www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

147182
ایسا محسوس ھوتا ہے کہ تنازعات سے بھرپور ایک ھفتے کے بعد سب کچھ ختم ھو چکا ہے۔ یہ ھفتہ 7 اپریل کے دن اس وقت شروع ھوا جب شام کے علاقے مشرقی غوطہ کے قصبے دوما میں مبینہ کیمیائی حملے پر مبنی ویڈیوز سوشل میڈیا پر شائع کی گئیں۔
اس ھفتے کا اختتام بھی تین ممالک امریکہ، فرانس اور برطانیہ کی جانب سے شام کے تین صوبوں دمشق، حمص اور حما کے مختلف حصوں پر میزائل حملوں سے ھوا۔ یہ حملے 14 اپریل صبح چار بجے انجام دیئے گئے۔ امریکہ اپنے دو اتحادی ممالک برطانیہ اور فرانس کے ھمراہ شام پر فوجی کاروائی کی دھمکیاں دے رھے تھے اور سب کیلئے یہ حملہ متوقع تھا۔
خاص طور پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ تو ٹویٹر پر اپنے مخصوص انداز میں پیغامات بھیجنے میں مصروف تھے۔ اس پروپیگنڈے کے نتیجے میں ایک ایسی فضا ایجاد ھو چکی تھی کہ سب ان ممالک کی جانب سے ایک بڑی فوجی کاروائی کی توقع کر رھے تھے اور حتی امریکہ اور روس کے درمیان ٹکراو کا خطرہ بھی ظاھر کیا جا رھا تھا۔ لیکن اب جبکہ یہ کاروائی انجام پا چکی ہے اور اس کے نتائج کا جائزہ لیا جا رھا ہے تو اسے دو اھم پھلووں سے دیکھا جا سکتا ہے؛ ایک فوجی پھلو سے یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ زمین پر اس کے کیا اثرات ظاھر ھوئے اور دوسرا سیاسی پھلو سے اور علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر اس کی کوریج کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
پھلا اھم پھلو اس فوجی کاروائی کی وسعت سے متعلق ہے۔ یاد رھے کہ امریکہ نے گذشتہ برس بھی شام حکومت کی جانب سے کیمیائی ھتھیاروں کے استعمال کا بھانہ بنا کر صوبہ حمص کے نواح میں واقع الشعیرات ھوائی اڈے کو میزائل حملوں کا نشانہ بنایا تھا۔ اس بار توقع کی جا رھی تھی کہ امریکہ، برطانیہ اور فرانس کی جانب سے شام پر فوجی کاروائی کی وسعت اس سے کھیں زیادہ ھو گی۔ اگرچہ حالیہ فوجی کاروائی میں ایک سے زیادہ اھداف کو نشانہ بنایا گیا لیکن حملے کی وسعت اس قدر زیادہ نھیں تھی کہ اسے ایک بڑا حملہ قرار دیا جا سکے۔ گذشتہ برس امریکہ نے اپنے حملے میں 59 ٹام ھاک میزائل فائر کئے جبکہ اس بار تینوں اتحادی ممالک نے مل کر 100 سے 120 کے درمیان ٹام ھاک میزائل فائر کئے ہیں۔
ان دونوں فوجی کاروائیوں کے درمیان موازنے کا نتیجہ اس قدر واضح ہے کہ برطانوی وزیراعظم تھریسا مے، امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس اور فرانسوی وزیر دفاع جان ایو لودریان نے اسے ایک محدود فوجی کاروائی قرار دی ہے۔
اسی طرح امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے بھی لکھا ہے: "شام میں فوجی کاروائی پر مبنی ٹرمپ کا شور شرابہ آخرکار ایک مکمل طور پر محدود حملے پر منتج ھوا جو نہ تو ان توقعات پر پورا اترا جو مغربی حکام نے رائے عامہ کے ذھن میں پرورش دے رکھی تھیں اور نہ ھی زمینی حقائق کی رو سے کوئی خاص اثرات کا حامل رھا ہے۔"
سی این این کا تجزیہ نگار فریڈرک پولیتھگن اسی بنیاد پر یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کی شام کے خلاف فوجی کاروائی غیر موثر واقع ھوئی ہے۔ وہ کھتا ہے کہ اس فوجی کاروائی کا شام آرمی کی صلاحیتوں پر کوئی اثر نھیں پڑا بلکہ الٹا شام کا اینٹی میزائل ڈیفنس سسٹم فائر کئے گئے میزائلوں کی بڑی تعداد مار گرانے میں کامیاب رھا ہے۔
دوسری طرف اسرائیلی اخبار یدیعوت آحارنوٹ بھی اس فوجی کاروائی کے بارے میں ملے جلے خیالات کا اظھار کرتے ھوئے لکھتا ہے: "امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے شام کے خلاف فوجی کاروائی شام کے صدر بشار اسد کی استقامت اور مسلح گروھوں کے خلاف جنگ میں ان کی کامیابیوں کے تسلسل پر کوئی اثر نھیں ڈالے گی۔"
شام کے صدر بشار اسد حملوں کی صبح یعنی بدھ کے دن بڑے آرام اور اطمینان سے اپنے صدارتی محل میں داخل ھوئے۔ انھوں نے ثابت کر دیا کہ امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کی اس علامتی فوجی کاروائی نے شام کی فوجی اور سیاسی صورتحال پر کوئی اثر نھیں ڈالا۔
دوسری طرف خود امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی خلاف معمول حملے کے بعد ٹویٹر پر رجز خوانی نھیں کی جس سے ظاھر ھوتا ہے کہ ان کے نزدیک بھی یہ کوئی بڑی فوجی کاروائی نھیں تھی۔ مزید برآں، روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے اپنا ردعمل ظاھر کرتے ھوئے ان حملوں کو "جارحانہ" قرار دیا اور چین نے بھی انھیں "بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی" قرار دیا۔
روس نے حملوں کے فوراً بعد اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا ھنگامی اجلاس بلائے جانے کی درخواست کر دی۔ ایک بار پھر امریکہ اور روس میں سرد جنگ کا آغاز ھو چکا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتھونیو گوتریش نے اسی حقیقت کی جانب اشارہ کرتے ھوئے کھا ہے: "انتقام لینے کی نیت سے سرد جنگ کا دوبارہ آغاز ھو چکا ہے۔" یہ ایک ایسا امر نھیں جسے عالمی سطح پر مثبت تبدیلی یا مطلوبہ سیاسی نتیجہ قرار دے کر اس پر فخر کا اظھار کیا جا سکے۔
درحقیقت امریکہ، برطانیہ اور فرانس نے شام پر غیر قانونی فوجی کاروائی کر کے خود کو نئی مشکل میں پھنسا لیا ہے۔ اب امریکی، فرانسوی اور برطانوی حکام دوسروں سے پھلے خود اپنی عوام اور اپنے جمھوری اداروں کے سامنے اس عمل کی توجیھات کرنے پر مجبور ھو چکے ہیں۔ مختصر یہ کہ یھاں یہ ضرب المثل صادق آتی ہے کہ کھودا پھاڑ نکلا چوھا۔
تحریر: سید رحیم لاری

Add comment


Security code
Refresh