www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

فقہ کا ایک ھزار سالہ ارتقاء

ایک زمانہ تھا جب فقہ بھت محدود تھی ، شیخ طوسی ۺ سے پھلے کی فقھی کتابوں کا جب جائزہ لیتے ھیں تو وہ بھت ھی چھوٹی اور محدود نظر آتی ھیں۔ شیخ طوسی ۺ نے ”مبسوط “ نامی کتاب لکہ کر فقہ کو ایک نئے مرحلہ میں داخل کیا اور اسے وسعت دی ۔ اسی طرح ھر دور کے علماء و فقھا کی کوششوں اور نئے نئے مسائل کے شامل ھونے نیز جدید تحقیقات کے نتیجہ میں فقہ کی ضخامت بڑھتی گئی ۔ یھاں تک کہ سوسال قبل ، صاحب جواھر بڑی مشکلوں سے فقہ کا ایک مکمل دورہ لکھنے میں کامیاب ھو سکے ۔ کھتے ھیںکہ موصوف نے بیس سال کی عمر سے اس مھم کا آغاز کیا تھا اور اپنی غیر معمولی صلاحیت، پیھم کوشش اور طویل عمر کے نتیجہ میں زندگی کے آخری لمحات میں فقہ کا دورہ مکمل کرنے میں کامیاب ھوئے ۔ جواھر کا مکمل دورہ چہ بڑی اور بھت ھی ضخیم جلدوں میں چھپا ھے ۔( اب یہ کتاب ۴۴ جلدوں میں ( عام سائز میں ) چھپی ھے ) شیخ طوسی کی ”مبسوط “ جو اپنے زمانہ میں مشروح و مفصل فقہ کا نمونہ مانی جاتی تھی جواھر کی ایک جلد کے نصف کے برابر بھی نھیں ھے صاحب جواھر کے بعد ، شیخ مرتضیٰ انصاری اعلی اللہ مقامہ نے فقہ کی نئی بنیادیں قائم کیں جس کا نمونہ آپ کی کتاب مکاسب اور کتاب طھارت ھے آپ کے بعد کسی کے ذھن میں اتنی تفصیل و تحقیق کے ساتھ فقہ کا مکمل دورہ پڑھانے یا لکھنے کا تصور بھی نھیں آتا ۔

اس موجودہ دور میں اور دنیا کے تمام علوم کی طرح ھماری فقہ کی اس ترقی کے بعدکہ جو ماضی میں علماء و فقھا ء کی کوششوں کا نتیجہ ھے ،اس دور کے علماء و فقھا یاتو فقہ کی ترقی کو روک دیں اس کے ارتقاء کے راستے مسدود کرد یں یا اس سنجیدہ مترقی تجویز کومان کر تخصصی شعبے ایجاد کریں اور عوام بھی ایک شخص کی تقلید کرنے کے بجائے مختلف شعبوں میں الگ الگ مجتھد ین کی تقلید کریں جس طرح وہ اپنی جسمانی بیماریوں کے علاج کے لئے الگ الگ ماھرین کے پاس جاتے ھیں ۔

فقھی کونسل

 باوجودیکہ دنیا میں تمام علوم میں تخصصی شعبے قائم ھو چکے ھیں اور اس کے باعث حیرت انگیز ترقی ھوئی ھے لیکن اسی کے ساتھ ساتھ ایک اور کام ھوا ھے جس نے اپنی جگہ پر اس ترقی میں بھت اھم کردار ادا کیا ھے اور وہ ھر شعبہ کے صف اول کے ماھر وں کی امداد باھمی ، آپسی تعاون اور فکر و نظر کا تبادلہ ھے ۔ آج کی دنیا میں ایک شخص کے فردی فکر و عمل کی کوئی قیمت نھیں ۔ اکیلا انسان کچھ نھیں کر سکتا ۔ ھر شعبہ کے ماھرین ایک دوسرے سے تبادلہ خیال کرتے رھتے ھیں اپنے افکار دوسروں کے سامنے پیش کرتے ھیں ۔ یھاں تک کہ ایک برّ اعظم کے دانشور دوسرے برّاعظم کے دانشوروں سے تعاون کرتے ھیں چنانچہ صف اول کے ماھروں کے درمیان اس تبادلہ خیال اور باھمی تعاون کے نتیجہ میں اگر کوئی صحیح و مفید نظر یہ سامنے آتا ھے تو وہ دنیا میں جلدھی پھیل جاتا ھے اور اپنی جگہ بنا لیتا ھے ۔ اور اگر کوئی غلط نظریہ ھوتا ھے تو اس کا بطلان جلد از جلد واضح ھو جاتا ھے اور وہ نظریہ دم توڑ دیتا ھے اس نظریہ پرداز کے شاگرد برسوں غلط فھمی میں پڑے نھیں رھتے ۔

لیکن افسوس کی بات یہ ھے کہ ھمارے یھاں ابھی تک کام کی تقسیم ھوئی ھے اور نہ تخصصی شعبے قائم ھوئے ھیں اور نہ آپس میں کسی قسم کا تعاون و تبادلہ خیال ھوتا ھے ۔ قرآن مجید کے سورہ شوریٰ آیت ۳۸ میں ھے ۔” و الذین استجابوا لربھم واقاموا الصلوٰة و امرھم شوریٰ بینھم و مما رزقناھم ینفقون “

یہ آیت مومنوں اور اسلام کے پیروؤں کے اوصاف ان لفظوں میں بیان کرتی ھے : یہ لوگ ، حق کی دعوت قبول کرتے ھیں ، نماز پڑھتے ھیں اپنے کام باھمی ھم فکری اور رائے مشورے سے انجام دیتے ھیں اور جو کچھ ھم نے انھیں عنایت کیا ھے اس میں سے انفاق کرتے ھیں ۔

پس اسلامی نقطۂ نظر سے تبادلہ خیال اور ھم فکری مومنوں اور اسلام کے پیروٴوں کی زندگی کے اصول میں شامل ھے ۔

نھج البلاغہ میں ھے :

” و اعلموا ان عباد اللہ المستحفظین علیہ یصونون مصونہ و یفجرون عیونہ ، یتواصلون بالولایة ، و یتلاقون بالمحبہ ، و یتساقون بکاٴس رویة و یصدرون بریة “

جان لو! خدا کے جن بندوں کو الٰھی علم سپرد کیا گیا ھے وہ اس کی حفاظت کرتے ھیں ، اس کے چشموں کو جاری کرتے ھیں ۔ یعنی علم کے چشموں سے لوگوں کی سیراب کرتے ھیں آپس میں محبت آمیز عواطف اور دوستی کا رشتہ قائم کرتے ھیں ، کشادہ روئی، محبت اور گرم جوشی سے ایک دوسرے سے ملتے ھیں ، ایک دوسرے کو اپنی فکر و علم کے جام سے سیراب کرتے ھیں اپنے نظریات سے ایک دوسرے کو مستفید کرتے ھیں نتیجہ میں سب کے سب سیراب ھو کر باھر آتے ھیں ۔

اگر فقاھت کی علمی کونسل قائم ھو جائے اور تبادلۂ خیال کا عمل باقاعدہ طور سے انجام پائے تو فقہ میں رونما ھونے والی ترقی کے علاوہ فتوؤں کا اختلاف بھی کافی حد تک بر طرف ھو جائے گا ۔

اگر ھمارا دعویٰ یہ ھے کہ ھماری فقہ بھی دنیا کے واقعی علوم کا ایک حصہ ھے تو ھمیں بھی ان اسلوبوں سے استفادہ کرنا پڑے گا جن سے دوسرے علوم میں فائدہ اٹھایا جا رھا ھے اگر ھم ان اسلوبوں کو کام میں نہ لائیں تو اس کامطلب یہ ھے کہ ھماری فقہ ، علوم کی صف سے خارج ھے ۔

” فلولا نفر من کل فرقة منھم طائفة لیتفقھوا فی الدین و لینذر وا قومھم اذا رجعوا الیھم لعلھم یحذرون “

یہ آیت واضح لفظوں میں حکم دے رھی ھے کہ کچھ مسلمانوں کو دین میں ” تفقہ “ کر کے دوسروں کو اپنے ” تفقہ “ سے بھرہ مند کرنا چاھئے ۔

” تفقہ “ ” فقہ “‘ سے بنا ھے ۔ فقہ کا معنیٰ صرف سمجھنا ھی نھیں ھے بلکہ گھرائی اور ایک شئی کی حقیقت کے متعلق بھر پور بصیرت کے ساتھ سمجھنے کو فقہ کھتے ھیں ۔ راغب اصفھانی اپنی کتاب مفردات میں کھتے ھیں :

” الفقہ ھو التوصل الی علم غائب بعلم شاھد “

یعنی فقہ ظاھر و آشکار امر کے ذریعہ ،کسی مخفی و پوشیدہ حقیقت کے انکشاف کا نام ھے ۔ تفقہ کی تعریف میں کھتے ھیں :” تفقہ اذا طلبہ فتخصص بہ “ یعنی کسی چیز کو تلاش کیا اور اس میں مھارت حاصل کر لی “

یہ آیت مسلمانوں سے کھتی ھے کہ دین کی معرفت سطحی نھیں ھونی چاھئے بلکہ گھرائی میں اتر کر غور و فکر کریں اور احکام کی روح و فلسفہ کو سمجھنے کی کوشش کریں ۔

یہ آیت اجتھاد و فقاھت کی دلیل ھے اور یھی آیت ھماری تجویزوں کی سند ھے جس طرح اس آیت کی روشنی میں ، اسلام میں تفقہ و اجتھاد کی بساط بچھائی گئی اسی طرح اس آیت کے فرمان کے مطابق اس کی بساط میں مزید وسعت دی جائے، ضرورتوں پر مزید توجہ دی جائے ، فقھی کونسل میدان عمل میں قدم رکھے ، اجتماع سے کٹ کر انفرادی اقدامات منسوخ قرار دے دیئے جائیں ۔ تخصصی شعبے قائم کئے جائیں تاکہ ھماری فقہ اپنا ارتقائی سفر جاری رکہ سکے ۔

 

حوالے:

۱۔کافی ج/۱ ،کتا ب العلم : قرآن و سنت کی طرف رجوع کرنے کا باب اور یہ کہ ھر حلال و حرام اور عوام کے ضرور۹یات قرآن سنت میں موجود ھیں۔

۲۔زخرف/۲۳۔

۳۔بقرہ/ ۷۸۔

۴۔ احتجاج طبرسی ج ۲ ص ۲۸۳۔

Add comment


Security code
Refresh