www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

 

جھاد و دفاع سے متعلق مسائل کے بارے میں گفتگو سے پھلے خود ان دو لفظوں کی تشریح و تفسیر ضرور ی ھے ۔

دفاع سے مراد ھراس چیز کی حفاظت کی خاطر جارح کو پیچھے ڈھکیلنا ھے جس کی حفاظت ضروری ھو ، خواہ وہ چیز جان ھو یا مال ، عقیدہ ھو یا آزادی ، ناموس ھو یا شرف ۔

 قانونی ( حقوقی ) نقطھٴ نظر سے دفاع ایک حق ھے جو انسان کو عطا کیا گیا ھے تاکہ قانون کو پس پشت ڈال کر تجاوز کرنے والے جارح کے شر سے اپنا دفاع کر سکے اور شر پسند افراد حکومت کی غیر حاضری سے نا جائز فائدہ اٹھاتے ھوئے قانون شکنی کر کے عوام کی جان و مال اور عزت و آبرو سے نہ کھیل سکیں ۔

دفاع فطری حق ھے

 اپنے جائز حق کا دفاع ایک ایسا فطری امر ھے جس سے صرف انسان ھی نھیں بلکہ ھر ذی روح بھرہ ور ھے کیونکہ ھر ذی روح اپنی بقا کی خاطر مجبور ھے کہ اپنی ضروریات زندگی کو دوسری مخلوقات میں پائے جانے والے امکانات سے پورا کرے اور ان تمام مشکلات اور رکاوٹوں کا مقابلہ کرے جن سے اس کی زندگی و بقا خطرے میں پڑ سکتی ھے ۔ دوسرے لفظوں میں زندگی کا دارو مدار ان افعال و انفعالات ( عمل و رد ّ عمل ) اور تاثیر و تاثر پر ھے جو نظام خلقت میں انجام پاتے ھیں ۔ ایسے میں اختلاف اور ٹکراؤ قدرتی بات ھے ۔ اگر کوئی ذی روح مخلوق دفاعی طاقت سے محروم ھو تو اس کی موت و تباھی یقینی ھے ۔ اسی لئے خدا وند عالم نے ھر مخلوق کو اس کی مناسبت سے دفاعی ھتھیار عطا کئے ھیں تاکہ اپنے جائز حق کا دفاع کر سکے ۔ ھر حق کے ھمراہ حق دفاع کا فطری ھونا اس کی عام مقبولیت کا باعث ھے ، ھر انسان اس فطری حق کو تسلیم کرتا ھے۔ھر فرد ، ھر معاشرہ ، ھرمکتب اور ھر قانون جارح سے مقابلہ جائز قرار دیتا ھے ۔ دنیا کا کوئی قانون مسلّمہ حقوق سے دفاع کو جرم نھیں سمجھتا ۔ اسلام نے بھی انسانوں کے اس حق کو تسلیم کیا ھے ، اس کے استعمال کو مذاھب توحیدی نیز انسانوں کی بقا کا ضامن قرار دیا ھے اور اس کے فطری ھونے کا اعلان کیا ھے :

” ولولا دفع اللہ الناس بعضھم ببعض لفسدت الارض “ (۱)

اوراگر اسی طرح خدا بعض کو بعض سے نہ روکتا تو ساری زمین میں فساد پھیل جاتا

یہ آیت انسانوں کو شر پسند وں کی سر کوبی کی ھدایت کرتی ھے اور روئے زمین پر انسانوں کے بر پا کیے ھوئے فتنہ و فساد کی روک تھام کا حکم دیتی ھے ۔ ایک دوسری آیت میں ھے :

” و لولا دفع اللہ الناس بعضھم ببعض لھدمت صوامع و بیع و صلوات و مساجد یذکر فیھا اسم اللہ کثیرا “(۲)

اوراگرخدا بعض لوگوںکو بعض کے ذریعہ نہ روکتا ھوتاتوتمام گرجے اور یھودیوں کے عبادت خانے اور مجوسیوں کے عبادت خانے اور مسجدیں سب منھدم کردی جاتیں۔

قرآن مجید اس دفاع کو دینی مظاھر اور عبادتی مراکز کی بقا اور نتیجہ بقائے توحید کا باعث سمجھتا ھے ۔

جھاد کے معنی

 لفظ جھاد کے لغوی معنی ھیں طاقت و اختیار کے ساتہ جد و جھد۔ قرآن مجید میں بھی لفظ جھاد اسی معنی میں متعدد بار استعمال ھوا ھے ۔

” و الذین جاھدوا فینا لنھد ینّھم سبلنا “ ( ۳)

اور جن لوگوں نے ھمارے حق میں جھاد کیا ھے ھم انھیں اپنے راستوں کی ھدایت کریں گے ۔

لیکن ثانوی طور پراس سے مراد اسلام دشمنوں سے جنگ اور راہ خدا میں مال و جان کو قربان کر دینا ھے ۔

”انّ الذین آمنوا و ھاجروا و جاھدوا باموالھم و انفسھم فی سبیل اللہ “ (۴)

 بیشک جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے ھجرت کی اور راہ خدا میں اپنے جان و مال سے جھاد کیا ۔

فقہ میں جھاد کبھی دفاع کے بجائے استعمال ھوتا ھے یعنی کفار سے وہ ابتدائی جنگ جس کا مقصد یہ ھے کہ وہ کفر کو چھوڑ کر خدائے واحد پر ایمان لائیں اور نظام الٰھی کے سامنے سر تسلیم خم کریں ۔ اور کبھی کفار سے مطلق جنگ کے لئے استعمال ھوتا ھے جس میں دفاع بھی شامل ھے ۔ قرآن میں دفاع سے یھی عمومی معنی مراد ھیں اگر چہ اس کا اھم ترین مصداق دفاع ھے یا اس کے تمام مصداق دفاع پر بھی دلالت کرتے ھیں ۔

جھاد کے اقسام

 جھاد کی متعدد قسمیں ھیں جو غالبا دفاع ھی کی حیثیت رکھتی ھیں اور قرآن مجید میں قتال و جھاد کے عنوان سے بیان ھوئی ھیں ۔

۱۔ ان دشمنوں کے مقابلے میں اسلام کی عزت و وقار اور حیثیت و آبرو کا دفاع جو دین کی بنیادوں کو منھدم کر کے ، الحاد و مجوسیت و نصرانیت و یھودیت وغیرہ کی شکل میں کفر و لا دینی پھیلانا چاھتے ھیں ، جیسا کہ اسپین میں رونما ھوا ۔

۲۔ مسلمانوں کی جان و مال اور عزت و آبرو یا اسلامی سر زمین پر اس حملہ آور دشمن کے مقابلے میں دفاع جس کا مقصد اسلام کی تباھی تو نھیں لیکن جس کا ھدف مسلمانوں کی عزت و آبرو اور جان و مال ھو ۔

۳۔ ان مسلمان بھائیوں کا دفاع جو کسی علاقے میں کافروں سے بر سر پیکار ھوں اور یہ خطرہ ھو کہ کفار ان پر غلبہ پالیں گے ۔ ایسے موقع پر اتحاد و اخوت اسلامی کا تقاضا ھے کہ مسلمانوں کے دفاع کی خاطر دشمنوں سے جنگ کی جائے ۔

 ۴۔ اسلامی علاقوں پر قابض یا مسلمانوں کے عقائد پر مسلّط غاصب دشمنوں کی پسپائی اور اخراج کے لئے جھاد کیونکہ غیروں کے اقتدار سے نجات اور مسلمانوں کی عزت و آزادی کی بحالی تمام مسلمانوں کا فریضہ ھے ۔

 ۵۔ کفار سے جھاد تاکہ باطل عقائد سے چھٹکارا دلا کر انھیں اسلامی تعلیمات سے آراستہ کیا جائے ۔ اسے اصطلاحاً جھاد ابتدائی بھی کھا جاتا ھے ۔ اس جھاد کے لئے کچہ خاص شرائط ھیں جن کے بارے میں بھت کچہ لکھا گیا ھے ۔

جھاد کی اھمیت

ایک مختصر تحقیق کے مطابق قرآن مجیدکے ۱۷/ سوروں میں جھاد کا ذکر آیا ھے اور یہ سورے غالبا مدنی ھیں ۔ ان کے نام یہ ھیں :

(۱) بقرہ (۲) آل عمران (۳) نساء( ۴) مائدہ (۵) انفال (۶) توبھ( ۷) نحل(۸)نمل (۹)حج(۱۰) احزاب (۱۱) شوریٰ( ۱۲) محمد( ۱۳) فتح (۱۴)حدید( ۱۵) حشر     (۱۶) ممتحنھ( ۱۷) صف

تقریبا ۴۰۴آیتیں جھاد سے مخصوص ھیں ( البتہ بعض دیگر موضوعات کی طرح آیات جھاد کا مکمل احصاء مشکل ھے ، کیونکہ یہ عام طریقہ ھے کہ جب قرآن مجید کسی موضوع کو چھیڑتا ھے تو کچہ باتیں بطور مقدمہ بیان کرتا ھے اور کبھی کسی مناسبت سے بیچ میں کچہ دوسری باتیں بھی بیان ھو جاتی ھیں اور پھر تتمھٴ کلام میں بھی موضوع کی مناسبت سے کچہ دوسرے مسائل کا ذکر آجاتا ھے جیسا کہ جھاد و انفاق و ولایت سے متعلق آیتوں میں ابتداء یا وسط یا آخر میں کچہ دوسرے مسائل کا بھی تذکرہ ھوا ھے ۔ لھذا ایسی صورت میں مسائل کے لحاظ سے آیات کی صحیح تدوین اور موضوعات کی مناسبت سے جدا گانہ عنوانوں کے تحت ان کی تقسیم و اصناف بندی مشکل ھے )

آیتوں کی یہ کثیر تعداد اور ان میں انتھائی سخت و لولہ انگیز اور حتمی گفتگو ، سزا و جزا کے وعدے اور دھمکیاں اور طرح طرح کی تاکیدیں جھاد کی عظمت و اھمیت کی نشاندھی کرتی ھیں ۔ بطور نمونہ حسب ذیل آیتوں کو ملاحظہ فرمایئے :

” ولا تقولوا لمن یقتل فی سبیل اللہ اموات بل احیاء و لکن لا تشعرون“ (۵)

 اور جو لوگ راہ خدا میں قتل ھوجاتے ھیں انھیں مردہ نہ کھو بلکہ وہ زندہ ھیں لیکن تمھیں ان کی زندگی کا شعور نھیں ھے ۔

” ام حسبتم ان تدخلوا الجنة و لما یاتکم مثل الذین خلوا من قبلکم مستھم الباساء و الضراء و زلزلوا حتیٰ یقول الرسول و الذین آمنوا معہ متیٰ نصر اللہ “ (۶)

 کیا تمھارا خیال ھے کہ آسانی سے جنت میں داخل ھوجاوٴ گے جب کہ ابھی تمھارے سامنے سابق امتوں کی مثال پیش نھیں آئی جنھیں فقر و فاقہ اور پریشانیوں نے گھیر لیا اور اتنے جھٹکے دئے گئے کہ خود رسول اور ان کے ساتھیوں نے کھنا شروع کردیا کہ آخر خدائی مدد کب آئے گی ۔

” ولا تھنوا و لا تحزنوا و انتم الاعلون ان کنتم مومنین ۔ ان یمسسکم قرح فقد مس القوم قرح مثلہ “ (۷)

 خبردار سستی نہ کرنا مصائب پر محزون نہ ھونا اگر تم صاحب ایمان ھو تو سربلندی تمھارے ھی لئے ھے ۔اگر تمھیں کوئی تکلیف چھولیتی ھے تو قوم کو بھی اس سے پھلے ایسی ھی تکلیف ھوچکی ھے ۔

ولاتھنوافی ابتغاء القوم ان تکونواتالمون فانھم یالمون کماتالمون ․․․․(۸)

اور خبردار دشمنوں کا پیچھا کرنے میں سستی سے کام نہ لیناکہ اگر تمھیں کوئی بھی رنج پھونچتا ھے تو تمھاری طرح کفار کو بھی تکلیف پھونچتی ھے ۔

” یا ایھا الذین آمنوا من یرتد منکم عن دینہ فسوف یاتی اللہ بقوم یحبھم و یحبونہ اذلة علی المومنین اعزة علی الکافرین یجاھدون فی سبیل اللہ و لا یخافون لومة لائم “ (۹)

 ایمان والوں تم میں سے جو بھی اپنے دین سے پلٹ جائے گا ۔ تو عنقریب خدا ایک قوم کو لے آئے گا جو اس کی محبوب اور اس سے محبت کرنے والی مومنین کے سامنے خاکسار اور کفار کے سامنے صاحب عزت ، راہ خدا میں جھاد کرنے والی اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہ کرنے والی ھوگی ۔

 ” الا تنفروا یعذبکم عذابا الیما و یستبدل قوما غیرکم “(۱۰)

اگر تم راہ خدا میں نہ نکلو گے تو خدا تمھیں درد ناک عذاب میں مبتلا کرے گا اور تمھارے بدلے دوسری قوم کو لے آئے گا ۔

جھاد کی تشریعی اور فطری حیثیت

جھاد کی مذکورہ بالا پانچ قسموں میں سے چار دفاعی حیثیت کی حامل ھیں اور قدرتی طور پر دفاع فطری حق ھے جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نھیں۔ دنیا کی کوئی منطق مسلمانوں کو اس حق سے محروم نھیں کر سکتی ، قرآن کریم بھی اس کی پر زور حمایت کرتا ھے ، جھاد سے متعلق پھلی آیتیں جو نازل ھوئیں وہ سورہ حج کی آیتیں ھیں جو اس تعبیر سے شروع ھوتی ھیں :

 ” اذن للذین یقاتلون بانھم ظلموا و ان اللہ علیٰ نصرھم لقدیر۔ الذین اخرجوا من دیارھم بغیر حق الا ان یقولوا ربنا اللہ و لو لا دفع اللہ الناس بعضھم ببعض لھدمت صوامع و بیع و صلوات و مساجد یذکر فیھا اسم اللہ کثیرا “(۱۱)

 جن لوگوں سے مسلسل جنگ کی جارھی ھے انھیں ان کی مظلومیت کی بناء پر جھاد کی اجازت دی گئ ھے اور یقینا اللہ ان کی مدد پر قدرت رکھنے والا ھے ۔ وہ لوگ جو اپنے گھروں سے بلا کسی حق کے نکال  دئے گئے ھیں علاوہ اس کے کہ وہ یہ کھتے ھیں کہ ھمارا پروردگار اللہ ھے ۔۔۔

اس آیت میں مظلوم کو حملہ آور دشمن سے جنگ کی اجازت دی گئی ھے تاکہ وہ دشمن کو دفع کر کے توحید کے مظاھر اور آثار شریعت کی حفاظت کر سکے ۔ اسی طرح ایک دوسری آیت ھے ، جسے جھاد سے متعلق اولین آیتوں میں شمار کیا جاتا ھے بلکہ بعض مفسرین اسے جھاد کے سلسلے کی پھلی آیت قرار دیتے ھیں وہ یہ ھے:

” و قاتلوا فی سبیل اللہ الذین یقاتلونکم “ (۱۲)

جو تم سے جنگ کرتے ھیں تم بھی ان سے را ہ خدا میں جھاد کرو ۔

اس آیہ کریمہ میں جنگ کی آگ بھڑکانے والوں سے جنگ کرنے کا حکم دیا گیا ھے ۔ جھاد سے متعلق تقریبا تمام آیتیں اسی دفاعی جنگ کے بارے میں ھیں ، صرف ایک ایسی آیت ھے جو مطلق ھے اور اس سے ابتدائی جھاد مراد لیا جا سکتا ھے ۔

Add comment


Security code
Refresh