www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

 

جھاد و دفاع سے متعلق مسائل کے بارے میں گفتگو سے پھلے خود ان دو لفظوں کی تشریح و تفسیر ضرور ی ھے ۔

دفاع سے مراد ھراس چیز کی حفاظت کی خاطر جارح کو پیچھے ڈھکیلنا ھے جس کی حفاظت ضروری ھو ، خواہ وہ چیز جان ھو یا مال ، عقیدہ ھو یا آزادی ، ناموس ھو یا شرف ۔

 قانونی ( حقوقی ) نقطھٴ نظر سے دفاع ایک حق ھے جو انسان کو عطا کیا گیا ھے تاکہ قانون کو پس پشت ڈال کر تجاوز کرنے والے جارح کے شر سے اپنا دفاع کر سکے اور شر پسند افراد حکومت کی غیر حاضری سے نا جائز فائدہ اٹھاتے ھوئے قانون شکنی کر کے عوام کی جان و مال اور عزت و آبرو سے نہ کھیل سکیں ۔

دفاع فطری حق ھے

 اپنے جائز حق کا دفاع ایک ایسا فطری امر ھے جس سے صرف انسان ھی نھیں بلکہ ھر ذی روح بھرہ ور ھے کیونکہ ھر ذی روح اپنی بقا کی خاطر مجبور ھے کہ اپنی ضروریات زندگی کو دوسری مخلوقات میں پائے جانے والے امکانات سے پورا کرے اور ان تمام مشکلات اور رکاوٹوں کا مقابلہ کرے جن سے اس کی زندگی و بقا خطرے میں پڑ سکتی ھے ۔ دوسرے لفظوں میں زندگی کا دارو مدار ان افعال و انفعالات ( عمل و رد ّ عمل ) اور تاثیر و تاثر پر ھے جو نظام خلقت میں انجام پاتے ھیں ۔ ایسے میں اختلاف اور ٹکراؤ قدرتی بات ھے ۔ اگر کوئی ذی روح مخلوق دفاعی طاقت سے محروم ھو تو اس کی موت و تباھی یقینی ھے ۔ اسی لئے خدا وند عالم نے ھر مخلوق کو اس کی مناسبت سے دفاعی ھتھیار عطا کئے ھیں تاکہ اپنے جائز حق کا دفاع کر سکے ۔ ھر حق کے ھمراہ حق دفاع کا فطری ھونا اس کی عام مقبولیت کا باعث ھے ، ھر انسان اس فطری حق کو تسلیم کرتا ھے۔ھر فرد ، ھر معاشرہ ، ھرمکتب اور ھر قانون جارح سے مقابلہ جائز قرار دیتا ھے ۔ دنیا کا کوئی قانون مسلّمہ حقوق سے دفاع کو جرم نھیں سمجھتا ۔ اسلام نے بھی انسانوں کے اس حق کو تسلیم کیا ھے ، اس کے استعمال کو مذاھب توحیدی نیز انسانوں کی بقا کا ضامن قرار دیا ھے اور اس کے فطری ھونے کا اعلان کیا ھے :

” ولولا دفع اللہ الناس بعضھم ببعض لفسدت الارض “ (۱)

اوراگر اسی طرح خدا بعض کو بعض سے نہ روکتا تو ساری زمین میں فساد پھیل جاتا

یہ آیت انسانوں کو شر پسند وں کی سر کوبی کی ھدایت کرتی ھے اور روئے زمین پر انسانوں کے بر پا کیے ھوئے فتنہ و فساد کی روک تھام کا حکم دیتی ھے ۔ ایک دوسری آیت میں ھے :

” و لولا دفع اللہ الناس بعضھم ببعض لھدمت صوامع و بیع و صلوات و مساجد یذکر فیھا اسم اللہ کثیرا “(۲)

اوراگرخدا بعض لوگوںکو بعض کے ذریعہ نہ روکتا ھوتاتوتمام گرجے اور یھودیوں کے عبادت خانے اور مجوسیوں کے عبادت خانے اور مسجدیں سب منھدم کردی جاتیں۔

قرآن مجید اس دفاع کو دینی مظاھر اور عبادتی مراکز کی بقا اور نتیجہ بقائے توحید کا باعث سمجھتا ھے ۔

جھاد کے معنی

 لفظ جھاد کے لغوی معنی ھیں طاقت و اختیار کے ساتہ جد و جھد۔ قرآن مجید میں بھی لفظ جھاد اسی معنی میں متعدد بار استعمال ھوا ھے ۔

” و الذین جاھدوا فینا لنھد ینّھم سبلنا “ ( ۳)

اور جن لوگوں نے ھمارے حق میں جھاد کیا ھے ھم انھیں اپنے راستوں کی ھدایت کریں گے ۔

لیکن ثانوی طور پراس سے مراد اسلام دشمنوں سے جنگ اور راہ خدا میں مال و جان کو قربان کر دینا ھے ۔

”انّ الذین آمنوا و ھاجروا و جاھدوا باموالھم و انفسھم فی سبیل اللہ “ (۴)

 بیشک جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے ھجرت کی اور راہ خدا میں اپنے جان و مال سے جھاد کیا ۔

فقہ میں جھاد کبھی دفاع کے بجائے استعمال ھوتا ھے یعنی کفار سے وہ ابتدائی جنگ جس کا مقصد یہ ھے کہ وہ کفر کو چھوڑ کر خدائے واحد پر ایمان لائیں اور نظام الٰھی کے سامنے سر تسلیم خم کریں ۔ اور کبھی کفار سے مطلق جنگ کے لئے استعمال ھوتا ھے جس میں دفاع بھی شامل ھے ۔ قرآن میں دفاع سے یھی عمومی معنی مراد ھیں اگر چہ اس کا اھم ترین مصداق دفاع ھے یا اس کے تمام مصداق دفاع پر بھی دلالت کرتے ھیں ۔

جھاد کے اقسام

 جھاد کی متعدد قسمیں ھیں جو غالبا دفاع ھی کی حیثیت رکھتی ھیں اور قرآن مجید میں قتال و جھاد کے عنوان سے بیان ھوئی ھیں ۔

۱۔ ان دشمنوں کے مقابلے میں اسلام کی عزت و وقار اور حیثیت و آبرو کا دفاع جو دین کی بنیادوں کو منھدم کر کے ، الحاد و مجوسیت و نصرانیت و یھودیت وغیرہ کی شکل میں کفر و لا دینی پھیلانا چاھتے ھیں ، جیسا کہ اسپین میں رونما ھوا ۔

۲۔ مسلمانوں کی جان و مال اور عزت و آبرو یا اسلامی سر زمین پر اس حملہ آور دشمن کے مقابلے میں دفاع جس کا مقصد اسلام کی تباھی تو نھیں لیکن جس کا ھدف مسلمانوں کی عزت و آبرو اور جان و مال ھو ۔

۳۔ ان مسلمان بھائیوں کا دفاع جو کسی علاقے میں کافروں سے بر سر پیکار ھوں اور یہ خطرہ ھو کہ کفار ان پر غلبہ پالیں گے ۔ ایسے موقع پر اتحاد و اخوت اسلامی کا تقاضا ھے کہ مسلمانوں کے دفاع کی خاطر دشمنوں سے جنگ کی جائے ۔

 ۴۔ اسلامی علاقوں پر قابض یا مسلمانوں کے عقائد پر مسلّط غاصب دشمنوں کی پسپائی اور اخراج کے لئے جھاد کیونکہ غیروں کے اقتدار سے نجات اور مسلمانوں کی عزت و آزادی کی بحالی تمام مسلمانوں کا فریضہ ھے ۔

 ۵۔ کفار سے جھاد تاکہ باطل عقائد سے چھٹکارا دلا کر انھیں اسلامی تعلیمات سے آراستہ کیا جائے ۔ اسے اصطلاحاً جھاد ابتدائی بھی کھا جاتا ھے ۔ اس جھاد کے لئے کچہ خاص شرائط ھیں جن کے بارے میں بھت کچہ لکھا گیا ھے ۔

جھاد کی اھمیت

ایک مختصر تحقیق کے مطابق قرآن مجیدکے ۱۷/ سوروں میں جھاد کا ذکر آیا ھے اور یہ سورے غالبا مدنی ھیں ۔ ان کے نام یہ ھیں :

(۱) بقرہ (۲) آل عمران (۳) نساء( ۴) مائدہ (۵) انفال (۶) توبھ( ۷) نحل(۸)نمل (۹)حج(۱۰) احزاب (۱۱) شوریٰ( ۱۲) محمد( ۱۳) فتح (۱۴)حدید( ۱۵) حشر     (۱۶) ممتحنھ( ۱۷) صف

تقریبا ۴۰۴آیتیں جھاد سے مخصوص ھیں ( البتہ بعض دیگر موضوعات کی طرح آیات جھاد کا مکمل احصاء مشکل ھے ، کیونکہ یہ عام طریقہ ھے کہ جب قرآن مجید کسی موضوع کو چھیڑتا ھے تو کچہ باتیں بطور مقدمہ بیان کرتا ھے اور کبھی کسی مناسبت سے بیچ میں کچہ دوسری باتیں بھی بیان ھو جاتی ھیں اور پھر تتمھٴ کلام میں بھی موضوع کی مناسبت سے کچہ دوسرے مسائل کا ذکر آجاتا ھے جیسا کہ جھاد و انفاق و ولایت سے متعلق آیتوں میں ابتداء یا وسط یا آخر میں کچہ دوسرے مسائل کا بھی تذکرہ ھوا ھے ۔ لھذا ایسی صورت میں مسائل کے لحاظ سے آیات کی صحیح تدوین اور موضوعات کی مناسبت سے جدا گانہ عنوانوں کے تحت ان کی تقسیم و اصناف بندی مشکل ھے )

آیتوں کی یہ کثیر تعداد اور ان میں انتھائی سخت و لولہ انگیز اور حتمی گفتگو ، سزا و جزا کے وعدے اور دھمکیاں اور طرح طرح کی تاکیدیں جھاد کی عظمت و اھمیت کی نشاندھی کرتی ھیں ۔ بطور نمونہ حسب ذیل آیتوں کو ملاحظہ فرمایئے :

” ولا تقولوا لمن یقتل فی سبیل اللہ اموات بل احیاء و لکن لا تشعرون“ (۵)

 اور جو لوگ راہ خدا میں قتل ھوجاتے ھیں انھیں مردہ نہ کھو بلکہ وہ زندہ ھیں لیکن تمھیں ان کی زندگی کا شعور نھیں ھے ۔

” ام حسبتم ان تدخلوا الجنة و لما یاتکم مثل الذین خلوا من قبلکم مستھم الباساء و الضراء و زلزلوا حتیٰ یقول الرسول و الذین آمنوا معہ متیٰ نصر اللہ “ (۶)

 کیا تمھارا خیال ھے کہ آسانی سے جنت میں داخل ھوجاوٴ گے جب کہ ابھی تمھارے سامنے سابق امتوں کی مثال پیش نھیں آئی جنھیں فقر و فاقہ اور پریشانیوں نے گھیر لیا اور اتنے جھٹکے دئے گئے کہ خود رسول اور ان کے ساتھیوں نے کھنا شروع کردیا کہ آخر خدائی مدد کب آئے گی ۔

” ولا تھنوا و لا تحزنوا و انتم الاعلون ان کنتم مومنین ۔ ان یمسسکم قرح فقد مس القوم قرح مثلہ “ (۷)

 خبردار سستی نہ کرنا مصائب پر محزون نہ ھونا اگر تم صاحب ایمان ھو تو سربلندی تمھارے ھی لئے ھے ۔اگر تمھیں کوئی تکلیف چھولیتی ھے تو قوم کو بھی اس سے پھلے ایسی ھی تکلیف ھوچکی ھے ۔

ولاتھنوافی ابتغاء القوم ان تکونواتالمون فانھم یالمون کماتالمون ․․․․(۸)

اور خبردار دشمنوں کا پیچھا کرنے میں سستی سے کام نہ لیناکہ اگر تمھیں کوئی بھی رنج پھونچتا ھے تو تمھاری طرح کفار کو بھی تکلیف پھونچتی ھے ۔

” یا ایھا الذین آمنوا من یرتد منکم عن دینہ فسوف یاتی اللہ بقوم یحبھم و یحبونہ اذلة علی المومنین اعزة علی الکافرین یجاھدون فی سبیل اللہ و لا یخافون لومة لائم “ (۹)

 ایمان والوں تم میں سے جو بھی اپنے دین سے پلٹ جائے گا ۔ تو عنقریب خدا ایک قوم کو لے آئے گا جو اس کی محبوب اور اس سے محبت کرنے والی مومنین کے سامنے خاکسار اور کفار کے سامنے صاحب عزت ، راہ خدا میں جھاد کرنے والی اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہ کرنے والی ھوگی ۔

 ” الا تنفروا یعذبکم عذابا الیما و یستبدل قوما غیرکم “(۱۰)

اگر تم راہ خدا میں نہ نکلو گے تو خدا تمھیں درد ناک عذاب میں مبتلا کرے گا اور تمھارے بدلے دوسری قوم کو لے آئے گا ۔

جھاد کی تشریعی اور فطری حیثیت

جھاد کی مذکورہ بالا پانچ قسموں میں سے چار دفاعی حیثیت کی حامل ھیں اور قدرتی طور پر دفاع فطری حق ھے جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نھیں۔ دنیا کی کوئی منطق مسلمانوں کو اس حق سے محروم نھیں کر سکتی ، قرآن کریم بھی اس کی پر زور حمایت کرتا ھے ، جھاد سے متعلق پھلی آیتیں جو نازل ھوئیں وہ سورہ حج کی آیتیں ھیں جو اس تعبیر سے شروع ھوتی ھیں :

 ” اذن للذین یقاتلون بانھم ظلموا و ان اللہ علیٰ نصرھم لقدیر۔ الذین اخرجوا من دیارھم بغیر حق الا ان یقولوا ربنا اللہ و لو لا دفع اللہ الناس بعضھم ببعض لھدمت صوامع و بیع و صلوات و مساجد یذکر فیھا اسم اللہ کثیرا “(۱۱)

 جن لوگوں سے مسلسل جنگ کی جارھی ھے انھیں ان کی مظلومیت کی بناء پر جھاد کی اجازت دی گئ ھے اور یقینا اللہ ان کی مدد پر قدرت رکھنے والا ھے ۔ وہ لوگ جو اپنے گھروں سے بلا کسی حق کے نکال  دئے گئے ھیں علاوہ اس کے کہ وہ یہ کھتے ھیں کہ ھمارا پروردگار اللہ ھے ۔۔۔

اس آیت میں مظلوم کو حملہ آور دشمن سے جنگ کی اجازت دی گئی ھے تاکہ وہ دشمن کو دفع کر کے توحید کے مظاھر اور آثار شریعت کی حفاظت کر سکے ۔ اسی طرح ایک دوسری آیت ھے ، جسے جھاد سے متعلق اولین آیتوں میں شمار کیا جاتا ھے بلکہ بعض مفسرین اسے جھاد کے سلسلے کی پھلی آیت قرار دیتے ھیں وہ یہ ھے:

” و قاتلوا فی سبیل اللہ الذین یقاتلونکم “ (۱۲)

جو تم سے جنگ کرتے ھیں تم بھی ان سے را ہ خدا میں جھاد کرو ۔

اس آیہ کریمہ میں جنگ کی آگ بھڑکانے والوں سے جنگ کرنے کا حکم دیا گیا ھے ۔ جھاد سے متعلق تقریبا تمام آیتیں اسی دفاعی جنگ کے بارے میں ھیں ، صرف ایک ایسی آیت ھے جو مطلق ھے اور اس سے ابتدائی جھاد مراد لیا جا سکتا ھے ۔


جھادکے مقاصد

 قرآن مجید میں مختلف مقامات پر جھاد کے جو مقاصد بیا ن ھوئے ھیں وہ حسب ذیل ھیں :

۱۔ دفاع:

”وقاتلوا فی سبیل اللہ الذین یقاتلونکم“ (۱۳)

 جو تم سے جنگ کرتے ھیں تم بھی ان سے را ہ خدا میں جھاد کرو ۔

 دفع فتنہ ، یہ عام معنی میں مستعمل ھے ، اس میں دفاع بھی شامل ھے : ” و قاتلوھم حتیٰ لا تکون فتنة “ (۱۴)

 اور ان سے اس وقت تک جنگ جاری رکھو جب تک سارا فتنہ ختم نہ ھوجائے ۔

 حکومت الٰھی کا قیام و اثبات اور سر کشوں کی سر کوبی و اصلاح : ” و قاتلو ھم حتیٰ لا تکون فتنة و یکون الدین کلّہ للّہ “ (۱۵)

 اور تم لوگ ان کفار سے جھاد کرو یھاں تک کہ فتنہ کا وجود نہ رہ جائے اور سارا دین صرف اللہ کے لئے ھے ۔

” الذین عاھدت منھم ثم ینقضون عھدھم فی کل مرة و ھم لا یتقون “(۱۶)

 جن سے آ پ نے عھد لیا اور اس کے بعدوہ ھر مرتبہ اپنے عھد کو توڑ دیتے ھیں اور خدا کا خوف نھیں کرتے ۔

” فقاتلوا ائمة الکفر انھم لا ایمان لھم لعلھم ینتھون “ ( ۱۷)

 کفر کے سربراھوں سے کھل کر جھاد کرو ان کے قسموں کا کوئی اعتبار نھیں ھے شاید یہ اسی طرح اپنی حرکتوں سے باز آجائیں ۔ 

 الٰھی نظام کی برقراری اور ممکنہ و آئندہ دشمنوں کے حملے کی پیش بندی :” قاتلوا الذین لا یومنون باللہ و لا بالیوم الاخر و لا یحرمون ما حرم اللہ و رسولہ و لا یدینون دین الحق من الذین اوتوا لکتاب حتیٰ یعطوا الجزیة عن یدوھم صاغرون “ (۱۸)

 ان لوگوں سے جھاد کرو جو خدا اور روز آخرت پر ایمان نھیں رکھتے اور جس چیز کو خداورسول نے حرام قرار دیا ھے اسے حرام نھیں سمجھتے اور اھل کتاب ھوتے ھوئے بھی دین حق کا التزام نھیں کرتے ۔ یھاں تک کہ اپنے ھاتھوں سے ذلت کے ساتہ تمھارے سامنے جز یہ پیش کرنے پر آمادہ ھوجائیں ۔

 روئے زمین پر فتنہ و فساد کی روک تھام : ” ولو لاد فع اللہ الناس بعضھم ببعض لفسدت الارض “ ( ۱۹)

اوراگر اسی طرح خدا بعض کو بعض سے نہ روکتاھوتا تو ساری زمین میں فساد پھیل جاتا

 مراکز عبادت اور دینی مظاھر کا تحفظ :” و لو لا دفع اللہ الناس بعضھم ببعض لھدمت صوامع و بیع و صلوات و مساجد “( ۲۰)

اوراگرخدا بعض لوگوں بعض کے ذریعہ نہ روکتا توتمام گرجے اور یھودیوں کے عبادت خانے اور مجوسیوں کے عبادت خانے اور مسجدیں سب منھدم کردی جاتیں۔

۲) احقاق حق و ابطال باطل:

” لیحق الحق و یبطل الباطل و لو کرہ المجرمون “ (۲۱)

 تاکہ حق ثابت ھوجائے اور باطل فنا ھوجائے چاھے مجرمین اسے کسی قدر برا کیوں نہ سمجھیں ۔

۳) انسداد ظلم و حمایت مظلومین:

” انما السبیل علی الذین یظلمون الناس و یبغون فی الارض بغیر الحق “ (۲۲)

 الزام ان لوگوں پر ھے جو لوگوں پر ظلم کرتے ھیں اور زمین میں ناحق زیادتیا ںپھیلاتے ھیں ۔

” و ما لکم لا تقاتلون فی سبیل اللہ و المستضعفین من الرجال و النساء و الولدان “ ( ۲۳)

 اور آخر تمھیں کیا ھوگیا ھے کہ تم اللہ کی راہ میں اور ان کمزور مردوں ، عورتوں اور بچوں کیلئے جھاد نھیں کرتے ھو۔

ان عنوانات کے تحت جھاد کے اغراض و مقاصد قرآن مجید میں بیان ھوئے ھیں ۔ البتہ ان میں کچہ ایسے مقاصد بھی ھیں جو دوسرے مقاصد کے ضمن میں پورے ھو جاتے ھیں ۔ بلکہ یہ بھی کھا جا سکتا ھے کہ بحیثیت مجموعی جھاد کا مقصد انسان کے فطری اور مسلّمہ حقوق کا دفاع ھے یعنی مسلمانوں کی عزت و آبرو ، جان و مال اور اسلامی سر زمین کا تحفظ و دفاع ۔

 اس طرح دفاع کے عنوان سے ابتدائی جھا د کی بھی توجھیہ کی جا سکتی ھے کیونکہ عظیم محقق و مفسر علامہ طباطبائی مرحوم کے بقول توحید اور توحیدی نظام فطری بنیادوں پر استوار ھے اور اصلاح بشریت کا واحد راستہ ھے” فاقم وجھک للدین حنیفا فطرة اللہ التی فطرالناس علیھا،لا تبدیل ،لخلق اللہ ذالک دین القیم “( ۲۴)

آپ اپنے رخ کو دین کی طرف رکھیں اور باطل سے کنارہ کش رھیں کہ یہ دین وہ فطرت الھی ھے جس پر اس نے انسانوں کو پیدا کیا اور خلقت الھی میں کوئی تبدیلی نھیں ھوسکتی یقینا یھی سیدھا اور مستحکم دین ھے ۔

اس کے بعد کوئی چارہ باقی نھیں رھتا کہ احیاء اساس توحید اور نظام توحید کے لئے تمام انسان مل کر سعی کریں کیونکہ یہ مقصد سب سے بڑا فطری حق ھے ۔

”شرع لکم من الدین ما وصی بہ نوحا و الذی اوحینا الیک و ما وصینا بہ ابراھیم و موسیٰ و عیسیٰ ان اقیموا الدین و لا تتفرّقوا فیہ “ ( ۲۵)اس نے تمھارے لئے دین میں وہ راستہ مقرر کیا ھے جس کی نصیحت نوح کو کی ھے ، اور جس کی وحی پیغمبر تمھاری طرف بھی کی ھے اور جس کی نصیحت ابراھیم ، موسی ، اور عیسی کو بھی کی ھے کہ دین کو قائم کرو اور اسمیں تفرقہ پیدا نہ ھونے پائے ۔

 عقلائے عالم کے نقطہ نظر سے عظیم ترین فطری حق حق حیات ھے یعنی معاشرے پر حاکم قوانین کے زیر سایہ زندگی گذارنا ، ایسے قوانین جو افراد کے مفادات کی حفاظت کرتے ھیں اور جیسا کہ بیان کیا جا چکا ھے کہ اس حق کا دفاع بھی فطری حق اور اس کے تحفظ و بقاء کا ضامن ھے ، اگر حق دفاع نہ ھو تو حق حیات بھی مستکبروں کے ھاتھوں پامال ھو جائے گا ۔

” ولولا دفع اللہ الناس بعضھم ببعض لھدمت صوامع و بیع ۔۔۔۔۔۔۔۔۔“ (۲۶)

اوراگرخدا بعض لوگوںکو بعض کے ذریعہ نہ روکتاھوتا توتمام گرجے اور یھودیوں کے عبادت خانے اور مجوسیوں کے عبادت خانے اور مسجدیں سب منھدم کردی جاتیں۔

اگر خدائی نظاموں پر مستکبروں کی جارحانہ دست درازی کو روکنے کے لئے دفاعی طاقت موجود نہ ھو تو دین یعنی وھی فطری حق جس کے سماجی مظاھر ، مسجد و کلیسا جیسے عبادتی مراکز ھیں ، نیست و نابود ھو جائیں گے اور اس کا نام و نشان بھی باقی نہ رھے گا ۔

 سورہ انفال کی آیتیں واضح الفاظ میں بتاتی ھیں کہ اگر موحدوں کا دفاع نہ ھو تو حق پرستوں کی تاک میں کمین گاھوں میںبیٹھے ھوئے مجرم ،حق کی جگہ باطل کو رائج کر دیں گے ، یہ جھاد ھے جو حق کی حفاظت کا ذمہ دار ھے ۔

” لیحق الحق و یبطل الباطل و لو کرہ المجرمون “ ( ۲۷)

 تاکہ حق ثابت ھوجائے اور باطل فنا ھوجائے چاھے مجرمین اسے کسی قدر برا کیوں نہ سمجھیں ۔

اسی طرح حاملان توحید کے عنوان سے مسلمانوں کی حیات جو در حقیقت حیات توحید ھے جھاد فی سبیل اللہ کی رھین منت ھے ۔

” استجیبوا للّہ و للرسول اذا دعاکم لما یحییکم“ (۲۸)

اللہ اور رسول کی آواز پر لبیک کھو جب وہ تمھیں اس امر کی طرف دعوت دیں جس میں تمھاری زندگی ھے ۔

جھاد ایک فطری حق ھے خواہ تحفظ مسلمین کی خاطر ھو یا دفاع اسلام کے عنوان سے ھو یا ابتدائی جھاد کی صورت میں کہ یہ ان ملکوں میں جھاں جابروں کے دباؤ کی وجہ سے فطرت الٰھی کا دم گھٹ رھا ھو ، اسے زندہ اور اس شرک کو نابود کرنا چاھتا ھے جو فطرت کی موت اور توحید کے حسین جلووں کے ماند پڑ جانے کا باعث ھے ( و یبطل الباطل )

اس مقدمے کی بنا پر یقین سے کھا جا سکتا ھے کہ اسلام نے اپنے پیروؤں کو حق دیا ھے کہ وہ دنیا کو شرک اور اس کی تمام نشانیوں سے چاھے وہ جس روپ میں ھوں پاک کریں اور فطرت توحید کو زندہ کریں ۔ قرآن مجید نے بھی مسلمانوں سے اس کا وعدہ کیا ھے ۔

”و لقد کتبنا فی الزبور من بعد الذکر ان الارض یرثھا عبادی الصالحون “ (۲۹)

 اور ھم نے ذکر کے بعد زبور میں لکہ دیا ھے کہ ھماری زمین کے وارث ھمار ے نیک بندے ھی ھوں گے ۔

” وعد اللہ الذین آمنوا منکم و عملوا الصالحات لیستخلفنھم فی الارض کما استخلف الذین من قبلھم و لیمکنن لھم دینھم الذی ارتضیٰ لھم و لیبدلنّھم من بعد خوفھم امنا یعبد وننی لا یشرکون بی شیئا “ ( ۳۰)

 اللہ نے تم میں سے صاحبان ایما ن و عمل صالح سے وعدہ کیا ھے کہ انھیں روئے زمین میں اسی طرح خلیفہ اپنابنائے گا جس طرح پھلے والوں کو بنایا ھے اور ان کے لئے اس دین کو غالب بنائے گا جسے ان کے لئے پسندیدہ قرار دیا ھے اور ان کے خوف کو امن سے تبدیل کردے گا کہ وہ سب صرف میری عبادت کریں گے اور کسی طرح کا شرک نہ کریں گے ۔

جملہ ” یعبدوننی لا یشرکون بی شیئا “  بھترین دلیل ھے کہ شرک اور اس کے تمام مظاھر کی تباھی ضروری ھے تاکہ توحید کا اخلاص دلوں میں جا گزین ھو ۔

 ”یا ایھا الذین آمنوا من یرتد منکم عن دینہ فسوف یاتی اللہ بقوم یحبھم و یحبونہ اذلة علی المومنین اعزة علی الکافرین یجاھدون فی سبیل اللہ و لا یخافون لومة لائم “ ( ۳۱)

 ایمان والوں تم میں سے جو بھی اپنے دین سے پلٹ جائے گا ۔ تو عنقریب خدا ایک قوم کو لے آئے گا جو اس کی محبوب اور اس سے محبت کرنے والی مومنین کے سامنے خاکسار اور کفار کے سامنے صاحب عزت ، راہ خدا میں جھاد کرنے والی اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہ کرنے والی ھوگی ۔

یہ آیت ان مجاھدوں کا تذکرہ کر رھی ھے جو ھر طرح کی سر زنش و ملامت سے بے پرواہ کامل خلوص کے ساتہ شرک سے روئے زمین کو پاک کرتے اور سارے عالم میں کلمھٴ حق کا پرچم بلند اور ایفائے وعدھٴ الٰھی کا فرض ادا کرتے ھیں ۔

ان مقدمات سے اس بات کی تصدیق ھو سکتی ھے کہ مشرکوں کو دعوت توحید دینے کے لئے جھاد ابتدائی ایک مشروع اور فطری حق ھے جب رسالت کی طرف سے پیغام رسانی اور دعوت تنبیہ اور بشارت ، اتمام حجت اور دعوت حسنہ ، روشن آیات حق کی پیش کش اور حق  و باطل میں امتیاز وغیرہ کی تمام عقلی و منطقی کوششیں ناکام ھو جائیں تو ظالموں اور مستکبروں کی سر کشی و نافرمانی کو کچلنے کے لئے اسی حق کا مجبوراً استعمال کیا جاتا ھے ۔ یہ حق صرف دین سے مخصوص نھیں بلکہ یہ ایک ایسا فطری امر ھے جسے تمام قومیں تسلیم کرتی ھیں ، جب عوام کسی نظام کو مان لیتے ھیں اور معاشرے کی اصلاح و ترقی کے لئے کوئی نظام قبول کر لیا جاتا ھے تو ایسے سر کش و نافرمان افراد کے لئے جو ارشاد و ھدایت کے بعد بھی اپنی سر کشی و نافرمانی سے باز نھیں آتے ۔ اس حق کا استعمال جائز سمجھا جاتا ھے تاکہ وہ قانون کی برتری تسلیم کریں جب ھر نظام کو یہ حق حاصل ھے تو پھر توحید کی بنیادوں پر استوار الٰھی نظام کو اس فطری حق سے کیوں محروم کیا جائے ؟

جیسا کہ اشارہ ھو چکا ھے آیت ” قاتلوا الذین یلونکم من الکفار و لیجدوا فیکم غلظة “ (۳۲)

 اپنے آس پاس والے کفار سے جھاد کر و اور وہ تم میں سختی و طاقت کا احساس کرے۔

جھاد دفاعی سے مختص نھیں ھے ، اسی طرح سورہ نمل میں ملکہ سبا کو حضرت سلیمان کی دھمکی : ” فلناتینھم بجنود لا قبل لھم بھا و لنخرجنھم منھا اذلة و ھم صاغرون “ ( ۳۳)

 اب میں ایک ایسا لشکر لے کر آؤں گا جس کا مقابلہ ممکن نہ ھوگا اور پھر سب کو ذلت و رسوائی کے ساتہ ملک سے باھر نکالوں گا ۔

حالانکہ اس سے پھلے ملکہ سبا کی طرف سے کوئی حملہ ھوا تھا نہ حملے کی دھمکی دی گئی تھی ۔ حضرت سلیمان کی دھمکی صرف اسی بنا پر تھی کہ ملکہ سبا نے حضرت سلیمان کی دعوت کو قبول نھیں کیا تھا ” الاتعلوا علی و اتونی مسلمین “ (۳۴)

 دیکھومیرے مقابلے میں سرکشی نہ کرو اور اطاعت گزار بن کر چلے آؤ ۔

یہ واقعہ جھاد ابتدائی کے شرعی جواز کی بھترین توضیح ھے ۔


جھاد ، تاریخ انبیاء میں

 قرآن کی آیتیں گواہ ھیں کہ انبیاء کی سیرت یہ رھی ھے کہ وہ تنبیہ و بشارت ، روشن آیات حق اور گذشتہ و آئندہ انسانوں کے تذکرے سے انسانی عقل و فطرت کو نھایت نرمی اور دلسوزی کے ساتہ بیدار کرنے کی کوشش سے اپنی دعوت کا آغاز کرتے تھے ، قدرتی بات ھے کہ پا ک وصاف دل اور بیدار و خدا خواہ ضمیر نھایت خندہ پیشانی سے ان کی دعوت کو قبول کرتے تھے ،لیکن مردہ دل ، آلودہ روح اور سر کش نفس رکھنے والے ان کی دعوت کوٹھکرا دیتے اور نور خدا کو خاموش کرنے کے لئے انبیاء کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ھوتے تھے ۔ جھاں کھیں محاذ حق کمزور ھوتا اور اس میں مقابلے کی طاقت  نہ ھوتی تو وہ اپنی اور اپنے اصحاب و انصار کی جان کی حفاظت اور محدود پیمانے پر چراغ توحید کی جلائے رکھنے پر اکتفاء کرتے ھوئے مشرکوں پر عذاب الٰھی کے نازل ھونے کا انتظار کرتے تھے ۔ جب پیمانہ صبر لبریز ھو جاتا اور اھل حق امتحان کی کٹھن منزلوں کے طے کرتے ھوئے موت و حیات کے دور اھے پر پھنچ جاتے ، اس وقت وعدھٴ الٰھی پورا ھوتا ، اور مومنوں کو ان سر کش طاغوتوں سے چھٹکارا مل جاتا تھا ، جیسا کہ حضرت نوح علیہ السلام،حضرت ھود علیہ السلام، حضرت شعیب علیہ السلام،حضرت صالح علیہ السلام، حضرت ابراھیم علیہ السلاماور حضرت موسیٰ علیہ السلامکے قصوں میں بیان کیا گیا ھے : ” فدعا ربہ انی مغلوب فانتصر ، ففتحنا ابواب السماء بماء منھم “ (۳۵)

 تو اس نے اپنے پروردگار سے دعا کی کہ میں مغلوب ھوگیاھوں میری مدد فرما ۔ تو ھم نے ایک موسلا دھار بارش کے ساتہ آسمان کے دروازے کھول دئے ۔

 ” قال لو ان لی بکم قوة اوٰاوی الی رکن شدید ․․․․․فلما جاء امرناجعلنا عالیھا سافلھا۔۔۔۔۔،، (۳۶)

 لوط نے کھا کاش میرے پاس قوت ھوتی یا میں کسی مضبوط قلعہ میں پناہ لے سکتا ۔پھر جب ھمار ا عذاب آگیا تو ھم نے زمین کو تھہ و بالا کردیا ۔

قالوا حرقوہ و انصروا الھتکم ان کنتم فاعلین ، قلنا یا نار کونی بردا و سلاما علی ابراھیم ، واراد وا بہ کیدا فجلعنا ھم الاخسرین “(۳۷)

 ان لوگوں نے کھا کہ ابراھیم کو آگ میں جلا دو اور اگر کچہ کرنا چاھتے ھوتو اس طرح اپنے خداؤں کی مدد کرو ۔ تو ھم نے بھی حکم دیا کہ اے آگ ابراھیم کے لئے سرد ھوجا اور سلامتی کا سامان بن جا ۔ اور ان لوگوں نے ایک مکر کا ارادہ کیا تھا تو ھم نے بھی انھیں خسارہ والا اور ناکام قرار دیا ۔

” قال اصحاب موسیٰ انالمد رکون۔قال کلا ان معی ربی سیھدین ․․․ثم اغرقنا الاخرین “ (۳۸)

 اصحاب موسی نے کھا کہ اب تو ھم گرفت میں آجائیں گے ۔ موسی نے کھا ھرگز نھیں ھمارے ساتہ ھمار اپروردگار ھے و ہ ھماری رھنمائی کرے گا ۔۔۔پھر باقی لوگوں کو غرق کردیا ۔ 

ایک مقام پر بطور کلی ارشاد ھوتا ھے : ” فکلا اخذ نا بذنبہ فمنھم من ارسلنا علیہ حاصبا و منھم من اخذتہ الصیحة و منھم من خسفنا بہ الارض و منھم من اغرقنا “(۳۹) پھر ھم نے ھر ایک کو اس کے گناہ میں گرفتار کرلیا کسی پر آسمان سے پتھروں کی بارش کردی کسی کو ایک آسمانی چیخ نے پکڑ لیا اور کسی کو زمین میں دھنسا دیا اور کسی کو پانی میں غرق کردیا ۔

 لیکن جب توحیدی طاقتیں خود کو طاقتور محسوس کرتیں اور دشمن پر غلبہ پانے کا امکان ھوتا تو وہ مقاصد رسالت کی تکمیل خدا خواھوں کے راستے کو ھموار اور ان کے سامنے سے رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے ھتھیار اٹھانے میں پس و پیش نھیں کرتی تھیں۔ ایسے موقع پر شرک و ائمہ شرک کے وجود کو برداشت نھیں کیا جاتا تھا ، جیسا کہ طالوت و جالوت ، سلیمان و ملکہ ٴ سبا  ،موسیٰ علیہ السلامو عما لقہ کے واقعات میں تفصیل سے موجود ھے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلامنے فرعون کے مقابلے میں ھتھیار نھیں اٹھایا وہ عالم مجبوری میں مصر سے ھجرت کے ارادے سے اپنی قوم کو لے کر دریائے نیل کا رخ کرتے ھیں  ۔لیکن جب عما لقہ شام کے مقابلے میں اپنے کو طاقتور محسوس کیا تو ان پر حملہ کرنے سے گریز نہ کیا ۔ مختصر یہ کہ ایک مسلم الثبوت حقیقت ھے کہ انبیاء علیہم السلامما سلف کی زندگی میں جنگ و جھاد دونوں کی سنت موجودتھی ’‘وکاٴیّن من نبی قاتل معہ ربیون کثیر۔۔۔۔۔۔۔ “ (۴۰)اور بھت سے ایسے نبی گزر چکے ھیں جن کے ساتہ بھت سے اللہ والوں نے اس شان سے جھاد کیا ھے کہ راہ خدا میں پڑنے والی مصیبتوںسے نہ کمزور ھوئے اور نہ بزدلی کا اظھا ر کیا اور نہ دشمن کے سامنے ذلت کا مظاھرہ کیا ۔

جھاد زمان و مکان میں مقید نھیں ھے

اس حقیقت کو مد نظر رکھتے ھوئے کہ جھاد بمعنی عام جس میں اسلام اور مسلمانوں کا دفاع شامل ھے قرآن مجید میں عظیم ترین فریضہ ھے ، اسے پورے الٰھی نظام ، اور توحید کی اساس کا محافظ قرار دیا گیا ھے ، عقل ، تاریخ تجزیہ اور خارجی واقعات بھی ضرورت جھاد کی قطعی تائید کرتے ھیں ۔ اس میں شک نھیں کہ یہ فریضہ صرف صدر اسلام اور عصر رسول  سے مختص نھیں ھو سکتا ، جھاد کے لئے مسلمانوں کی طاقت و قوت کے سوا کوئی شرط نھیں ۔

 جھاد ۔بمعنی عام ۔ کے کسی خاص زمانے یا عام شرائط ( جس میں طاقت و قدرت بھی شامل ھے ) کے سوا دوسری شرائط سے مختص ھونے کا تصور ، آرام پسندی حقائق قرآن سے نا واقفیت ، فقھی جمود و خمود مصالح اسلام و مسلمین سے لا پرواھی ، خوف ، اخلاقی کمزوری ، معاشرے اور اس کے مسائل سے صدیوں کی دوری و گوشہ نشینی اور صوفیا نہ افکار کے غلبے کے سوا کچہ نھیں ۔

 اگر یہ کمزوریاںاور نارسائیاں نہ ھوتیں تو کس طرح ایک اسلام شناس یا محقق فقھیہ چار سو سے زائد تاکیدی اور سخت لھجہ آیتوں کی صرف چند برسوں سے مخصوص سمجھتا اور اس طرز فکر سے دشمنوں کے نرغے میں گھرے ھوئے اسلام کو جس کے لئے دفاع ایک اھم ضرورت ھے ھمیشہ ھمشیہ کے لئے نھتا بنا کر مسلمانوں کی جان و مال ، عزت و آبرو ، اسلامی اقدار اور اسلامی سر زمین پردشمنوں کے غلبے کا راستہ ھموار کرتا ؟ کیا آیہ ” واعدوالھم ما استطعتم من قوة․․․․․․․․“جو مسلمانوں کی عزت و قوت کی ضمانت ھے کسی ایک زمانے سے محدود ھو سکتی ھے ؟ کیا دشمنوں نے ھم سے معاھدے کرنے کے بعد اس کی خلاف ورزی نھیں کی ؟ پھر ھم نے اس آیت ” و ان نکثوا ایمانھم من بعد عھدھم و طعنوا فی دینکم فقاتلوا ائمة الکفر انھم لا ایمان لھم “ (۴۱)

کفر کے سربراھوں سے کھل کر جھاد کرو ان کے قسموں کا کوئی اعتبار نھیں ھے شاید یہ اسی طرح اپنی حرکتوں سے باز آجائیں ۔پر عمل کیوں نہ کیا ؟ خدا وند عالم کا یہ وعدہ ” لا تھنوا و لا تحزنوا و انتم الاعلون ان کنتم مومنین “(۴۲)

خبردار سستی نہ کرنا مصائب پر محزون نہ ھونا اگر تم صاحب ایمان ھو تو سربلندی تمھارے ھی لئے ھے ۔ کیا صرف چند برسوں کے لئے تھا ؟ اگر جھاد ابتدائی میں شک و شبہ ھو سکتا ھو تو کیا دفاع میں بھی شک کیا جاسکتا ھے ؟ تمام زمانوں میں مسلمانوں کو دفاع کی ضرورت رھی ھے اور آج دشمن ھر زمانے سے زیادہ اسلام و مسلمین کے مقابلے میں صف آرا ھے ، اسے کسی مکر و حیلے سے عار نھیں ،آج اپنی جان و مال عزت و آبرو کی حفاظت کے لئے ھر زمانہ سے زیادہ امداد باھمی ، تعاون اسلحے کی فراھمی ، طاقت میں اضافہ اور جھاد کی ضرورت ھے۔

اگر نعوذ باللہ ھم مسلمان نہ ھوتے پھر بھی تقاضائے عقل و فطرت یہ تھا کہ ھم اپنے دفاع کے لئے اٹہ کھڑے ھوتے ، اور اتنی زیادہ ذلت و خواری برداشت نہ کرتے ، ایک ارب مسلمانوں کے لئے یھی ذلت کافی ھے کہ تیس لاکہ یھودیوں کے سامنے جن کے بارے میں قرآن کھتا ھے ت علیھ” ضرب م الذلة و المسکنة “ (۴۳)اب ان پر ذلت اور محتاجی کی مار پڑ گئی ۔

سر ذلت جھکائے ھوئے ھیں ۔ روز بروز ان کے لئے میدان ھموار کرتے جا رھے ھیں اور دست بستہ ان کے احکام و فرامین کی بجا آوری کے لئے تیار ھیں ۔ کیا اس ذلت کو برداشت کرنے کے لئے محض یہ بھانہ کافی ھے کہ امریکہ اسرائیل کا حامی ھے ؟ کیا خدا ھمارا حامی و مدد گار نھیں ؟ پھر یہ ذلت کیوں ؟

خدا کی نصرت و حمایت کے وعدے بر حق ھیں ،لیکن ھمارا اس پر ایمان نھیں ، ھم شرط ایمان ( ان کنتم مومنین )سے کورے ھیں ۔ ھم اس آیت کے مصداق بن گئے ھیں کہ ” ارضیتم بالحیوٰة الد نیا من الاخرة ․․․․․الا تنفروا یعذبکم عذابا الیما ویستبدل قوما غیرکم ۔۔۔۔۔“ ( ۴۴)ایمان والوں تمھیں کیا ھوگیا ھے کہ جب تم سے کھا گیا کہ راہ خدا میں جھاد کیلئے نکلو تو تم زمین سے چپک کر رہ گئے کیا تم آخرت کے بدلے زندہ گانی دنیا سے راضی ھوگئے اگر تم راہ خدا میں نہ نکلو گے تو خدا تمھیں دردناک عذاب میں مبتلا کرے گا اور تمھارے بدلے دوسری قوم کو لے آئے گا اور تم اسے کوئی نقصان نھیں پھونچا سکتے ھو کہ وہ ھر شئی پر قدرت رکھنے والا ھے

تمام مسلمانوں کا فریضہ ھے کہ ان مقاصد کی تکمیل کے لئے اس نظام سے تعاون کریں اور اپنے اسلامی فریضے کے پیش نظر قومیت ، نسل ، زبان اور جغرافیائی اختلافات سے صرف نظر کرتے ھوئے وحدت اسلامی کے جھنڈے تلے متحد و ھم آھنگ ھو کر اسلام و مسلمین کے ظاھر و جابر دشمنوں کا مقابلہ کرنے کو اٹہ کھڑے ھوں ، عزت کی موت کو ذلت کی زندگی سے بھتر سمجھیں ، تاکہ جھاد کے شیریں ثمرات سے لطف اندوز ھوں اور خدا وند عالم کے دست شفقت و محبت کے سایے میں اپنے دشمن پروار کریں اور خود اس لمس ربانی کی تصدیق کریں :” ید اللہ فوق اید یھم “ ۔


حوالے:

(۱) بقرہ / ۲۵۱۔

(۲) حج / ۴۰۔

(۳)عنکبوت / ۶۹۔

(۴) انفال/ ۷۲۔

(۵) بقرہ / ۱۵۴۔

(۶)بقرہ / ۲۱۴۔

(۷) آل عمران/ ۱۳۹۔ ۱۴۸۔

(۸) نساء/ ۱۴۰۔

(۹) مائدہ/ ۵۴۔

(۱۰) توبہ/ ۳۔

(۱۱)حج /۳۹۔۴۰۔

(۱۲) بقرہ/ ۱۹۰۔

(۱۳) بقرہ / ۱۹۰۔

(۱۴) بقرہ / ۱۹۳۔

(۱۵) انفال/ ۳۹۔

(۱۶) انفال/ ۵۶۔

(۱۷)توبہ/ ۱۲۔

(۱۸) توبہ/ ۲۹۔

(۱۹)بقرہ /۲۵۱۔

(۲۰)حج ۴۰۔

(۲۱)انفال  ۸۔

(۲۲)شوریٰ ۴۳۔

(۲۳)نساء ۷۵۔

(۲۴)روم / ۳۰۔

(۲۵)شوریٰ / ۱۳۔

(۲۶) حج/ ۴۰۔

(۲۷)انفال/ ۸۔

(۲۸)انفال/ ۲۴۔

(۲۹) انبیاء / ۱۰۵۔

 (۳۰)نور/ ۵۵۔

(۳۱)مائدہ/ ۵۴۔

(۳۲) توبہ/ ۱۲۳۔

(۳۳)نمل/ ۳۷۔

(۳۴) نمل/۳۱۔

(۳۵) قمر / ۱۱۔

(۳۶) ھود /۸۰۔ ۸۳۔

(۳۷) انبیاء/ ۶۹۔۷۰۔

(۳۸) شعراء/ ۶۱۔۶۲۔

(۳۹) عنکبوت / ۴۰۔

(۴۰)آل عمران / ۱۴۶۔

(۴۱)توبہ ۱۲۔

(۴۲)آل عمران /۱۳۹۔

(۴۳)بقرہ /۶۱۔

(۴۴)توبہ /۳۸،۳۹۔

Add comment


Security code
Refresh