www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

عیسایٔیوں کی وحشت گری

جان دیون پورٹ( JOHN DAVENPORT)لکھتا ھے

شامی بادشاہ صلاح الدین ایوبی نے جب دوبارہ اس شھر بیت المقدس کو واپس لیا تو ایک آدمی بھی قتل نھیں کیا اور عیسائی اسیروں کے ساتھ حد سے زیادہ ترحّم کا برتاؤ کیا ۔(۲۲

اسپین میں عیسائیوں کی وحشت گری، مشرق میں صلیبی جنگوں کی وحشت گری سے کسی طرح کم نہ تھی ۔اسپین میں مسلمانوں نے جو کارھائے نمایاں انجام دئے تھے اور ملک کو جتنی ترقی عطا کی تھی اس کے بدلے عیسائی مذھب کے رھبروں نے مسلمانوں کے بوڑھوں ، جوانوں ، عورتوں ، بچوں کے قتل عام کا حکم دے دیا تھا۔ پوپ فلیپ دوم( POPE Philipe2 )نے مسلمانوں کو اسپین چھوڑنے کا حکم دے دیا ۔ لیکن مسلمان ملک چھوڑنے سے پھلے پھلے کلیسا کے حکم سے قتل کر دئے گئے ۔ اور جو لوگ اپنی جان بچا کر بھاگ رھے تھے ان کو عدالت میں پیش کیا گیا اور عدالت نے ان کے قتل کا حکم دے دیا ۔ اس مدت میں تقریباً تیس لاکہ مسلمان عیسائیوں کے تعصب کی وجہ سے قتل ھوئے ۔

جان دیون پورٹ(JOHN DAVENPORT)لکھتا ھے :

کون ایسا ھے جو جوانمردی کے زوال یعنی اسپین میں اسلامی حکومت کے خاتمے پر سوگوار نھیں ھے ؟ کون ھے جس کے سینے میں اس شجاع و غیرت مند ملت کا احترام موجود نھیں ھے ؟ یہ وھی ملت تو ھے جس نے آٹھ سو سال تک اسپین پر حکومت کی لیکن مخالف مورخین بھی ان کے معمولی سے ظلم و ستم کو قلم بند نہ کر سکے کیونکہ ان کا پورا دور عدل و انصاف سے بھر پور تھا ۔ کون ھے جو تحریک عیسائیت سے شرمندہ نھیں ھے ؟ اس تحریک سے مراد وہ تحریک ھے جس کے نتیجے میں مسلمانوں کے خلاف شیطانی مظالم کی انتھا کر دی گئی تھی اور یہ سارے مظالم ان مسلمانوں پر کئے جا رھے تھے جنھوں نے اسپینیوں کو انسانیت کا درس دیا تھا ۔ (۲۳

مشھور مورخ جرجی زیدان تحریر کرتے ھیں

اسپین پر عیسائی قبضے کے بعد مسلمانوں کو یھودیوں اور بد کاروں کی طرح اپنے ساتھ نشانی رکھنے پر مجبو ر کیا گیا تاکہ اس نشانی کے ذریعے سے یہ معلوم کیا جاسکے کہ یہ مسلمان ھے اور پھر آخر میں مسلمانوں کو موت یا عیسائیت کے لئے اختیار دے دیا گیا ۔

عیسائیوں نے اسپین پر قبضہ کرنے کے بعد مسجدوں کو کلیسا میںبدل دیا ، مسلمانوں کی مذھبی آزادی چھین لی ، مسلمانوں کے قبرستانوں کو برباد کر دیا ۔ ان کو حمام میں جانے سے( جو ایک ضروری کام ھے )روک دیا گیا ۔اور خود مسلمانوں کے حماموں کو ویران و برباد کردیا ۔

ھنری“ چھارم کے زمانے میں اسپینی نام نھاد مجاھدوں نے (جن کو قصبہ دولان کے برخلاف ابھارا گیا تھا اور جن کی آبادی چار ھزار نفوس پر مشتمل تھی ) دولان کے تمام مسلمانوں کو گلا گھونٹ کر مارڈالا ۔(۲۴)

پوری تاریخ میں عیسائیوں کے صلح جوئی کا یہ مفھوم رھا ھے ۔!

آج کی دنیا میں بھی متمدن استعمار گروں کے چنگل میں پھنسی ھوئی ھے ۔قوموں کے ساتھ ان لوگوں کے برتاؤ کی طرف توجہ کی جائے تو پتہ چل جائے گا کہ روبہ ترقی اقوام کی عزت و شخصیت کو کس طرح پامال کیا جا رھا ھے ۔ اور ان کو ان کے واقعی تمدن سے کس طرح محروم کر دیا ھے ۔ ان کی پوری تعلیم کا مقصد ۔ خواہ وہ مرئی ھو ں یا غیر مرئی، نفوس کی روح و افکار کو استعمار کرنا ھے ۔ انھوں نے اپنے مخصوص مصالح کے لئے لوگوں کو آزادی رائے و فکر سے محروم کر دیا ھے اور ان کو اس طرح جکڑ دیا ھے کہ ان کے مصالح کے خلاف وہ لوگ کوئی اقدام نہ کر سکیں ۔جھاں بھی انصاف کی آواز بلند ھوتی ھے اس کو بلند ھونے سے پھلے ھی گھونٹ دیتے ھیں ۔

 


اسلام اور صلح

صلح کی طرفداری بھی ایک ایسی چیز ھے کہ بڑی بڑی حکومتیں جس کا نعرہ لگاتی ھیں لیکن کیا ان صلح کے حامیوں نے جنگ چھوڑدی ؟ کیا ان لوگوں نے اپنے تمام اختلافات کو ختم کر دیا ۔ کیا ان کے سیاسی نقشہ ٴجنگ کی کوئی قدر و قیمت لگائی جا سکتی ھے ؟

اسلام نے صلح کو تھذیب و اسباب کے کنٹرول کی بنیاد پر مضبوط کیا ھے ۔صلح کی ابتدا لوگوں کے دلوں کی گھرائیوں سے قرا ردی ھے ۔ پھر بین المللی اور عالمگیر پیمانے پر ترقی کی ھے ۔ کیونکہ جب تک لوگوں کے قلوب مطمئن نہ ھوں گے، دنیا کے اندر آرام و سکون نا ممکن ھو گا ۔جب تک لوگوں کے افکار پر ایک اخلاقی حکومت کی ضمانت نہ ھوگی صلح کی تمام کوششیں نقش بر آب ثابت ھوں گی اور بشری معاشرے میں صلح ناممکن ھو جائے گی ۔

در حقیقت معاشرے کا سنگ بنیاد فرد ھے اسی لئے اسلام نے ایمان و عقیدے کے سھارے سکون و آرام کے بیج کو افراد کے وجدان میں کاشت کیا ھے اور پھر رفتہ رفتہ یھی ایمان و عقیدہ اس کی رفتارو کردار میں بھی اثر انداز ھو تا ھے اور پھر افراد کے سدھار سے معاشرے کا قھری طور پر سدھار ھو جاتا ھے لیکن اسی کے ساتھ ساتھ صرف فرد کے اندرونی عقیدے ھی پر بھروسہ نھیں کرتا بلکہ کچھ قابل اطمینان قانون وضع کرتا ھے جس میں ھر فرد احساس مساوات کے علاوہ کچھ اور سوچ بھی نھیں سکتا ۔ جو لوگ اسلامی محیط میں زندگی بسر کرتے ھیں انھیں احساس ھو گا کہ ان کی جان ، مال ، آبرو سب ھی مکمل طور پر امان میں ھے ۔

بعض مکاتیب فکر رابطھٴ فرد با فرد دیگر کو رابطہ تصادم سمجھتے ھیں لیکن اسلام چاھتا ھے ان سب کا رابطہ تعاون پر اور ایک دوسرے سے محبت و دوستی کی بنیاد پر ھو اور فردی و اجتماعی آداب ، درخشاں اخلاقی تعلیمات سے اس مقدس مقصد کو مدد پھنچائی جائے اور دلوں سے روح عداوت و بغض و کینہ کو ختم کر دیا جائے ۔

جب لوگوں کے دلوں میں لطیف احساسات پیدا ھوں گے اور ان کے دلوں میں برادری اور نزدیکی کے چراغ روشن ھو ں گے تو پھر ان کے دل بھی رحمت کے نور سے منور ھو جائیں گے اور پھر آپسی اختلافات ، رنجشیں کشمکش ، جدائی ، جنگ ، بے ایمانی رفتہ رفتہ ختم ھو تی جائیں گی اور صلح و صفائی کا معاشرہ اپنے بال و پر کھول دے گا ۔

دنیا کا کوئی بھی نظام تمام افراد بشر کے لئے تمام حالات میںعادلانہ عمل نھیں کر سکتا ۔ دنیا میں اجتماعی عدالت چاھے جتنی مضبوط ھو جائے لوگوں کے تمام مظالم کو دور کرنے پر قادر نھیں ھے سب کے بارے میں مکمل عدالت انسانی جملہ وسائل کے باوجود ممکن نھیںھے کیونکہ دنیا میںبھت سے ایسے بھی مظالم ھوتے ھیں جن کا احساس دنیاوی عدالت کر ھی نھیں سکتی ۔ حد یہ ھے کہ کبھی ایسی بھی بے انصافی ھوتی ھے کہ خود صاحب حق کو احساس نھیں ھو پاتا کہ اس نے اپنے حق سے تجاوز کیا ھے ۔ جب تک قیامت میں خدا الٰھی عدالت کے ذریعے ظالموں سے مظلوموں کا انتقام نہ لے لے اس وقت تک ایسی توقع بیکا ر سی ھے ۔

اب آیئے ذرا دیکھا جائے اسلام اور متمدن د نیا کی نظر میں صلح کا مفھوم کیا ھے ؟ اسلام جس صلح کا خواھشمند ھے وہ رؤسائے مملکت کی صلح سے بنیادی طور پر مختلف ھے ۔ کیونکہ ان لوگوں کی نظر میں صلح کا مطلب یہ ھے کہ بڑی بڑی حکومتیں چھوٹے ممالک کے منابع ثروت کو صلح کے نام پر آپس میں بانٹ لیں اوربخیال خود دوسروں کو اپنے زیر نفوذ کر کے ان کو راحت و آرام پھونچائیں ۔

دوسرے لفظوں میں ان کے یھاں صلح کا مطلب دوسروں کو تاراج کرنا ھے ۔ اسی لئے یہ لوگ مصالحت کی راہ میں کوئی مثبت اقدام اور خلوص نیت کا اظھار نھیں کرتے ،جلسے جلوس بحث و مباحثہ یہ صرف رسمی چیزیں ھو کر رہ گئی ھیں اور کسی نتیجے کے بغیریہ اختتام پذیر ھو جاتی ھیں ۔

لیکن اسلام ایسی صلح کا خواھش مند ھے جس کی بنیاد دنیا کی مختلف قوموں کے تساوی حقوق پر استوار کی گئی ھے ۔ اور بغیر کسی تفاوت کے جس کا سایہ دنیا کے تمام اقوام پر خواہ وہ کمزور ھوں یا طاقتور ، برابر پڑے۔ اسلام پوری بشریت کے لئے مکمل صلح چاھتا ھے ۔

اقوام متحدہ نے اپنے منشور میں اپنے مقصد صلح کو عالمگیر پیمانے پر رکھنے اور اسباب جنگ و علل اختلافات کو دور کرنے کا دعویٰ کیاھے لیکن اگر کسی دن منشور کا مقصد پورا بھی ھو جائے تو کیاآزادی افکار کا مقصد پورا ھو سکے گا ؟ کیا مختلف اقوام میں زمانھٴ صلح میں بھی اختناق فکری اور استعمار کا وجود نھیں ھے ؟

مشرقی بلاک والے اور سرمایہ دار کھتے ھیں : ھم ایک عالمگیر سسٹم کی بر قراری کے خواھش مند ھیں لیکن آزادی کے بغیر کو ن سا عالمگیر سسٹم ھو سکتا ھے ۔؟


مشرق و مغرب میں حکمراں طبقے کے مخالفین کو عملی طور پر زندہ رھنے کا حق نھیں ھے ، یہ حکمراں چاھتے ھیں کہ جبر و ظلم سے دوسروں کے مسلک و عقائد کو ختم کر دیں ۔ یکن اسلا م صرف صلح کو انسانوں کی سعادت و خوش بختی کا ضامن نھیں سمجھتا بلکہ کچھ اصول کو بھی اجتماعی زندگی کی بنیاد قرار دیتا ھے ۔ اسلام لوگوں کی آزادی فکر و رائے کو بھی بر قرار رکھنا چاھتا ھے تاکہ بشری معاشرہ سعادت بخش و صحیح راستے کی تشخیص کر کے اس کو اپنے لئے اختیار کر لے ۔ اسی لئے اپنی عالمگیر دعوت میں جبر و ظلم کو نا پسند کرتا ھے اور مختلف قوموں میں پیش رفت کی علت صرف عقل و رشد فکری کو سمجھتا ھے ۔ارشاد ھوتا ھے: "دین میں کسی طرح کا جبر نھیں ھے ھدایت گمراھی سے الگ اور واضح ھو چکی ھے " ۔(۲۵

"تمھارے پاس تمھارے پروردگار کی طرف سے دلائل آچکے ھیں اب جو بصیرت سے کام لیگا وہ اپنے لئے اور جو اندھا بن جائے گا وہ بھی اپنا ھی نقصان کرے گا اور میں تم لوگوں کا نگھبان نھیں ھوں ۔ "(۲۶

"لھذا تم نصیحت کرتے رھو کہ تم صرف نصیحت کرنے والے ھو ۔ تم ان پر مسلط اور انکے ذمہ دار نھیں ھو ۔"(۲۷)

اسلام آزادی عقیدے کا قائل ھے اس لئے دین قبول کرنے کے لئے کسی بھی قسم کے جبر و اکراہ کو غلط سمجھتا ھے ۔ اس کے علاوہ بھی خود عقیدے اور ایمان کا تعلق امور قلبی سے ھے اس لئے باطنی میلان کے بغیر جبراً اس کا تحقق ممکن ھی نھیں ھے مختلف قسم کے اسباب و عوامل انسانی افکار و عقائد میں موثر ھوا کرتے ھیں ۔ اس لئے اصلاح کی خاطر صحیح تعلیم و تربیت اورمنطق و استدالال کی ضرورت ھے ورنہ زبر دستی انسانی خیالات کو بدلنا نا ممکن سی بات ھے ۔ چونکہ اسلام نے لوگوں کو حیرت فکر بخشی اور ھر قسم کے فکری خفقان کو ختم کر دیا اس لئے لوگ بلا کسی جھجھک اور خوف کے اسلام یا کسی بھی آسمانی مذھب کو قبول کر سکتے ھیں ۔ اسی لئے اسلام نے قبولیت اسلام کے لئے کسی بھی قسم کے جبر و ظلم کو جائز نھیں قرار دیا ھے۔

اس تمھید سے یہ بات معلوم ھو گئی کہ اسلام کے ابتدائی جھاد کو دیکہ کرعیسائی مبلغین کا یہ فیصلہ کر دینا کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ھے قطعاً حقیقت سے دور ھے۔ ان لوگوںنے جھاد پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یا قانون جھاد سے اگر یہ غلط نتیجہ نکالا ھے تو جائے تعجب نھیں ھے کیونکہ ان لوگوں کے یھاں سوائے جنگ و جدال ، جبر و استعمار کے علاوہ کچھ ھے ھی نھیں۔حد یہ ھے کہ ان کے مقدسین ، پوپ ، تارک الدنیا قسم کے لوگوں نے عیسائیت کی تبلیغ میں اور غیر عیسائی لوگوں کو عیسائی بنانے کے سلسلے میں وہ ظلم و ستم ڈھائے ھیں جن کے سامنے مغلوں اور تاتاریوں کی سختیاں ھیچ نظر آتی ھیں ۔(۲۸

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مشرکین قریش کے ساتھ جو معاھدہ کیا تھا جس کو صلح حدیبیہ کھا جاتا ھے وہ عربستان میں ایک صلح عمومی اور امن اجتماعی کی داغ بیل ڈالتا ھے اس معاھدے سے اسلامی اور انسانی اصول کا اندازہ لگایا جا سکتا ھے ۔جو لوگ اسلام پر یہ الزام لگاتے ھیں کہ وہ تلوار کے زور سے پھیلا ، یہ معاھدہ ان کا منہ توڑ جواب بھی ھے ۔ اس معاھد ے کی ایک اھم شرط یہ تھی ۔

مشرکین مکہ کی کوئی بھی فرد اگر بھاگ کر رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اسلام کے پاس آجائے اور اسلام قبول کر لے اور اس نے اپنے بزرگ سے اجازت نہ حاصل کی ھو تو رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر لازم ھے کہ اس کو مکہ واپس کر دیں لیکن اگر کوئی مسلمان بھاگ کر قریش کے پاس چلا جائے تو قریش اس کو واپس نھیں کریں گے “ ۔کچھ مسلمان معاھدے کی اس دفعہ سے بھت رنجیدہ ھوئے اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کھنے لگے آخر قریش کے پناہ گزینوں کو ھم کیوں واپس کر دیں ؟ جبکہ وہ ھمارے پناہ گزیں کو واپس کرنے پر مجبو ر نھیں ھیں تو رسول اسلام نے اس کا جواب اس طرح دیا ۔

اگر کوئی مسلمان قریش کے پاس بھاگ جاتا ھے تو اس کا مطلب یہ ھے کہ اس نے صدق دل سے اسلام قبول ھی نھیں کیا تھا ۔ ظاھر ھے ایسا مسلمان ھمارے لئے مفید نھیں ھو سکتا اس لئے اس کا جانا ھی بھتر ھے اور ھم اگر قریش کے پناہ گزینوں کو واپس کر دیتے ھیں تو ھم کو اطمینان ھے کہ خدا ان کے نجات کے لئے کوئی نہ کوئی راستہ ضرور پیدا کرے گا ۔ (۲۹

رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ فرمانا :” خدا ان کے نجات کا کوئی راستہ پیدا کرے گا “ بالکل سچ نکلا کیونکہ کچھ ھی مدت کے بعد قریش نے خواھش کی کہ اس دفعہ کو ختم کر دیا جائے ۔


دنیا کے مختلف حصوں میں جنگ و خونریزی کا وجود خود مادی تمدن کے کمزور ھونے کی دلیل ھے ۔ صلح اور جنگ کے مواقع پر اسلام کے کلی اصول و اسباب ایجاد جنگ کو برابر نا پسند کرتے رھے ھیں ۔مادی منافع کی خاطر اور دوسروں کو غلام بنانے کی خاطر متمدن دنیا کی ساری جنگوں کو اسلام برا سمجھتا ھے ۔

جب تک انسانی قدر و قیمت اور دوسروں کے حقوق کا احترام نہ کیا جائے گا دنیا کو صلح و آرام دیکھنا نصیب نہ ھوگا ۔ جس دنیا میں اخلاقی قوانین اور انسانی اصول فراموش کر دئے گئے ھوں اس میں اس سے بھتر وضع کا انتظار نھیں کیا جاسکتا ۔

جب تک ٹیکنالوجی اور مادی تمدن ترقی پذیر رھے گا ، اور لوگ صلح کے بھانے مشغول جنگ رھیں گے ، نئے نئے خطرناک ترین اسلحے ایجاد کرتے رھیںگے اس وقت تک یہ حقیقت اپنی جگہ پر مسلم ھے کہ بشریت کو اپنے لئے دو راھوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ھوگا ۔تیسرا راستہ نھیں ھے ۔ ایک تو یہ ھے کہ دنیا جنگ کی بھٹی میں جلتی رھے اور اقوام تباہ و برباد ھو جائیں ۔ اور دوسری صورت یہ ھے کہ لوگ خدا پرایمان لے آئیں ۔ ان اخلاقی و انسانی اصول کی پابندی کریں جن کو انبیا ء بشریت کے لئے بطور تحفہ لائے تھے تاکہ دنیا اپنی جسمانی و فکری قوتوں کو راہ فنا میں صرف کرنے کے بجائے خوش بختی کے راستے پر لگائے ۔مختصر یہ ھے کہ انسان یا خدا کو اختیار کرے یا پھر تباھی و بر بادی کو ۔ ھمارا عقیدہ ھے کہ ایک نہ ایک دن بشر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اسلام کی تعلیمات سے آشنا ھو گا اور پھر نیکی و سعادت کے راستے پر چل کر اپنے لئے فائدہ ھی فائدہ حاصل کرےگا کیونکہ بحران ، گمراھی ، تباھی سے مجبور ھو کر انسان ایک دن دامن اسلام میں پناہ لے ھی لے گا ۔ جیسا کہ روسی فلسفی( TALESTVE RUSSE) کھتا ھے کہ شریعت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عقل و حکمت کے موافق ھونے کی وجہ سے آئندہ ساری دنیا پر چھاجائے گی ۔


حوالہ:

۱۔سورہ حج /۳۹۔۴۰۔

۲۔سورہ بقرھ/ ۱۹۰۔

۳۔وسائل کتاب جھاد باب ۱۔

۴۔ سورہ نساء/ ۷۴۔

۵۔وسائل ج۲ص ۴۲۱۔

۶۔ سورہ صف/۴۔

۷۔ سورہ انفال/ ۶۷۔

۸۔جنگ و صلح در اسلام ص ۲۱۴۔

۹۔رسول اکرم در میدان جنگ ص ۹۔

۱۰۔وسائل ج۲ /ص ۴۲۴۔

۱۱۔سورہ بقرھ/ ۱۹۱۔

۱۲۔سورہ مائدہ / ۱۱۔

۱۳۔سورھٴ مائدہ /۳۔

۱۴۔سورہ حجرات / ۳۔

۱۵۔تاریخ عرب ج۲ /ص ۶۳۸۔

۱۶۔سورہ ممتحنہ آیات ۸۔۹۔

۱۷۔ وسائل۔

۱۸۔روح الدین الاسلامی۔

۱۹۔عذر تقصیر بہ پیش گاہ محمدصلعم و قران ص ۱۰۵۔۱۰۶۔

۲۰۔تمدن اسلام و عرب ص ۳۴۵۔

۲۱۔عذر تقصیر بہ پیش گاہ محمد صلعم و قرآن ص ۱۳۹۔

۲۲۔ عذر تقصیر بہ پیش گاہ محمدصلعم و قرآن ص ۱۳۹۔

۲۳۔عذر تقصیر بہ پیشگاہ محمدصلعم و قرآن ص ۱۳۳۔

۲۴۔ جنگ ھائے صلیبی ج۱ص ۴۷۔

۲۵۔سورہ بقرھ/ ۲۵۶۔

۲۶۔سورہ انعام/ ۱۰۴۔

۲۷۔سورہ غاشیھ/ ۲۲۔

۲۸۔ اسلام مکتب مبارز ومولد ص۹۔

۲۹۔ بحار ج ۲۰ص ۳۱۲۔

Add comment


Security code
Refresh