www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

آزادی ایک ایسا مفھوم ہے جس کی مختلف معاشروں میں الگ الگ تشریحات کی گئي ہیں جو دوسرے سیاسی مفاھیم کی طرح متنازعہ ہیں۔ یھی اختلافات اس بات کا سبب بنے ہیں کہ دنیا بھرمیں فلسفے خصوصا یورپی فلسفے کے ایک بھت بڑے حصے میں آزادی کا مفھوم زیر بحث لایا جاتا ہے۔

 اسلامی انقلاب نے آزادی کا ایک نیامفھوم دنیا والوں خصوصا یورپ والوں کے سامنے پیش کیا لیکن یورپ کا علمی غرور اور اجارہ داری اس خطے میں لبرل ازم کی جانب سے پیش کردہ آزادی کے مفھوم سے مختلف مفھوم قبول کئے جانے کے سدراہ ھوئي۔
ایران کا اسلامی انقلاب اپنی فکری اور فلسفی بنیادوں کے پیش نظر ایک ایسا جامع مقصد رکھتا ہے جس میں آزادی بھی شامل ہے۔ یہ مقصد ایک نئے اسلامی تمدن کے احیا کا باعث بن سکتا ہے۔ جس میں صرف مادی مفادات ھی نہ پائے جاتے ہیں بلکہ اس میں مادی اور معنوی دونوں طرح کی سعادت کا سامان موجود ہے۔ اس تمدن میں کسی فرد یا خاص ملک کے مفادات ملحوظ نھیں ہیں بلکہ تمام لوگوں اور سارے ممالک کے مفادات کا خیال رکھا گیا ہے ۔ اس تمدن میں صرف دنیوی سعادت ھی مدنظر نھیں ہے بلکہ دنیوی اور اخروی دونوں سعادتوں کو پیش نظر رکھا گيا ہے۔ یہ تمدن یورپ کے تمدن اور تشخص کے مقابلے میں ہیں کہ جو انسان اور معاشرے کے بارے میں اپنے مادی تصور کی وجہ سے خاص افراد اور گروہ کے مفادات کو مدنظر رکھتا ہے اور ھمیشہ دنیا کے دوسرے ممالک کو دھمکیاں دینے اور قتل عام کے ذریعے اپنے مفادات اور تسلط کا راستہ ھموار کرتا ہے۔
دنیا کی ادبیات میں آزادی کے مفھوم اور مقام کی اھمیت کے پیش نظر اسلامی جمھوریہ ایران میں Humanities اور فلسفی ابحاث میں صاحب الرائے افراد اس موضوع کو سنجیدگی کے ساتھ زیر بحث لاتے ہیں۔ اسی سلسلےمیں اسلامی ایرانی ترقی کے نمونے کے سنٹر کے زیر اھتمام رھبر انقلاب اسلامی کی موجودگی میں آزادی سمیت مختلف موضوعات کے سلسلےمیں اسٹریٹیجک اجلاس اور سیمینار منعقد ھوئے ہیں۔ ان میں سے چوتھے سیمینار آزادی سے متعلق مختلف موضوعات سے مختص تھا۔ اس سیمینار میں تقریبا ایک سو پچاس دانشمندوں ، یونیورسٹی اور حوزہ علمیہ کے اساتذہ ، محققین اور مصنفین نے شرکت کی۔
رھبر انقلاب اسلامی نے اس سیمینار میں اسلامی جمھوریہ ایران میں آزادی کے مختلف پھلوؤں کی شناخت اور وضاحت سے متعلق موجود خامیوں کی جانب اشارہ کرتے ھوئے فرمایا " یورپ میں حالیہ چند صدیوں کے دوران آزادی کا موضوع دوسرے موضوعات کی نسبت زیادہ توجہ کا مرکز رھا ہے جس کی وجہ مجموعی طور پر وہ حوادث اور واقعات ہیں جو یورپ میں ایک طرح کے فکری طوفان پر منتج ھوئے ہیں"
رھبر انقلاب اسلامی نے نشاۃ ثانیہ ، صنعتی انقلاب ، انقلاب فرانس اور روس کے انقلاب کو یورپ میں آزادی کے سلسلے میں وسیع فکری تحریک کا سبب قرار دیا۔ رھبر انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا ہے کہ یورپ کے برخلاف آئينی تحریک سے پھلے تک آزادی کے سلسلے میں ھمارے یھاں کوئي ایسا موقع نھیں آیا تھا کہ جو فکری تحریک کا سرچشمہ بن سکتا۔ اور یہ موقع بھی روشن خیال افراد کی جانب سے یورپی افکار کی تقلید اور پیروی جیسے اھم نقص کے باعث آزادی کے سلسلے میں کسی خاص نتیجے کا سبب نہ بن سکا۔
یورپ میں آزادی کاشمار ان مفاھیم میں ھوتا ہے جس کے بارے میں یورپی دانشمندوں نے اٹھارویں ، انیسویں اور بیسویں صدی میں وسیع پیمانے پر اپنے افکار و نظریات بیان کئے۔ اور انھی افکار و نظریات کی بناء پر یورپ میں سماجی انقلابات کا راستہ ھموار ھوا۔ ایسے انقلاب جن کاسرچشمہ فرانس کا انقلاب تھا۔ یورپ کے سیاسی نظام کی بنیاد بھی یھی نظریات تھے اور انسانی حقوق کا منشور بھی انھی یورپی نظریات کی روشنی میں تحریر کیا گیا۔ بھت جلد آزادی سے متعلق یورپی نظریات ایشیائی ، افریقی اور لاطینی امریکہ کے ممالک میں روشن خیال دانشمندوں کے لۓ ایک نمونے میں تبدیل ھوگۓ اور وہ بھی یورپ میں آزادی سے متعلق بیان شدہ نظریات کو اپنانے لگے۔ انھوں نے آزادی کے بارے میں اپنے ممالک میں جو کچھ پیش کیا وہ بے راہ روی اور اخلاقی اقدار کی پامالی سے عبارت تھا۔
یورپ میں جس آزادی کو پیش کیاگيا ہے اس کی بنیاد ھیومن ازم ہے۔ یہ وھی آزادی ہے جس نے یورپی معاشرے کو اخلاقی اقدار کی پستی کی جانب دھکیل دیا ہے۔
رھبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں آزادی کے سلسلےمیں ایک اھم نکتہ جس پر زیادہ تاکید فرمائي وہ انقلاب فرانس پر نشاۃ ثانیہ کے دانشمندوں کے اثرات اور آزادی کے مفھوم پر انقلاب فرانس کے اثرات کے بارے میں ہے۔ رھبر انقلاب اسلامی نے اس سلسلے میں فرمایا ہے:
" انقلاب فرانس میں ممکن ہے کہ چار روشن خیال ایک جیسی باتیں کرتے ھوں لیکن عملی طور پر جو چیز زیر بحث نہ آتی تھی وہ عقل اور عقلیت پسندی کا موضوع تھا۔ وھاں صرف آزادی کا مسئلہ تھا۔ کئي صدیوں سے مسلط منہ زور اور مسلط حکومت سے آزادی۔ بوربن خاندان کی حکومت سے آزادی کہ جو لوگوں روزمرہ امور پر مسلط ھوچکا تھا۔ صرف دربار کی ھی حکومت نھیں تھی بلکہ فرانس کا ھر امیر ایک بادشاہ تھا"
رھبر انقلاب اسلامی کا خیال ہے کہ " انقلاب فرانس ایک اعتبار سے ایک ناکام انقلاب تھا۔ انقلاب کے زیادہ سے زیادہ گیارہ یا بارہ برسوں کے بعد نپولین کی طاقتور بادشاھت قائم ھوگئي یعنی ایک مطلق العنان بادشاھت۔ اور جس طرح نپولین نے اپنی بادشاھت قائم کی اس طرح تو انقلاب کے دوران مارے جانے والے لوئی شانزدھم سے پھلے والے بادشاھوں نے بھی بادشاھت نھیں کی تھی۔
رھبر انقلاب اسلامی نے فرمایا ہے کہ آزادی سے متعلق ابحاث پر چند عوامل کے اثرات زیادہ تھے۔ جن میں اولین نشاۃ ثانیہ کا عامل ہے۔ کلیسا نے یورپ میں جو استبداد قائم کر رکھا تھا وہ دین اور کلیسا مخالف تحریک کا باعث بن گيا۔ دو صدیوں کے دوران اس سلسلے میں فرانس ، جرمنی ، برطانیہ اور بعض دوسرے یورپی ممالک کے مختلف دانشمندوں نے سیکڑوں کتابیں تحریر کر ڈالیں۔ جس کی وجہ سے آزادی کو کلیسا کی مخالفت کے مترادف سمجھا جانے لگا۔
آزادی کا یھی مفھوم دوسرے ممالک سے یورپ جانے والے دانشمندوں نے اپنے اپنے ممالک میں منتقل کیا۔ انھوں نے اپنے اپنے ممالک میں آزادی کے معنی دین و مذھب کی مخالفت کے بتائے۔ رھبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اسلامی دنیا میں موجود دین مخالف ان روشن خیالوں پر تنقید کرتے ھوئے فرمایا ہےکہ " نشاۃ ثانیہ میں جو موقف اختیار کیا گيا وہ دین مخالف اور کلیسا مخالف تھا۔ اس لۓ اس کی بنیاد ھیومن ازم پر رکھی گئي۔ اور اس کے بعد یورپ میں تمام اقدامات کی بنیاد ھیومن ازم کو قرار دیا گيا اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ "
رھبر انقلاب اسلامی کا نظریہ ہے کہ آزادی کے سلسلے میں دین مخالف یہ تاثر ایران جیسے ملک میں حقیقت کاروپ نھیں دھار سکتا ہے ۔ بجا طور پر یہ کھا جا سکتا ہےکہ یورپی حکومتیں خود بھی ایران اور دوسرے اسلامی ممالک میں آزادی کے اسی مفھوم کی ترویج کرتی رھی ہیں اور اب بھی کر رھی ہیں۔ اکثر افراد جو آزادی کودین کی مخالفت کے مترادف قرار دیتے ہیں وہ یورپی تھذیب و تمدن سے مرعوب ہیں اور بھت سے مواقع پر وہ اپنے ھی ممالک کے خلاف اغیارکے پٹھوؤں کا کام انجام دے رھے ہیں۔
حضرت آیت اللہ العظمی سید علیہ خامنہ ای نے اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر آزادی کے مفھوم کی تشریح کۓ جانے کی ضرورت کی تاکیدکرتے ھوئے فرمایا ہے:
" ھم اسلام کا موقف سمجھنا چاھتے ہیں۔ اگر ھم اسلام کو نظر انداز کر کے افکار حاصل کرنا چاھیں تو ھم انھی مسائل میں گھر جائیں گے جن کا یورپی مفکرین فلسفے ، ادبیات ، اور آرٹ جیسے مختلف میدانوں میں شکار ہیں۔ ھم تو اسلام کی تعلیمات سے آگاہ ھونا چاھتے ہیں۔ "
رھبر انقلاب اسلامی نے آزادی سے متعلق اسلام کے مجموعی موقف کے سلسلے میں فرمایا ہے:
"اسلام میں انسان کی آزادی کا سرچشمہ توحید ہے۔ توحید صرف خدا تعالی پر ایمان کا نام نھیں ہے بلکہ توحید خدا تعالی پر ایمان ، طاغوت کے انکار ، خدا کی عبادت اور غیر خدا کی عبادت نہ کرنے سے عبارت ہے۔ "
حقیقت یہ ہے کہ آزادی کے بارے میں اسلامی تعلیمات خدا تعالی کی عبادت اور اخلاقی اقدار کے تحفظ اور احترام کی صورت میں جلوہ گر ھوتی ہیں۔
رھبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آخر میں اقتصاد ، سیاست اور اخلاق کے میدانوں کے آزادی کی وضاحت کرتے ھوئے فرمایا:
" یورپ میں ان تین میدانوں میں آزادی بھت ھی برے اور تلخ اور بعض مقامات پر بھت ھی نفرت انگيز واقعات کی صورت میں سامنے آئي ہے۔ "
رھبر انقلاب اسلامی کے نزدیک آزادی کے اس غلط مفھوم کا نتیجہ امتیازی سلوک ، منہ زوری ، جنگ پسندی نیز انسانی حقوق اور جمھوریت جیسے پسندیدہ امور کے سلسلے میں دھرے معیار سے کام لۓ جانے کی صورت میں برآمد ھوا ہے۔ رھبر انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ھوئے فرمایا کہ ان تمام افسوسناک واقعات کے باوجود آزادی کے مفھوم کی تحقیق کے مقصد سے یورپی مفکرین کے افکار کی طرف رجوع کرنا مفید ہے کیونکہ وہ عرصہ دراز سے آزادی کے بارے میں اپنے نظریات پیش کر رھے ہیں" رھبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آخر میں اس نکتے کی بھی یاددھانی کرائي ہے کہ "یورپی مفکرین کے افکار کی جانب رجوع کرنےکی اصلی شرط تقلید سے اجتناب ہے کیونکہ تقلید آزادی سے تضاد رکھتی ہے۔"
 

Add comment


Security code
Refresh