www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

حضرت علی (ع)ارشاد فرماتے ھیں :

” قیامت کے دن درستی و پاکیزگی کی کنجی اور ذخیرہ تقویٰ ھے ۔ تقویٰ غلامی کی ھر قید و بند سے آزادی ھے ۔ ھر بد بختی سے نجات و رھائی ھے ۔تقویٰ سے انسان اپنے مقصد کو حاصل کر لیتا ھے ، دشمن کے شر سے محفوظ رھتا ھے اپنی امیدوں اور آرزؤوں کو حاصل کر لیتا ھے ۔( ۴)

تاریخ کے اس تاریک ترین دور میں جب نسلی و طبقاتی نزاع و کشمکش لوگوں میں پوری شدت کے ساتھ موجود تھی اور عقل و آزادی کے بر خلاف وسیع پیمانے پر امتیازات موجود تھے ،جب کمزورو تھی دست تمام شخصی و اجتماعی حقوق سے محروم تھے ، قوم و ملت خونخوار حاکموں کے پنجوں میں تڑپتی تھی، اس وقت پیغمبر اسلام نے بڑی بھادری کے ساتھ ھر قوم کے ناجائز و غلط امتیازات کو لغو قرار دیا ۔ اور تمام افراد میں برابری و کامل مساوات کا اعلان فرمایا ۔ بندگی خدا کے زیر سایہ ھر شخص کو معقول آزادی بخشی ۔یھاں تک کہ معاشرے کے وہ کمزور طبقے جو اشراف حکام کے سامنے اپنے ارادے کو ظاھر کرنے پر قادر نھیں تھے اسلام کے مبنی بر انصاف قانون کے زیر سایہ طاقتور ھو گئے اور روٴسا و بزرگان قوم کے ساتھ شانہ بشانہ چلنے لگے ۔

جن لوگوں کا خیال ھے کہ دنیا کے موجودہ مکاتب فکر، بشری اجتماع سے محروم ، اور ستم رسیدہ لوگوں کا دفاع اسی طرح کر سکتے ھیں جس طرح اسلام نے کیا ھے وہ یقینا اشتباہ میں مبتلا ھیں انھوں نے حقیقت اسلام کو درک نھیں کیا ۔

حقیقت یہ ھے کہ اجتماعی عدالت کی جو کامل ترین صورت اسلام نے پیش کی ھے کوئی بھی سسٹم یا مکتب فکر نھیں پیش کر سکا ھے۔ انتھا یہ ھے کہ کمیونسٹ جو دین و مذھب کے دشمن ھیں اسلام کی عظیم نھضت ، موثر نقش ، اساسی تعلیمات کا اعتراف کرتے ھیں ۔

ایران کا ایک کمیونسٹ اخبار لکھتا ھے :ساتویں صدی عیسوی کے اوائل میں اسلام کا ظھور تاریخ کا وہ بھترین شاھکار ھے جس نے بشر کے چھرھٴ تمدن میں انقلاب پیدا کر دیا ۔ اس عظیم واقعھ، ظھور اسلام جس کے فتوحات ایک صدی سے بھی کم مدت میں ایک طرف تو ساحل ”لوآر “ تک اور دوسری طرف ساحل ” سندہ و جیون “تک پھونچ گئے تھے، نے کتاب زندگی میں ایک دلچسپ باب کا اضافہ کیا ھے ۔

خود جزیرة العرب کے اندر یھودی ، عیسائی مذھب کے متعدد مرکز ِتبلیغ تھے ، اعراب مکہ اور بادیہ نشین قبائل بت پرست تھے ، مکہ مرکز تجارت تھا ، سودخواروں کا گڑھ تھا ،قبائل سسٹم کا ملجاوماوی تھا ، ملّی تعصب کا منبع تھا ، مختلف مذاھب کا مرکز تھا ۔

اسلام ابتداء میں چھوٹے موٹے تاجروں ، کسانوںاورغلاموں میں مقبول ھوا اور چونکہ سود خواروں کی مخالفت کرتا تھا اس لئے مکہ چھوڑنے پر مجبور ھوا۔ اسلام ایک طرف تو تمام دوسرے مذاھب کے خصوصیات کا حامل ھے لیکن دوسری طرف زندہ و مادی جنبوں کا بھی حامل ھے۔رھبانیت سے فرار ، نسلی و قبائلی مساوات ، زن و مرد کے حقوق کی مساوات ، غلاموں کی حمایت ، غریبوںاور مجبوروں کی طرف داری کے سادہ اصول ، یہ چیزیں ایسی ھیں جس نے اسلام کو دوسرے مذاھب سے ممتا ز کردیا ۔

خونخوارو مغرورحاکموں کے سر پر اسلام سنگین ضرب بن کر آیا ۔دیھاتیوں ، پیشہ ور شھریوں نے اس کو رحمت و نجات سمجہ کر دل سے لگایا ۔ عظیم پیکر شاھی ( مگر بوسیدہ ) پر اسلام نے بھت ھی بر محل ضرب کاری لگائی اور اس کو نیست و نابود کر دیا ۔ اور دو صدی کے اندر اندر چین سے لے اسپین تک اپنی عظیم حکومت قائم کی ۔(۵ )

اگر اسلامی پیشواؤں اور سوشلسٹ ملکوں کے ذمہ داران حکومت کا مقابلہ کیا جائے تو پتہ چل جاتا ھے کہ ان حکومتوں میں اور اسلام میں زمین سے لے کر آسمان تک کا فرق ھے ۔ اسلام طبقاتی نظام کے بالکل بر خلاف ھے اورحاکم و محکوم کو نھیں پھچانتا وھاں کامل مساوات ھے ۔

حضرت علی (ع)کو جب یہ خبر پھنچائی گئی کہ آپ کے نمائندہ ”عثمان بن حنیف “ کے اعزاز میں بصرے کے اندر ایک دعوت کا اھتمام کیا گیا ھے ، تو آپ کو یہ بات بھت ھی ناگوار گزری کہ حاکم اور شھر کے اونچے طبقے میں خصوصی روابط پیدا ھو جائیں جس کے سبب بڑے لوگوں کے ساتھ خصوصی برتاؤ کیا جائے ۔ آپ نے فوراً اپنے گورنر کو ایک عتاب آمیز خط لکھا اور اس میں عثمان کو بھت زیادہ سر زنش کی ۔ ( ۶ )

نسلی امتیازات کا مقابلہ دنیا کے تمام مکاتب سے پھلے اسلام نے کیا ۔ اگر چہ آج ساری دنیا میں سیاہ و سفید کی برابری اور قانونی مساوات کا نعرہ بلند کیا جا رھا ھے لیکن قول و فعل میں بھت فرق ھے کیونکہ بشری تاریخ کے تاریک ترین زمانے کی طرح آج بھی انھیں بنیادوں پر مختلف امتیازات موجود ھیں ۔ کیا صرف برابری ، مساوات ، آزادی جیسے الفاظ بشریت کو کوئی پھنچا سکتے ھیں ؟ جبکہ ان لفظوں کے پیچھے تلخ حقائق اور نا گوارحقائق پنھا ھوں ! کیا ان تمام موجودہ امتیازات کے باوجود آج کی متمدن قوموں کو آزادی و حریت کا بنیان گزار کھا جا سکتا ھے ؟

دوسری عالمگیر جنگ کے بعد بشری آزادی و برابری کا منشور ساری دنیا میں مان لیا گیا۔ اسی طرح حقوق بشر کو فرانس کے انقلاب کے بعد درست مانا گیا۔ یہ سب صرف زبانی جمع خرچ ھے ۔کیونکہ جس ملک میں ان کے خصوصی منافع پر چوٹ نہ پڑتی ھو وھاں تو اس پر عمل در آمد ھوتا ھے ورنہ مختلف بھانوں سے اس مسئلے کو گول کر دیا جاتا ھے ۔

بھت سے متمدن ملکوں کے رھنے والوں کے لئے اب تک یہ بات ناقابل فھم ھے کہ رنگ و نسل کا اختلاف سبب فضیلت و برتری نھیں ھوا کرتا ۔ اسلام کی طویل ترین تاریخ میں ”نسلی امتیاز “ کا مسئلہ نھیں اٹھا ۔ آج کی طرح کل بھی تمام کالے لوگ کسی احساس کمتری کے بغیر اسلامی اجتماعات اورمذھبی جگھوں پر جمع ھوا کرتے تھے۔ اور معاشرے کے جملہ حقوق سے بھرہ مند ھوا کرتے تھے ۔ بانی ٴ اسلام نے چودہ سو سال پھلے تاریک دنیا میں عملی طور سے اس نابرابری کا خاتمہ کیا اور اسی مقصد کے خاطر اپنی پھوپھی زاد بھن ”زینب “ کا عقد اپنے غلام ”زید بن حارثہ “ سے کیا ۔

ایک دن رسول خدا نھایت ھی حسرت کے ساتھ ”جوئیبر“ ( یہ ایک سیاہ رنگ کے فقیر تھے مگر بھت پرھیزگار لوگوں میں شمار کئے جاتے تھے) کی طرف دیکہ کر فرمایا! جوئیبر کتنا اچھا ھوتا کہ تم شادی کر لیتے تاکہ شریک زندگی مل جاتی جو دنیا و آخرت میں تمھاری مدد کرتی۔جوئیبر نے عرض کی میرے ماں باپ آپ پر فدا ھوں بھلا کون عورت مجہ سے شادی پر تیار ھو گی ؟ میں نہ حسب رکھتا ھوں نہ نسب ،نہ مال و منال نہ حسن و جمال ۔ پھر کوئی عورت میری بیوی بننا کیونکر گوارہ کرے گی ؟ رسول خدا  نے فرمایا : خدا وند عالم نے زمانۂ جاھلیت کی بے سبب آقائیت کو لغو قرار دے دیا ھے ۔اور جو لوگ اسلام سے پھلے محروم و بے چارہ تھے ان کو آقائیت بخشی ھے ۔ زمانہ جاھلیت میں جو لوگ ذلیل تھے اسلام کی وجہ سے آج صاحب عزت ھیں ۔ اسلام نے زمانھٴ جاھلیت کی خود پسندی ، نسلی و خاندانی تفاخر کے محلوں کو مسمار کر دیا ھے ، آج تمام کالے گورے برابر ھیں ، عرب عجم برابر ھیں سب کے سب آدم (ع)کی اولاد ھیں اور آدم (ع)مٹی سے پیدا کئے گئے تھے ۔ خدا کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب و پیارا شخص وھی ھے جوتقویٰ اور پرھیز گاری میںسب سے بھتر ھو ، اے جوئیبر ! میں کسی کو تم سے برتر نھیں سمجھتا البتہ و ہ شخص جس کا تقویٰ اور اطاعت خدا تم سے زیادہ ھو وہ تو تم سے بھتر ھے ورنہ نھیں ۔ اس کے بعد فرمایا : تم قبیلہ ”بنی بیاضہ “ کے شریف ترین شخص ” زیاد بن لبید “ کے پاس جا کر کھو کہ رسول خدا  نے فرمایا ھے کہ اپنی بیٹی کی شادی میرے ساتھ کر دو جس وقت جوئیبر پھنچے تو زیاداپنے قبیلے والوں کے ساتھ گھر میں بیٹھے ھوئے تھے۔ جوئیبر اجازت حاصل کر کے اندر داخل ھوئے اور سب کو سلام کر کے زیاد کو مخاطب کرتے ھوئے کھا : رسول خدا  نے مجھے آپ کے پاس ایک حاجت لے کر بھیجا ھے آپ کھئے تو سب کے سامنے عرض کردوں ، یا تنھائی میں عرض کروں ؟ زیاد نے کھا تنھائی میں کیوں ؟نھیں نھیں تم سب کے سامنے کھو ! کیونکہ رسول خدا  کا پیغام میرے لئے باعث صد افتخار ھے ۔ جوئیبر نے کھا ! رسول خدا  نے فرمایا ھے آپ اپنی بیٹی کی شادی میرے ساتھ کر دیں۔ زیاد نے کھا : ھم انصار اپنی لڑکیوں کی شادی اپنے سے کم مرتبے والے کے ساتھ نھیں کرتے واپس جاؤ اور رسول خدا  کو میرا عذر بتا دو ۔

جوئیبر وھاں سے روانہ ھوئے کہ رسول خدا  کو جواب بتا دیں ۔ادھر زیاد بھت پشیمان ھوئے اور ایک آدمی کو بھیج کر جوئیبر کو راستے سے واپس بلالیا اور ان کے ساتھ بڑی مھربانی کے ساتھ پیش آئے اور کھا آپ ٹھھرئیے ، میں پیغمبر اسلام  سے بات کر کے آتا ھوں ۔ وھاں پھونچ کر کھنے لگے : میرے ماں باپ آپ پر فدا ھو جائیں جوئیبر آپ کی طرف سے ایک پیغام میرے پاس لائے تھے میں نے چاھا میں خود براہ راست حضور  سے بات کرلوں اور عرض کردوں کہ ھم انصار اپنے سے کمتر والے میں لڑکیوں کی شادی نھیں کیا کرتے۔ رسول اسلام  نے فرمایا ! اے زیاد ،جوئیبر مومن ھے ،مومن کی ھمسر مومنہ ھوتی ھے ۔ مسلمان کی ھمسر مسلمہ ھوتی ھے ، اپنی بیٹی کی شادی اس کے ساتھ کر دو ، اس کو داماد بنانے میں ننگ و عار محسوس نہ کرو۔زیاد وھاں سے گھر واپس آئے ۔بیٹی سے پورا قصہ بیان کیا ۔ لڑکی نے کھا! بابا ،رسول  کے مشورے پر جوئیبر کو اپنا داماد بنا لیجئے۔ زیاد وھاں سے نکل کر باھر آئے ، جوئیبر کا ھاتھ پکڑ کر قبیلے کے افراد کے پاس لائے اور ان کے ساتھ اپنی بیٹی بیاہ دی۔ مھر و جھیز کا انتظام بھی خود ھی کیا ۔اور زیاد کے حکم سے ایک گھر جس میں لوازمات زندگی موجود تھے جوئیبر کے حوالے کر دیا گیا ۔ اور اس طرح ایک عظیم قبیلے کے بزرگ ترین شخص کی بیٹی ایک فقیر سیاہ رنگ کے ساتھ بیاہ دی گئی جس کے پاس ایمان کے سوا کوئی دولت نہ تھی ۔

ایک جگہ تین مختلف قوموں کے آدمی جمع تھے ۔ سلمان فارسی ،صھیب رومی ، بلال حبشی ، اتنے میں وھاں قیس آیا اس نے تینوں کی اھمیت کو دیکھتے ھوئے کھا : اوس و خزرج تو خیر عرب تھے جنھوں نے اپنی خدمات و فدا کاری کے ذریعے رسول خدا  کی مدد کی مگر یہ تین آدمی کھاں سے آٹپکے؟ کس نے ان کو پیغمبر  کی مدد کے لئے بلایا تھا ؟ جب رسول خدا  کو اس کی خبر ھوئی تو بھت ناراض ھوئے لوگوں کو مسجد میں جمع ھونے کا حکم دیا اور ان سے خطاب کرتے ھوئے فرمایا :خدا ایک ھے ،تمھارا باپ ایک ھے ۔ تمھارا دین ایک ھے ، جس عربیت پر تم فخر کر رھے ھو ، نہ وہ تمھاری ماں کی طرف سے آئی ھے اور نہ باپ کی طرف سے عربیت تو صرف تمھاری زبان ھے ۔

مشھور فرانسیسی دانش مند ڈاکٹر گسٹاوے لیبون ( GUSTAVELEBON)لکھتا ھے :مسلمانوں میں مساوات و برابری حد درجہ تھی ،یورپ میں جس مساوات کا ذکر بڑی شدت سے کیا جاتا ھے اور مختلف لوگوں کے زباں زد ھے یہ صرف کتابوںکی حد تک ھے ۔ خارج میں اس کا کوئی اثر نھیں ھے ۔ یہ چیز مسلمانوں میں عملی طور سے موجود تھی اور مشرقی معاشرت کا جزو تھی ، طبقاتی اختلافات جن کی بناء پر یورپ میں انقلاب آیا مسلمانوں میں نھیں ھے پیغمبر اسلام  کی نظر میں ھر مسلمان برابر ھے ۔ دنیائے عرب میں ایک ایسی شخصیت پیدا ھوئی جس نے مختلف اقوام و قبائل کو ایک جھنڈے تلے جمع کردیا ۔ اور ان کو مخصوص قوانین و نظام کی مضبوط زنجیر میں باندہ دیا ۔ کسی بھی مملکت کا رھنے والا مسلمان دوسروں کے لئے اجنبی نھیں ھے ، مثلا ایک چینی مسلمان کا حق اسلامی ملکوں میں اتنا ھی ھے جتنا کسی اسلامی ملک کے رھنے والے کا ھے ۔ اگر چہ خود مسلمان نسل و ملیت کے لحاظ سے اختلاف رکھتے ھیں لیکن مذھبی رشتے کی بنا پر ان کے اندر ایک خاص قسم کا معنوی ربط موجود ھے جس کی بناء پر وہ بھت آسانی سے ایک جھنڈے کے نیچے جمع ھو جاتے ھیں ۔ (۷)

ایم یو لوپلائے (M.U.LEPLAV) لکھتا ھے : کاریگروں اور ستم دیدہ افراد کے اصلاح حال کے سلسلے میں برے نتائج سے یورپ میں انتظامیہ دوچار ھوئی ھے ، اسلامی معاشرے میں اس کا وجود نھیں ھے۔ مسلمانوں کے یھاں بھترین انتظامیہ ھے جس کی بناء پر امیر فقیر کے درمیان صلح و آشتی قائم رھتی ھے ۔ صرف اتنا کھہ دینا کافی ھے جس قوم کے لئے یورپ کا دعویٰ ھے کہ ان کو تعلیم دے کر تربیت دینی چاھئے واقعا ًخود یورپ کو اس سے سبق لینا چاھئے ۔ اسلام میں ممتاز طبقے ، موروثی منصب کا کوئی وجود نھیں ھے۔ اسلام کا سیاسی نظام بھت ھی سادہ ھے اور اس نظام کے تحت جن لوگوں کوادارہ کیا جاتا ھے اس میں شریف ، رذیل ، امیر فقیر سیاہ و سفید سب ھی برابر ھیں ۔( ۸)

Add comment


Security code
Refresh