www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

حقیقت یہ ھے کہ انسان سعادت و کمال حاصل کرنے کے لئے ایک مخصوص ھدایت خدا کا محتاج و نیاز مند ھے وھی ھدایت جو وحی کے ذریعے انبیاء کو عطا کی جاتی ھے

اور پھر ان کے توسط سے دوسرے انسانوں کی ھدایت کا انتظام کیا جاتا ھے۔ لھٰذا خدائے حکیم کہ جس کے تمام افعال وامور حکیمانہ اور مستحکم ھوتے ھیں نیز جو نہ فقط یہ کہ لغو اور بیھودہ فعل انجام نھیں دیتابلکہ ھر شایستہ اور پسندیدہ فعل قطعی طور پر اس سے صادر ھوتا ھے،مسلماً اور ضرورتاً بشر کو اس کی اس زندگی کی بنیادی ضرورت سے محروم نھیں رکھ سکتا۔ یہ ضرورت نبوت پر دلیل کا خلاصہ ھے جس کی بنیاد پر انسان کے لئے وحی و نبوت کی ضرورت ھے۔

بالتفصیل بیان

مذکورہ دلیل کو چند مقدمات کے ذیل میں بالتفصیل یوں بیان کیا جاتا ھے:

۱۔ خلقت انسان سے خدا کا ھدف یہ ھے کہ انسان اپنے کمال کے اعلیٰ ترین درجات طے کرنے کے ساتھ ساتھ ان نعمتوں اوررحمتوں سے لطف اندوز اور بھرہ ور ھونے کی صلاحیت پیدا کرے جو انسان کامل سے مخصوص ھیں۔

۲۔ انسان فقط اسی صورت میں اپنے اعلیٰ کمال تک پھونچ سکتا ھے کہ جب اپنے اختیار اور آزادانہ انتخاب کے ساتھ اپنے امور کوانجام دے یا ترک کرے۔ بہ الفاظ دیگر، انسان صرف اسی صورت میں اپنے حقیقی کمال تک رسائی حاصل کرسکتا ھے کہ جب اپنی زندگی کے طول و عرض میںایک خاص راستے پر گامزن ھو اور راہ مستقیم پر رواں دواں ھو۔

۳۔ انسان کو سعادت و کمال حقیقی تک پھونچانے والی راہ مستقیم کو طے کرنا اسی وقت ممکن ھے جب اس راستے سے آگاھی ھو۔

۴۔ حس(SENSE) اور عقل کے ذریعہ حاصل شدہ معلومات ، اس راہ سے شناسائی اور آگاھی کے لئے کافی نھیں ھیں۔

ابھی تو انسان نے خود ھی کونھیں پھچانا ھے اور نہ اپنے وجود کے مختلف ابعاد کی مکمل طور پر گرھیں کھول سکا ھے۔ تبھی تو یہ اپنے آپ کو ”موجود ناشناختہ“ اور ”بڑے بڑے مجھولات میں سے ایک “ کھتا نظر آتا ھے۔ یھی وجہ ھے کہ وہ ابھی اس موضوع پر یکساں نظریات و خیالات پیدا نھیں کرسکا ھے کہ انسان کی سعادت واقعی وحقیقی کیا ھے؟ حقیقی کمال کیا ھے؟ استاد شھید مطھری کے مطابق:

دنیا میں ایسے دو فلسفی بھی نھیں مل سکیں گے جو اس راہ کی شناخت سے متعلق متفق الخیال اور یکساں نظریات کے حامل ھوں۔ خود سعادت جو کہ اصلی اور حقیقی ھدف ھے، شروع شروع میں بھت واضح اور بدیھی مفھوم نظرآنے کے باوجود نھایت مبھم اورمغالطہ میں ڈال دینے والے مفاھیم میں سے ایک مفھوم ھے۔ سعادت کیا ھے؟، کمال کیا ھے؟ اور کیسے حاصل کیا جاسکتا ھے؟ شقاوت کیا ھے اور اس کے اسباب کیا ھیں؟ اس جیسے سوالات ابھی تک مجھولات میں شمار کئے جاتے ھیں۔ ابھی تک انسان ناشناختہ ھے، کیوں؟ اس لئے کہ ابھی تک بشر، اس کی صلاحتیں، اس کی صفات واستعداد وغیرہ سبھی کچھ ناشناختہ ھیں۔ (۱)

شناخت راہ سعادت وکمال اس وقت مزیددشوار ھوجاتی ھے جب اس بات کا علم ھوجائے کہ انسان ، حیات ابدی سے مالامال موجود کا نام ھے یعنی اس کی اس دنیا کی زندگی اس کی اس ضخیم کتاب وجود کا صرف ایک صفحہ ھے جس کتاب کے صفحات کی شمارش کسی بھی قیمت پر ممکن نھیں ھے نیز انسان کی اس مختصر سی زندگی میں اس کی چھوٹی سے چھوٹی حرکت اس کی ھمیشہ باقی رھنے والی اخروی زندگی پر اثر انداز ھوگی۔

۵۔ خدا، حکیم ھے اور اس کے تمام افعال حکیمانہ اور مستحکم ھوتے ھیں۔ اس کی ذات سے کوئی بھی قبیح فعل سرزد نھیںھوتا نیزوہ شایستہ وپسندیدہ فعل کو انجام دیتا ھے۔

مذکورہ تمام مقدمات سے یہ نتیجہ حاصل ھوتا ھے کہ خدائے حکیم نے راہ ھدایت کو وحی کی صورت میں بشریت کے حوالے کردیا ھے اور انبیاء اس ھدایت کو بشرتک پھونچانے میں ایک وسیلے اور ذریعے کا کام کرتے ھیں۔

مثال

ایک عاقل شخص اپنے کچھ دوستوں کو اپنے گھر پر مدعو کرتا ھے ۔جس کے لئے وہ مختلف انواع و اقسام کی خوردنی ونوشیدنی غذاؤں سے دسترخوان سجاتا ھے ، مھمان کی پذیرائی کے لئے نوکروں اور خدمت گزاروں کا انتظام کرتا ھے اور سارے گھرکو دوستوں کے آنے کی خوشی میں زرق برق کردیتا ھے لیکن اس کے دوست اس کے گھرکا ایڈرس نھیں جانتے ھیں اور نہ ھی ایسا کوئی ذریعہ ھے کہ جس کے توسط سے اس کے گھر کا ایڈرس حاصل کرسکیں۔ وہ شخص بھی اس بات کو جانتا ھے۔ ظاھر ھے کہ مذکورہ فرضیہ میں اس شخص کے لئے ضروری ھے کہ وہ اپنے دوستوں کواپنے گھر کا ایڈرس بتائے تاکہ وہ اس کے گھر پھونچ سکیں اور اگر وہ شخص ایسا نھیں کرتا ھے تو کوئی عام سا شخص بھی اس شخص کی عقل مندی پر سوالیہ نشان لگا دے گا۔

قصہٴ انسان وخدا بھی اس حکیم و عاقل شخص اور اس کے مھمان دوستوں کا سا ھی ھے۔ خد انے اپنے محبوب بندوں کے لئے جنت کا انتظام کر رکھا ھے لیکن اس کے بندے جنت تک پھونچنے والی راہ سے آگاہ نھیںھیںاور ان کے پاس ایسا کوئی راستہ بھی نھیں ھے کہ جس کے ذریعہ وہ جنت تک رسائی حاصل کرسکیں۔ لھٰذا خدا ئے حکیم پر لازم ھے کہ وہ رسولوں اور انبیاء کے ذریعہ راہ نجات وکمال کو روشن وبیان کرے۔


نبوت کے فوائد اوراثرات

انبیاء کی تاریخی حیثیت واھمیت اور کردار، ان کے مثبت اثرات اور تعمیری اقدامات جو وہ کرگئے ھیں یا تھذیب وتمدن کے لئے ان کے خدمات کسی سے پوشیدہ نھیں ھیں۔ انبیاء تاریخ بشریت کے بزرگ ترین مصلح اوردل سوز ودردمند ترین رھبر رھے ھیں کہ جنھوں نے بشر کو اس کے کمال و سعادت اور نجات کی آخری منزلوں تک پھونچانے میں کوئی کسر نھیں چھوڑی ھے۔ انبیاء نے ھزارھا مسائل و مشکلات کا سامنا کیا، مصائب وآلام کو برداشت کیا نیز اپنی اپنی امتوں کی اذیتوں و آزار رسانیوں کو خندہ پیشانی سے قبول کیا اوراس طرح تاریخ و معاشروں میں عظیم ترین تبدّل و تغیّر لانے میںکامیاب ھوئے۔ اس سلسلے میں تاریخ کا مطالعہ اور پیغمبر اسلام کے زمانے کے عرب معاشرے نیز اس وقت کی دنیا کے حالات وکیفیات پرسرسری نگاہ ڈالنا ھی کافی ھے۔ جاھل ووحشی عرب اقوام اوراسلامی تھذیب وتمد ن کا اجمالی تقابل ھی محققین اور دانشمندوں کی آنکھیں کھولنے کی کافی ھے۔ یھاں اس زمانے کی تاریخ پر مفصل تحقیق وتبصرہ ممکن نھیںھے لھٰذا ان مباحث کو تاریخ اسلام سے مربوط مباحث پر موقوف کیا جاتا ھے۔

یھاں ھمارا مطمح نظر صرف اتنا ھے کہ قرآن مجید کی آیات کے ذیل میں مبلغان دین یعنی انبیاء اور نبوت کے ذریعہ حاصل ھونے والے فوائد و اثرات کوبیان کردیا جائے۔

(۱) تعلیم

انبیاء کی پھلی اور اھم ذمہ داری اپنی امت کیلئے تعلیم کی فراھمی ھے یعنی ان کو ان حقائق سے آشنا کرائیں جن کو وہ نھیںجانتے یا نھیں جان سکتے۔ اس بات کا تفصیل سے ذکر ھو چکا ھے کہ بعثت انبیاء اور بشر کے درمیان ان کی موجودگی کو جو چیز ضروری اور لازم قرار دیتی ھے وہ بشر کی اپنی راہ نجات و کمال سے متعلق جھالت اور لاعلمی ھے۔ انبیاء اس لئے آئے تھے کہ اس جھالت کو علم میں تبدیل کریںاور اس مجھول کو معلوم میں تبدیل کریں۔

"ربنا وابعث فیھم رسولاً منھم یتلوا علیھم آیاتک ویعلمھم الکتاب والحکمة ویزکیھم انک انت العزیز الحکیم"

پروردگارا ! ان کے درمیان ایک رسول کو مبعوث فرماجو ان کے سامنے تیری آیتوں کی تلاوت کرے۔ انھیں کتاب وحکمت کی تعلیم دے اور ان کے نفوس کو پاکیزہ بنائے۔ بیشک تو صاحب عزت و صاحب حکمت ھے۔ (۲)

"کما ارسلنا فیکم رسولاً منکم یتلوا علیکم آیاتنا ویزکیکم ویعلمکم الکتاب والحکمة ویعلمکم مالم تکونوا تعلمون"

جس طرح ھم نے تمھارے درمیان میں سے ایک رسول بھیجا ھے جو تم پر ھماری آیات کی تلاوت کرتا ھے تمھیں پاک و پاکیزہ بناتا ھے اور تمھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ھے اور وہ سب کچھ بتاتا ھے جو تم نھیں جانتے ۔ (۳)

بعض مفسرین قرآن کھتے ھیں :جملہٴیعلمکم ما لم تکونوا تعلمون “ سے مراد یہ ھے کہ تمھیں ان چیزوں کی تعلیم دیتے ھیں جنکو تم نھیں جانتے یا نھیں جان سکتے برخلاف جملہٴیعلمکم ما لم تعلمون

تعلیمات انبیاء کے دو حصے کئے جاسکتے ھیں:

(۱) ایسے حقائق کہ جن کا علم بشر کی دسترس سے مکمل طور پر باھر ھے انسان جس قدر کوشش کرلے اپنی حس وعقل کے ذریعہ ان تک نھیں پھونچ سکتا۔

(۲) ایسے حقائق کہ عقل انسانی جن کا ادراک کرسکتی ھے لیکن ان تک دسترس کے لئے برسھا برس بلکہ صدیوں کی کوشش علمی اور تجربہٴ علمی درکار ھوتا ھے۔

انبیاء کرام ان موارد میں انسان کی مشکلات ومسائل کو آسان کرتے ھیں اور ان علوم ومعارف کو تیار شدہ ان کے حوالے کردیتے ھیں۔

(۲) تزکیہٴ نفس

انبیائے الٰھی وہ پاک و پاکیزہ اور نیک افراد گزرے ھیں جن میں تمام نیک صفات پائی جاتی تھیں نیز تمام صفات بدو قبیح سے کنارہ کش ھوتے تھے۔ انبیاء کیونکہ بذات خود عدالت، صداقت، طھارت، شجاعت، فیاضی، امانت وغیرہ جیسی صفات کا مجسم نمونہ ھوتے تھے لھٰذا اپنی امت کوبھی ان نیک صفات کی طرف دعوت دیتے تھے ساتھ ھی تمام بری صفات سے اجتناب کی طرف راغب بھی کراتے تھے یایوں کھا جائے کہ قرآن کریم کے مطابق لوگوں کے نفوس کا تزکیہ کرتے اور قلوب کو پاکیزہ بناتے تھے۔

تزکیہٴ نفوس اور تربیت بشر اس قدر اھم ھے کہ قرآن ھمیشہ تزکیہ کو تعلیم پر مقدم کرتا نظر آتاھے۔ سورہٴ بقرہ کی صرف ایک آیت ، آیت نمبر ۱۲۹،ایسی ھے جھاں تعلیم پھلے ھے اور تزکیہ بعد میں البتہ یہ آیت حضرت ابراھیم و اسماعیل کی زبانی ھے اور مقام تحقق و وقوع میں ھے یعنی مرحلہٴ عمل میں کیونکہ تعلیم تربیت پر مقدم ھوتی ھے لھٰذا آیت میں پھلے تعلیم کا ذکر کیا گیا ھے بعدمیں تزکیہ کا۔

(۳) تذکر و نصیحت

انسان فطرت الٰھی پر پیدا ھوتا ھے اور اعتقاد خدا، اس کی عبادت کی طرف راغب ھونا، اچھی اور نیک صفات وفضائل کی طرف جھکاؤ جیسے بھت سے تمایلات وصفات اس کے وجود میں ابتدا ھی سے راسخ ھوتے ھیں جو اس کو نجات وکمال کی طرف لے جا سکتے ھیں لیکن انسان ھوا و ھوس ، حب دنیا اور مادی لذتوں کی طرف رغبت نیز اپنی ذات کی طرف سے غفلت کی بنا پر اپنی اس فطرت کو غبار آلود کردیتا ھے اور ان مذکورہ تمام تمایلات وصفات کو پس پشت ڈال دیتا ھے۔ لھٰذا طول تاریخ میں انبیاء مبعوث ھوئے ھیں کہ وہ بشر کو اس کی اس فطرت کی طرف پلٹا سکیں اور اس کے ان مقدس تمایلات فطری کو بیدار کرسکیں جوسوئے ھوئے ھیں۔ اس سلسلے میں قرآن کریم نے انبیاء کرام کو ”مذّکر“یعنی یاد دلانے والا کھا ھے:

"فذکر انما انت مذکّر"

(لھٰذا) تم نصیحت کرتے رھو کہ تم صرف نصیحت کرنے والے ھو۔(۴)

"کلا انہ تذکرة"( ھاں ھاں بیشک یہ سرا سر نصیحت ھے ۔(۵)

(۴)غلامی اور قیدو بند سے آزادی

انبیائے خدا نے انسان کی مختلف نوع کی آزادی میں اھم کردار ادا کیا ھے۔ انھوں نے جھاں ایک طرف بشر کو بادشاھوں اور سلطنتوں کی شکل میں مادی قدرتوں کی قید سے آزادی دلائی وھیں دوسری طرف اس کو ھویٰ و ھوس ، شھوت پرستی، مادیت اور حب دنیا جیسی زنجیروں سے آزاد کرایا۔

"ویضع عنھم اصرھم والا غلال التی کانت علیھم"
ان کے اوپر سے بوجھ اور قید و بند کواٹھالیتا ھے۔ (۶)

حقیقت یہ ھے کہ انبیاء لوگوں کو خدا کی بندگی کی طرف دعوت دیتے تھے کیونکہ انسان جب تک خدا کا بندہ نھیں ھوجاتا، آزا د نھیں ھوسکتا۔ اگر کوئی شخص بندگی خدا کو اختیار نہ کرے تو ھمیشہ ھمیشہ کے لئے اسیر ھوا و ھوس اور صفات رزیلہ کا غلام ھوجاتا ھے کہ یہ صفات اسے ھر لمحہ ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر کھینچتی رھتی ھیں اور اگر خوش قسمتی سے بندگی خدا اختیار کرلے اور بارگاہ خداوندی میں سر بسجود ھوجائے تو ھمیشہ ھمیشہ کے لئے تمام قید و بندسے آزادھو جاتا ھے۔

(۵) عدالت اجتماعی

انبیاء کے اھداف میں سے ایک اھم ھدف، معاشرے میں عدل وانصاف کی برقراری ھے۔ قرآن واضح طور پر عدالت اجتماعی بر قرار کرنے کو انبیاء کااھم ھدف او ران کی ایک بڑی ذمہ داری کے طور پر پیش کرتا ھے۔

"لقد ارسلنا رسلنا بالبینات وانزلنا معھم الکتاب والمیزان لیقوم الناس بالقسط"

بیشک ھم نے رسولوں کو واضح دلائل کے ساتھ بھیجا ھے اور ان کے ساتھ کتاب و میزان کو نازل کیا ھے تاکہ لوگ انصاف کے ساتھ قیام کریں۔(۷)

(۶) نمونہٴ عمل

آج تمام ، ماھرین نفسیات اس بات پر متفق ھیں کہ کس نمونہٴ عمل کا وجود، افراد معاشرہ کی تربیت میں ایک اھم کردار ادا کرتا ھے اور کمال و تربیت انسان کے اھم ترین اسباب وعوامل میں سے ایک ھے۔ انبیائے الٰھی کے وجود کا ایک فائدہ اور خصوصیت یہ بھی تھی کہ وہ معاشرے کے عام لوگوں کے درمیان زندگی گزارتے تھے اور لامحالہ اپنی صفات کی بنیاد پر عوام الناس کے لئے نمونہٴ عمل ھونے کا کردار نبھاتے تھے۔

"لقد کان لکم فی رسول الله اسوة حسنة لمن کان یرجوا الله والیوم الآخر وذکر الله کثیراً"

تم میں سے اس کے لئے رسول کی زندگی میں بھترین نمونہٴ عمل ھے جو الله اور آخرت سے امیدیں وابستہ کئے ھوئے ھے اور الله کو بھت زیادہ یاد کرتا ھے۔ (۸)


بعثت انبیاءکا حقیقی ھدف اور غرض 

گذشتہ مباحث سے یہ بات واضح ھوگئی ھے کہ انبیاء ، راہ راست کی طرف بشر کی راھنمائی کے لئے بھیجے گئے ھیں۔ یھاں یہ سوال پیدا ھوتا ھے کہ انبیاء، نجات انسان کو کس شےٴ میں دیکھتے ھیں یعنی ایک انسان کس طرح نجات و کمال حاصل کرسکتا ھے؟ کیا انبیاء کے مدنظر فقط جھان آخرت ھی تھا، دنیاوی زندگی کی طرف کوئی توجہ نھیں تھی؟ آیا ان کا حقیقی ھدف معاشرے میں عدل و انصاف کو برپا کرنا اور کلی طور پر دنیاوی زندگی کو آباد کرناتھا اس معنی میں کہ اخروی زندگی کی حیثیت ان کی نگاہ میں فرعی اورثانوی تھی؟ یا پھردنیاوی اور اخروی دونوں زندگیاں ایک دوسرے کے ساتھ ان کی نگاہ میں اھم اور ان کا حقیقی وواقعی ھدف تھیں؟

مذکورہ سوالات کا صحیح جواب درج ذیل مقدمات کے ذریعہ باآسانی واضح ھوجائے گا:

۱) انسان کی دنیاوی زندگی اس کی اخروی زندگی کے مقابل بے انتھا مختصر اور کوتا ہ ھے اسی طرح جس طرح ایک کروڑ کے سامنے ایک ھزار کی کوئی حیثیت نھیں ھوتی جب کہ ھم یہ بھی جانتے ھیں کہ انسانی زندگی ایک ھزار سال توبھت دور بلکہ بسا اوقات سو سال کی بھی نھیں ھوتی اور اس کے مقابلے میں اخروی زندگی کی نہ کوئی حدھے اور نہ کوئی شمارش۔

۲) مذکورہ بالا گفتگو کے مد نظر یہ بات بھی واضح ھوجاتی ھے کہ اگر دنیاوی کمال وفلاح اور نجات کا اخروی زندگی کے کمال وفلاح و نجات سے تقابل کیا جائے تو آخرت کے مقابلے میںدنیاوی کمال لایعنی اور بے معنی ھے اور اصلاً ان دونوں کو ایک ساتھ قرار نھیں دیا جاسکتا نیز نہ ھی دنیا وی زندگی کو اصل وحقیقی اور اخروی زندگی کو فرعی اور ثانوی فرض کیا جاسکتاھے۔

۳) لھٰذا، انبیاء کا حقیقی ھدف یہ ھے کہ انسان کو ایسی راہ کی طرف رھنمائی کریں جو اس کو سعادت وکمال اخروی کی صرف لے جائے۔

۴) قرآن کریم کی آیتوں کے پیش نظر فقط قرب خدا اور اس کی باگاہ میں سربسجود ھوجانا ھی انسان کی سعادت و کمال کا باعث وضامن بن سکتا ھے۔کمال انسان صرف عشق خدا اور قرب خدا ھی میں پوشیدہ ھے۔

۵) لیکن یہ بات بھی پیش نظر رھے کہ انسان کا یہ انتھائی اور اخروی کمال نہ یہ کہ دنیاوی زندگی میں سد باب بنتا ھے بلکہ درحقیقت دنیاوی زندگی کا حقیقی کمال بھی اسی کمال پر موقوف ھے یعنی اگر انسان راہ قرب خدا میں قدم اٹھا لے تو اس کی آخرت تو کامیاب ھو گی ھی دنیا بھی جنت نظیر ھوجائے گی کیونکہ اس صورت میں دنیا سے ظلم ، ناانصافی اورفتنہ و فساد وغیرہ کا سرے سے خاتمہ ھوجائے گا۔

۶) اگر آیات قرآن مجید میں مزید غور کیاجائے تو یہ بھی واضح ھو جاتا ھے کہ انبیاء، انسان کواس کے کمال اور اس کے حقیقی مقام و منصب تک پھونچانے کے لئے ظالموں اور ستمگروں سے مقابلہ نیز عدل و انصاف بر قرار کرنے کو اپنا نصب العین سمجھتے تھے کیونکہ اگر معاشرے پر کسی عادلانہ نظام کی حکومت نہ ھو تو قرب خدا کا یہ سفر بھت مشکل ھوجائے گا اور اسے بھت سے موانع کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یھیں سے سورہٴ حدید کی گذشتہ سطور میں مذکورپچیسویں آیت کا مفھوم بھی نمایا ںھوجاتا ھے۔

غرض یہ کہ انبیاء کی آمد کا حقیقی وواقعی ھدف اور غرض وغایت یہ ھے کہ لوگوں کوخدا پر اعتقاد وایمان ، اس کی عبادت و پرستش ، قرب خدا نیز اس کے حضور میں تسلیم محض ھوجانے کی طرف دعوت دیں اور اس طرف راغب کریں۔ یھی وہ مسلمہ حقیقت ھے جو تمام آسمانی ادیان کا لب لباب ھے۔

"ان الدّین عندالله الاسلام"
خدا کے نزدیک بھترین دین ، اسلام ھے۔(۹)

لیکن یہ بات مد نظر رھے کہ مذکورہ ھدف صرف اور صرف عدالت اجتماعی کی برقراری، اخلاقی اقدار کی محافظت اور انسانی صفات کی حفاظت کے ساتھ ھی حاصل کیا جاسکتا ھے اور اس کی رسائی کے ذریعہ انسان نہ فقط آخرت میں بلکہ اس دنیا میں بھی کمال ونجات حاصل کرسکتا ھے نیز ھمہ جھت ترقی کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی زندگی میں کامیاب بھی ھوسکتا ھے۔

حوالہ:

۱۔مجموعہٴ آثار: ج/۲،ص/۵۵۔
۲۔سورہ ٴبقرہ/ ۱۲۹۔
۳۔سورہٴ بقرہ/۱۵۱۔
۴۔سورہٴ غاشیہ/ ۲۱۔
۵۔سورہٴ مدثر/۵۴۔
۶۔سورہٴ اعراف/۱۵۷۔
۷۔سورہٴ حدید/ ۲۵۔
۸۔سورہٴ احزاب/ ۲۱۔
۹۔سورہ ٴآل عمران/ ۱۹۔

Add comment


Security code
Refresh