www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

 

س۵۵۔ اگر اجتماعی ، سیاسی اور ثقافتی مسائل میں ولی امر مسلمین اور دوسرے مرجع تقلید کے فتوے میں تعارض و اختلاف ھو تو ایسے میں مسلمانوں کا شرعی فریضہ کیا ھے ،

 کیا کوئی ایسی حد فاصل ھے جو ولی امر مسلمین اور مرجع کے صادر کردہ احکام میں امتیاز پید اکرسکے ؟ مثلاً اگر موسیقی کے سلسلہ میں مرجع تقلید اور ولی امر مسلمین کی آراء میں اختلاف ھو تو یھاں کس کا اتباع واجب اور کافی ھے اور عام طور پر وہ کون سے حکومتی احکام ھیں جن میں ولی امر مسلمین کا حکم مرجع تقلید کے فتوے پر ترجیح رکھتا ھے؟

ج۔ اسلامی ملک کے نظم و نسق اور مسلمانوں کے عمومی مسائل میں ولی امر مسلمین کے حکم کا اتباع کیا جائے گا اورا نفرادی مسائل میں مکلف اپنے مرجع تقلید کا اتباع کرسکتا ھے۔

س۵۶۔ جیسا کہ آپ کو معلوم ھے کہ اصول فقہ میں ” اجتھاد متجزی “ کے عنوان سے بحث کی جاتی ھے کیا امام خمینی  ۺ کا مرجعیت کو قیادت سے جدا کرنا تجزی کے تحقق کی جانب ایک قدم نھیں ھے؟

ج۔ ولی فقیھہ کی قیادت اور مرجعیت تقلید سے الگ الگ ھوجانے کا اجتھاد میں تجزی والے مسئلہ سے کوئی ربط نھیں ھے۔

س۵۷۔ اگر میں کسی مرجع کا مقلد ھوں اور ولی امر مسلمین ظالم کافروں سے جنگ یا جھاد کا اعلان کرے اور میرا مرجع تقلید مجھے جنگ میں شریک ھونے کی اجازت نہ دے تو میں اس کی رائے پر عمل کروں یا نہ کروں؟

ج۔ امور عامہ میں ولی امر مسلمین کے حکم کی اطاعت واجب ھے، ان ھی امور میں اسلام اور مسلمانوں کا دفاع اور حملہ آور کافروں اور طاغوتوں سے جنگ بھی شامل ھے۔

س۵۸۔ ولی فقیھہ کا حکم یا اس کا فتویٰ کس حد تک قابل عمل ھے اور اگر ولی فقیھہ کا حکم یا فتویٰ مرجع اعلم کی رائے کے خلاف ھو تو ان دونوں میں سے کس پر عمل کیا جائے گا اورکسے ترجیح دی جائے گی؟

ج۔ ولی امر مسلمین کے حکم کا اتباع تمام لوگوں پر واجب ھے اور یہ ممکن ھی نھیں ھے کہ اختلاف کی صورت میں مرجع تقلید کے فتوے کو ولی فقیھہ کے حکم کے مقابلے میں لایا جائے۔

 

Add comment


Security code
Refresh