www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

علماء کی کُرّیت اور عصمت کا جاھلانہ نظریہ

بعض افراد یہ خیال کرتے ھیں کہ گناہ کی تاثیر ھر شخص میں یکساں نھیں ھے عام لوگوں پر گناہ اثر انداز ھوتا ھے اور ان کی عدالت و تقویٰ زائل کر دیتا ھے لیکن علماء پر وہ کار گر ثابت نھیں ھوتا وہ ایک قسم کی ” کریت “ اور ایک طرح کی عصمت کے مالک ھیں ۔ جو فرق آب قلیل و آب کثیر میں ھے ( وھی فرق عوام اور علماء میں ھے ) کہ اگر آب کثیر ایک کُر کے برابر ھو تو وہ نجاست کے مل جانے سے نجس نھیں ھوتا ۔ نجاست اس پر اثر انداز نھیں ھوتی ۔ جبکہ اسلام ، کسی کے لئے کریت و عصمت کا قائل نھیں ھے ۔ یھاں تک کہ خود پیغمبر اکرم  کے لئے بھی ۔ قرآن مجیدیوں کھتا ھے :” قل انی اخاف ان عصیت ربی عذاب یوم عظیم “ اے پیغمبر ! کھدو کہ اگر میں بھی گناہ کروں تو مجھے بھی یوم عظیم کا خوف ھے کیونکہ ارشاد ھوتا ھے :” لئن اشرکت لیحبطن عملک “ اگر آپ کے عمل میں شرک کا شائبہ آجائے تو آپ کا عمل رائگا ںچلا جائے گا ۔ یہ سب ھمیں بتانے کے لئے ھے کہ یھاں کسی قسم کا امتیاز نھیں ھے ۔ کسی کو کریت و اعتصام حاصل نھیں ھے ( کہ چاھئے جتنا گناہ کرتے جائیں ان کی عدالت و تقویٰ پر حرف نھیں آئے گا ) ۔

قرآن مجید میں موسیٰ و عبد صالح کی جود استان بیان ھوئی ھے وہ بڑی عجیب داستان ھے ۔اس داستان سے ایک عظیم درس یہ ملتا ھے کہ تابع و پیرو صرف اسی وقت تک پیشوا و رھنما کی اطاعت اور اس کے سامنے سر تسلیم خم کر سکتا ھے جب تک وہ پیشوا قانون کی خلاف ورزی نہ کرے اصول نہ توڑے۔برائی کی طرف مائل نہ ھو ۔ اگر پیشوا اصول و قوانین کے خلاف اقدام کرے تو یھاں خاموشی ھرگز جائز نھیں ھے ۔ اگرچہ اس داستان میں عبد صالح کے اقدامات خود ان کی نظر میں ، ایک وسیع ترافق پر نظر رکھنے اورموضوع کے باطنی پھلو کی جانب توجہ کرنے کے باعث اصول و قوانین کے خلاف نہ تھے ۔بلکہ فریضہ و ذمہ داری کے عین مطابق تھے لیکن نکتہ یہ ھے کہ موسیٰ نے صبر کیوں نھیں کیا ، اعتراض کیوں کر بیٹھے باوجودیکہ وہ وعدہ کرتے تھے اور خود کو تلقین کرتے تھے کہ اعتراض نھیں کریں گے لیکن پھر بھی اعتراض کر بیٹھتے تھے ۔ موسیٰ کا کمزور پھلو ان کا اعتراض کرنا نھیں تھا بلکہ موضوع کی حقیقت اور اس کے باطن سے نا واقفیت تھی اگر انھیں حقیقت کا علم ھوتا تو وہ اعتراض نہ کرتے اور وہ حقیقت کو جاننا بھی چاہ رھے تھے لیکن جب تک وہ ان اقدامات کو الٰھی اصول و قوانین کے بر خلاف تصور کررھے تھے ان کا ایمان انھیں خاموش رھنے کی اجازت نھیں دے رھا تھا ۔ بعض کا کھنا ھے کہ اگر قیامت تک عبد صالح کے اقدامات جاری رھتے تو موسیٰ بھی اعتراض و تنقید سے باز نہ آتے مگر یہ کہ حقیقت موضوع سے باخبر ھو جاتے ۔

موسیٰ ان سے کھتے ھیں : ”ھل تبعک علی ان تعلمن مما علمت رشدا “کیا آپ مجھے اجازت دیں گے کہ میں آپ کی پیروی کروں تاکہ آپ مجھے تعلیم دیں ۔ عبد صالح کھتے ھیں ”لن تستطیع معی صبراً“ تم میری مصاحبت برداشت نھیں کرسکتے اور جو کچھ دیکھو گے اس کے متعلق خاموش نھیں رہ سکتے ، اس کے بعد خود ھی اس کی وجہ بتا دیتے ھیں :” و کیف تصبر علی ما لم تحط بہ خبرا ؟“ جب تک کوئی بظاھر غلط کام ھوتا دیکھو گے اور اس کی حقیقت و راز سے بھی واقف نہ ھو گے تو کیسے خاموش رہ سکتے ھو ؟! موسیٰ نے کھا ”ستجدنی انشاء اللہ صابرا و لا اعصی لک امراً “ انشاء اللہ آپ مجھے صابر پائیں گے اور آپ کی نا فرمانی نھیں کروں گا ۔ موسیٰ نے یہ نھیں کھا کہ راز کا پتہ ھو یا نہ ھو میں صبر کروں گا ۔ بلکہ صرف اتنا کھا کہ مجھے امید ھے کہ یہ صبر و تحمل مجھ میں پیدا ھو جائے ۔ البتہ موسیٰ میں یہ تحمل اس وقت پیدا ھو گا جب وہ ان اقدامات کے راز سے واقف ھو جائیں گے اس کے بعد عبد صالح نے موسیٰ سے مزید واضح اور پکا وعدہ لینا چاھا کہ راز معلوم ھو یا نہ ھو وہ اعتراض نہ کریں یھاں تک کہ وقت آنے پر میں خود اس کی وضاحت کروں :” قال فان اتبعتنی فلا تسئلنی عن شئی حتیٰ احدث لک منہ ذکراً“ یعنی اگر میرے ساتھ آنا چاھتے ھو تو سب کچھ دیکہ کر بھی چپ رھنا ھو گا ۔ بعد میں میں خود توضیح دوںگا یھاں اب اس کے بعد آیت میں یہ نھیں ھے کہ موسیٰ نے یہ شرط مان لی ۔ آیت میں بس اتنا ھی ھے کہ اس کے بعد وہ لوگ چل پڑے اوروہ سارے واقعات پیش آئے جنھیں آپ بارھا سن چکے ھیں ۔

بھر حال یہ بتانامقصود تھا کہ جاھل عالم کی تقلید کرنا سر سپردگی نھیں ھے ۔ نا جائز تقلید وھی ھے جو سر سپردگی کی شکل میں ھو اور یہ صورت اختیار کر لے کہ ” جاھل کو عالم سے بحث کرنے کا حق نھیں ھے ۔ یہ باتیں ھماری سمجھ سے ما فوق ھیں شاید یہ سب کچھ شرعی ذمہ داریوں کا تقاضا ھو “ ۔

میں نے یہ داستان امام جعفر صادق (ع)کے ارشادات کی قرآنی تائید و شاھد کے طور پر پیش کی ھے ۔

جائز تقلید

امام جعفر صادق (ع)ناجائز و مذموم تقلید کے متعلق وہ جملے (جنھیں نقل کیاجاچکا ھے )بیان کرنے کے بعد جائز و ممدوح تقلید کو ان لفظوں میں بیان فرماتے ھیں :”وامامن کان من الفقھاء صائنا لنفسہ حافظا لدینہ مخالفا علی ھواہ مطیعا لامرمولاہ فللعوام ان یقلدوہ “ اورفقھاء میںجواپنے نفس پر قابو رکھتا ھو ، شیطان کی دعوتیں اور آوازیں اس کے قدم ڈگمگانہ سکتی ھوں اپنے دین کی حفاظت کرتا ھو ،دین کا سودا نہ کرتا ھو ( شاید مراد یہ ھو کہ عوام اور معاشرہ میں دین کی حفاظت و بقا کا انتظام کرتا ھو ) نفسانی خواھشات کا مخالف اور الٰھی احکام کا مطیع و فرمانبردار ھو تو عوام ایسے شخص کی تقلید کر سکتے ھیں ۔

البتہ یہ نکتہ واضح ھے کہ نفسانی خواھشات کی مخالفت میں ایک عالم اور عام شخص کے درمیان فرق ھے ، کیونکہ ھر شخص کی خواھش نفس ، کچھ معین امور میں ھوتی ھے ۔ جو ان کی خواھش نفس الگ ھے اور بوڑھے کی خواھش نفس الگ ، ھر شخص جس منصب ، جس طبقہ ، جس سن میں ھو اسی کے مطابق خواھش نفس رکھتا ھے ایک عالم دین کی نفس پرستی کا معیار یہ نھیں ھے کہ وہ شراب پیتا ھے یا نھیں ؟ جوا کھیلتا ھے یا نھیں ؟ نماز و روزہ ترک کرتا ھے یا نھیں ؟ اس کی ھوا پرستی کا معیار ، عھدہ و منصب کی خواھش ، شھرت و محبوبیت سے لگاؤ ، اپنے آگے پیچھے لوگوں کے چلنے کی تمنا ، اپنا اقتدار مضبوط بنانے کے لئے بیت المال کا استعمال ،اپنے ساتھیوں ، عزیزو اقرباء خاص طور سے اپنے صاحبزادوں کو بیت المال وغیرہ میں خرد و برد کی کھلی چھوٹ اور اسی طرح کی دوسری چیزیں ھیں ۔

امام اس کے بعد فرماتے ھیں :”و ھم بعض فقھاء الشیعة لاجمیعھم “ یہ اعلیٰ و ارفع اوصاف و فضائل صرف بعض شیعہ فقھاء میں پائے جا سکتے ھیں تمام شیعہ فقھاء میں نھیں ۔

یہ حدیث اپنے آخری جملوں کے لحاظ سے مسئلہ اجتھاد و تقلید کی ایک دلیل ھے ۔

پس معلوم ھوا کہ اجتھاد و تقلید کی دو قسمیں ھیں ۔ جائز و ناجائز ۔

میت کی تقلید کیوں جائز نھیں ؟

ھماری فقہ کا ایک مسلم الثبوت مسئلہ یہ ھے کہ میت کی تقلید ابتداٴً جائز نھیں ھے ۔میت کی تقلید اگر جائز ھے تو صرف اس حد تک کہ جو شخص کسی مجتھد کی اس کی زندگی میں تقلید کر رھا تھا اس کی موت کے بعد اس کی تقلید پر باقی رہ سکتا ھے مردہ مجتھد کی تقلید پر باقی رھنے کے لئے بھی زندہ مجتھد کی اجازت ضروری ھے ۔ یہ ایک بنیادی نظر یہ ھے لیکن شرط یہ ھے کہ اس کا مقصد واضح ھو جائے ۔

اس نظریہ کا پھلا فائدہ یہ ھے کہ یہ دینی مدارس کی بقا اور اسلامی علوم کی حفاظت کا ذریعہ ھے ۔ نہ صرف یہ کہ اس طرح اسلامی علوم محفوظ رھیں بلکہ روز بہ روز اس میں اضافہ و ترقی ھوتی جائے گی اور لاینحل مشکلیں حل ھوں گی ۔

ایسا نھیں ھے کہ قدیم زمانہ میں ھماری تمام مشکلیں علماء کے ذریعہ حل ھو چکی ھوں اور اب کوئی مشکل باقی نہ رہ گئی ھو ،کلام تفسیر ، فقہ اور دوسرے اسلامی علوم میں ھزاروں معمے اور مشکلیں ھیں ۔ بھت سی مشکلیں ماضی میں عظیم علماء حل کر چکے ھیں اور بھت سی مشکلیں باقی ھیں اور یہ مستقبل کے علماء کی ذمہ داری ھے کہ وہ انھیں حل کریں اور تدریجی طور پر ھر موضوع میں مزید جامع اور بھتر کتابیں تحریر کریں اور اس سلسلہ کو آگے بڑھائیں ۔جس طرح ماضی میں علماء نے تدریجی طور پر تفسیر کو آگے بڑھایا ، فقہ کو آگے بڑھا یا ، کلام کو آگے بڑھایا ، یہ قافلہ رکنا نھیں چاھئے ۔ پس زندہ مجتھد وں کی تقلید اور ان کی طرف عوام کی توجہ ، اسلامی علوم کی بقاء و ارتقاء کا ایک ذریعہ ھے ۔

دوسرا سبب یہ ھے کہ مسلمان ھر روز اپنی زندگی میں نئے نئے مسائل سے دوچار ھوتے ھیں اور انھیں ان مسائل میں اپنی ذمہ داری کا علم نھیں ھوتا ۔لھذا ایسے زندہ فقیھوں اور زندہ افکار کی ضرورت ھے جو یہ عظیم احتیاج برطرف کر سکیں ۔ اجتھاد و تقلید سے متعلق ایک حدیث میں ھے :” و اما الحوادث الواقعة فارجعوا فیھا الی رواة احادیثنا “ (۴)۔ نئے واقعات میں ھماری حدیثوں کے راویوں کی طرف رجوع کروبعض مقامات پر ” احادیثنا “ کے بجائے ”حدیثنا “ ھے )” حوادث واقعہ “یھی نئے مسائل ھیں جو ھر صدی میں ھر دور میں اور ھر سال پیش آتے ھیں ۔ مختلف زمانوں مختلف صدیوں کی فقھی کتابوں کی چھان بین سے یہ پتہ چلتا ھے کہ لوگوں کی ضروریات کے مطابق تدریجی طورپر فقہ میں نئے مسائل داخل ھوئے ھیں ۔ اور فقھاء نے ان کا جواب دینے کی کوشش فرمائی ھے ۔ اسی لئے رفتہ رفتہ فقہ کی ضخامت بڑھتی گئی ھے ۔

اگر کوئی شخص تحقیقی نقطۂ نظر سے حساب لگائے تو سمجھا جا سکتا ھے کہ فلاں اور فلاں مسئلہ کس صدی میں ، کس علاقہ میں اور کس ضرورت کے تحت فقہ میں شامل ھوا ھے ۔ اگر زندہ مجتھد ان نئے مسائل کا جواب نہ دے تو پھر زندہ و مردہ مجتھد کی تقلید میں فرق ھی کیاھے ؟ ! بھتر ھے کہ ھم بعض مردہ مجتھدوں مثلاً شیخ انصاری کی ۔ جو خود زندہ مجتھدوں کے اعتراف کے مطابق سب سے زیادہ عالم و محقق تھے، تقلید کریں ۔

بنیادی طور پر اجتھاد کا فلسفہ ، کلی احکام کو جدید مسائل اور بدلتے ھوئے حادثات پر منطبق کرنے میں نھاں ھے ۔ واقعی مجتھد وھی ھے جو فلسفہ احکام حاصل کر سکے ۔ اسے معلوم ھو کہ موضوعات کس طرح بدلتے ھیں اور ساتھ ھی ساتھ ان کے احکام بھی بدل جاتے ھیں ۔ ورنہ پرانے اور تحقیق شدہ مسائل میں تحقیق کرنا اور کسی ” علی الاقویٰ “ کو ” علی الاحوط “ سے بدل دینا ” علی الاحوط “ کو” علی الاقویٰ “ میں تبدیل کر دینا تو کوئی ھنر نھیں ھے ۔ اس کے لئے اتنے ھنگامے کی ضرورت نھیں ھے ۔ البتہ اجتھاد کے لئے بھت سے شرائط و مقدمات کی ضرورت ھے ۔ مجتھد کو مختلف علوم کا ماھر ھونا چاھئے ۔ عربی ادب ، منطق ، اصول فقہ ، حتیٰ تاریخ اسلام اور تمام اسلامی فرقوں کی فقہ کا علم ھونا چاھئے اور پھر مدتوں مشق و تمرین کی ضرورت ھے تب کھیں ایک واقعی و جید فقیہ وجود میں آتا ھے فقط نحو ، صرف ، معانی ،بیان اور منطق کی چند کتابیں اور پھر فرائد ، مکاسب اور کفایہ جیسی سطح کی تین چار کتابیں پڑھ کر اور چند برس تک درس خارج میں شرکت کر کے کوئی اجتھاد کا دعویٰ نھیں کر سکتا ۔ ” وسائل “ و” جواھر “ سامنے رکہ کر فتوے صادرنھیں کر سکتا ۔ اسے تفسیر و حدیث یعنی حضرت رسول خدا  سے امام حسن عسکری (ع)تک کے ۲۵۰ سال پر محیط ادوار میں بیان ھونے والی ھزاروں حدیثوں نیز ان حدیثوں کے صادر ھونے والے ماحول یعنی تاریخ اسلام اور تمام اسلامی فرقوں کی فقہ نیز رجال اور راویوں کے طبقوں کا مکمل علم ھونا چاھئے ۔

Add comment


Security code
Refresh