www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

 

س۶۷۰۔ میں جس جگہ ملازمت کرتا ھوں وہ قریبی شھر سے شرعی مسافت سے کم فاصلہ پر واقع ھے اور چونکہ دونوں جگہ میرا وطن نھیں ھے

لھذا میں اپنی ملازمت کی جگہ دس روز ٹھھرنے کا قصد کرتا ھوں تاکہ پوری نماز پڑھ  سکوں اور روزہ رکہ سکوں اور جب میں اپنے کام کی جگہ دس روز قیام کرنے کا قصد کرتا ھوں تو دس روزیا اس کے بعد قریبی شھر میں جانے کا قصد نھیں کرتا پس درج ذیل حالات میں شرعی حکم کیا ھے؟

۱۔ جب میں اچانک کسی کام سے دس دن کامل ھونے سے پھلے ھی اس شھر کو جاوٴں اور تقریباً دو گھنٹے وھاں ٹھھرنے کے بعد کام کی جگہ واپس آجاوٴں۔

۲۔ جب میں دس روز کامل ھونے کے بعد اس شھر کے معین محلہ میں جاوٴں اور یہ فاصلہ شرعی مسافت سے زیادہ نہ ھو اور ایک رات وھاں قیام کرکے اپنی ملازمت کی جگہ واپس آجاوٴں۔

۳۔ جب میں دس روز قیام کے بعد اس شھر کے کسی معین محلہ کے قصد سے نکلوں لیکن وھاں پھنچنے کے بعد میرا  ارادہ بدل جائے اور میں شھر کے اس محلہ میں جانے کی نیت کرلوں جو میری قیام گاہ سے شرعی مسافت سے زیاد ہ دور ھے؟

ج۔ ۲۔۱قیام گاہ پر پوری نما زپڑھ  لینے کے بعد خواہ ایک چار رکعتی نماز ھی پڑھی ھو شرعی مسافت سے کم فاصلہ تک جانے میں کوئی حرج نھیں ھے خواہ سفر گھنٹہ دو گھنٹے کا ھو اور ایک دن میں ھو یا کئی دنوں میں اور اس سے کوئی فرق نھیں پڑتا کہ اپنی قیام گاہ سے دس دن کامل ھونے کے بعد نکلے یا دس دن کامل ھونے سے قبل بلکہ نئے سفر سے پھلے تک پوری نماز پڑھے گا اور روزہ رکھے گا۔

۳۔ جب نیت بدلنے کی جگہ سے شرعی مسافت تک کے سفر کا قصد کرے اور پھر اس مسافت کو طے کرکے اپنی قیام گاہ تک لوٹ آئے تو اس سے سابقہ قیام کا حکم ختم ھوجائے گا اور قیام گاہ پر لوٹنے کے بعد از سر نو دن کے قیام کی نیت کرنا ضروری ھے۔

س۶۷۱۔ مسافر اپنے وطن سے نکلنے کے بعد اگر اس راستے سے گزرے جھاں سے اس کے اصلی وطن کی آواز اذان سنائی دیتی ھے یا اس کے وطن کے گھروں کی دیوارےں دکھائی پڑتی ھیں توکیا اس سے قطع مسافت پر کوئی اثر پڑتا ھے؟

ج۔ اگر اپنے وطن سے نہ گزرے تو اس سے قطع مسافت پر کوئی اثر نھیں پڑتا اور نہ اس سے سفر کا سلسلہ منقطع ھوتا ھے لیکن جب تک اس جگہ ھے اس وقت تک اس پر سفر کا حکم جاری نھیں ھوگا۔

س۶۷۲۔ جھاں میں ملازم ھوں اور آج کل سکونت پذیر ھوں وہ میرا اصل وطن نھیں ھے اور اس جگہ کے اوپر میرے اصلی وطن کے درمیان شرعی مسافت سے زیادہ فاصلہ ھے۔ ملازمت کی جگہ کو میں نے اپنا اصلی وطن نھیں بنایا ھے۔ اور یہ ممکن ھے کہ وھاں میں چند سال رھوں بعض اوقات وھاں سے دفتری امور کے لئے مھینے بھر میں ایک دو دن کے سفر پر بھی جاتا ھوں پس جب میں اس شھر سے نکل کر جس میں ، میں سکونت پذیر ھوں حد شرعی سے زیادہ دور جاوٴں اور پھر وھیں لوٹ آوٴں تو کیا مجہ پر واجب ھے کہ دس دن کے قیام کی پھر سے نیت کروں یا اس کی ضرورت نھیں ھے؟

اور اگر دس دن کے قیام کی نیت واجب ھے تو شھر کے اطراف میں کتنی مسافت تک میں جاسکتا ھوں؟

ج۔ آپ جس شھر میں سکونت پذیر ھیں اگر وھاں سے شرعی مسافت تک جاتے ھیں تو سفر سے لوٹ کر اس شھر میں آنے پر از سر نو دس دن کے قیام کی نیت ضروری ھے اور جب صحیح طریقہ سے آپ کا دس دن کے قیام کا قصد متحقق ھوجائے اور پوری نماز پڑھنے کا حکم آپ کا فریضہ بن جائے، اور چاھے ایک ھی چار رکعتی نما زپڑھی ھو ، تو ا سکے بعد محل سکونت سے نکل کر شرعی مسافت سے کم فاصلہ تک سفر کرنے سے دس دن کے قیام کی نیت پر کوئی اثر نھیں پڑے گا جیسا کہ دس دن کے دوران شھر کے باغوں اور کھیتوں پر جانے سے اقامت پر کوئی اثر نھیں پڑتا۔

س۶۷۳۔ اگر ایک شخص ، چند سال سے، اپنے وطن سے چار کلومیٹر دور رھتا ھے اور ھفتہ میں ایک مرتبہ گھر جاتا ھے پس اگر یہ شخص سفر کرے اور اس کے اور وطن کے درمیان ۲۵کلومیٹر کا فاصلہ طے ھوجائے لیکن جس جگہ وہ تعلیم حاصل کرتا ھے وھاں سے یہ فاصلہ ۲۲کلومیٹر ھو تو اس کی نما زکا کیا حکم ھے؟

ج۔ جب وہ تعلیم و تحقیق کے مرکز سے کسی دوسری جگہ کا قصد کرے جس کا فاصلہ شرعی مسافت سے کم ھو تو اس پر سفر کا حکم جاری نھیں ھوگا لیکن اگر وطن سے اس مقصد کا ارادہ کرے تو اس پر سفر کا حکم مرتب ھوگا۔

س۶۷۴۔ ایک مسافر نے تین فرسخ تک جانے کا قصد کیا لیکن ابتداء ھی سے اس کا ارادہ تھا کہ وہ ایک کام کی انجام دھی کے لئے ایک فرعی راستہ سے ایک فرسخ تک جائے گا پھر اصلی راستہ پر آجائے گا اور اپنے سفر کو جاری رکھے گا تو اس سفر میں اس کے روزہ و نماز کا کیا حکم ھے؟

ج۔اس پر مسافر کا حکم جاری نھیںھوگا اورمسافت کوپورا کرنے کے لئے راستہ سے ھٹنا اور دوبارہ اس پر لوٹ آنا کافی نھیں ھے۔

س۶۷۵۔ امام خمینی  ۺکے (اس) فتوے کے پیش نظر کہ جب آٹھفرسخ کا سفر ھو تو روزہ رکھنا جائز نھیں اور نماز قصر ھے پس اگر جانے کا راستہ چار فرسخ سے کم ھو لیکن واپسی پر سواری نہ ملنے پر یا راستے کی مشکلات کے پیش نظر اس شخص پر لازم ھو کہ ایسا راستہ اختیار کرے جو چہ فرسخ سے زیادہ ھے۔ اس صورت میں نماز روزہ کا کیا حکم ھے؟

ج۔ جب جانا چار فرسخ سے کم ھو اور واپسی کا راستہ بھی شرعی مسافت کے برابر نہ ھو تو نماز پوری پڑے گا اور روزہ رکھے گا۔

س۶۷۶۔ جو شخص اپنے محل سکونت سے ایسی جگہ جائے جس کا فاصلہ شرعی مسافت سے کم ھو، ھفتہ بھر میں اس جگہ سے متعدد بار دوسری جگھوں کا سفر کرے اس طرح کہ کل مسافت آٹھفرسخ سے زیادہ ھوجائے تو اس کا کیا فریضہ ھے؟

ج۔ اگر وہ گھر سے نکلتے وقت مسافت کا قصد نھیں رکھتا تھا اور نہ اس کی پھلی منزل اور ان جگھوں کے درمیان کا فاصلہ شرعی مسافت کے برابر تھا تو اس پر سفرکا حکم جاری نھیں ھوگا۔

س۶۷۷۔ اگر ایک شخص اپنے شھر سے کسی خاص جگہ کے قصد سے نکلے اور پھر اس جگہ سے ادھر ادھر جائے تو کیا اس کا یہ ادھر ادھر جانا مسافت میں شمار ھوگا جو اس نے اپنے گھر سے طے کی ھے؟

ج۔ اس جگہ سے ادھر ادھر جانا مسافت میں شمار نھیں ھوگا۔

س۶۷۸۔ کیا دس دن قیام کی نیت کے وقت یہ نیت رکھنا جائز ھے کہ روزانہ محل اقامت سے محل شغل تک جاتا رھوں گا جبکہ ان دو جگھوں کا فاصلہ چار فرسخ سے کم ھو ؟

ج۔ دس دن قیام کی نیت کے ساتھ شرعی مسافت سے کم فاصلہ تک جانے کی نیت رکھنا قصد اقامت کے لئے اسی وقت نقصان دہ ھے جب عرفاً کھا جائے کہ یہ شخص محل اقامت میں ” دس دن نھیں ٹھھرا ھے “ جیسے کوئی شخص پورا دن باھر رھے۔ لیکن اگر وہ شخص دن رات میں چند گھنٹہ کے لئے باھر جائے اور دن یا رات کے ایک تھائی حصہ تک باھر رھے یا دن یا رات میں ایک دفعہ باھر جائے یا چند بارباھر جائے لیکن مجموعی طور پر دن یا رات کے ایک تھائی حصہ سے زیادہ نہ ھو تو ایسی نیت قصد امامت کی صحت کے لئے مضر نھیںھے۔

س۶۷۹۔ اس بات کے پیش نظر کہ ایک شخص اپنے محل سکونت سے اپنی جائے ملازمت تک جاتا ھے اور دونوں ( محل سکونت و محل ملازمت) کے درمیان ۲۴کلومیٹر سے زیادہ فاصلہ ھے جو پوری نما زپڑھنے کا موجب ھے ، پس اگرمیں ان شھروں کے حدود سے باھر نکلوں جھاں ملازمت کرتا ھوں یا کسی دوسرے شھر کی طرف جاوٴں جس کا فاصلہ میرے کام کرنے کی جگہ سے شرعی مسافت سے کم ھے اور ظھر سے قبل یا بعد واپس ھوجاوٴں تو کیا میری نماز پھر بھی پوری ھے؟

ج۔ صرف محل ملازمت سے شرعی مسافت سے کم نکلنے پر آپ کے روزہ نماز کا حکم نھیں بدلے گا چاھے روزانہ کے عمل سے اس کا کوئی واسطہ نہ ھو اوراس میں کوئی فرق نھیں ھے کہ آپ وھاں ظھر سے قبل واپس آئیں یا بعد میں۔

س۶۸۰۔ میں اطراف اصفھان کا رھنے والا ھوں اور ایک عرصہ سے شاھین شھر کی یونیورسٹی میں ملازمت کرتا ھوں جو اصفھان کے تابع ھے اور اصفھان کے حد ترخص سے شاھین شھر تک تقریباً بیس کلومیٹر کا فاصلہ ھے ۔ لیکن یونیورسٹی تک، جو اطراف شھر میں واقع ھے، تقریباً ۲۵کلومیٹر سے زیادہ مسافت ھے جبکہ یونیورسٹی شاھین شھر میں واقع ھے اور میرا راستہ شھر کے درمیان سے گزرتا ھے مگر میرا اصلی مقصد یونیورسٹی ھے پس مجھے مسافر شمار کیا جائے گا یا نھیں؟

ج۔ اگر دونوں شھروں کے درمیان چار شرعی فرسخ سے کم فاصلہ ھے تو اس پر سفر کا حکم مرتب نھیں ھوگا۔

س۶۸۱۔ میں ھر ھفتہ سیدہ معصومہ ” علیھا السلام “ کے مرقد کی زیارت اور مسجد جمکران کے اعمال بجالانے کی غرض سے قم جاتا ھوں۔اس سفر میں ، مجھے پوری نماز پڑھنا چاھئیے یا قصر؟

ج۔ اس سفر میں  وجوب قصر کے سلسلہ میں آپ کا حکم وھی ھے جو تمام مسافروں کا ھے۔

س۶۸۲۔ شھر کا ثمر میری جائے ولادت ھے اور ۱۳۴۵ہ ۔ش۔ سے ۱۳۶۹ھ،ش تک میں تھران میں مقیم رھا اب تین سال سے اپنے خاندان کے ساتھ ادارہ کی طرف سے بندر عباس میں تعینات ھوں اور ایک سال کے اندر پھر تھران لوٹ آوٴں گا، اس کے پیش نظر کہ جب میں بندر عباس میں مقیم تھا وھاں سے میں کسی بھی وقت ادارہ کے ضروری کام کہ جو کام میرے ذمہ ھوتے تھے ۔ اس سے وقت کا اندازہ نھیں لگا سکتا تھا۔

برائے مھربانی پھلے میرے روزہ نماز کا حکم بیان فرمائیں گے؟

دوسرے : اس بات کو مد نظر رکھتے ھوئے کہ میں اکثر اوقات یا سال کے چند مھینوں میں کام کے سلسلے میں سفر میں رھتا ھوں ، میرے اوپر کثیر السفر کا عنوان صادق آتا ھے یا نھیں؟

اور تیسرے : میری زوجہ کی نماز و روزہ کاکےا حکم ھے وہ میری شریک حیات ھے، اس کی جائے پیدائش تھران ھے اور میری وجہ سے بندرعباس میں رھتی ھے؟

ج۔ اس وقت جھاں آپ ڈیوٹی پر ھیں اور جو آپ کا وطن نھیں ھے ، وھاں آپ کے روزہ اور نماز کا وھی حکم ھے جو مسافر کے روزہ و نماز کا حکم ھے، یعنی نماز قصر ھے اور روزہ صحیح نھیں ھے۔مگر یہ کہ آپ وھاں دس دن قیام کرنے کی نیت کرلیں یا دس دن میں کم ازکم ایک مرتبہ مربوط ذمہ داری کی انجام دھی کے لئے شرعی مسافت تک جائیں لیکن آپ کی زوجہ جو آپ کے ساتھ ھے اگر وھاں دس روز ٹھھرنے کی نیت کرلیتی ھے تو ا سکی نماز تمام اور روزہ صحیح ھے ورنہ نما زقصر اور روزہ رکھنا صحیح نھیں ھے۔

س۶۸۳۔ ایک شخص نے ایک جگہ دس دن ٹھھرنے کا قصد کیا، اس طرح کہ وہ جانتا تھا کہ وھاں دس روز تک ٹھھرے گا یا اس نے اس امر کا ارادہ کرلیا پھر اس نے ایک چار رکعتی نماز پوری پڑھ  لی جس سے اس کا قیام متحقق ھوگیا۔اب اسے ایک غیر ضروری سفر در پیش ھوگیا، کیا اس کے لئے یہ سفر جائز ھے؟

ج۔ اس کے سفر میں کوئی مانع نھیں ھے خواہ سفر غیر ضروری ھو۔

س۶۸۴۔ اگر کوئی شخص امام رضا علیہ السلام کی زیارت کے لئے سفر کرے اور یہ جانتاھو کہ وھاں دس روز سے کم قیام رھے گا لیکن نماز پوری پڑھنے کی غرض سے دس روز ٹھھرنے کی نیت کرلے تو اس کا کیا حکم ھے؟

ج۔ اگر وہ جانتا ھو کہ وھاں دس روز قیام نھیں کرے گا تو اس کا اقامت عشرہ کی نیت کرنا بے معنی ھے اور اسکی اس نیت کا کوئی اثر نھیں ھے اور وہ وھاں قصر نماز پڑھے گا۔

س۶۸۵۔ شھرسے باھر کے ملازمت پیشہ لوگ جو اس شھر میںدس روز قیام نھیں کرتے اور ان کا سفر بھی شرعی مسافت سے کم ھوتا ھے تو نماز کے سلسلہ میں ان کا کیا حکم ھے قصر پڑھیں یا پوری؟

ج۔ جب وطن اور محل ملازمت کے درمیان یا آمد رفت دونوں ملاکر شرعی مسافت کے برابر فاصلہ نہ ھو، تو ان پر مسافر کے احکام جاری نھیں ھوں گے اور جس شخص کے وطن اور جائے ملازمت کے درمیان شرعی مسافت کے برابر فاصلہ ھو اور دس روز کے اندر وہ کم ازکم ایک مرتبہ دونوں کے درمیان سفر کرے اس پر پوری نماز پڑھنا واجب ھے ورنہ دس دن کے قیام کے بعد سفر اول میں اس کا وھی حکم ھے جو تمام مسافروں کا ھے۔

س۶۸۶۔ اگر کوئی شخص کسی جگہ سفر کرے اور اسے یہ معلوم نہ ھو کہ وھاں کتنے دن قیام کرنا ھے، دس روز یا اس سے کم تو اسے کس طرح نماز پڑھنی چاھئیے؟

ج۔ قصر نماز پڑھے گا۔

س۶۸۷۔ جو شخص دومقامات پر تبلیغ کرتا ھے اور اس علاقہ میں دس روز قیام کا قصد رکھتا ھے اس کے روزہ نماز کا کیا حکم ھے؟

ج۔ اگر عرف عام میں یہ دو علاقے ھیں تو مذکورہ صورت میں وہ نہ دونوں میں قصد اقامت کرسکتا ۔ اور نہ ایک مقام پر جبکہ دوسرے مقام تک جانے کا قصد بھی رکھتا ھو۔

Add comment


Security code
Refresh