www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

 

اجتھاد کی تعریف

آج کل اجتھاد و تقلید کا مسئلہ موضوع سخن بنا ھوا ھے ۔ آج بھت سے افراد یہ پوچھتے نظر آتے ھیں یا اپنے ذھن میں سوچتے ھیں کہ اسلام میں اجتھاد کی کیا حیثیت ھے ؟ اسلام میں اس کا ماخذ کیا ھے ؟تقلید کیوں کی جائے ؟

 اجتھاد کے شرائط کیا ھیں ؟ مجتھد کی ذمہ داریاں کیا ھیں ؟ مقلد کے فرائض کیا ھیں ؟ وغیرہ وغیرہ۔

اجمالی طور پر ، اجتھاد کا مطلب ”دینی مسائل میں مھارت حاصل کرنا اور صاحب نظر ھونا ھے “ لیکن شیعوں کے نقطہ ٴ نظر سے دینی مسائل میں صاحب رائے ھونے کی دو صورتیں ھیں : جائز اور ناجائز ، اسی طرح تقلید کی بھی دو قسمیں ھیں جائز و ناجائز ۔

ناجائز اجتھاد

شیعی نظرنقطہ ٴ نظر سے ناجائز اجتھاد کا مطلب ” قانون سازی ھے یعنی مجتھد اپنی فکر اور اپنی رائے کی بنیاد پر کوئی ایسا قانون وضع کرے جو قرآن و سنت میں موجود نہ ھو ۔ اسے اصطلاح میں ” اجتھاد بالرائے “ کھتے ھیں ۔شیعی نقطہ ٴ نظر سے اس قسم کا اجتھاد منع ھے لیکن اھل سنت اسے جائز سمجھتے ھیں ۔ اھل سنت جب قانون سازی کے مصادر اور شرعی دلیلوں کو بیان کرتے ھیں تو کھتے ھیں :” کتاب ، سنت ، اجتھاد “۔اور اجتھادسے مراد اجتھادبالرائی لیتے ھیںجسے وہ قرآن و سنت کی صف میں شمار کرتے ھیں ۔

اس اختلاف نظر کا سبب اھل سنت کا یہ نظریہ ھے کہ : کتاب و سنت کے ذریعہ وضع ھونے والے قوانین محدود ھیں ،جبکہ واقعات و حادثات لامحدود ھیں لھذا کتاب و سنت کے علاوہ ایک اور مصدر ضروری ھے جس کے سھارے الٰھی قوانین بنائے جا سکیں اور یہ مصدر وھی ھے جسے ھم ” اجتھاد بالرائے “ کے نام سے یاد کرتے ھیں ۔ انھوںنے اس سلسلہ میں رسول اکرم  سے کچھ حدیثیں بھی نقل کی ھیں ۔ من جملہ یہ کہ رسول خدا  جس وقت معاذ بن جبل کو یمن بھیج رھے تھے، ان سے دریافت فرمایا کہ تم وھاں کیسے فیصلے کرو گے ؟ معاذ نے کھا کتاب خدا کے مطابق۔ حضرت  نے فرمایا : اگر کتاب خدا میں تمھیں اس کا حکم نہ مل سکا ؟ معاذ نے عرض کیا : رسول خدا  کی سنت سے استفادہ کروں گا ۔ حضرت نے فرمایا : اور اگر رسول خدا کی سنت میں بھی نہ ملا تو کیا کرو گے؟ معاذ نے کھا : اجتھاد بالرائے “ یعنی اپنی فکر، اپنی رائے ، اپنے ذوق اور اپنے سلیقہ سے کام لوں گا۔ کچھ دیگر حدیثیں بھی اس سلسلہ میں ان لوگوں نے نقل کی ھیں ۔

” اجتھاد بالرائے “ کیا ھے اور کس طرح انجام پانا چاھئے اس سلسلہ میں اھل سنت کے یھاں خاصا اختلاف ھے ۔ شافعی کی مشھور و معروف کتاب ” الرسالہ “ جو علم اصول فقہ میں لکھی گئی پھلی کتاب ھے ، میں ایک باب ، باب اجتھاد کے نام سے بھی ھے۔ شافعی کو اس کتاب میں اس بات پر اصرار ھے کہ احادیث میں ”اجتھاد “ کا جو لفظ استعمال ھوا ھے اس سے صرف ’ ’قیاس “ مراد ھے ۔ قیاس کا مطلب اجمالی طور پریہ ھے کہ مشابہ مورد پیش نظر رکھتے ھوئے اپنے سامنے در پیش قضیہ میں ان ھی مشابہ موارد کے مطابق حکم کریں ۔

لیکن بعض دوسرے سنّی فقھاء نے اجتھاد بالرائے کو قیاس میں منحصر نھیں جانا ھے ، بلکہ استحسان کو بھی معتبر مانا ھے ۔ استحسان کا مطلب یہ ھے کہ مشابہ موارد کو مد نظر رکھے بغیر مستقل طور پر جائز ہ لیں اور جو چیز حق و انصاف سے زیادہ قریب ھو نیز ھمارا ذوق و عقل اسے پسند کرے اسی کے مطابق حکم صادر کریں ۔ اسی طرح ”استصلاح “ بھی ھے ۔ یعنی ایک مصلحت کو دوسری مصلحت پر مقدم رکھنا ۔ایسے ھی ” تاوّل “ بھی ھے یعنی اگر چہ کسی دینی نص ، کسی آیت یا رسول خدا کی کسی معتبر حدیث میں ایک حکم موجود ھے لیکن بعض وجوھات کے پیش نظر ھمیں نص کے مفھوم و مدلول کو نظر انداز کر کے اپنی ” اجتھادی رائے “ مقدم کرنے کا حق ھے ۔ اس سلسلہ میں یعنی نص کے مقابلہ میں اجتھاد کے متعلق متعدد کتابیں لکھی گئی ھیں اور شاید سب سے اچھی کتاب ” النص و الاجتھاد “ ھے جسے علامہ جلیل سید شرف الدین رحمة اللہ علیہ نے تحریر فرمایا ھے ۔

شیعہ نقطہ ٴ نظر سے اس طرح کا اجتھاد ناجائز ھے ، شیعوں اور ان کے ائمہ کی نظر میں اس کی ابتدائی بنیادھی ، یعنی یہ کہ کتاب و سنت کافی نھیں ھیں لھذا ھمیں اپنی فکر و رائے سے اجتھاد کرنے کی ضرورت ھے ،درست نھیں ھے ۔ ایسی بے شمار حدیثیں پائی جاتی ھیں کہ ھر چیز کا کلی حکم قرآن و سنت میں موجود ھے کتاب ” وافی “ میں باب البدع و المقائیس “ کے بعد ایک باب ھے جس کا عنوان یہ ھے :” بالرد الی الکتاب و السنة و انہ لیس شئی من الحلال و الحرام و جمیع ما یحتاج الیہ الناس الا و قد جاء فیہ کتاب او سنّة “ ( ۱ )

قیاس و اجتھاد کو قبول یا اسے رد کرنے سے متعلق دو جھتوں سے بحث و گفتگو کی جا سکتی ھے ۔ ایک یھی جھت جسے بیان کیاگیاھے کہ قیاس و اجتھاد بالرائے کو اسلامی قانون سازی کا ایک سر چشمہ و مصدر تسلیم کر لیا جائے اور اسے کتاب و سنت کی صف میں ایک مستقل مصدر مانتے ھوئے اس سے استنباط احکام اسلامی کیاجائے اور کچھ ایسی چیزیں جن کا حکم وحی کے ذریعہ بیان نھیں ھوا ھے مجتھدوں کا فریضہ ھے کہ وہ اپنی رائے سے ان کا حکم تلاش کریں۔دوسری جھت یہ ھے کہ قیاس و اجتھاد بالرائے کو واقعی احکام کے استنباط کے وسیلہ کے طور پر اسی طرح استعمال کریں جس طرح دوسرے وسائل مثلا خبر واحد سے استفادہ کرتے ھیں اسے اصطلاحی زبان میں یوں سمجھئے کہ ممکن ھے قیاس کو موضوعیت کی حیثیت دیں اور ممکن ھے اسے طریقیت کی حیثیت دیں ۔

شیعہ فقہ میں قیاس و اجتھاد بالرائے مذکورہ بالا کسی بھی عنوان سے معتبر نھیں ھے۔ پھلی جھت اس لئے معتبر نھیں ھے کہ ھمارے پاس کوئی ایسا موضو ع نھیں ھے جس کا حکم ( چاھے کلی طور پر سھی ) قرآن و سنت نے بیان نہ کیا ھو ۔ دوسری جھت اس لئے باطل ھے کہ قیاس و اجتھاد بالرائے کا تعلق گمان و تخمینہ سے ھے اور یہ شرعی احکام میں بھت زیادہ خطا و لغزش کاموجب ھے ۔ قیاس کے بارے میں شیعہ و سنی کے درمیان اختلاف کی بنیاد وھی پھلی جھت ھے اگر چہ اصولیوں کے یھاں دوسری جھت زیادہ مشھور ھوئی ھے ۔

” اجتھاد “ کا حق اھل سنت کے یھاں زیادہ دنوں تک باقی نھیں رہ سکا شاید اس کا سبب عملی طور پر پیش آنے والی مشکلیں تھیں کیوں کہ اگر یہ حق اسی طرح جاری رھے ، خاص طور سے نصوں میں تاوّل و تصرف کوجائز سمجھاجاتارھے اور ھر شخص اپنی رائے کے مطابق تصرف و تاوّل کرتا رھے تو دین کا نام و نشان بھی باقی نہ رھے گا شاید یھی وجہ تھی کہ رفتہ رفتہ مستقل اجتھاد کا حق چھین لیا گیا اور سنی علماء نے یہ طے کر لیا کہ عوام کو چار مشھور مجتھدوں اور اماموں : ابو حنیفہ ، شافعی ، مالک بن انس ، احمد بن حنبل کی تقلید کی طرف لئے جائیں اور انھیں ان چاروں کے علاوہ کسی دوسرے مجتھد کی تقلید سے روک دیں۔ یہ قدم پھلے ( ساتویں صدی میں ) مصر میں اٹھایا گیا اور بعد میں دوسرے اسلامی ملکوں میں بھی اس طرز فکر نے جگہ بنا لی ۔

جائز اجتھاد

لفظ اجتھاد ، پانچویں صدی ھجری تک اسی طرح مخصوص معنیٰ میں ۔ (قیاس و اجتھاد بالرائے جو شیعہ نقطۂ نظر سے نا جائز ھے ) استعمال ھوتا تھا ۔ شیعہ علماء اس وقت تک اپنی کتابوں میں ” باب الاجتھاد“ اسے رد کرنے اور باطل و نا جائز قرار دینے کے لئے لکھتے تھے ۔جیسے شیخ طوسی (رہ)نے اپنی کتاب ”عدہ “ میں اسے رد کیا ھے لیکن آھستہ آھستہ یہ لفظ اپنے خصوصی معنیٰ سے باھر آگیا اور خود سنی علماء نے بھی ( جیسے ابن حاجب ”مختصر الاصول “ میں جس کی شرح عضدی نے لکھی ھے اور مدتوں جامعة الازھر کے درسی نصاب میں شامل رھی ھے اور شاید آج بھی شامل ھو ۔ ان سے پھلے غزالی نے اپنی مشھور کتاب ” المستصفیٰ “ میں ) لفظ اجتھاد بالرائے کو اس مخصوص معنیٰ میں استعمال نھیں کیا ھے جو کتاب و سنت کے مقابلہ میں ھے ، بلکہ انھوں نے شرعی حکم حاصل کرنے کے لئے سعی و کوشش کے اس عام معنیٰ میں استعمال کیا ھے جسے ان لفظوں میں بیان کیا جاتا ھے ” استفراغ الوسع فی طلب الحکم الشرعی “ اس تعریف کے مطابق اجتھاد کا مطلب ” معتبر شرعی دلیلوں کے ذریعہ شرعی احکام کے استنباط کی انتھائی کوشش کرنا ھے “ ۔ اب رھی یہ بات کہ معتبر شرعی دلیلیں کیا ھیں ؟ آیا قیاس و استحسان وغیرہ بھی شرعی دلیلوں میں شامل ھیں یا نھیں ؟ یہ ایک علیٰحدہ موضوع ھے ۔

 پانچویں صدی سے شیعہ علماء نے بھی یہ لفظ اپنا لیا کیونکہ وہ اس قسم کے اجتھاد کے پھلے سے قائل تھے ۔ یہ اجتھاد جا ئز اجتھاد ھے ۔ اگر چہ شروع میں یہ لفظ شیعوں کی نظر میں نفرت انگیز تھا لیکن جب اس کا معنیٰ ومفھوم بدل گیا تو شیعہ علماء نے بھی تعصب سے کام نھیں لینا چاھا اور اس کے استعمال سے پرھیز نھیں کیا ۔ ایسا معلوم ھوتا ھے کہ شیعہ علماء بھت سے مقامات پر مسلمانوں کی جماعت سے اتحاد و یکجھتی اور اسلوب کی رعایت کا بڑا خیال رکھتے تھے ۔ مثلا ً اھل سنت ، اجماع کو حجت مانتے تھے اور تقریباً قیاس کی طرح اجماع کے لئے بھی اصالت و موضوعیت کے قائل تھے ۔ جبکہ شیعہ اسے نھیں مانتے وہ ایک دوسری چیز کے قائل ھیں لیکن اسلوب اور وحدت کے تحفظ کی خاطر جس چیز کو خود مانتے تھے اس کا نام اجماع رکہ دیا ۔ اھل سنت کھتے تھے شرعی دلیلیں چار ھیں : کتاب ، سنت ، اجماع ، اجتھاد ( قیاس ) شیعہ علما ء نے کھا: شرعی دلیلیں چار ھیں : کتاب ، سنت ، اجماع ، عقل انھوں نے صرف قیاس کی جگہ عقل رکہ دیا۔

بھر کیف اجتھاد ، رفتہ رفتہ صحیح و منطقی معنی میں استعمال ھونے لگا ، یعنی شرعی دلیلوں کو سمجھنے کے لئے غور و فکر اور عقل کا استعمال کرنا اور اس کے لئے کچھ ایسے علوم میں مھارت ضروری ھے جو صحیح و عالمانہ تدبر و تعقل کی استعداد و صلاحیت کا مقدمہ ھیں ۔علمائے اسلام کو تدریجی طور پر یہ احساس ھوا کہ شرعی دلیلوں کے مجموعہ سے احکام کے استناد و استنباط کے لئے کچھ ابتدائی علوم سے واقفیت ضروری ھے ۔ جیسے عربی ادب ، منطق ، تفسیر قرآن ، حدیث ، رجال حدیث ، علم اصول حتیٰ دوسرے فرقوں کی فقہ کا علم ،لھذااب وہ مجتھد اس شخص کو کھتے ھیں جو ان تمام علوم میں مھارت رکھتا ھو ۔

 لیکن گمان غالب یہ ھے کہ شیعوں میں اجتھاد و مجتھد کا لفظ اس معنیٰ میں سب سے پھلے علامہ حلی نے استعمال کیا ھے ۔ علامہ حلی نے اپنی کتاب ” تھذیب الاصول “ میں ،” باب القیاس “ کے بعد ”با ب الاجتھاد “ تحریر فرمایا ھے ۔ وھاں انھوں نے اجتھادکو اسی معنیٰ میں استعمال کیا ھے جس معنی میں آج استعمال کیا جاتا ھے اور رائج ھے ۔

پس شیعی نقطہ ٴ نظر سے وہ اجتھاد ، نا جائز ھے جو قدیم زمانہ میں قیاس و رائے کے معنیٰ میں استعمال ھوتا تھا ۔ اب چاھے اسے قانون سازی و تشریع کا ایک مستقل مصدر و سر چشمہ مانیں یا واقعی حکم کے استخراج و استنباط کا وسیلہ لیکن جائز اجتھاد سے مراد فنی مھارت کی بنیاد پر سعی و کوشش ھے ۔

پس یہ جو کھا جاتا ھے کہ اسلام میں اجتھاد کیا چیز ھے ؟ اس کی کیا ضرورت ھے ؟ اس کا جواب یہ ھے کہ اجتھاد جس معنیٰ میں آج استعمال ھو رھا ھے اس سے مراد صلاحیت اور فنی مھارت ھے ۔ ظاھر ھے کہ جو شخص قرآن و حدیث سے استفادہ کرنا چاھتا ھے اس کے لئے قرآن کی تفسیر ، آیتوں کے معانی ، ناسخ و منسوخ اور محکم و متشابہ سے واقفیت نیز معتبر وغیر معتبر حدیثوں میں تمیز دیکرمسائل کو ممکنہ حد تک حل کر سکتا ھو ۔ مذھب کے اجماعی و متفق علیہ مسائل کو تشخیص دے سکتا ھو ۔خود قرآنی آیتوں اور حدیثوں میں کچھ کلی اصول و قواعد ذکر ھوئے ھیں ، ان سے آگاھی رکھتاھودنیا کے تمام علوم میں پائے جانے والے تمام اصولوں اور فارمولوں کی طرح ان شرعی اصول و قواعد کے استعمال کے لئے بھی مشق ، تمرین ،تجربہ اور ممارست ضروری ھے ۔ ایک ماھر صنعتکار کی طرح اسے یہ معلوم ھونا چاھئے کہ مواد کے ڈھیر میں سے کون سا مواد انتخاب کرنا ھے ۔ اس میں مھارت و استعداد ھونی چاھئے خاص طور سے کون سی حدیثوں میں بھت زیادہ الٹ پھیر اور جعل سازی ھوئی ھے ۔ صحیح و غلط حدیثیں آپس میں خلط و ملط ھیں اس میں صحیح حدیث کو غلط حدیث سے تشخیص دینے کی صلاحیت ھونی چاھئے ۔ مختصر یہ کہ اس کے پاس اس قدر ابتدائی و مقدماتی معلومات فراھم ھونی چاھئے کہ واقعاً اس میں اھلیت ، قابلیت ، صلاحیت اور فنی مھارت پیدا ھو جائے ۔


شیعوں میں اخباریت کا رواج

 یھاں اس خطرناک تحریک کا ذکر ضروری ھے جو تقریباً چار صدی قبل شیعہ دنیا میں ،اجتھاد کے موضوع سے متعلق وجود میں آئی ھے ۔ اور وہ ” اخباریت “ کی تحریک ھے ۔ اگر کچھ جیّد و دلیر علماء نہ ھوتے اور اس تحریک کا مقابلہ کر کے اسے سر کوب نہ کرتے تو نہ معلوم آج ھماری کیا حالت ھوتی ۔ دبستان اخباریت کی عمر چار صدی سے زیادہ نھیں ھے ۔ اس اسکول کے بانی ملا امین استر آبادی ھیں جو بذات خود بھت ذھین تھے اور بھت سے شیعہ علماء نے ان کا اتباع کیا ھے ۔ خود اخباریوں کا دعویٰ ھے کہ شیخ صدوق کے زمانہ تک کے تمام قدیم شیعہ علماء اخباری تھے ۔ لیکن حقیقت یہ ھے کہ اخباریت ایک اسکول اور کچھ معین اصول و قوانین کی شکل میں (جو عقل کی حجیت کی منکر ھو ، قرآن کی حجیت و سندیت کی یہ بھانہ بنا کر منکر ھو کہ قرآن صرف  اھلبیت (ع)پیغمبر ھی سمجھ سکتے ھیں ۔ ھماری ذمہ داری فقط اھلبیت (ع)کی حدیثوں کی طرف رجوع کرنا ھے  اور اجماع سنیوں کی بدعت ھے لھذا ادّلۂ اربعہ یعنی قرآن ، سنت ، اجماع ،عقل میں سے صرف سنت حجت ھے ۔ اور وہ تمام حدیثیں جو کتب اربعہ یعنی ”کافی من لا یحضرہ القفیہ ، تھذیب ، اور استبصار “میں بیان ھوئی ھیں صحیح ومعتبر بلکہ قطعی الصدور ھیں یعنی رسول خدا  اور ائمہ طاھرین سے ان کا صادر ھونا یقینی ھے ان اصولوں کا پیرو اسکول )چارسو سال پھلے موجود نہ تھا ۔

شیخ طوسی نے اپنی کتاب ” عدة الاصول “ میں بعض قدیم علماء کو ” مقلّدہ “ کے نام سے یاد کیا ھے اور ان پر نکتہ چینی کی ھے تاھم ان کا اپنا کوئی اسکول و دبستان نھیں تھا ۔ شیخ طوسی نے انھیں مقلدہ اس لئے کھا ھے کہ وہ اصول دین میں بھی روایتوں سے استدلال کرتے تھے ۔

بھر حال جس صلاحیت ، قابلیت اور فنی مھارت کے مجتھدین قائل ھیں اخباری اس کے منکر ھیں ۔ وہ غیر معصوم کی تقلید حرام جانتے ھیں ۔ اس اسکول کا حکم ھے کہ چونکہ صرف حدیث حجت و سند ھے اور اس میں بھی کسی کو اجتھاد و اظھار نظر کا حق نھیں ھے لھذا عوام پر فرض ھے کہ وہ براہ راست حدیثیں پڑھیں اور ان ھی کے مطابق عمل کریں بیچ میں کسی عالم کو مجتھد مرجع تقلید اور واسطہ کے عنوان سے تسلیم نہ کریں ۔

ملا امین استر آبادی جو اس دبستان کے بانی ھیں اور بذات خود ذھین ، صاحب مطالعہ اور جھاں دیدہ شخص تھے انھوں نے ” الفوائد المدینة “ نامی ایک کتاب تحریر فرمائی ھے ، موصوف نے اس کتاب میں مجتھدوں سے بڑی سخت جنگ لڑی ھے ۔ خاص طور سے عقل کی حجیت کے انکار کے لئے ایڑی چوٹی کا زور صرف فرمایا ھے ۔ ان کا دعویٰ ھے کہ عقل صرف محسوسات یا محسوسات سے قریب مسائل ( جیسے ریاضیات ) میں حجت ھے اس کے سوا اس کا کوئی اعتبار نھیں ۔

بد قسمتی سے یہ فکر اس وقت سامنے آئی جب یورپ میں حسّی فلسفہ نے جنم لیا تھا وہ لوگ علوم ( سائنس ) میں عقل کی حجیت کے منکر ھوئے اور یہ حضرت دین میں انکار کر بیٹھے اب یہ نھیں معلوم کہ موصوف نے یہ فکر کھاں سے حاصل کی خود ان کی اپنی ایجاد ھے یا کسی سے حاصل کی ھے ؟

مجھے یاد ھے کہ ۱۹۴۳ءء کے موسم گرما میں ،ایران کے ایک شھر بروجرد گیا ھوا تھا اور اس وقت آیة اللہ بروجردی اعلیٰ اللہ مقامہ ، بروجرد ھی میں مقیم تھے ، ابھی قم تشریف نھیں لائے تھے ۔ ایک دن اخباریوں کے طرز فکر کی گفتگو چھڑ گئی ۔آیة اللہ بروجردی نے اس طرز فکر پر تنقید کرتے ھوئے فرمایا : اخباریوں کے درمیان اس فکر کی پیدائش یورپ میں حسّی فلسفہ کی لھر کے زیر اثر عمل میں آئی ھے ۔ یہ بات میں نے ان سے اس وقت سنی تھی ۔ جب آپ قم تشر یف لائے اور آپ کے درس اصول میں ” حجیت قطع “ کا موضوع زیر بحث آیا تو مجھے امید تھی کہ آپ دوبارہ وھی بات فرمائیں گے لیکن افسوس انھوں نے اس کا کوئی تذکرہ نھیں کیا ۔ اب مجھے یہ نھیں معلوم کہ یہ صرف ان کا خیال و گمان تھا جو انھوں نے بیان فرمایا تھا یا واقعاً ان کے پاس کوئی دلیل موجود تھی ۔ خود مجھے ابھی تک کوئی ایسی دلیل نظر نھیں آئی ھے اور بعید نظر آتا ھے کہ اس زمانہ میں یہ حسّی فکر مغرب سے مشرق تک پھنچی ھو ۔ لیکن آیة اللہ بروجردی بھی کبھی دلیل کے بغیر کوئی بات نھیں کرتے تھے ۔ اب مجھے افسوس ھو رھا ھے کہ اس وقت میں نے اس سلسلہ میں ان سے سوال کیوں نھیں کیا ۔

 

اخباریت کا مقابلہ

بھر صورت اخباریت عقل کے خلاف ایک تحریک تھی ۔ اس اسکول پر عجیب و غریب جمود حکم فرماتھا ۔ خوش قسمتی سے وحید بھبھانی ،آپ کے شاگردوں اور شیخ انصاری اعلی اللہ مقامہ جیسے دلیر و سمجھدار افراد نے اس اسکول کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ۔

وحید بھبھانی کربلا میں تھے اس زمانہ میں ، ایک ماھر اخباری ، صاحب ” حدائق “ بھی کربلا میں ساکن تھے ۔ دونوں کا اپنا اپنا حلقۂ درس تھا ۔ وحید بھبھانی اجتھادی اسکول کے حامی تھے اور صاحب حدائق اخباری مسلک کے پیرو ۔ فطری طور پر دونوں کے درمیان سخت فکری جنگ جاری تھی ۔ آخر کار وحید بھبھانی نے صاحب حدایق کو شکست دے دی ۔ کھتے ھیں کہ کاشف الغطا ،بحرالعلوم اور سید مھدی شھرستانی جیسے وحید بھبھانی کے جیّد شاگرد ، پھلے صاحب حدائق کے شاگرد تھے ، بعد میں صاحب حدائق کا حلقہ درس چھوڑ کر وحید کے حلقہ درس میں شامل ھو گئے ۔

 

البتہ صاحب حدائق ، نرم مزاج اخباری تھے ۔ خود ان کا دعویٰ تھا کہ ان کا مسلک وھی ھے جو علامہ مجلسی ۺ کا مسلک تھا ۔ ان کا مسلک اصولی و اخباری کے درمیان کی ایک چیز ھے ۔ علاوہ بر ایں وہ بڑے مومن ، خدا ترس اور متقی و پرھیز گار انسان تھے ۔ باوجودیکہ وحید بھبھانی ان کے سخت مخالف تھے اور ان کے پیچھے نماز پڑھنے سے منع کرتے تھے لیکن وہ اس کے بر عکس ، کھتے تھے آقای وحید کے پیچھے نماز پڑھنا صحیح ھے۔ کھتے ھیں موصوف نے مرتے وقت وصیت کی تھی کہ ان کی نماز جنازہ وحید بھبھانی پڑھائیں ۔

اخباریت کے خلاف شیخ انصاری کی جد و جھد کا انداز یہ تھا کہ آپ نے علم الاصول فقہ کی بنیادوں کو محکم بنایا ۔ کھتے ھیں : خود شیخ انصاری ۺ فرماتے تھے کہ اگر امین استرآبادی زندہ ھوتے تو میرا اصول مان لیتے ۔

اخباری اسکول ، اس مقابلہ آرائی کے نتیجہ میں شکست کھا گیا اور اب اس مسلک کے پیرو گوشہ و کنار میں خال خال ھی نظر آتے ھیں ۔ لیکن ابھی بھی اخباریت کے سارے افکار جو ملا امین کی پیدائش کے بعد بڑی تیزی سے پھیلے ، لوگوں کے ذھنوں میں داخل ھوئے اور تقریباً دو سو سال چھائے رھے ،ذھنوں سے باھر نھیں نکلے ھیں ۔ آج بھی آپ دیکھتے ھیں کہ بھت سے لوگ حدیث کے بغیر ، قرآن کی تفسیر جائز نھیں سمجھتے ۔ بھت سے اخلاقی و سماجی مسائل بلکہ بعض فقھی مسائل میں بھی اخباریت کا جمود طاری ھے ۔ فی الحال اس کے متعلق تفصیلی بحث کی گنجائش نھیں ھے ۔

ایک چیز جو عوام کے درمیان اخباری فکر پھیلنے کا باعث ھوئی وہ اس کا عوام پسند پھلو ھے ۔ کیونکہ وہ کھتے تھے ھم تو اپنے پاس سے کچھ بھی نھیں کھتے ھم کلام معصوم(ع)کے سامنے سر تسلیم خم کئے ھوئے ھیں ھمیں صرف ’ ’ قال الصادق (ع)“ سے سرو کار ھے ۔ اپنی طرف سے کچھ نھیں کھتے معصوم (ع)کا کلام بیان کرتے ھیں ۔

شیخ انصاری ” فرائد الاصول “ میں ”برائت “ و”احتیاط “ کی بحث میں سید نعمة اللہ جزائری سے جو اخباری مسلک کے پیرو تھے نقل کرتے ھیںکہ وہ کھتے ھیں :” کیا کوئی صاحب عقل یہ احتمال دے سکتا ھے کہ قیامت کے دن خدا کے کسی بندہ ( یعنی کسی اخباری ) کو حاضر کیا جائے اور اس سے پوچھا جائے کہ تم نے کس بنیاد پر عمل کیا ؟ وہ جواب دے کہ میں نے معصومین(ع)کے حکم کے مطابق عمل کیا ، جھاں کھیں معصوم (ع)کا فرمان مجھے نھیں ملا میں نے احتیاط کی کیا ایسے شخص کو جھنم میں لے جایا جائے گا اور اس شخص کو بھشت میں جگہ دی جائے گی جو کلام معصوم (ع)کو اھمیت نھیں دیتا تھا اور ھر حدیث کسی نہ کسی بھانہ سے ٹھکرا دیتا تھا ( یعنی اجتھادی دبستان کا پیرو شخص ) !! ھرگز نھیں “۔

مجتھدین ا سکا جواب یہ دیتے ھیں کہ اس قسم کی اطاعت و تسلیم قول معصوم (ع)کی اطاعت اور ان کے فرمان کے سامنے سر تسلیم خم کرنا نھیں ھے بلکہ جھالت کے آگے سر جھکانا ھے ۔ اگر واقعاً یہ معلوم ھو جائے کہ معصوم (ع)نے فلاں بات کھی ھے تو ھم بھی اسے بے چون و چرا قبول کرتے ھیں لیکن آپ حضرات یہ چاھتے ھیں کہ جو کچھ بھی ھم سنیں ( اس کی سند اور معنیٰ و مفھوم میں تحقیق کئے بغیر ) جاھلوں کی طرح اسے قبول کر لیں ۔

 یھاں چند نمونے پیش کئے جارھے ھیں جن سے اخباریت کے جامد طرز فکر اور اجتھادی نقطہ نظر کے درمیان فرق واضح ھو جائے گا ۔


دو طرز فکر کا ایک نمونہ

بھت سی حدیثوں میں عمامہ کا تحت الحنک گردن میں لپیٹے رھنے کا حکم دیا گیا ھے صرف نماز میں ھی نھیں بلکہ ھر وقت اور ھر جگہ ۔ اس سلسلہ کی ایک حدیث یہ ھے : ” الفرق بین المومنین و المشرکین التلحیّ“

مومن و مشرک کا فرق ، گلے میں تحت الحنک لپیٹنا ھے ۔

کچھ اخباریوں نے اس طرح کی حدیثوں سے تمسک کر کے کھا ھے کہ تحت الحنک ھمیشہ گلے میں پڑا رھنا چاھئے لیکن ملا محسن فیض مرحوم نے،با وجودیکہ اجتھاد کو اچھی نظر سے نھیں دیکھتے تھے ،اپنی کتاب ” وافی “ کے باب ” الزّیّ و التجمل “ میں اس سلسلہ میں ایک قسم کا اجتھاد کیا ھے ۔ وہ فرماتے ھیں قدیم زمانہ میں مشرکوں کا شیوہ تھا کہ وہ تحت الحنک عمامہ کے اوپر باندھے رھتے تھے اور اس عمل کو ” اقتعاط “ کے نام سے یاد کیا جا تا تھا ۔ اگر کوئی یہ کام کرتا تو اس کا مطلب یہ ھوتا تھا کہ میں مشرکوں کے گروہ میں شامل ھوں ، چنانچہ یہ حدیث اس عمل و شیوہ کے خلاف مبارزہ کرنے اور مشرکوں کے اس سمبل کی پیروی نہ کرنے کی خاطر ھے لیکن آج جبکہ وہ سمبل ختم ھو چکا ھے تو پھر اس حدیث کا کوئی موضوع باقی نھیں رھا ھے آج چونکہ کوئی شخص تحت الحنک گلے میں نھیں لپیٹتا لھذا اب تحت الحنک گلے میں لپیٹنا حرام ھے کیونکہ اس صورت میں وہ ” لباس شھرت “ کی شکل میں اختیار کر لے گا اور لباس شھرت حرام ھے ۔

یھاں اخباریت کا جمود کھتا ھے کہ : حدیث میں صرف تحت الحنک لپیٹنے کا حکم بیان ھوا ھے لھذا اس کے بارے میں بحث و اجتھاد کرنا فضول ھے لیکن اجتھادی فکر کھتی ھے کہ ھمیں دو چیزوں کا حکم دیا گیا ھے : ایک مشرکوں کے سمبل سے اجتناب اور دوسرے لباس شھرت سے پرھیز ۔ جس وقت وہ سمبل دنیا میں موجود تھا مسلمین اس سے اجتناب کرتے تھے گلے میں تحت الحنک لپیٹے رھنا سب پر واجب تھا لیکن آج جبکہ یہ موضوع منتفی ھو چکا ھے، اب یہ مشرکوں کا سمبل نھیں رھا ھے اور عملی طور پر اب کوئی بھی تحت الحنک نھیں لپیٹتا لھذا اب کوئی شخص یہ عمل بجالاتا ھے تو وہ لباس شھرت کا مصداق ھے جوکہ حرام ھے ۔ یہ ایک نمونہ تھا ۔ اس طرح کی مثالیں بھت ھیں ۔

وحید بھبھانی سے یہ واقعہ نقل کیا گیا ھے کہ ایک مرتبہ عید کا چاند تو اتر کی حد تک ثابت ھو گیا اتنے زیادہ افراد نے میرے پاس آکر چاند دیکھنے کی گواھی دی کہ مجھے یقین آگیا ۔ چنانچہ میں نے عید کا اعلان کر دیا ۔ ایک اخباری نے مجھ پر اعتراض کیا کہ خود آپ نے چاند دیکھا نھیں جن کی عدالت مسلم ھے انھوں نے گواھی بھی نھیں دی پھر تم نے عید کا اعلان کیسے کر دیا ؟ میں نے کھا خبر متواتر سے مجھے یقین حاصل ھو گیا ھے کھنے لگے کہ کس حدیث میں ھے کہ تواتر حجت ھے ؟!

وحید بھبھانی ھی کا بیان ھے کہ : اخباریوں میں اتنا جمود پایا جاتا ھے کہ اگر بالفرض کوئی مریض کسی امام (ع)کے پاس گیا ھو اور امام (ع)نے اسے ٹھنڈا پانی پینے کو کھا ھو تو اخباری ، دنیا کے سارے مریضوں کو ٹھنڈا پانی پینے کا حکم دیں گے اور کھیں گے ھر مرض کا علاج ٹھنڈا پانی ھے ۔ وہ یہ نھیں سوچیں گے کہ امام نے یہ حکم اس مریض کے مزاج اور اس کی بیماری کی نوعیت کے لحاظ سے دیا تھا نہ کہ تمام مریضوں کے لئے ۔

یہ بھی مشھور ھے کہ بعض اخباری ، میت کے کفن پر شھادتین اس طرح لکھنے کا حکم دیتے تھے : ”اسماعیل یشھد ان لا الٰہ الااللہ “ یعنی اسماعیل خدا کی وحدانیت کی گواھی دیتا ھے ۔ وحدانیت کی گواھی اسماعیل کے نام سے کیوں دی جائے ؟ اس لئے کہ حدیث میں ھے کہ حضرت امام صادق(ع)نے اپنے فرزند اسماعیل کے کفن پر یہ عبارت تحریر فرمائی تھی ۔

اخباریوں نے یہ سوچنے کی زحمت نھیں کی کہ اسماعیل کے کفن پر اس عبارت کی وجہ یہ تھی کہ ان کا نام اسماعیل تھا ۔ اب اگر مثلاً حسن قلی بیگ کا انتقال ھوا ھے تو خود ان ھی کا نام کیوں نہ لکھا جائے ؟ اسماعیل کا نام کیوں لکھیں ؟!! اخباری کھتے تھے یہ ساری باتیں اجتھاد اور عقل کا استعمال ھیں ، ھم اھل تعبد و تسلیم ھیں ھمیں صرف قال الباقر (ع)و قال الصادق (ع)سے مطلب ھے اپنی طرف سے کچھ نھیں کھہ سکتے ۔

ناجائز تقلید

تقلید کی بھی دو قسمیں ھیں : جائز و نا جائز ۔ ایک وہ تقلید ھے جس سے مراد ماحول و معاشرہ کی اندھی پیروی ھے جویقینا نا جائز ھے اور قرآن مجید میں اس کی ان لفظوں میں مذمت کی گئی ھے ۔

” انا وجدنا آباء نا علی امة و انا علی آثارھم مقتدون “ ( ۲)( ھم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقہ پر پایا ھے اور ھم ان ھی کے نقش قدم پر چل رھے ھیں )

ھم نے تقلید کو دوحصوں میں تقسیم کیا ھے ۔ جائز و ناجائز ، ناجائز تقلید سے مراد صرف ماحول اور اپنے آباء و اجدا د کے رسم و رواج کی اندھی تقلید ھی نھیں ھے بلکہ عالم کی طرف جاھل اور فقیہ کی طرف عوام کے رجوع کرنے والی تقلید بھی دو قسم کی ھے :

جا ئز و ناجائز ۔

آج کل بعض ایسے افراد سے جو کئی مرجع تقلید کی تلاش میں ھیں یہ سننے میں آتا ھے کہ ھمیں کسی ایسے شخص کی تلاش ھے جس کے آستانہ پر سر جھکا دیں اور خود کو اس کے حوالے کر سکیں ۔ لیکن اسلام نے جس تقلید کا حکم دیا ھے وہ سپردگی اور خود کو کسی کے حوالے کرنا نھیں ھے بلکہ آنکھکھولنا اور کھلوانا ھے ۔ تقلید اگر سر سپردگی کی شکل اختیار کر لے تو اس میں ھزاروں برائیاں پیدا ھو جائیں گی ۔

” و اما من کان من الفقھاء صائناً لنفسہ حافظا لدینہ مخالفاً علی ھواہ مطیعاً لامرمولاہ فللعوام ان یقلدوہ“

یہ حدیث ، تقلید و اجتھاد کی دلیلوں میں سے ایک دلیل ھے ۔ شیخ انصاری اس حدیث کے متعلق فرماتے تھے کہ اس سے صحت و صداقت کے آثار نمایاں ھیں ۔

یہ حدیث اس آیہ شریفہ کے ذیل میں ھے

” و منھم امیون لا یعلمون الکتاب الا امانی و ان ھم الا یظنون “ (۳)

یہ آیت ان جاھل یھودی عوام کی مذمت کر رھی ھے جو اپنے علماء کی تقلید و پیروی کرتے تھے اور ان آیتوں کے بعد جن میں یھودی علماء کے برے طور طریقوں کا ذکر ھوا ھے ارشاد ھوتا ھے : ان میں کچھ ایسے جاھل و نادان افراد تھے جو اپنی آسمانی کتاب کے بارے میں بے بنیاد امیدوں اور آرزؤں کے سوا کچھ نھیں جانتے تھے اور وھم و گمان کی پیروی کرتے تھے ۔

نا جائز تقلید اور امام صادق (ع)

مذکورہ حدیث اسی آیت کے ذیل میں ھے ۔ ایک شخص نے امام صادق (ع)سے عرض کیا کہ جاھل یھودی عوام اپنے علماء کی پیروی اور ان کی ھر بات ماننے پر مجبور تھے۔ ان کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ ھی نہ تھا۔ اس میں ان کی کیا خطا ھے ۔ اگر خطا ھے تو یھودی علماء کی خطا ھے ۔ قرآن مجید ان بے چارے عوام الناس کی مذمت کیوں کر رھا ھے جو کچھ جانتے ھی نہ تھے اور صرف اپنے علماء کی پیروی کر رھے تھے ؟ اگر علماء کی تقلید و پیروی لائق مذمت ھے تو پھر ھمارے عوام کی بھی  مذمت کی جانی چاھئے جو ھمارے علماء کی تقلید کرتے ھیں ! اگر یھودی عوام کو اپنے علماء کی تقلید نھیں کرنی چاھئے تھی تو ان لوگوں کو بھی تقلید نھیں کرنی چاھئے ۔حضرت (ع)نے فرمایا :

” بین عوامنا و علمائنا و بین عوام الیھود وعلمائھم فرق من جھة و تسویة من جھة : امّا من حیث استووا فانّ اللہ قد ذم عوامنا بتقلید ھم علمائھم کما قد ذم عوامھم ۔ و اما من حیث افترقوا فلا “

ھمارے عوام و علماء اوریھودی عوام و علماء میں ایک جھت سے فرق ھے اور ایک جھت سے ایک جیسے ھیں۔ ان کے ایک جیسے ھونے کی جھت میں خدا وند عالم نے ھمارے عوام کو بھی اپنے علماء کی ویسی تقلید کرنے کی باعث مذمت کی ھے اور فرق ھونے کی جھت میں مذمت نھیں کی ھے ۔

اس شخص نے عرض کیا : فرزند رسول وضاحت فرمایئے ۔ حضرت (ع)نے فرمایا : یھودی عوام نے اپنے علماء کی عملی زندگی دیکھی تھی کہ وہ کھلم کھلا جھوٹ بولتے ھیں ، رشوت لینے سے نھیں چوکتے ، رشوت اور ذاتی تعلقات کے باعث الٰھی احکام اور فیصلوں میں الٹ پھیر کرتے ھیں۔ افراد و اشخاص سے تعصب کی بنیا پر برتاؤ کرتے ھیں ۔ذاتی حب و بغض کو الٰھی احکام میں شامل کرتے ھیں۔ اس کے بعد حضرت (ع)نے فرمایا :

” و اضطرّوا بمعارف قلوبھم الیٰ ان من یفعل ما یفعلونہ فھو فاسق لا یجوز ان یصدق علی اللہ ولا علی الوسائط بین الخلق و بین اللہ “

وہ اس فطری الھام کی روشنی میں جو خدا وند عالم نے تکوینی طور پر ھر شخص کو عطا کیا ھے جانتے تھے کہ ایسے اعمال کا ارتکاب کرنے والے شخص کی پیروی نھیں کرنی چاھئے اوراس کی زبان سے بیان ھونے والا خدا اور رسول کا قول ، نھیں ماننا چاھئے ۔

یھاں امام (ع)یہ بتانا چاھتے ھیں کہ کوئی یہ گمان نہ کرے کہ یھودی عوام اس مسئلہ سے واقف نھیں تھے کہ ان علماء کی بات ماننا جائز نھیں ھے جو دینی احکام کے خلاف عمل کرتے ھیں ، کیونکہ یہ کوئی ایسی بات نھیں ھے جس سے کوئی شخص واقف نہ ھو اس مسئلہ کی معرفت خدا وند عالم نے ھر شخص کی فطرت میں ودیعت کی ھے اور ھر شخص کی عقل اسے جانتی ھے ۔

منطقیوں کے بقول یہ ان چیزوں میں سے ھے جس کی دلیل خود اس کے ساتھ ھے ” قضایا قیاسھا معھا “ جس شخص کا فلسفہ وجود ، پاکی و طھارت اور ھویٰ و ھوس سے اجتناب ھے اگر وہ ھوا و ھوس اور دنیا پرستی کا دلدادہ ھو جائے تو ھر عقل یھی حکم کرتی ھے کہ اس کی باتوں پر کان نھیں دھرنا چاھئے۔ اس کے بعد حضرت (ع)فرماتے ھیں :

” و کذٰلک عوام اُمَّتنا اذا عرفوا من فقھائم الفسق الظاھر ، والعصبیة الشدیدة ، و التکالب علی حطام الدنیا و حرامھا ، و اھلاک من یتعصبون علیہ و ان کان لاصلاح امرہ مستحقاً ، و بالترفق بالبر و الاحسان علی من تعصبوا لہ و ان کان للاذلال و الاھانة مستحقاً، فمن قلد من عوامنا مثل ھٰولاء فھم “( احتجاج طبرسی ج ۲ ص ۲۶۳ ۔ ماخوذ از تفسیر منسوب بہ امام حسن عسکری (ع)وھاں ” بالترفق کے بجائے ” بالترفرف “ آیا ھے )

ھمارے عوام کا بھی یھی حال ھے ۔ یہ لوگ بھی اگر اپنے فقھاء میں ، بد کاری ، شدید تعصب، مال دنیا کی ھوس، اپنے دوستوں اور حامیوں کی جانبداری ، چاھے وہ نا صالح ھی کیوں نہ ھوں، اپنے مخالفوں کی سر کوبی ،چاھے وہ احسان و نیکی کے مستحق ھی کیوں نہ ھوں ۔ اور اسی طرح کے دوسرے اوصاف کامشاھدہ کرنے کے باوجود اپنی آنکھیں بند کر کے ان کی پیروی کرتے رھیں تو وہ لوگ بھی یھودی عوام کی طرح مذمت و ملامت کے مستحق ھیں “

پس معلوم ھوا کہ جائز و ممدوح تقلید ، خود سپردگی ، آنکھیں بند کر لینا اور خود کو کسی کے حوالہ کر دینا نھیں ھے بلکہ آنکہ کھولے رھنا اور ھوشیار رھنا ھے ورنہ وہ جرم میں شریک مانیں جائیں گے ۔


علماء کی کُرّیت اور عصمت کا جاھلانہ نظریہ

بعض افراد یہ خیال کرتے ھیں کہ گناہ کی تاثیر ھر شخص میں یکساں نھیں ھے عام لوگوں پر گناہ اثر انداز ھوتا ھے اور ان کی عدالت و تقویٰ زائل کر دیتا ھے لیکن علماء پر وہ کار گر ثابت نھیں ھوتا وہ ایک قسم کی ” کریت “ اور ایک طرح کی عصمت کے مالک ھیں ۔ جو فرق آب قلیل و آب کثیر میں ھے ( وھی فرق عوام اور علماء میں ھے ) کہ اگر آب کثیر ایک کُر کے برابر ھو تو وہ نجاست کے مل جانے سے نجس نھیں ھوتا ۔ نجاست اس پر اثر انداز نھیں ھوتی ۔ جبکہ اسلام ، کسی کے لئے کریت و عصمت کا قائل نھیں ھے ۔ یھاں تک کہ خود پیغمبر اکرم  کے لئے بھی ۔ قرآن مجیدیوں کھتا ھے :” قل انی اخاف ان عصیت ربی عذاب یوم عظیم “ اے پیغمبر ! کھدو کہ اگر میں بھی گناہ کروں تو مجھے بھی یوم عظیم کا خوف ھے کیونکہ ارشاد ھوتا ھے :” لئن اشرکت لیحبطن عملک “ اگر آپ کے عمل میں شرک کا شائبہ آجائے تو آپ کا عمل رائگا ںچلا جائے گا ۔ یہ سب ھمیں بتانے کے لئے ھے کہ یھاں کسی قسم کا امتیاز نھیں ھے ۔ کسی کو کریت و اعتصام حاصل نھیں ھے ( کہ چاھئے جتنا گناہ کرتے جائیں ان کی عدالت و تقویٰ پر حرف نھیں آئے گا ) ۔

قرآن مجید میں موسیٰ و عبد صالح کی جود استان بیان ھوئی ھے وہ بڑی عجیب داستان ھے ۔اس داستان سے ایک عظیم درس یہ ملتا ھے کہ تابع و پیرو صرف اسی وقت تک پیشوا و رھنما کی اطاعت اور اس کے سامنے سر تسلیم خم کر سکتا ھے جب تک وہ پیشوا قانون کی خلاف ورزی نہ کرے اصول نہ توڑے۔برائی کی طرف مائل نہ ھو ۔ اگر پیشوا اصول و قوانین کے خلاف اقدام کرے تو یھاں خاموشی ھرگز جائز نھیں ھے ۔ اگرچہ اس داستان میں عبد صالح کے اقدامات خود ان کی نظر میں ، ایک وسیع ترافق پر نظر رکھنے اورموضوع کے باطنی پھلو کی جانب توجہ کرنے کے باعث اصول و قوانین کے خلاف نہ تھے ۔بلکہ فریضہ و ذمہ داری کے عین مطابق تھے لیکن نکتہ یہ ھے کہ موسیٰ نے صبر کیوں نھیں کیا ، اعتراض کیوں کر بیٹھے باوجودیکہ وہ وعدہ کرتے تھے اور خود کو تلقین کرتے تھے کہ اعتراض نھیں کریں گے لیکن پھر بھی اعتراض کر بیٹھتے تھے ۔ موسیٰ کا کمزور پھلو ان کا اعتراض کرنا نھیں تھا بلکہ موضوع کی حقیقت اور اس کے باطن سے نا واقفیت تھی اگر انھیں حقیقت کا علم ھوتا تو وہ اعتراض نہ کرتے اور وہ حقیقت کو جاننا بھی چاہ رھے تھے لیکن جب تک وہ ان اقدامات کو الٰھی اصول و قوانین کے بر خلاف تصور کررھے تھے ان کا ایمان انھیں خاموش رھنے کی اجازت نھیں دے رھا تھا ۔ بعض کا کھنا ھے کہ اگر قیامت تک عبد صالح کے اقدامات جاری رھتے تو موسیٰ بھی اعتراض و تنقید سے باز نہ آتے مگر یہ کہ حقیقت موضوع سے باخبر ھو جاتے ۔

موسیٰ ان سے کھتے ھیں : ”ھل تبعک علی ان تعلمن مما علمت رشدا “کیا آپ مجھے اجازت دیں گے کہ میں آپ کی پیروی کروں تاکہ آپ مجھے تعلیم دیں ۔ عبد صالح کھتے ھیں ”لن تستطیع معی صبراً“ تم میری مصاحبت برداشت نھیں کرسکتے اور جو کچھ دیکھو گے اس کے متعلق خاموش نھیں رہ سکتے ، اس کے بعد خود ھی اس کی وجہ بتا دیتے ھیں :” و کیف تصبر علی ما لم تحط بہ خبرا ؟“ جب تک کوئی بظاھر غلط کام ھوتا دیکھو گے اور اس کی حقیقت و راز سے بھی واقف نہ ھو گے تو کیسے خاموش رہ سکتے ھو ؟! موسیٰ نے کھا ”ستجدنی انشاء اللہ صابرا و لا اعصی لک امراً “ انشاء اللہ آپ مجھے صابر پائیں گے اور آپ کی نا فرمانی نھیں کروں گا ۔ موسیٰ نے یہ نھیں کھا کہ راز کا پتہ ھو یا نہ ھو میں صبر کروں گا ۔ بلکہ صرف اتنا کھا کہ مجھے امید ھے کہ یہ صبر و تحمل مجھ میں پیدا ھو جائے ۔ البتہ موسیٰ میں یہ تحمل اس وقت پیدا ھو گا جب وہ ان اقدامات کے راز سے واقف ھو جائیں گے اس کے بعد عبد صالح نے موسیٰ سے مزید واضح اور پکا وعدہ لینا چاھا کہ راز معلوم ھو یا نہ ھو وہ اعتراض نہ کریں یھاں تک کہ وقت آنے پر میں خود اس کی وضاحت کروں :” قال فان اتبعتنی فلا تسئلنی عن شئی حتیٰ احدث لک منہ ذکراً“ یعنی اگر میرے ساتھ آنا چاھتے ھو تو سب کچھ دیکہ کر بھی چپ رھنا ھو گا ۔ بعد میں میں خود توضیح دوںگا یھاں اب اس کے بعد آیت میں یہ نھیں ھے کہ موسیٰ نے یہ شرط مان لی ۔ آیت میں بس اتنا ھی ھے کہ اس کے بعد وہ لوگ چل پڑے اوروہ سارے واقعات پیش آئے جنھیں آپ بارھا سن چکے ھیں ۔

بھر حال یہ بتانامقصود تھا کہ جاھل عالم کی تقلید کرنا سر سپردگی نھیں ھے ۔ نا جائز تقلید وھی ھے جو سر سپردگی کی شکل میں ھو اور یہ صورت اختیار کر لے کہ ” جاھل کو عالم سے بحث کرنے کا حق نھیں ھے ۔ یہ باتیں ھماری سمجھ سے ما فوق ھیں شاید یہ سب کچھ شرعی ذمہ داریوں کا تقاضا ھو “ ۔

میں نے یہ داستان امام جعفر صادق (ع)کے ارشادات کی قرآنی تائید و شاھد کے طور پر پیش کی ھے ۔

جائز تقلید

امام جعفر صادق (ع)ناجائز و مذموم تقلید کے متعلق وہ جملے (جنھیں نقل کیاجاچکا ھے )بیان کرنے کے بعد جائز و ممدوح تقلید کو ان لفظوں میں بیان فرماتے ھیں :”وامامن کان من الفقھاء صائنا لنفسہ حافظا لدینہ مخالفا علی ھواہ مطیعا لامرمولاہ فللعوام ان یقلدوہ “ اورفقھاء میںجواپنے نفس پر قابو رکھتا ھو ، شیطان کی دعوتیں اور آوازیں اس کے قدم ڈگمگانہ سکتی ھوں اپنے دین کی حفاظت کرتا ھو ،دین کا سودا نہ کرتا ھو ( شاید مراد یہ ھو کہ عوام اور معاشرہ میں دین کی حفاظت و بقا کا انتظام کرتا ھو ) نفسانی خواھشات کا مخالف اور الٰھی احکام کا مطیع و فرمانبردار ھو تو عوام ایسے شخص کی تقلید کر سکتے ھیں ۔

البتہ یہ نکتہ واضح ھے کہ نفسانی خواھشات کی مخالفت میں ایک عالم اور عام شخص کے درمیان فرق ھے ، کیونکہ ھر شخص کی خواھش نفس ، کچھ معین امور میں ھوتی ھے ۔ جو ان کی خواھش نفس الگ ھے اور بوڑھے کی خواھش نفس الگ ، ھر شخص جس منصب ، جس طبقہ ، جس سن میں ھو اسی کے مطابق خواھش نفس رکھتا ھے ایک عالم دین کی نفس پرستی کا معیار یہ نھیں ھے کہ وہ شراب پیتا ھے یا نھیں ؟ جوا کھیلتا ھے یا نھیں ؟ نماز و روزہ ترک کرتا ھے یا نھیں ؟ اس کی ھوا پرستی کا معیار ، عھدہ و منصب کی خواھش ، شھرت و محبوبیت سے لگاؤ ، اپنے آگے پیچھے لوگوں کے چلنے کی تمنا ، اپنا اقتدار مضبوط بنانے کے لئے بیت المال کا استعمال ،اپنے ساتھیوں ، عزیزو اقرباء خاص طور سے اپنے صاحبزادوں کو بیت المال وغیرہ میں خرد و برد کی کھلی چھوٹ اور اسی طرح کی دوسری چیزیں ھیں ۔

امام اس کے بعد فرماتے ھیں :”و ھم بعض فقھاء الشیعة لاجمیعھم “ یہ اعلیٰ و ارفع اوصاف و فضائل صرف بعض شیعہ فقھاء میں پائے جا سکتے ھیں تمام شیعہ فقھاء میں نھیں ۔

یہ حدیث اپنے آخری جملوں کے لحاظ سے مسئلہ اجتھاد و تقلید کی ایک دلیل ھے ۔

پس معلوم ھوا کہ اجتھاد و تقلید کی دو قسمیں ھیں ۔ جائز و ناجائز ۔

میت کی تقلید کیوں جائز نھیں ؟

ھماری فقہ کا ایک مسلم الثبوت مسئلہ یہ ھے کہ میت کی تقلید ابتداٴً جائز نھیں ھے ۔میت کی تقلید اگر جائز ھے تو صرف اس حد تک کہ جو شخص کسی مجتھد کی اس کی زندگی میں تقلید کر رھا تھا اس کی موت کے بعد اس کی تقلید پر باقی رہ سکتا ھے مردہ مجتھد کی تقلید پر باقی رھنے کے لئے بھی زندہ مجتھد کی اجازت ضروری ھے ۔ یہ ایک بنیادی نظر یہ ھے لیکن شرط یہ ھے کہ اس کا مقصد واضح ھو جائے ۔

اس نظریہ کا پھلا فائدہ یہ ھے کہ یہ دینی مدارس کی بقا اور اسلامی علوم کی حفاظت کا ذریعہ ھے ۔ نہ صرف یہ کہ اس طرح اسلامی علوم محفوظ رھیں بلکہ روز بہ روز اس میں اضافہ و ترقی ھوتی جائے گی اور لاینحل مشکلیں حل ھوں گی ۔

ایسا نھیں ھے کہ قدیم زمانہ میں ھماری تمام مشکلیں علماء کے ذریعہ حل ھو چکی ھوں اور اب کوئی مشکل باقی نہ رہ گئی ھو ،کلام تفسیر ، فقہ اور دوسرے اسلامی علوم میں ھزاروں معمے اور مشکلیں ھیں ۔ بھت سی مشکلیں ماضی میں عظیم علماء حل کر چکے ھیں اور بھت سی مشکلیں باقی ھیں اور یہ مستقبل کے علماء کی ذمہ داری ھے کہ وہ انھیں حل کریں اور تدریجی طور پر ھر موضوع میں مزید جامع اور بھتر کتابیں تحریر کریں اور اس سلسلہ کو آگے بڑھائیں ۔جس طرح ماضی میں علماء نے تدریجی طور پر تفسیر کو آگے بڑھایا ، فقہ کو آگے بڑھا یا ، کلام کو آگے بڑھایا ، یہ قافلہ رکنا نھیں چاھئے ۔ پس زندہ مجتھد وں کی تقلید اور ان کی طرف عوام کی توجہ ، اسلامی علوم کی بقاء و ارتقاء کا ایک ذریعہ ھے ۔

دوسرا سبب یہ ھے کہ مسلمان ھر روز اپنی زندگی میں نئے نئے مسائل سے دوچار ھوتے ھیں اور انھیں ان مسائل میں اپنی ذمہ داری کا علم نھیں ھوتا ۔لھذا ایسے زندہ فقیھوں اور زندہ افکار کی ضرورت ھے جو یہ عظیم احتیاج برطرف کر سکیں ۔ اجتھاد و تقلید سے متعلق ایک حدیث میں ھے :” و اما الحوادث الواقعة فارجعوا فیھا الی رواة احادیثنا “ (۴)۔ نئے واقعات میں ھماری حدیثوں کے راویوں کی طرف رجوع کروبعض مقامات پر ” احادیثنا “ کے بجائے ”حدیثنا “ ھے )” حوادث واقعہ “یھی نئے مسائل ھیں جو ھر صدی میں ھر دور میں اور ھر سال پیش آتے ھیں ۔ مختلف زمانوں مختلف صدیوں کی فقھی کتابوں کی چھان بین سے یہ پتہ چلتا ھے کہ لوگوں کی ضروریات کے مطابق تدریجی طورپر فقہ میں نئے مسائل داخل ھوئے ھیں ۔ اور فقھاء نے ان کا جواب دینے کی کوشش فرمائی ھے ۔ اسی لئے رفتہ رفتہ فقہ کی ضخامت بڑھتی گئی ھے ۔

اگر کوئی شخص تحقیقی نقطۂ نظر سے حساب لگائے تو سمجھا جا سکتا ھے کہ فلاں اور فلاں مسئلہ کس صدی میں ، کس علاقہ میں اور کس ضرورت کے تحت فقہ میں شامل ھوا ھے ۔ اگر زندہ مجتھد ان نئے مسائل کا جواب نہ دے تو پھر زندہ و مردہ مجتھد کی تقلید میں فرق ھی کیاھے ؟ ! بھتر ھے کہ ھم بعض مردہ مجتھدوں مثلاً شیخ انصاری کی ۔ جو خود زندہ مجتھدوں کے اعتراف کے مطابق سب سے زیادہ عالم و محقق تھے، تقلید کریں ۔

بنیادی طور پر اجتھاد کا فلسفہ ، کلی احکام کو جدید مسائل اور بدلتے ھوئے حادثات پر منطبق کرنے میں نھاں ھے ۔ واقعی مجتھد وھی ھے جو فلسفہ احکام حاصل کر سکے ۔ اسے معلوم ھو کہ موضوعات کس طرح بدلتے ھیں اور ساتھ ھی ساتھ ان کے احکام بھی بدل جاتے ھیں ۔ ورنہ پرانے اور تحقیق شدہ مسائل میں تحقیق کرنا اور کسی ” علی الاقویٰ “ کو ” علی الاحوط “ سے بدل دینا ” علی الاحوط “ کو” علی الاقویٰ “ میں تبدیل کر دینا تو کوئی ھنر نھیں ھے ۔ اس کے لئے اتنے ھنگامے کی ضرورت نھیں ھے ۔ البتہ اجتھاد کے لئے بھت سے شرائط و مقدمات کی ضرورت ھے ۔ مجتھد کو مختلف علوم کا ماھر ھونا چاھئے ۔ عربی ادب ، منطق ، اصول فقہ ، حتیٰ تاریخ اسلام اور تمام اسلامی فرقوں کی فقہ کا علم ھونا چاھئے اور پھر مدتوں مشق و تمرین کی ضرورت ھے تب کھیں ایک واقعی و جید فقیہ وجود میں آتا ھے فقط نحو ، صرف ، معانی ،بیان اور منطق کی چند کتابیں اور پھر فرائد ، مکاسب اور کفایہ جیسی سطح کی تین چار کتابیں پڑھ کر اور چند برس تک درس خارج میں شرکت کر کے کوئی اجتھاد کا دعویٰ نھیں کر سکتا ۔ ” وسائل “ و” جواھر “ سامنے رکہ کر فتوے صادرنھیں کر سکتا ۔ اسے تفسیر و حدیث یعنی حضرت رسول خدا  سے امام حسن عسکری (ع)تک کے ۲۵۰ سال پر محیط ادوار میں بیان ھونے والی ھزاروں حدیثوں نیز ان حدیثوں کے صادر ھونے والے ماحول یعنی تاریخ اسلام اور تمام اسلامی فرقوں کی فقہ نیز رجال اور راویوں کے طبقوں کا مکمل علم ھونا چاھئے ۔


فتووں میں فقیہ کے تصور کائنات کے اثرات

فقیہ اور مجتھد کا کام شرعی احکام کا استنباط و استخراج ھے ۔ لیکن موضوعات کے بارے میں اس کی معلومات اور کائنات کے متعلق اس کے تصورات کو اس کے فتووں میں بڑا دخل ھوتا ھے جن موضوعات کے متعلق فتویٰ صادر کر رھا ھے ضروری ھے کہ ان کے متعلق بھر پور معلومات رکھتا ھو اگر کسی ایسے فقیہ کو تصور کریں جو گھر یا مدرسہ میں گوشہ نشینی کی زندگی گزار رھا ھے اور اس کا موازنہ ایک ایسے فقیہ سے کریں جو زندگی کے مسائل میں دخیل ھے ۔ یہ دونوں فقیہ شرعی دلیلوں کی طرف رجوع کرتے ھیں لیکن دونوں کا استنباط اور فتویٰ الگ ھو گا ۔

مثال کے طور پر :” فرض کیجئے جس شخص نے تھران میں زندگی گزاری ھو یا تھران ھی جیسے کسی شھر میں زندگی بسر کی ھو جھاں آب کُر اور آب جاری کی فراوانی ھو ، نھریں اور کنویں موجود ھوں ۔ یہ شخص فقیہ بنے اور طھارت و نجاست کی روایتوں کا مطالعہ کرے تو اس کا استنباط ،احتیاط اور بھت سی چیزوں سے اجتناب کے ھمراہ ھو گا ۔ لیکن جب یھی شخص بیت اللہ الحرام کی زیارت کی غرض سے سفر کرے گا اور وھاں پر طھارت و نجاست کی صورت حال نیز پانی کی قلت سے دو چار ھو گا تو طھارت و نجاست کے سلسلہ میں اس کا نظریہ بدل جائے گا یعنی اس سفر کے بعد جب وہ طھارت و نجاست سے متعلق روایتوں کا جائزہ لے گا تو ان حدیثوں کا کچھ اور ھی مطلب اس کی سمجھ میں آئے گا ۔

اگر کوئی شخص فقھا کے فتووں کا آپس میں موازنہ کرے اور پھر ان کے حالات زندگی نیز زندگی کے مسائل میں ان کے طرز فکر کا جائزہ لے تو اس پر یہ حقیقت آشکار ھو جائے گی کہ ایک فقیہ کے ذھنی تصورات اور دنیا کے بارے میں اس کی معلومات کس قدر اس کے فتووں پر اثر انداز ھوتے ھیں یھاں تک کہ عرب فقیہ کے فتووں سے عربیت کی بو آتی ھے اور عجمی فقیہ کے فتووں سے عجمیت کی بو آتی ھے دیھاتی فقیہ کے فتووں سے دیھات کی جھلک دکھائی دیتی ھے اور شھری فقیہ کے فتووں میں شھری جلو ے نظر آتے ھیں ۔

یہ دین ، دین خاتم ھے ، کسی خاص علاقہ یا زمانہ سے مخصوص نھیں ھے بلکہ یہ ھر علاقہ اور ھر زمانے کے لئے ھے ۔ یہ وہ دین ھے جو زندگی کو منظم بنانے اور انسانی زندگی کو ارتقاء دینے آیا ھے پھر یہ کیسے ممکن ھے کہ کوئی فقیہ فطری نظاموں اور طبیعی حالات سے بے خبر اور زندگی کے رشد و ارتقاء کا منکر ھونے کے باوجود اس دین حنیف کے اعلیٰ و مترقی احکام کا صحیح طریقہ سے استنباط کر سکے جو انھی نظاموں کے لئے آیا ھے اور ان ھی تغیرات و تبدلات نیز رشد و ارتقاء کی ھدایت و رھنمائی اورا نھیں صحیح سمت پر لے جانے کا ضامن ھے ؟!

 ضرورتوں کا ادراک

آج بھی ھماری فقہ میں ایسے موارد موجود ھیں جھاں فقھا ء نے صرف کسی موضوع کی ضرورت و اھمیت کے ادراک کے پیش نظر پورے جزم و یقین کے ساتھ اس کے واجب ھونے کا فتویٰ دیا ھے ۔ یعنی با وجود یکہ اس موضوع کے متعلق کو ئی صریح واضح حدیث و آیت ھے نہ معتبراجماع لیکن فقھاء نے استنباط کے چوتھے رکن یعنی عقلی دلیل سے استفادہ کرتے ھوئے فتویٰ دیا ھے فقھا ایسے مقامات پر موضوع کی اھمیت اور روح سے واقفیت کے پیش نظر کہ اسلام اھم موضوعات کے احکام بیان کئے بغیر انھیں یوں ھی نھیں چھوڑدیتا، یقین کرتے ھیں کہ اس مقام پر الٰھی حکم ایسا ھونا چاھئے ۔ حاکم کی ولایت اور اس کے فروعات سے متعلق فقھا کے فتووں کی اساس یھی ھے ۔اگر انھیں موضوع کی اھمیت کا احساس نہ ھوا ھوتا تو یہ فتوے وجود میں نہ آتے۔ جس حد تک انھیں موضوع کی اھمیت کا احساس ھوا انھوں نے فتوے صادر کئے ایسی ھی دوسری نظریں بھی دریافت کی جا سکتی ھیں جھاں فتویٰ نہ دینے کی وجہ ، موضوع کی اھمیت و ضرورت سے بے خبری و لا علمی رھی ھے ۔

ایک اھم تجویز

یھاں ایک تجویز پیش کی جارھی ھے جو ھماری فقہ کے ارتقاء کے لئے بے حد مفید ھے ، یہ تجویزاس سے پھلے آیة اللہ حاج شیخ عبد الکریم یزدی اعلی اللہ مقامہ ( جو حوزہ علمیہ قم کے بانی ھیں) پیش کر چکے ھیں۔

 موصوف نے فرمایا تھا کہ یہ کیا ضروری ھے کہ عوام تمام مسائل میں ایک ھی شخص کی تقلید کریں بھتر یہ ھے کہ فقہ کے الگ الگ شعبہ قائم کر دئیے جائیں یعنی ھر گروہ فقہ کا ایک عمومی کورس پورا کرنے کے بعد کسی معین شعبہ میں مھارت حاصل کرے اور لوگ اس کی اسی شعبہ میں تقلید کریں جس میں اس نے مھارت حاصل کی ھے ۔ مثلاً بعض لوگ عبادات کو اپنے مھارت کے شعبہ کے طور پر اختیار کریں تو کچھ لوگ معاملات میں ،کچھ افراد سیاسیات میں اور کچھ اشخاص احکام میں ( احکام ، فقھی اصطلاح میں ) اجتھاد کریں جس طرح علم طب میں شعبے تقسیم کر دیئے گئے ھیں ھر ڈاکٹر طب کے ایک مخصوص شعبہ میں مھارت حاصل کرتا ھے کوئی دل کا ماھر ھے تو کوئی آنکہ کا ، کوئی کان کا ماھر ھے تو کوئی ناک کا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔اگر ایسا ھو جائے تو ھر شخص اپنے شعبہ میں زیادہ بھتر طریقہ سے تحقیق کر سکتا ھے ۔ میرے خیال میں جناب سید احمد زنجانی کی کتاب ” الکلام یجر الکلام “ میں یہ بات آیة اللہ حائری یزدی سے نقل ھوئی ھے ۔

یہ تجویز بھت اچھی تجویز ھے اور میں اس میں اتنا اور اضافہ کرتا ھوں کہ فقہ میں کام کی تقسیم اور فقاھت میں تخصصی شعبوں کی ایجاد ، تقریباً سو سال سے ایک ضرورت کی شکل اختیار کر چکی ھے اور موجودہ حالات میںاس دور کے فقھاء ، یا فقہ کے تکامل و ارتقاء کو روک دیںیا یہ تجویز مان لیں ۔

علوم میں شعبوں کی تقسیم

کیونکہ علوم میں کام کی تقسیم ، علوم کی ترقی کا نتیجہ بھی ھے اور علت بھی ۔ یعنی علوم تدریجی طور پر ترقی کرتے ھیں اور پھر اس منزل پر پھنچ جاتے ھیں کہ ان کے تمام مسائل میں تحقیق ایک شخص کے بس کی بات نھیں رہ جاتی لھذا اس کی تقسیم اور مختلف شعبے ایجاد کرنا ضروری ھو جاتا ھے ۔ پس کام کی تقسیم اور ایک علم کے تخصصی شعبوں کی ایجاد اس علم کی ترقی کا نتیجہ ھے ۔ دوسری طرف جب کام تقسیم ھو جاتا ھے اور تخصصی شعبے قائم ھو جاتے ھیں اور ساری توجہ اپنے اپنے مخصوص شعبوں پر متمرکز ھوجاتی ھے تو علم کی مزید ترقی ھوتی ھے ۔ دنیا کے تمام علوم ۔ طب ، ریاضیات ، قانون ، ادبیات اور فلسفہ میں تخصصی شعبے قائم ھو چکے ھیں ۔ اسی لئے ان علوم نے خوب ترقی بھی کی ھے ۔


فقہ کا ایک ھزار سالہ ارتقاء

ایک زمانہ تھا جب فقہ بھت محدود تھی ، شیخ طوسی ۺ سے پھلے کی فقھی کتابوں کا جب جائزہ لیتے ھیں تو وہ بھت ھی چھوٹی اور محدود نظر آتی ھیں۔ شیخ طوسی ۺ نے ”مبسوط “ نامی کتاب لکہ کر فقہ کو ایک نئے مرحلہ میں داخل کیا اور اسے وسعت دی ۔ اسی طرح ھر دور کے علماء و فقھا کی کوششوں اور نئے نئے مسائل کے شامل ھونے نیز جدید تحقیقات کے نتیجہ میں فقہ کی ضخامت بڑھتی گئی ۔ یھاں تک کہ سوسال قبل ، صاحب جواھر بڑی مشکلوں سے فقہ کا ایک مکمل دورہ لکھنے میں کامیاب ھو سکے ۔ کھتے ھیںکہ موصوف نے بیس سال کی عمر سے اس مھم کا آغاز کیا تھا اور اپنی غیر معمولی صلاحیت، پیھم کوشش اور طویل عمر کے نتیجہ میں زندگی کے آخری لمحات میں فقہ کا دورہ مکمل کرنے میں کامیاب ھوئے ۔ جواھر کا مکمل دورہ چہ بڑی اور بھت ھی ضخیم جلدوں میں چھپا ھے ۔( اب یہ کتاب ۴۴ جلدوں میں ( عام سائز میں ) چھپی ھے ) شیخ طوسی کی ”مبسوط “ جو اپنے زمانہ میں مشروح و مفصل فقہ کا نمونہ مانی جاتی تھی جواھر کی ایک جلد کے نصف کے برابر بھی نھیں ھے صاحب جواھر کے بعد ، شیخ مرتضیٰ انصاری اعلی اللہ مقامہ نے فقہ کی نئی بنیادیں قائم کیں جس کا نمونہ آپ کی کتاب مکاسب اور کتاب طھارت ھے آپ کے بعد کسی کے ذھن میں اتنی تفصیل و تحقیق کے ساتھ فقہ کا مکمل دورہ پڑھانے یا لکھنے کا تصور بھی نھیں آتا ۔

اس موجودہ دور میں اور دنیا کے تمام علوم کی طرح ھماری فقہ کی اس ترقی کے بعدکہ جو ماضی میں علماء و فقھا ء کی کوششوں کا نتیجہ ھے ،اس دور کے علماء و فقھا یاتو فقہ کی ترقی کو روک دیں اس کے ارتقاء کے راستے مسدود کرد یں یا اس سنجیدہ مترقی تجویز کومان کر تخصصی شعبے ایجاد کریں اور عوام بھی ایک شخص کی تقلید کرنے کے بجائے مختلف شعبوں میں الگ الگ مجتھد ین کی تقلید کریں جس طرح وہ اپنی جسمانی بیماریوں کے علاج کے لئے الگ الگ ماھرین کے پاس جاتے ھیں ۔

فقھی کونسل

 باوجودیکہ دنیا میں تمام علوم میں تخصصی شعبے قائم ھو چکے ھیں اور اس کے باعث حیرت انگیز ترقی ھوئی ھے لیکن اسی کے ساتھ ساتھ ایک اور کام ھوا ھے جس نے اپنی جگہ پر اس ترقی میں بھت اھم کردار ادا کیا ھے اور وہ ھر شعبہ کے صف اول کے ماھر وں کی امداد باھمی ، آپسی تعاون اور فکر و نظر کا تبادلہ ھے ۔ آج کی دنیا میں ایک شخص کے فردی فکر و عمل کی کوئی قیمت نھیں ۔ اکیلا انسان کچھ نھیں کر سکتا ۔ ھر شعبہ کے ماھرین ایک دوسرے سے تبادلہ خیال کرتے رھتے ھیں اپنے افکار دوسروں کے سامنے پیش کرتے ھیں ۔ یھاں تک کہ ایک برّ اعظم کے دانشور دوسرے برّاعظم کے دانشوروں سے تعاون کرتے ھیں چنانچہ صف اول کے ماھروں کے درمیان اس تبادلہ خیال اور باھمی تعاون کے نتیجہ میں اگر کوئی صحیح و مفید نظر یہ سامنے آتا ھے تو وہ دنیا میں جلدھی پھیل جاتا ھے اور اپنی جگہ بنا لیتا ھے ۔ اور اگر کوئی غلط نظریہ ھوتا ھے تو اس کا بطلان جلد از جلد واضح ھو جاتا ھے اور وہ نظریہ دم توڑ دیتا ھے اس نظریہ پرداز کے شاگرد برسوں غلط فھمی میں پڑے نھیں رھتے ۔

لیکن افسوس کی بات یہ ھے کہ ھمارے یھاں ابھی تک کام کی تقسیم ھوئی ھے اور نہ تخصصی شعبے قائم ھوئے ھیں اور نہ آپس میں کسی قسم کا تعاون و تبادلہ خیال ھوتا ھے ۔ قرآن مجید کے سورہ شوریٰ آیت ۳۸ میں ھے ۔” و الذین استجابوا لربھم واقاموا الصلوٰة و امرھم شوریٰ بینھم و مما رزقناھم ینفقون “

یہ آیت مومنوں اور اسلام کے پیروؤں کے اوصاف ان لفظوں میں بیان کرتی ھے : یہ لوگ ، حق کی دعوت قبول کرتے ھیں ، نماز پڑھتے ھیں اپنے کام باھمی ھم فکری اور رائے مشورے سے انجام دیتے ھیں اور جو کچھ ھم نے انھیں عنایت کیا ھے اس میں سے انفاق کرتے ھیں ۔

پس اسلامی نقطۂ نظر سے تبادلہ خیال اور ھم فکری مومنوں اور اسلام کے پیروٴوں کی زندگی کے اصول میں شامل ھے ۔

نھج البلاغہ میں ھے :

” و اعلموا ان عباد اللہ المستحفظین علیہ یصونون مصونہ و یفجرون عیونہ ، یتواصلون بالولایة ، و یتلاقون بالمحبہ ، و یتساقون بکاٴس رویة و یصدرون بریة “

جان لو! خدا کے جن بندوں کو الٰھی علم سپرد کیا گیا ھے وہ اس کی حفاظت کرتے ھیں ، اس کے چشموں کو جاری کرتے ھیں ۔ یعنی علم کے چشموں سے لوگوں کی سیراب کرتے ھیں آپس میں محبت آمیز عواطف اور دوستی کا رشتہ قائم کرتے ھیں ، کشادہ روئی، محبت اور گرم جوشی سے ایک دوسرے سے ملتے ھیں ، ایک دوسرے کو اپنی فکر و علم کے جام سے سیراب کرتے ھیں اپنے نظریات سے ایک دوسرے کو مستفید کرتے ھیں نتیجہ میں سب کے سب سیراب ھو کر باھر آتے ھیں ۔

اگر فقاھت کی علمی کونسل قائم ھو جائے اور تبادلۂ خیال کا عمل باقاعدہ طور سے انجام پائے تو فقہ میں رونما ھونے والی ترقی کے علاوہ فتوؤں کا اختلاف بھی کافی حد تک بر طرف ھو جائے گا ۔

اگر ھمارا دعویٰ یہ ھے کہ ھماری فقہ بھی دنیا کے واقعی علوم کا ایک حصہ ھے تو ھمیں بھی ان اسلوبوں سے استفادہ کرنا پڑے گا جن سے دوسرے علوم میں فائدہ اٹھایا جا رھا ھے اگر ھم ان اسلوبوں کو کام میں نہ لائیں تو اس کامطلب یہ ھے کہ ھماری فقہ ، علوم کی صف سے خارج ھے ۔

” فلولا نفر من کل فرقة منھم طائفة لیتفقھوا فی الدین و لینذر وا قومھم اذا رجعوا الیھم لعلھم یحذرون “

یہ آیت واضح لفظوں میں حکم دے رھی ھے کہ کچھ مسلمانوں کو دین میں ” تفقہ “ کر کے دوسروں کو اپنے ” تفقہ “ سے بھرہ مند کرنا چاھئے ۔

” تفقہ “ ” فقہ “‘ سے بنا ھے ۔ فقہ کا معنیٰ صرف سمجھنا ھی نھیں ھے بلکہ گھرائی اور ایک شئی کی حقیقت کے متعلق بھر پور بصیرت کے ساتھ سمجھنے کو فقہ کھتے ھیں ۔ راغب اصفھانی اپنی کتاب مفردات میں کھتے ھیں :

” الفقہ ھو التوصل الی علم غائب بعلم شاھد “

یعنی فقہ ظاھر و آشکار امر کے ذریعہ ،کسی مخفی و پوشیدہ حقیقت کے انکشاف کا نام ھے ۔ تفقہ کی تعریف میں کھتے ھیں :” تفقہ اذا طلبہ فتخصص بہ “ یعنی کسی چیز کو تلاش کیا اور اس میں مھارت حاصل کر لی “

یہ آیت مسلمانوں سے کھتی ھے کہ دین کی معرفت سطحی نھیں ھونی چاھئے بلکہ گھرائی میں اتر کر غور و فکر کریں اور احکام کی روح و فلسفہ کو سمجھنے کی کوشش کریں ۔

یہ آیت اجتھاد و فقاھت کی دلیل ھے اور یھی آیت ھماری تجویزوں کی سند ھے جس طرح اس آیت کی روشنی میں ، اسلام میں تفقہ و اجتھاد کی بساط بچھائی گئی اسی طرح اس آیت کے فرمان کے مطابق اس کی بساط میں مزید وسعت دی جائے، ضرورتوں پر مزید توجہ دی جائے ، فقھی کونسل میدان عمل میں قدم رکھے ، اجتماع سے کٹ کر انفرادی اقدامات منسوخ قرار دے دیئے جائیں ۔ تخصصی شعبے قائم کئے جائیں تاکہ ھماری فقہ اپنا ارتقائی سفر جاری رکہ سکے ۔

 

حوالے:

۱۔کافی ج/۱ ،کتا ب العلم : قرآن و سنت کی طرف رجوع کرنے کا باب اور یہ کہ ھر حلال و حرام اور عوام کے ضرور۹یات قرآن سنت میں موجود ھیں۔

۲۔زخرف/۲۳۔

۳۔بقرہ/ ۷۸۔

۴۔ احتجاج طبرسی ج ۲ ص ۲۸۳۔

Add comment


Security code
Refresh