www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

۴۔ حضرت علی (ع)کی عدالت

امام علی علیہ السلام نہج البلاغہ میں فرماتے ھیں:

وَ الله لَقَدْ رَاٴئتُ عَقِیْلاً وَ قَدْ اٴمْلَقَ حَتیّٰ اَسْتَمَاحَنِي مِن بُرِّکُمْ صَاعاً وَ رَائتُ صِبْیَانَہُ شُعْثَ الشُّعُوْرِ غَبِرَ الاٴلْوَانِ مِنْ فَقْرِہِمْ کَاٴنَّمَا سوِّدَتْ وُجُوْہُہُمْ بِالْعَظْمِ وَ عَاوَدَنِي مُوٴَکِّداً۔[10]

خدا کی قسم میں نے دیکھا کہ میرا بھائی عقیل تنگ دست ھے، اور اُس نے مجھ سے درخواست بھی کی کہ بیت المال سے کچھ وظیفہ بڑھادیں اور میں نے ان کے بچوں کو دیکھا کہ بھوک کی وجہ سے اُن کے بال اور رنگ متغیر ھوچکا تھا، عقیل نے بار بار اصرار بھی کیا۔۔۔ تاکہ میں عدالت سے ھاتھ اٹھالوں، لیکن میں نے لوھے کی گرم سلاخ کو عقیل کی طرف بڑھایا، عقیل چونکے، اے بھائی مجھے آگ سے جلانا چاہتے ھو تو میں نے کھا: اے عقیل تم دنیا کی آگ میں جلنا پسند نھیں کرتے لیکن مجھے جہنم کی آگ میں دھکیلنا چاہتے ھو جو زیادہ سخت ھے“۔

اسے عدالت محوری کھا جاتا ھے کہ سگے بھائی کو جو تنگدست بھی ھے بیت المال سے زیادہ دینا گوارہ نھیں کیا جاتا۔

 

۵۔ حضرت علی (ع) کا زھد و تقویٰ

امام علی علیہ السلام کے زھد و تقویٰ کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ آپ کو خبر دی گئی کہ عثمان بن حنیف جو بصرہ کا گورنر تھا وہ کسی ایسی دعوت میں اور ایسی محفل میں شامل ھوئے ھیں جھاں سب اُمراء شریک تھے، اس میں غریب نہ تھے، تو امام علی علیہ السلام نے اس کے پاس ایک خط لکھا اور متنبہ کرتے ھوئے فرمایا:

اَلاَ وَ إنَّ لِکُلِّ مَامُوْمٍ اِمَاماً یَقْتَدِي بِہِ۔۔۔ اِلاَّ وَ اِنَّ اِمَامَکُمْ قَدْ اِکْتَفیٰ مِنْ دُنْیَاہُ بِطِمْرَیْہِ وَمِنْ طَعْمِہِ بِقُرْصَیْہِ۔[11]

اے حنیف کے بیٹے!“ آگاہ رھو کہ ھر ماموم کے لئے ایک امام ھوتا ھے جس کی وہ پیروی کرتا ھے اور اس کے علم کے نور سے روشنی حاصل کرتا ھے، کیا تمھیں نھیں معلوم آپ کا امام دنیا سے دو پُرانے کپڑے پہن کر اور دو خشک روٹیاں کھا کر گزر بسر کرتا ھے، (اور تم ایسی دعوت میں شریک ھوتے ھو)

 

۶۔ نیاز مندوں کے ساتھ ھمدردی

امام علی علیہ السلام محتاج اور نیازمند لوگوں کے ساتھ ھمدردی فرماتے تھے، چنانچہ آپ ھی کا فرمان ھے:

اَ اٴَقْنَعَ مِنْ نَفْسِي بِاٴنْ یُقَالُ ہَذَا اٴمِیْرُ الْمُوْمِنِیْنَ وَ لَا اُشَارِکْہُم فِي مَکَارِہِ الدَّہْرِ“۔[12]

کیا میں اس بات پر اپنے نفس کو قانع کرلوں کہ مجھے امیر المومنین کھا جائے، جبکہ ان کی مشکلات اور تلخیوں کے ساتھ شریک نہ ھوں، بلکہ میں مشکلات میں ان کے لئے نمونہ بنوں گا، میں ”علی“ لذیذ غذا کھانے کے لئے پیدا نھیں ھوا ھوں جیسا کہ حیوانات کا پورا ھم و غم چارہ اور گھاس ھوتا ھے۔

امام علی علیہ السلام مقصد خلقت کو درد بانٹنے اور ھمدردی انسانیت کے اندر پیادہ کرتے ھوئے نظر آتے ھیں، یعنی انسان کو عیش و عشرت کے لئے خلق نھیں کیا گیا ھے، بلکہ انسانیت کی ھمدردی کے لئے خلق کیا گیا ھے، یھی تو انسانیت کا امتیاز ھے۔

Add comment


Security code
Refresh