www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

مشرقِ وسطٰی بے شک عالمی گریٹ گیم کا میدان بنا ھوا ہے۔ افغانستان پر جب روس نے حملہ کیا تو اس وقت پوری دنیا بلکہ عرب دنیا کے 

جنونیوں کی بھرتیاں کرکے انھیں ’’مجاھدین‘‘ بنا کر پاکستان کے راستے افغانستان بھیجا گیا۔ یہ موضوع اس کالم کا حصہ نھیں کہ افغانستان والی امریکی اسلحے و ڈالر کے زور پر لڑی جانے والی جنگ کیسے روس کے ٹوٹنے کا سبب بنی۔ اس کا کریڈٹ بھرحال جھادی تنظیمیں لیتی ہیں۔ روس مگر جانتا ہے کہ ان جھادیوں کی مالی و عسکری معاونت امریکہ، اسرائیل، سعودی عرب اور دیگر ممالک کرتے ہیں۔ افغانستان والا قصہ تمام ھوا تو ’’جھادی‘‘ بجائے اپنے ملک کی تعمیرِ نو کے آپس میں لڑنے لگے، کیا یہ بھی اسی مقدس جھاد کا حصہ تھا؟ یا پھر روس کے ٹوٹنے کی خوشی میں جھادی ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑے تھے؟ خانہ جنگی اس درجہ بڑھی کہ رھے نام اللہ کا، دیگر معاشرتی و اخلاقی برائیاں بھی سر اٹھانے لگیں۔ عالمی سطح پر تسلیم شدہ دھشت گرد اسامہ بن لادن کی القاعدہ بھی یمن اور افغانستان کو اپنا مسکن بنا رھی تھی، ملا عمر کچھ جنونیوں کے ساتھ اٹھا اور افغانستان پر قبضہ کر لیا۔ انتھائی درجے کے ظواھر پرست اور تکفیری سوچ کے حامل ملا عمر اور ان کے پشت پناہ القاعدہ والوں نے قتل و غارت شروع کر دی۔
اپنے ایک کالم میں تحریر کیا تھا، مکرر عرض ہے، کھا جاتا ہے کہ ملا عمر کی حکومت کے دوران میں ایک اکیلی عورت زیورات پھن کر پورا افغانستان گھوم آتی تھی، مگر اس کی آبرو اور زیور دونوں محفوظ رھتے تھے۔ سوال مگر یہ ہے کہ انتھائی قدامت پرست اور قبائلی معاشرے میں یہ کیسے ممکن تھا کہ ایک عورت کو بغیر کسی محرم کے سفر کرنے کی اجازت ھوتی؟ یہ باتیں مگر زیبِ داستان کے لئے طالبان پرستوں نے گھڑیں۔ جھاں عورتوں کی تعلیم پر پابندی اور ان کے سکول بند کر دیئے گئے تھے، وھاں یہ کیسے ممکن تھا کہ عورتیں اکیلے سفر کریں؟ بے شک ملا عمر کے عھد میں انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیاں ھوئیں۔ مخالف فکر کے حامل افراد کو قتل کیا جاتا۔ قدیم تھذیبی ورثے منھدم کر دیئے گئے۔ اقلیتوں پر عرصہ حات تنگ کر دیا گیا، کہ اسی دوران میں نائن الیون کا سانحہ پیش آگیا، افغانستان میں اس کا جشن منایا گیا، اس کے بعد امریکہ نے نیٹو کے ساتھ مل کر افغان طالبان کے ساتھ جو کیا، وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ جو لوگ اس خوش فھمی میں ہیں کہ امریکہ ایک دھائی تک افغانستان میں لڑنے کے بعد شکست کھا کر واپس چلا گیا، وہ احمقوں کی جنت میں رھتے ہیں۔ امریکہ اگر چاھتا تو ڈیڑھ دو مھینوں میں طالبان کا خاتمہ کر دیتا، اس کا مقصد مگر اور تھا، افغانستان میں مستقل قیام کے بجائے خطے میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر آگ لگانا۔ وہ اس میں کامیاب رھا۔
افغانستان میں آج بھی طالبان کے مختلف دھڑے ایک دوسرے سے دست و گریبان ہیں۔ کچھ داعش کے ساتھ جا ملے اور کچھ داعش کی مخالفت کر رھے ہیں۔ کچھ اشرف غنی کے خلاف اور کچھ اس سے مذاکرات کے حامی۔ ایک پیچیدہ کھیل۔ یہ کھیل مگر افغانستان تک محدود نھیں، عراق اور شام اس کھیل کا مرکزی میدان بن چکے ہیں۔ روس، چین اور پاکستان خطے کی نئی مگر خطرناک صورتحال پر گھری نظر رکھے ھوئے ہیں۔ جبکہ امریکہ، سعودی عرب، ترکی اور اسرائیل نے داعش کو تخلیق کرکے نام نھاد جھادیوں کے کئی ایک نئے گروہ پیدا کر دیئے۔ وہ القاعدہ جو عالمی سطح پر تسلیم شدہ دھشت گرد تنظیم ہے، اب وہ اور اس سے منسلک گروہ معتدل جنگجو کھلانے لگے ہیں۔ یمن اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں امریکہ نے اسی القاعدہ کے کئی ایک لیڈروں کو ڈرون حملوں کے ذریعے ھلاک کیا تو کئی ایک کے سروں کی قیمت مقرر کی۔ مگر شام میں اسی القاعدہ کو امریکہ معتدل جنگجو گروہ کھہ رھا ہے۔ امریکہ ایک نام نھاد اتحاد کے تحت عراق میں داعش پر فضائی حملے کرتا ہے، مگر ساتھ ساتھ داعش کے لئے اپنے جھازوں کے ذریعے اسلحہ بھی گراتا ہے۔ شھری ھلاکتیں، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں، آزادی اظھارِ رائے اور ان جیسے پرکشش الفاظ کے ذریعے عالمی استعمار اپنے مقاصد کی تکمیل کی طرف بڑھتا ہے۔
سعودی عرب نے امریکہ کو شام پر حملہ آور ھونے کی دعوت دی اور اس جنگ کے سارے اخراجات برداشت کرنے کی پیشکش کی، مگر بوجہ امریکہ براہِ راست ایسا نہ کرسکا۔ کیا عراق میں امریکہ نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں نھیں کیں؟ کیا افغانستان پر حملے کے وقت امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے شھری آبادیوں کو نشانہ نھیں بنایا؟ کیا یمن میں سعودی عرب اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر شھری آبادیوں کو نشانہ نھیں بنا رھا؟ کیا یمن میں شادی کی تقریبات کو جان بوجھ کر نشانہ نھیں بنایا گیا؟ کیا یمن میں پناہ گزینوں کے کیمپوں اور سکولوں پر حملے نھیں کئے جا رھے؟ حتیٰ کہ ھسپتالوں کو بھی فضائی کارروائیوں کا نشانہ بنایا جا رھا ہے۔ یھاں امریکہ اور اس کے عالمی اتحادیوں کو شھری ھلاکتوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں یاد کیوں نھیں آتیں؟
بات شھری ھلاکتوں یا انسانی حقوق کی نھیں۔ عالمی سامراجی طاقتیں اپنے مفادت کو شھری و انسانی حقوق کی آڑ میں پورا کرنا چاھتی ہیں۔ ایک نئے مشرقِ وسطیٰ کا ظھور۔ یہ ہے امریکی ایجنڈا۔ عراق کے حصے بخرے کئے گئے، لیبیا کا جو حشر ھوا وہ ھم سب کے سامنے ہے۔ شام البتہ امریکی اور اس کے ’’مقدس اتحادیوں‘‘ کی راہ میں رکاوٹ بنا ھوا ہے۔ روس شام کا سفارتی حمایتی تو تھا ھی مگر اب وہ کھل کر شام کا عسکری اتحادی بھی بن چکا ہے اور شامی فورسز کے ساتھ مل کر داعش سمیت ھر اس گروہ کو نشانہ بنا رھا ہے جو دھشت گرد ہے۔ القاعدہ، النصرہ سمیت سارے دھشت گرد گروہ روسی فضائیہ کے نشانے پر ہیں۔
امریکہ کو مگر تکلیف ہے کہ روس سارے دھشت گردوں کو کیوں مار رھا ہے؟ اس پر امریکی احتجاج ملاحظہ ھو۔ ’’امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان، مارک ٹونر نے منگل کے روز میڈیا کو بتایا کہ وزیر خارجہ جان کیری نے روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف سے ٹیلی فون پر گفتگو میں یہ مسئلہ اٹھایا، اوباما انتظامیہ کا کھنا ہے کہ ستمبر میں جب سے روسی فضائی حملے شروع ھوئے ہیں، شام میں شھری ھلاکتوں میں خوفناک حد تک اضافہ ھوا ہے۔
انسانی حقوق کے گروپوں کی رپورٹ کے مطابق ھنگامی طبی کارکنوں، اسپتالوں، اسکولوں اور مارکیٹوں پر گرنے والے روسی میزائلوں کے نتیجے میں سینکڑوں شھری ھلاک ھوچکے ہیں۔ ٹونر کے بقول، ھم نے تنازعے کے دونوں فریقوں پر ھمیشہ زور دیا ہے کہ بین الاقوامی انسانی ھمدردی کے قانون کا خیال کرتے ھوئے احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں اور شھریوں کی تکالیف میں کمی لائی جائے اور اپنے فرائض یاد دلائے جائیں۔
روس اس بات کی تردید کرتا ہے کہ شام میں شھری آبادی ھلاک ھو رھی ہے۔ اس کا کھنا ہے کہ اس کے فضائی حملے دھشت گردوں کے خلاف ہیں، جو کارروائیاں شامی فوج کے ساتھ رابطے میں آکر اور احتیاط کے ساتھ کی جاتی ہیں، تاکہ شھری اھداف کو نقصان نہ پھنچے۔روس نے کھا ہے کہ شام میں اس کا مشن داعش کے خلاف ہے۔
امریکہ کا کھنا ہے کہ روس معتدل اپوزیشن کو نشانہ بنا رھا ہے اور وہ صدر بشار الاسد کی گرتی ھوئی حکومت میں جان ڈالنے کی کوشش کر رھا ہے۔ ٹونر نے یہ بھی کھا کہ گذشتہ ھفتے شام کے باغیوں کے چوٹی کے لیڈر کی ھلاکت جنگ بندی کی کوششوں پر بری طرح سے اثرانداز ھوگی۔
روس یا شامی افواج کے فضائی حملے کے نتیجے میں زھران علوش کی ھلاکت واقع ھوئی، جو جیش السلام نامی اپوزیشن گروپ کے سربراہ تھے۔ یہ گروپ ایک سیاسی تصفیے کی حمایت اور داعش کے خلاف لڑ رھا تھا۔ ٹونر نے ایسی ھلاکتوں کو بے مقصد قرار دیا‘‘۔ اس امر میں کلام نھیں کہ جنگیں تباھی کے سوا کچھ نھیں لاتیں، بے شک روسی فضائی حملوں میں شھری ھلاکتوں کا امکان موجود ہے، مگر کیا امریکہ معتدل و غیر معتدل دھشت گردوں کی اصطلاحات اور نت نئے زاویوں سے تکفیروں کی حمایت کرنے کے بجائے صحیح معنوں میں دھشت گردی کو ختم کرنے لئے عملی کوششیں بھی کرے گا؟
بالکل نھیں کہ یہ امریکی مفادات کے خلاف ہے، لیکن روس شام میں ھر اس گروہ کو نشانہ بنائے گا جو دھشت گرد ہے، روس کے نزدیک معتدل اور غیر معتدل کوئی نھیں، بلکہ سب دھشت گرد ہیں۔ روس خطے کی ھیئت تبدیل نھیں کرنے دے گا اور اس مقصد کے لئے اپنی پوری عسکری طاقت کا مظاھرہ کریگا۔
تحریر: طاھر یاسین طاھر
 

Add comment


Security code
Refresh