www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

690050
رھبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے عید نوروز اور نئے ھجری شمسی سال تیرہ سو پچانوے کی آمد کے موقع پراپنے اھم پیغام میں اقتصادی جد وجھد اور مختلف اقتصادی میدانوں میں ایرانی قوم کی مجاھدانہ شرکت کو ایک ضرورت قراردیا اور اس سال کو "مزاحمتی معیشت، اقدام اور عمل" سے موسوم کیا ۔ آپ کے اس پیغام کا مکمل متن یہ ہے-
بسم اللہ الرحمن الرحیم
یا مقلّب القلوب و الابصار۔ یا مدبر الّیل و النّھار یا محوّل الحول و الاحوال حوّل حالنا الی احسن الحال
السلام علی الصدّیقۃ الطّاھرۃ فاطمۃ المرضیّۃ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ۔ و السلام علی ولی اللہ الاعظم ارواحنا فداہ و عجّل اللہ فرجہ
میں تمام ایرانی خاندانوں اور ایرانیوں کو، وہ دنیا میں جھاں کھیں بھی ھوں، عید نوروز کی مبارکباد پیش کرتا ھوں۔ عزیز ھموطنوں آپ کو عید (نوروز)مبارک ھو۔ خاص طور پر شھیدوں کے عزیز اھل خانہ کو، عزیز جانبازوں (دفاع وطن میں اپنے اعضا کا نذرانہ پیش کرنے والے سپاھیوں) ان کے محترم اھل خانہ اور تمام ایثار گروں (دفاع وطن کے لئے محاذ جنگ پر پھنچنے والے مجاھدین) کو مبارکباد پیش کرتا ھوں۔ ھم اپنے عظیم شھیدوں اور اپنے امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔
یہ سال جو شروع ھوا، سنہ 95 (ھجری شمسی 20 مارچ 2016 الی 20 مارچ 2017) اس کا آغاز اور اختتام حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کے اسم مبارک سے متبرک ہے۔ اس سال کا آغاز اور اختتام دونوں، ھجری قمری مھینوں کے مطابق اس عظیم ھستی کی ولادت کے ایام سے متصل ہے ۔
بنابریں مجھے امید ہے کہ ان شاء اللہ سنہ 95 (ھجری شمسی 20 مارچ 2016 الی 20 مارچ 2017) حضرت زھرا (سلام اللہ علیھا)کی برکت سے ملت ایران کے لئے مبارک سال ھوگا اور ھم اس عظیم ھستی کی روحانیت، آپ کی ھدایات اور آپ کی زندگی سے سبق لیں گے اور مستفیض ھوں گے ۔
جو سال گزرا سنہ 94 (ھجری شمسی 21مارچ 2015 الی 19 مارچ 2016) دوسرے برسوں کی طرح یہ بھی شیریں و تلخ واقعات اور نشیب و فراز پر تھا۔ زندگی کا مزاج ھی یھی ہے۔ سانحہ حج کی تلخی سے لیکر 22 بھمن (11 فروری) کے جلوسوں اور 7 اسفند (26 فروری) کے انتخابات کی شیرینی تک۔ مشترکہ جامع ایکشن پلان سے پیدا ھونے والی امیدوں سے لیکر اس کے تعلق سے ھمارے اندر موجود تشویش تک، یہ سب کچھ اس سال کے واقعات میں شامل ہے اور سارے ھی سال ایسےھی ھوتے ہیں۔
انسان کی زندگی کے ایام اور سال، مواقع اور خطرات پر مشتمل ھوتے ہیں۔ ھمارا کمال یہ ھونا چاھئے کہ مواقع سے استفادہ کریں اور خطرات کو بھی مواقع میں تبدیل کر دیں۔ سنہ 95 (ھجری شمسی 20 مارچ 2016 الی 20 مارچ 2017) اب ھمارے سامنے ہے۔ اس سال میں بھی ھمیشہ کی طرح مواقع اور خطرات ہیں۔ سب کوشش کریں کہ اس سال کے مواقع سے صحیح معنی میں استفادہ کر سکیں تاکہ اس سال کے آغاز سے لیکر اس کے اختتام تک ملک کے اندر واضح طور پر تبدیلی نظر آئے۔
سنہ 95 (ھجری شمسی 20 مارچ 2016 الی 20 مارچ 2017) کے لئے کچھ امیدیں ہیں۔ انسان جب حالات کا بطور مجموعی جائزہ لیتا ہے تو امیدیں نظر آتی ہیں۔ البتہ ان امیدوں کی تکمیل کے لئے محنت کرنی چاھئے۔ شب و روز کام کرنا چاھئے اور انتھک سعی و کوشش کرنا چاھئے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ ملت ایران دشمنوں کے خطرات اور ان کے عناد کے مقابلے میں خود کو ھر طرح کے زک اور نقصان سے محفوظ بنا لے۔ ھمیں ایسا کچھ کرنا چاھئے کہ ھم دشمنوں کے خطرات کے مقابلے میں محفوظ ھو جائیں۔ ھم نقصان پھنچنے کے امکانات کو بالکل ختم کر دیں۔
میرے خیال میں معیشت کا مسئلہ پھلی ترجیح ہے۔ یعنی جب انسان ترجیحی مسائل پر نگاہ ڈالتا ہے تو سب سے زیادہ فوری اور سب سے قریبی مسئلہ معیشت کا نظر آتا ہے۔ اگر ھم سب، ملت بھی، حکومت بھی اور مختلف حکام بھی اقتصادی میدان میں توفیق خداوندی سے درست، بروقت اور محکم کام انجام دے لے جائیں تو یہ امید کی جا سکتی ہے کہ دوسرے مسائل جیسے سماجی مسائل، سماجی کمزوریوں(کودور کرنے)، اخلاقی مسائل اور ثقافتی مسائل میں بھی موثر انداز سے کام کریں گے۔
اقتصاد کے معاملے میں جو چیز اھم اور بنیادی ہے وہ داخلی پیداوار کا مسئلہ ہے، روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور بے روزگاری دور کرنے کا مسئلہ ہے۔ اقتصادی پیشرفت اور ترقی کرنے اور کساد بازاری کا مقابلہ کرنے کا مسئلہ ہے۔ یہ عوام کو پیش آنے والے مسائل ہیں۔ یہ ایسی چیزیں ہیں جنھیں عوام خود محسوس کرتے ہیں اور ان کا مطالبہ کرتے ہیں اور حکام کے اعداد و شمار اور بیانوں سے بھی معلوم ھوتا ہے کہ عوام کے یہ مطالبات بجا اور صحیح ہیں۔
اگر ھم کساد بازاری کی مشکل کو حل کرنا چاھتے ہیں، اگر داخلی پیداوار کی مشکل کو رفع کرنا چاھتے ہیں، اگر بے روزگاری کے مسئلے کا ازالہ چاھتے ہیں، اگر ھم گرانی کی مشکل سے نجات چاھتے ہیں تو ان تمام مشکلات کا علاج اقتصادی مزاحمت اور مزاحمتی معیشت میں رکھا گیا ہے۔ مزاحمتی معیشت میں یہ ساری چیزیں شامل ہیں۔ مزاحمتی معیشت کی مدد سے بے روزگاری سے لڑا جا سکتا ہے، کساد بازاری کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے، مھنگائی پر قابو پایا جا سکتا ہے، دشمنوں کی دھمکیوں کا ثابت قدمی سے سامنا کیا جا سکتا ہے، ملک کے لئے بھت سے مواقع پیدا کئے جا سکتے ہیں اور ان مواقع سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کی شرط یہ ہے کہ مزاحمتی معیشت کے لئے ھم محنت سے کام کریں۔
حکومت میں موجود ھمارے بھائیوں نے جو رپورٹ مجھے دی ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے بھت وسیع پیمانے پر کام انجام دیئے ہیں۔ لیکن یہ مقدماتی کام ہیں۔ یہ مختلف اداروں کو سرکولر اور احکامات جاری کرنے کا کام ہے جو مقدماتی کام ہے۔ جو چیز ضروری ہے کہ آگے بھی جاری رھے وہ عبارت ہے اقدام کی انجام دھی، عمل آوری اور زمینی سطح پر عوام کے سامنے کاموں کے ثمرات پیش کرنے سے۔ یہ ھمارا فریضہ ہے، جس کی تشریح میں ان شاء اللہ تقریر کے دوران اپنے عزیز عوام کی خدمت میں پیش کروں گا۔
بنابریں میں نے اس سال کے نعرے کے طور پر جو انتخاب کیا ہے وہ ہے؛ "مزاحمتی معیشت، اقدام اور عمل" مزاحمتی معیشت، اقدام اور عمل یہ اس منزل کی سمت جانے والاروشن اور سیدھا راستہ ہے جس کی ھمیں ضرورت ہے۔ البتہ ھم یہ توقع نھیں رکھتے کہ یہ اقدام اور عمل ایک سال کے اندر تمام مشکلات کو حل کر دے گا، تاھم ھمیں یہ اطمینان ہے کہ اگر اقدام اور عمل منصوبہ بندی کے ساتھ اور صحیح طریقے سے انجام دیا جائے تو ھم اس سال کے آخر تک اس کے اثرات اور نشانیوں کا مشاھدہ کریں گے۔
میں ان تمام لوگوں کا شکریہ ادا کرتا ھوں جنھوں نے اس راستے میں کوششیں کیں اور کر رھے ہیں۔ اپنے عزیز عوام کو ایک بار پھر تبریک و تھنیت پیش کرتا ھوں اور محمد و آل محمد اور حضرت امام زمانہ علیہ السلام پردرود و سلام بھیجتا ھوں۔
و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

Add comment


Security code
Refresh