www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

فتووں میں فقیہ کے تصور کائنات کے اثرات

فقیہ اور مجتھد کا کام شرعی احکام کا استنباط و استخراج ھے ۔ لیکن موضوعات کے بارے میں اس کی معلومات اور کائنات کے متعلق اس کے تصورات کو اس کے فتووں میں بڑا دخل ھوتا ھے جن موضوعات کے متعلق فتویٰ صادر کر رھا ھے ضروری ھے کہ ان کے متعلق بھر پور معلومات رکھتا ھو اگر کسی ایسے فقیہ کو تصور کریں جو گھر یا مدرسہ میں گوشہ نشینی کی زندگی گزار رھا ھے اور اس کا موازنہ ایک ایسے فقیہ سے کریں جو زندگی کے مسائل میں دخیل ھے ۔ یہ دونوں فقیہ شرعی دلیلوں کی طرف رجوع کرتے ھیں لیکن دونوں کا استنباط اور فتویٰ الگ ھو گا ۔

مثال کے طور پر :” فرض کیجئے جس شخص نے تھران میں زندگی گزاری ھو یا تھران ھی جیسے کسی شھر میں زندگی بسر کی ھو جھاں آب کُر اور آب جاری کی فراوانی ھو ، نھریں اور کنویں موجود ھوں ۔ یہ شخص فقیہ بنے اور طھارت و نجاست کی روایتوں کا مطالعہ کرے تو اس کا استنباط ،احتیاط اور بھت سی چیزوں سے اجتناب کے ھمراہ ھو گا ۔ لیکن جب یھی شخص بیت اللہ الحرام کی زیارت کی غرض سے سفر کرے گا اور وھاں پر طھارت و نجاست کی صورت حال نیز پانی کی قلت سے دو چار ھو گا تو طھارت و نجاست کے سلسلہ میں اس کا نظریہ بدل جائے گا یعنی اس سفر کے بعد جب وہ طھارت و نجاست سے متعلق روایتوں کا جائزہ لے گا تو ان حدیثوں کا کچھ اور ھی مطلب اس کی سمجھ میں آئے گا ۔

اگر کوئی شخص فقھا کے فتووں کا آپس میں موازنہ کرے اور پھر ان کے حالات زندگی نیز زندگی کے مسائل میں ان کے طرز فکر کا جائزہ لے تو اس پر یہ حقیقت آشکار ھو جائے گی کہ ایک فقیہ کے ذھنی تصورات اور دنیا کے بارے میں اس کی معلومات کس قدر اس کے فتووں پر اثر انداز ھوتے ھیں یھاں تک کہ عرب فقیہ کے فتووں سے عربیت کی بو آتی ھے اور عجمی فقیہ کے فتووں سے عجمیت کی بو آتی ھے دیھاتی فقیہ کے فتووں سے دیھات کی جھلک دکھائی دیتی ھے اور شھری فقیہ کے فتووں میں شھری جلو ے نظر آتے ھیں ۔

یہ دین ، دین خاتم ھے ، کسی خاص علاقہ یا زمانہ سے مخصوص نھیں ھے بلکہ یہ ھر علاقہ اور ھر زمانے کے لئے ھے ۔ یہ وہ دین ھے جو زندگی کو منظم بنانے اور انسانی زندگی کو ارتقاء دینے آیا ھے پھر یہ کیسے ممکن ھے کہ کوئی فقیہ فطری نظاموں اور طبیعی حالات سے بے خبر اور زندگی کے رشد و ارتقاء کا منکر ھونے کے باوجود اس دین حنیف کے اعلیٰ و مترقی احکام کا صحیح طریقہ سے استنباط کر سکے جو انھی نظاموں کے لئے آیا ھے اور ان ھی تغیرات و تبدلات نیز رشد و ارتقاء کی ھدایت و رھنمائی اورا نھیں صحیح سمت پر لے جانے کا ضامن ھے ؟!

 ضرورتوں کا ادراک

آج بھی ھماری فقہ میں ایسے موارد موجود ھیں جھاں فقھا ء نے صرف کسی موضوع کی ضرورت و اھمیت کے ادراک کے پیش نظر پورے جزم و یقین کے ساتھ اس کے واجب ھونے کا فتویٰ دیا ھے ۔ یعنی با وجود یکہ اس موضوع کے متعلق کو ئی صریح واضح حدیث و آیت ھے نہ معتبراجماع لیکن فقھاء نے استنباط کے چوتھے رکن یعنی عقلی دلیل سے استفادہ کرتے ھوئے فتویٰ دیا ھے فقھا ایسے مقامات پر موضوع کی اھمیت اور روح سے واقفیت کے پیش نظر کہ اسلام اھم موضوعات کے احکام بیان کئے بغیر انھیں یوں ھی نھیں چھوڑدیتا، یقین کرتے ھیں کہ اس مقام پر الٰھی حکم ایسا ھونا چاھئے ۔ حاکم کی ولایت اور اس کے فروعات سے متعلق فقھا کے فتووں کی اساس یھی ھے ۔اگر انھیں موضوع کی اھمیت کا احساس نہ ھوا ھوتا تو یہ فتوے وجود میں نہ آتے۔ جس حد تک انھیں موضوع کی اھمیت کا احساس ھوا انھوں نے فتوے صادر کئے ایسی ھی دوسری نظریں بھی دریافت کی جا سکتی ھیں جھاں فتویٰ نہ دینے کی وجہ ، موضوع کی اھمیت و ضرورت سے بے خبری و لا علمی رھی ھے ۔

ایک اھم تجویز

یھاں ایک تجویز پیش کی جارھی ھے جو ھماری فقہ کے ارتقاء کے لئے بے حد مفید ھے ، یہ تجویزاس سے پھلے آیة اللہ حاج شیخ عبد الکریم یزدی اعلی اللہ مقامہ ( جو حوزہ علمیہ قم کے بانی ھیں) پیش کر چکے ھیں۔

 موصوف نے فرمایا تھا کہ یہ کیا ضروری ھے کہ عوام تمام مسائل میں ایک ھی شخص کی تقلید کریں بھتر یہ ھے کہ فقہ کے الگ الگ شعبہ قائم کر دئیے جائیں یعنی ھر گروہ فقہ کا ایک عمومی کورس پورا کرنے کے بعد کسی معین شعبہ میں مھارت حاصل کرے اور لوگ اس کی اسی شعبہ میں تقلید کریں جس میں اس نے مھارت حاصل کی ھے ۔ مثلاً بعض لوگ عبادات کو اپنے مھارت کے شعبہ کے طور پر اختیار کریں تو کچھ لوگ معاملات میں ،کچھ افراد سیاسیات میں اور کچھ اشخاص احکام میں ( احکام ، فقھی اصطلاح میں ) اجتھاد کریں جس طرح علم طب میں شعبے تقسیم کر دیئے گئے ھیں ھر ڈاکٹر طب کے ایک مخصوص شعبہ میں مھارت حاصل کرتا ھے کوئی دل کا ماھر ھے تو کوئی آنکہ کا ، کوئی کان کا ماھر ھے تو کوئی ناک کا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔اگر ایسا ھو جائے تو ھر شخص اپنے شعبہ میں زیادہ بھتر طریقہ سے تحقیق کر سکتا ھے ۔ میرے خیال میں جناب سید احمد زنجانی کی کتاب ” الکلام یجر الکلام “ میں یہ بات آیة اللہ حائری یزدی سے نقل ھوئی ھے ۔

یہ تجویز بھت اچھی تجویز ھے اور میں اس میں اتنا اور اضافہ کرتا ھوں کہ فقہ میں کام کی تقسیم اور فقاھت میں تخصصی شعبوں کی ایجاد ، تقریباً سو سال سے ایک ضرورت کی شکل اختیار کر چکی ھے اور موجودہ حالات میںاس دور کے فقھاء ، یا فقہ کے تکامل و ارتقاء کو روک دیںیا یہ تجویز مان لیں ۔

علوم میں شعبوں کی تقسیم

کیونکہ علوم میں کام کی تقسیم ، علوم کی ترقی کا نتیجہ بھی ھے اور علت بھی ۔ یعنی علوم تدریجی طور پر ترقی کرتے ھیں اور پھر اس منزل پر پھنچ جاتے ھیں کہ ان کے تمام مسائل میں تحقیق ایک شخص کے بس کی بات نھیں رہ جاتی لھذا اس کی تقسیم اور مختلف شعبے ایجاد کرنا ضروری ھو جاتا ھے ۔ پس کام کی تقسیم اور ایک علم کے تخصصی شعبوں کی ایجاد اس علم کی ترقی کا نتیجہ ھے ۔ دوسری طرف جب کام تقسیم ھو جاتا ھے اور تخصصی شعبے قائم ھو جاتے ھیں اور ساری توجہ اپنے اپنے مخصوص شعبوں پر متمرکز ھوجاتی ھے تو علم کی مزید ترقی ھوتی ھے ۔ دنیا کے تمام علوم ۔ طب ، ریاضیات ، قانون ، ادبیات اور فلسفہ میں تخصصی شعبے قائم ھو چکے ھیں ۔ اسی لئے ان علوم نے خوب ترقی بھی کی ھے ۔

Add comment


Security code
Refresh