www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

902592
حضرت رسول خدا (ص) اپنے فرزند ارجمند امام حسین علیہ السلام سے بے انتھا محبت کیا کرتے تھے آپ کے نزدیک امام حسین علیہ السلام کی شان و منزلت اور کیا مقام تھا اس سلسلہ میں آپ کی بعض احادیث مندرجہ ذیل ہیں :
۱۔جابر بن عبداللہ سے مروی ہے کہ رسول کا فرمان ہے :’’من اراد ان ینظرالیٰ سید شباب اھل الجنۃ فلینظرالیٰ الحسین بن علی ‘‘۔’’جوشخص جنت کے جوانوں کے سردار کو دیکھنا چا ھتا ہے وہ حسین بن علی کے چھرے کو دیکھے‘‘۔
۲۔ابو ھریرہ سے روایت ہے :میں نے دیکھا ہے کہ رسول اللہ (ص)امام حسین علیہ السلام کو اپنی آغوش میں لئے ھوئے یہ فرما رھے تھے :’’اللھم انی احِبُّہ فاحبّہ ‘‘۔’’پروردگار میں اس سے محبت کرتا ھوں تو بھی اس سے محبت کر ‘‘۔
۳۔یعلی بن مرہ سے روایت ہے :ھم نبی اکرم (ص) کے ساتھ ایک دعوت میں جا رھے تھے تو آنحضرت نے دیکھا کہ حسین علیہ السلام سکوں سے کھیل رھے ہیں تو آپ نے کھڑے ھوکر اپنے دونوں ھاتھ امام کی طرف پھیلادئے ،آپ مسکرارھے تھے اور کھتے جا رھے تھے، بیٹا ادھر آؤ ادھرآؤیھاں تک کہ آپ نے امام حسین علیہ السلام کو اپنی آغوش میں لے لیاایک ھاتھ ان کی ٹھڈی کے نیچے رکھا اور دوسرے سے سر پکڑ کر ان کے بوسے لئے اور فرمایا:’’حسین منی وانامن حسین،احب اللّٰہ من احب حسینا،حسین سبط من الاسباط ‘‘۔’’حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ھوں خدایاجو حسین محبت کرے تو اس سے محبت کر ، حسین بیٹوں میں سے ایک بیٹا ہے ‘‘
یہ حدیث نبی اکرم (ص) اور امام حسین علیہ السلام کے درمیان عمیق رابطہ کی عکاسی کرتی ہے، لیکن اس حدیث میں نبی کا یہ فرمان کہ ’’حسین منی ‘‘حسین مجھ سے ہے ‘‘اس سے نبی اور حسین کے مابین نسبی رابطہ مراد نھیں ہے چونکہ اس میں کوئی فا ئدہ نھیں ہے بلکہ یہ بھت ھی گھری اور دقیق بات ہے کہ حسین نبی کی روح کے حا مل ہیں وہ معاشرۂ انسانی کی اصلاح اور اس میں مساوات کے قا ئل ہیں۔
لیکن آپ کا یہ فرمان:’’وانا من حسین ‘‘’’اور میں حسین سے ھوں ‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام مستقبل میں اسلام کی راہ میں قربانی دے کر رھتی تاریخ تک اسلام کو زندۂ جاوید کریں گے ، لھذا حقیقت میں نبی حسین سے ہیں کیونکہ امام حسین علیہ السلام نے ھی آپ کے دین کو دوبارہ جلا بخشی ، ان طاغوتی حکومتوں کے چنگل سے رھائی دلائی جو دین کو مٹا نا اور زند گی کو جا ھلیت کے دور کی طرف پلٹانا چا ھتے تھے ، امام حسین علیہ السلام نے قر بانی دے کر امویوں کی بنیادوں کو اکھاڑ پھینکا اور مسلمانوں کو ان کے ظلم و ستم سے آزاد کرایا۔
۴۔سلمان فارسی سے روایت ہے :جب میں نبی کی خدمت میں حا ضر ھوا تو امام حسین علیہ السلام آپ کی ران پر بیٹھے ھوئے تھے اور نبی آپ کے رخسار پر منھ ملتے ھوئے فرما رھے تھے :’’انت سیدُ بْنُ سَیَّد،انت امام بن امام ،وَاَخُوْااِمَامٍ،وَاَبُوالاَءِمَۃِ،وَاَنْتَ حُجَّۃُ اللّٰہِ وَابْنُ حُجَّتِہِ،وَاَبُوْحُجَجٍ تِسْعَۃٍ مِنْ صُلْبِکَ،تَاسِعُھُمْ قَاءِمُھُمْ ‘‘۔’’آپ سید بن سید،امام بن امام ،امام کے بھائی،ائمہ کے باپ ،آپ اللہ کی حجت اور اس کی حجت کے فرزند،اور اپنے صلب سے نو حجتوں کے باپ ہیں جن کا نواں قا ئم ھوگا ‘‘۔
۵۔ابن عباس سے مروی ہے :رسول اسلام اپنے کا ندھے پر حسین علیہ السلام کو بٹھا ئے لئے جا رھے تھے تو ایک شخص نے کھا : ’’نِعم المرکب رکبت یاغلام ،فاجا بہ الرسول :’’ونعم الراکب ھُوَ ‘‘۔’’کتنا اچھا مرکب (سواری )ہے جو اس بچہ کو اٹھا ئے ھوئے ہے، رسول اللہ (ص) نے جواب میں فرمایا:’’یہ سوار بھت اچھا ہے ‘‘۔
۶۔رسول اللہ کا فرمان ہے :’’ھذا(یعنی :الحسین )امام بن امام ابوائمۃٍ تسعۃٍ ‘‘۔’’یہ یعنی امام حسین علیہ السلام امام بن امام اور نو اماموں کے باپ ہیں‘‘۔
۷۔یزید بن ابو زیاد سے روایت ہے :نبی اکرم (ص) عا ئشہ کے گھر سے نکل کر حضرت فاطمہ زھراؑ کے بیت الشرف کی طرف سے گذرے تو آپ کے کانوں میں امام حسین علیہ السلام کے گریہ کرنے کی آواز آ ئی، آپ بے چین ھوگئے اور جناب فاطمہ سے فر مایا:’’اَلَمْ تَعْلَمِیْ اَنَّ بُکَاءَہُ یُوْذِیْنِیْ؟‘‘۔’’کیا تمھیں نھیں معلوم حسین کے رونے سے مجھ کو تکلیف ھوتی ہے ‘‘۔
یہ وہ بعض احادیث تھیں جو رسول اسلام (ص) نے اپنے بیٹے امام حسین علیہ السلام سے محبت کے سلسلہ میں بیان فرمائی ہیں یہ شرافت و کرامت کے تمغے ہیں جو آپ نے اس فرزند کی گردن میں آویزاں کئے جو بنی امیہ کے خبیث افراد کے حملوں سے آپ کے اقدار کی حفاظت کرنے والا تھا ۔

Add comment


Security code
Refresh