www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

ان دنوں شام، امریکہ اور اس کے حواریوں کے نشانے پر ہے۔ وہ شام میں پوری دنیا سے نہ صرف دھشت گرد بھیج رھے ہیں بلکہ انھیں ھر قسم کی مالی و

 فوجی مدد بھی دے رھے ہیں۔

لیکن اس کے باوجود وہ گزشتہ تین سال سے بشار اسد کی حکومت کو گرانے میں کامیاب نھیں ھوسکے ہیں۔ اب ایسا لگتا ہے کہ امریکہ اور اس کے عرب اور مغربی حواری اس نتیجے پر پھنچ چکے ہیں کہ وہ شام میں دھشت گردوں کو بھیج کر بشار حکومت کا خاتمہ نھیں کر سکیں گے بلکہ اب انھیں خود میدان عمل میں اترنا ھو گا اس کے لیے انھوں نے ابتدائی اقدامات شروع کر دیے ہیں۔ شام میں سرگرم دھشت گردوں کو انھوں نے کیمیاوی ھتھیار فراھم کیے جسے انھوں نے شام کے نھتے عوام کے خلاف استعمال کیا اور پھر بعد میں اس کا الزام بشار اسد کی حکومت اور شامی فوج پر تھوپ دیا گيا۔

دوسرے مرحلے میں عالمی سامراج سے وابستہ میڈیا نے زور و شور سے اس بات کا پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ شامی فوج نے بےگناہ اور نھتے عوام کے خلاف کیمیاوی ھتھیاروں کا استعمال کیا ہے اور اسے اس کی سزا ملنی چاھیے۔ اس کے بعد امریکہ نے اپنے کھیل کے دیگر مراحل پر عمل درآمد شروع کر دیا ہے۔
امریکی وزیر جنگ چیک ھیگل کے مطابق امریکا شامی تنازع میں مداخلت کے حوالے سے ممکنہ اقدامات پر غور کر رھا ہے۔ اسی سلسلے میں امریکا نے مشرق وسطیٰ میں اپنی بحری فوج کی پوزیشن تبدیل کرنا شروع کر دی ہے اور ایک بحری بیڑہ بحرہ روم کی طرف روانہ کردیا ہے، بحیرہ جو کروز میزائل سے لیس ہے۔ تاھم حکام کا کھنا ہے کہ صدر اوباما نے شام کے خلاف فوجی اقدام سے متعلق ابھی کوئی فیصلہ نھیں کیا ہے۔
جبکہ امریکی صدربارک اوباما اور برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے شام میں مبینہ طور پر کیمیاوی ھتھیاروں کے استعمال پر اظھار تشویش کیا ہے۔ دونوں رھنماوٴں نے شامی حکومت کے خلاف ممکنہ فوجی کارروائی پر مشاورت جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔ وائٹ ھاوس سے جاری بیان کے مطابق دونوں رھنماوٴں نے شامی حکومت کے خلاف عالمی برادری کے ردعمل پر بھی تبادلہ خیال کیا۔۔ بیان میں کھا گیا ہے کہ صدر بارک اوباما کو شام کے خلاف فوجی کارروائی کے ممکنہ آپشن پر مشتمل سیکیورٹی مشیروں کی تجاویز بھی موصول ھوئی ہیں۔ ان تجاویز کی بنیاد پر طے کیا جائے گا کہ امریکا اوراس کے اتحادی شامی حکومت کی جانب سے مبینہ طور پر کیمیاوی ھتھیاروں کے استعمال کا کس طرح جواب دیں گے۔
دریں اثنا ایرانی وزارت خارجہ کےترجمان نے شام کےداخلی امور میں ھرطرح کی غیرملکی مداخلت کو مسترد کرتے ھوئے جو اس ملک ميں تشدد ، جھڑپوں اور عوام کےقتل عام پرمنتج ھوئی ہے، کھا ہے کہ اسلامی جمھوریہ ایران کی نظر میں شام کا بحران کچھ مخصوص ملکوں کی مرضی اورمطالبات کی بنیاد پر نھيں بلکہ شام کی حکومت اور شامی عوام کےدرمیان مذاکرات کےذریعہ حل ھوسکتا ہے۔
ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے شام میں دھشتگردوں کے ھاتھوں کیمیاوی ھتھیاروں کے استعمال کی مذمت کرتے ھوئے دھشت گرد گروھوں کے لئے فنڈز اور ھتھیار بھیجنے کا سلسلہ روکنے اور اس اقدام کی مذمت کے لئے فرانس اوردوسرے تمام مغربی ممالک کےردعمل کامطالبہ کیا۔
ادھر روس کےوزیر خارجہ نے شام میں طاقت کے استعمال کے مطالبات پر شدید تنقید کرتے ھوئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پر شام ميں طاقت کے استعمال کا فیصلہ کرنے کے لئے دباؤ ڈالنے کی بعض یورپی ممالک کی اپیلوں کو ناقابل قبول قرار دیا ہے۔
امریکہ اور بعض مغربی ممالک کی جانب سے ایک ایسے وقت میں شامی فوج پر کیمیاوی ھتھیار استعمال کرنے کے الزامات لگا رھے ہیں کہ جب آزاد بین الاقوامی اداروں اور روس کی اس بارے میں رپورٹیں مغربی دعووں کو غلط قرار دے رھی ہیں۔ مثال کے طور پر روس نے اس بارے میں اسّی صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ شائع کی اور اسی طرح اپریل مئی دو ھزار تیرہ میں اقوام متحدہ کے ایک آزاد کمیشن نے اس بات پر زور دیا کہ شواھد سے ظاھر ھوتا ہے کہ یہ شامی باغی اور دھشت گرد ہیں جنھوں نے حلب کے نواحی علاقے خان العسل میں کیمیاوی ھتھیار استعمال کیے۔
اب سوال پیدا ھوتا ہے کہ جب شام کی حکومت نے خود اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں اور انسپکٹروں کو کیمیاوی ھتھیاروں کے استعمال اور اس کے ذمہ داروں کے بارے میں تحقیق کی دعوت دی ہے تو اس کی جانب سے ایسا اقدام کسی بھی طرح منطقی اور عاقلانہ دکھائی نھیں دیتا ہے۔ دوسری جانب یہ بات بھی پیش نظر رھے کہ شامی فوج بھت طاقتور ہے اور اسے کیمیاوی ھتھیار استعمال کرنے کی ضرورت ھی نھیں ہے اور حالیہ چند ماہ کے دوران دھشت گردوں کے خلاف شامی فوج کی کامیابیاں اس کی عکاسی بھی کرتی ہیں۔ جبکہ اس قسم کی بربریت کا ارتکاب وھی کرتا ہے کہ جس کو شکست اپنے سامنے دکھائي دیتی ہے۔
شام کے وزیر اطلاعات و نشریات عمران الزعبی نے لبنان کے المیادین ٹی وی چینل سے گفتگو میں کھا ہے کہ یورپ اور امریکا، شام کے خلاف فوجی کارروائی کی سازش کر رھے ہیں تاھم انھیں یہ بات جان لینی چاھیئے کہ وہ اپنی سازش میں یونھی کامیاب نھیں ھوسکیں گے بلکہ شام پر حملے کے پورے مشرق وسطی کیلئے خطرناک نتائج برآمد ھوں گے۔
اس بات میں کوئي شک نھیں کہ شام کو صیھونی حکومت کے خلاف مزاحمت کا فرنٹ لائن ملک ھونے کی سزا دی جا رھی ہے اور وھاں حالات خراب کرنے اور بشار اسد کی حکومت کو گرانے کا مقصد صیھونیت مخالف محاذ کو کمزور کرنا ہے۔
اس کے علاوہ شام کے حالات کو خراب کرنے کے جھاں دیگر مقاصد ہیں وھیں ایک مقصد یہ بھی ہے کہ اس کے بنیادی ڈھانچے کو پوری طرح تباہ کر دیا جائے اور پھر وھاں حکومت کی تبدیلی کے بعد اپنی کٹھ پتلی حکومت کو برسراقتدار لا کر تعمیرنو کی آڑ میں امریکی کمپنیوں کو ٹھیکے دیے جائیں۔ یہ وہ کھیل ہے جو افغانستان اور عراق سمیت بھت سے اسلامی ملکوں میں کھیلا گيا ہے۔ آخر سیکڑوں امریکی کمپنیوں کو بھی تو دنیا میں کاروبار اور کام کرنا ہے!
 

Add comment


Security code
Refresh