتی ہیں اور اس کے پیرؤں کو ضلالت اور گمراھی میں جانتی ہیں۔[6]
اس قسم کی تقلید کے علاوہ، ایک اور قسم کی تقلید کو قرآن مجید میں مسترد کیا گیاہے:" اور یہ لوگ جب کوئی برا کام کرتے ہیں تو کھتے ہیں کہ ھم نے آباء و اجداد کو اسی طریقہ پر پایا ہے اور اللہ نے یھی حکم دیا ہے۔ آپ فرما دیجئے کہ خدا بری بات کا حکم دے ھی نھیں سکتا ہے کیا تم خدا کے خلاف وہ کھہ رھے ھو جو جانتے بھی نھیں ہو۔"[7]
یہ آیہ شریفہ اعتقادی موضوعات میں آباء و اجداد کی تقلید کی مذمت کرنے کے علاوہ بُرے اور قبیح اعمال انجام دینے میں تقلید کو بھی مذمت کرتی ہے۔
اس آیہ شریفہ کے مضمون سے معلوم ھوتا ہے کہ عقل کے مخالف امور میں تقلید نھیں کی جاسکتی ہے، بلکہ ایسے امورمیں عقل کی پیروی کرنی چاھئیے۔ اس بنا پر نہ صرف اصول دین اور اعتقادی امور میں تقلید نھیں کی جاسکتی ہے بلکہ یھاں تک کہ ایسے فروعات میں بھی عقل کے تابع رھنا چاھئیے، جن کا عقل حکم کرتی ہے اس لئے قبیح اعمال کی انجام دھی میں تقلید قابل قبول نھیں ہے۔
یہ قرآن مجید کے حکم کا پھلا حصہ تھا جو بعض موارد کے سلسلہ میں تقلید کی مذمت پر مبنی ہے۔ لیکن بعض دوسری آیات میں کچھ ایسے بیانات ہیں جن سے ماھر اور متخصص کی تقلید کرنا اچھا سمجھا گیا ہے۔
" اور ھم نے آپ سے پھلے بھی مردوں ھی کو رسول بنا کر بھیجا ہے اور ان کی طرف بھی وحی کرتے رھے ہیں تو ان سے کھئیے کہ اگر تم نھیں جانتے ھو تو جاننے والوں سے دریافت کرو۔"[8]
اگر چہ یہ آیہ شریفہ ایک خاص موضوع کے بارے میں ہے لیکن ایک عام حکم کو بیان کرنے والی ہے اور وہ آگاہ متخصصین اور دانشوروں کے ذریعہ مسائل و مشکلات کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ آیہ شریفہ واضح طور پر ثابت کرتی ہے کہ متخصصین اور ماھروں کی تقلید کرنی چاھئیے مگر ان مسائل میں کہ تقلید کرنے کی ان میں مذمت کی گئی ہے، جن کی طرف اشارہ کیا گیا۔
ایک اور آیت بھی ہے جو پیروی کرنے اور تقلید کی دلالت کرتی ہے اور ارشاد ھوتا ہے:" اور پھر کھیں گے کہ اگر ھم بات سن لیتے اور سمجھے ھوتے تو آج جھنم والوں میں نہ ھوتے۔"[9]
اس آیت میں جھنمی ھونے کی دلیل دو امور کار نہ ھونا، قرار دیا گیا ہے، ان میں سے ایک تعقل ہے کہ اس سے مراد فکر کرنا اور غور کرنا ہے اور دوسرا سننا ہے، یھاں پر سننے سے مراد کانوں تک آواز کا آنا نھیں ہے ، کیونکہ بیشک یہ امر جھنم سے نجات ملنے کا سبب نھیں بن سکتا ہے بلکہ اس سے مراد سننا اور قبول کرنا ہے۔ یہ سننا اور قبول کرنا وھی تقلید ہے جس پر بحث ہے۔
نتیجہ کے طور پر تقلید کرنے کے سلسلہ میں قرآن مجید اور عقل کا حکم ایک دوسرے کے مانند ہے اور بعض مواقع پر تقلید نہ کرنا ضروری سمجھا گیا ہے۔ اور بعض دوسرے مواقع پر اس کی مذمت کی گئی ہے اور قرآن مجید نے ان کے مقام کو مد نظر رکھے بغیر ان کے بارے میں کلی حکم نھیں دیا ہے۔
حوالہ:
۱ ۔ ریحی، فخر الدین، مجمع البحرین، تحقیق: حسینی‏، سید احمد، ج 3، ص 132، کتابفروشی مرتضوی، تهران، طبع ۔سوم، 1375ش.
۲ ۔ مائده، 104، "وَ إِذَا قِيلَ لهَمْ تَعَالَوْاْ إِلىَ‏ مَا أَنزَلَ اللَّهُ وَ إِلىَ الرَّسُولِ قَالُواْ حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ ءَابَاءَنَا أَوَلَوْ كاَنَ ءَابَاؤُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ شَيْا وَ لَا يهَتَدُون".
۳ ۔ یونس، 78.
۴ ۔ انبیاء، 53 – 54.
۵ ۔ ملا حظہ ھو: تقلید در اصول دین؛ 3119.
۶ ۔ و آیات دیگری مانند: شعراء، 71 – 74؛ لقمان، 21.
۷ ۔ اعراف، 28، "وَ إِذَا فَعَلُواْ فَاحِشَةً قَالُواْ وَجَدْنَا عَلَيهْا ءَابَاءَنَا وَ اللَّهُ أَمَرَنَا بهِا قُلْ إِنَّ اللَّهَ لَا يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ أَ تَقُولُونَ عَلىَ اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ".
۸ ۔ نحل، 43، "وَ ما أَرْسَلْنا مِنْ قَبْلِكَ إِلاَّ رِجالاً نُوحي‏ إِلَيْهِمْ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ".
۹۔ ملک، 10، "وَ قالُوا لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ ما كُنَّا في‏ أَصْحابِ السَّعيرِ"

Add comment


Security code
Refresh