www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

دو طرز فکر کا ایک نمونہ

بھت سی حدیثوں میں عمامہ کا تحت الحنک گردن میں لپیٹے رھنے کا حکم دیا گیا ھے صرف نماز میں ھی نھیں بلکہ ھر وقت اور ھر جگہ ۔ اس سلسلہ کی ایک حدیث یہ ھے : ” الفرق بین المومنین و المشرکین التلحیّ“

مومن و مشرک کا فرق ، گلے میں تحت الحنک لپیٹنا ھے ۔

کچھ اخباریوں نے اس طرح کی حدیثوں سے تمسک کر کے کھا ھے کہ تحت الحنک ھمیشہ گلے میں پڑا رھنا چاھئے لیکن ملا محسن فیض مرحوم نے،با وجودیکہ اجتھاد کو اچھی نظر سے نھیں دیکھتے تھے ،اپنی کتاب ” وافی “ کے باب ” الزّیّ و التجمل “ میں اس سلسلہ میں ایک قسم کا اجتھاد کیا ھے ۔ وہ فرماتے ھیں قدیم زمانہ میں مشرکوں کا شیوہ تھا کہ وہ تحت الحنک عمامہ کے اوپر باندھے رھتے تھے اور اس عمل کو ” اقتعاط “ کے نام سے یاد کیا جا تا تھا ۔ اگر کوئی یہ کام کرتا تو اس کا مطلب یہ ھوتا تھا کہ میں مشرکوں کے گروہ میں شامل ھوں ، چنانچہ یہ حدیث اس عمل و شیوہ کے خلاف مبارزہ کرنے اور مشرکوں کے اس سمبل کی پیروی نہ کرنے کی خاطر ھے لیکن آج جبکہ وہ سمبل ختم ھو چکا ھے تو پھر اس حدیث کا کوئی موضوع باقی نھیں رھا ھے آج چونکہ کوئی شخص تحت الحنک گلے میں نھیں لپیٹتا لھذا اب تحت الحنک گلے میں لپیٹنا حرام ھے کیونکہ اس صورت میں وہ ” لباس شھرت “ کی شکل میں اختیار کر لے گا اور لباس شھرت حرام ھے ۔

یھاں اخباریت کا جمود کھتا ھے کہ : حدیث میں صرف تحت الحنک لپیٹنے کا حکم بیان ھوا ھے لھذا اس کے بارے میں بحث و اجتھاد کرنا فضول ھے لیکن اجتھادی فکر کھتی ھے کہ ھمیں دو چیزوں کا حکم دیا گیا ھے : ایک مشرکوں کے سمبل سے اجتناب اور دوسرے لباس شھرت سے پرھیز ۔ جس وقت وہ سمبل دنیا میں موجود تھا مسلمین اس سے اجتناب کرتے تھے گلے میں تحت الحنک لپیٹے رھنا سب پر واجب تھا لیکن آج جبکہ یہ موضوع منتفی ھو چکا ھے، اب یہ مشرکوں کا سمبل نھیں رھا ھے اور عملی طور پر اب کوئی بھی تحت الحنک نھیں لپیٹتا لھذا اب کوئی شخص یہ عمل بجالاتا ھے تو وہ لباس شھرت کا مصداق ھے جوکہ حرام ھے ۔ یہ ایک نمونہ تھا ۔ اس طرح کی مثالیں بھت ھیں ۔

وحید بھبھانی سے یہ واقعہ نقل کیا گیا ھے کہ ایک مرتبہ عید کا چاند تو اتر کی حد تک ثابت ھو گیا اتنے زیادہ افراد نے میرے پاس آکر چاند دیکھنے کی گواھی دی کہ مجھے یقین آگیا ۔ چنانچہ میں نے عید کا اعلان کر دیا ۔ ایک اخباری نے مجھ پر اعتراض کیا کہ خود آپ نے چاند دیکھا نھیں جن کی عدالت مسلم ھے انھوں نے گواھی بھی نھیں دی پھر تم نے عید کا اعلان کیسے کر دیا ؟ میں نے کھا خبر متواتر سے مجھے یقین حاصل ھو گیا ھے کھنے لگے کہ کس حدیث میں ھے کہ تواتر حجت ھے ؟!

وحید بھبھانی ھی کا بیان ھے کہ : اخباریوں میں اتنا جمود پایا جاتا ھے کہ اگر بالفرض کوئی مریض کسی امام (ع)کے پاس گیا ھو اور امام (ع)نے اسے ٹھنڈا پانی پینے کو کھا ھو تو اخباری ، دنیا کے سارے مریضوں کو ٹھنڈا پانی پینے کا حکم دیں گے اور کھیں گے ھر مرض کا علاج ٹھنڈا پانی ھے ۔ وہ یہ نھیں سوچیں گے کہ امام نے یہ حکم اس مریض کے مزاج اور اس کی بیماری کی نوعیت کے لحاظ سے دیا تھا نہ کہ تمام مریضوں کے لئے ۔

یہ بھی مشھور ھے کہ بعض اخباری ، میت کے کفن پر شھادتین اس طرح لکھنے کا حکم دیتے تھے : ”اسماعیل یشھد ان لا الٰہ الااللہ “ یعنی اسماعیل خدا کی وحدانیت کی گواھی دیتا ھے ۔ وحدانیت کی گواھی اسماعیل کے نام سے کیوں دی جائے ؟ اس لئے کہ حدیث میں ھے کہ حضرت امام صادق(ع)نے اپنے فرزند اسماعیل کے کفن پر یہ عبارت تحریر فرمائی تھی ۔

اخباریوں نے یہ سوچنے کی زحمت نھیں کی کہ اسماعیل کے کفن پر اس عبارت کی وجہ یہ تھی کہ ان کا نام اسماعیل تھا ۔ اب اگر مثلاً حسن قلی بیگ کا انتقال ھوا ھے تو خود ان ھی کا نام کیوں نہ لکھا جائے ؟ اسماعیل کا نام کیوں لکھیں ؟!! اخباری کھتے تھے یہ ساری باتیں اجتھاد اور عقل کا استعمال ھیں ، ھم اھل تعبد و تسلیم ھیں ھمیں صرف قال الباقر (ع)و قال الصادق (ع)سے مطلب ھے اپنی طرف سے کچھ نھیں کھہ سکتے ۔

ناجائز تقلید

تقلید کی بھی دو قسمیں ھیں : جائز و نا جائز ۔ ایک وہ تقلید ھے جس سے مراد ماحول و معاشرہ کی اندھی پیروی ھے جویقینا نا جائز ھے اور قرآن مجید میں اس کی ان لفظوں میں مذمت کی گئی ھے ۔

” انا وجدنا آباء نا علی امة و انا علی آثارھم مقتدون “ ( ۲)( ھم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقہ پر پایا ھے اور ھم ان ھی کے نقش قدم پر چل رھے ھیں )

ھم نے تقلید کو دوحصوں میں تقسیم کیا ھے ۔ جائز و ناجائز ، ناجائز تقلید سے مراد صرف ماحول اور اپنے آباء و اجدا د کے رسم و رواج کی اندھی تقلید ھی نھیں ھے بلکہ عالم کی طرف جاھل اور فقیہ کی طرف عوام کے رجوع کرنے والی تقلید بھی دو قسم کی ھے :

جا ئز و ناجائز ۔

آج کل بعض ایسے افراد سے جو کئی مرجع تقلید کی تلاش میں ھیں یہ سننے میں آتا ھے کہ ھمیں کسی ایسے شخص کی تلاش ھے جس کے آستانہ پر سر جھکا دیں اور خود کو اس کے حوالے کر سکیں ۔ لیکن اسلام نے جس تقلید کا حکم دیا ھے وہ سپردگی اور خود کو کسی کے حوالے کرنا نھیں ھے بلکہ آنکھکھولنا اور کھلوانا ھے ۔ تقلید اگر سر سپردگی کی شکل اختیار کر لے تو اس میں ھزاروں برائیاں پیدا ھو جائیں گی ۔

” و اما من کان من الفقھاء صائناً لنفسہ حافظا لدینہ مخالفاً علی ھواہ مطیعاً لامرمولاہ فللعوام ان یقلدوہ“

یہ حدیث ، تقلید و اجتھاد کی دلیلوں میں سے ایک دلیل ھے ۔ شیخ انصاری اس حدیث کے متعلق فرماتے تھے کہ اس سے صحت و صداقت کے آثار نمایاں ھیں ۔

یہ حدیث اس آیہ شریفہ کے ذیل میں ھے

” و منھم امیون لا یعلمون الکتاب الا امانی و ان ھم الا یظنون “ (۳)

یہ آیت ان جاھل یھودی عوام کی مذمت کر رھی ھے جو اپنے علماء کی تقلید و پیروی کرتے تھے اور ان آیتوں کے بعد جن میں یھودی علماء کے برے طور طریقوں کا ذکر ھوا ھے ارشاد ھوتا ھے : ان میں کچھ ایسے جاھل و نادان افراد تھے جو اپنی آسمانی کتاب کے بارے میں بے بنیاد امیدوں اور آرزؤں کے سوا کچھ نھیں جانتے تھے اور وھم و گمان کی پیروی کرتے تھے ۔

نا جائز تقلید اور امام صادق (ع)

مذکورہ حدیث اسی آیت کے ذیل میں ھے ۔ ایک شخص نے امام صادق (ع)سے عرض کیا کہ جاھل یھودی عوام اپنے علماء کی پیروی اور ان کی ھر بات ماننے پر مجبور تھے۔ ان کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ ھی نہ تھا۔ اس میں ان کی کیا خطا ھے ۔ اگر خطا ھے تو یھودی علماء کی خطا ھے ۔ قرآن مجید ان بے چارے عوام الناس کی مذمت کیوں کر رھا ھے جو کچھ جانتے ھی نہ تھے اور صرف اپنے علماء کی پیروی کر رھے تھے ؟ اگر علماء کی تقلید و پیروی لائق مذمت ھے تو پھر ھمارے عوام کی بھی  مذمت کی جانی چاھئے جو ھمارے علماء کی تقلید کرتے ھیں ! اگر یھودی عوام کو اپنے علماء کی تقلید نھیں کرنی چاھئے تھی تو ان لوگوں کو بھی تقلید نھیں کرنی چاھئے ۔حضرت (ع)نے فرمایا :

” بین عوامنا و علمائنا و بین عوام الیھود وعلمائھم فرق من جھة و تسویة من جھة : امّا من حیث استووا فانّ اللہ قد ذم عوامنا بتقلید ھم علمائھم کما قد ذم عوامھم ۔ و اما من حیث افترقوا فلا “

ھمارے عوام و علماء اوریھودی عوام و علماء میں ایک جھت سے فرق ھے اور ایک جھت سے ایک جیسے ھیں۔ ان کے ایک جیسے ھونے کی جھت میں خدا وند عالم نے ھمارے عوام کو بھی اپنے علماء کی ویسی تقلید کرنے کی باعث مذمت کی ھے اور فرق ھونے کی جھت میں مذمت نھیں کی ھے ۔

اس شخص نے عرض کیا : فرزند رسول وضاحت فرمایئے ۔ حضرت (ع)نے فرمایا : یھودی عوام نے اپنے علماء کی عملی زندگی دیکھی تھی کہ وہ کھلم کھلا جھوٹ بولتے ھیں ، رشوت لینے سے نھیں چوکتے ، رشوت اور ذاتی تعلقات کے باعث الٰھی احکام اور فیصلوں میں الٹ پھیر کرتے ھیں۔ افراد و اشخاص سے تعصب کی بنیا پر برتاؤ کرتے ھیں ۔ذاتی حب و بغض کو الٰھی احکام میں شامل کرتے ھیں۔ اس کے بعد حضرت (ع)نے فرمایا :

” و اضطرّوا بمعارف قلوبھم الیٰ ان من یفعل ما یفعلونہ فھو فاسق لا یجوز ان یصدق علی اللہ ولا علی الوسائط بین الخلق و بین اللہ “

وہ اس فطری الھام کی روشنی میں جو خدا وند عالم نے تکوینی طور پر ھر شخص کو عطا کیا ھے جانتے تھے کہ ایسے اعمال کا ارتکاب کرنے والے شخص کی پیروی نھیں کرنی چاھئے اوراس کی زبان سے بیان ھونے والا خدا اور رسول کا قول ، نھیں ماننا چاھئے ۔

یھاں امام (ع)یہ بتانا چاھتے ھیں کہ کوئی یہ گمان نہ کرے کہ یھودی عوام اس مسئلہ سے واقف نھیں تھے کہ ان علماء کی بات ماننا جائز نھیں ھے جو دینی احکام کے خلاف عمل کرتے ھیں ، کیونکہ یہ کوئی ایسی بات نھیں ھے جس سے کوئی شخص واقف نہ ھو اس مسئلہ کی معرفت خدا وند عالم نے ھر شخص کی فطرت میں ودیعت کی ھے اور ھر شخص کی عقل اسے جانتی ھے ۔

منطقیوں کے بقول یہ ان چیزوں میں سے ھے جس کی دلیل خود اس کے ساتھ ھے ” قضایا قیاسھا معھا “ جس شخص کا فلسفہ وجود ، پاکی و طھارت اور ھویٰ و ھوس سے اجتناب ھے اگر وہ ھوا و ھوس اور دنیا پرستی کا دلدادہ ھو جائے تو ھر عقل یھی حکم کرتی ھے کہ اس کی باتوں پر کان نھیں دھرنا چاھئے۔ اس کے بعد حضرت (ع)فرماتے ھیں :

” و کذٰلک عوام اُمَّتنا اذا عرفوا من فقھائم الفسق الظاھر ، والعصبیة الشدیدة ، و التکالب علی حطام الدنیا و حرامھا ، و اھلاک من یتعصبون علیہ و ان کان لاصلاح امرہ مستحقاً ، و بالترفق بالبر و الاحسان علی من تعصبوا لہ و ان کان للاذلال و الاھانة مستحقاً، فمن قلد من عوامنا مثل ھٰولاء فھم “( احتجاج طبرسی ج ۲ ص ۲۶۳ ۔ ماخوذ از تفسیر منسوب بہ امام حسن عسکری (ع)وھاں ” بالترفق کے بجائے ” بالترفرف “ آیا ھے )

ھمارے عوام کا بھی یھی حال ھے ۔ یہ لوگ بھی اگر اپنے فقھاء میں ، بد کاری ، شدید تعصب، مال دنیا کی ھوس، اپنے دوستوں اور حامیوں کی جانبداری ، چاھے وہ نا صالح ھی کیوں نہ ھوں، اپنے مخالفوں کی سر کوبی ،چاھے وہ احسان و نیکی کے مستحق ھی کیوں نہ ھوں ۔ اور اسی طرح کے دوسرے اوصاف کامشاھدہ کرنے کے باوجود اپنی آنکھیں بند کر کے ان کی پیروی کرتے رھیں تو وہ لوگ بھی یھودی عوام کی طرح مذمت و ملامت کے مستحق ھیں “

پس معلوم ھوا کہ جائز و ممدوح تقلید ، خود سپردگی ، آنکھیں بند کر لینا اور خود کو کسی کے حوالہ کر دینا نھیں ھے بلکہ آنکہ کھولے رھنا اور ھوشیار رھنا ھے ورنہ وہ جرم میں شریک مانیں جائیں گے ۔

Add comment


Security code
Refresh