www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

حضرت علی (ع) کی علمی شخصیت

 

پیغمبر عظیم الشان اسلام کا ارشاد گرامی ھے کہ ”میں علم کا شھر ھوں اور علی اس کا دروازہ“ ، جن افراد کو شھر علم تک پہنچنا ھے ان کو دو دفعہ علی (ع) کا محتاج ھونا ضروری ھے ایک دفعہ جاتے ھوئے اور دوسری مرتبہ واپس آتے ھوئے، امام علیہ السلام نہج البلاغہ میں اپنی علمی شخصیت کو یوں بیان کرتے ھیں:

فَاٴسْاٴلُوْنِي قَبْلَ اٴنْ تَفْقِدُوْنِي فَوَ الَّذِي نَفْسِي بِیَدِہِ لَاتَسْاٴلُوْنِي عَنْ شَيٍ فِیْمَا بَیْنَکُمْ وَ بَیْنَ السَّاعَةِ وَ لَا عَنْ فِیٴةٍ تَہْدِي مِاَئةً وَ تُضِلُّ مِاَئةً إلاَّ اٴَنْبَاتُکُمْ بِنَاعِقَہَا وَ قَائِدَہَا وَ سَائِقِہَا[8]

مجھ سے بوچھ لو قبل اس کے کہ میں تمھارے درمیان نہ رھوں، مجھے اس ذات کی قسم جس کے قبضہٴ قدرت میں میری جان ھے، ممکن نھیں ھے کہ تم مجھ سے سوال کرو اور میں تمھیں جواب نہ دے سکوں، میں آج سے قیامت تک کے واقعات کی خبر دے سکتا ھوں، ایک گروہ جو سو بندوں کو ھدایت کرتا ہ ے یا سو بندوں کو گمراہ کرتا ھے وہ بھی بتا سکتا ھوں، اُن کے ھانکنے والے ان کے رہبروں اور ان کے سربراھوں کے بارے میں مطلع کرسکتاھوں“۔

 یہ کلمات امام علی علیہ السلام کے علم کی ایک جھلک ھے، اور شاھد ھے کہ کائنات میں آپ جیسا عالم نہ تھا نہ ھوگا، اور یہ آپ کی اولویت پر واضح دلیل ھے۔

 

۳۔حضرت علی علیہ السلام اور شھادت طلبی

کبھی آپ نے میدان جنگ سے فرار نہ فرمایا، نہج البلاغہ کے خطبہ نمبر ۲۲میں فرماتے ھیں:

وَ مِنَ الْعَجَبِ بَعْثُہُمْ إلیٰ اٴنْ اٴبْرَزَ لِلطَّعَانِ! وَ اٴنْ اٴَصْبِرْ لِلْجَلَادِ، ہَبَلَتْہُمْ الہَبُوْلُ، لَقَدْ کُنْتُ َو مَا اٴَہَدَّدَ بِالْحَرْبِ وَ لَا اٴَرْہَبُ بِالضَّرْبِ، وَ اِنِّي لَعَلیٰ یَقِیْنٍ مِنْ رَبِّي وَ غَیْرَ شُبْہَةٍ مِنْ دِیْنِي“۔[9]

مجھے تعجب ھے اُن پر جو مجھ سے چاہتے ھیں کہ میں ان کے نیزوں کے سامنے حاضر ھوجاؤں، اور ان کی تلوار کے سامنے صبر کروں، سوگواران کے غم میں روئیں، میں نہ جنگ سے ڈرتا ھوں اور نہ تلوار سے خوف زدہ ھوں، میں خدا پر یقین رکھتا ھوں، اور شک و شبہ میں مبتلا نھیں ھوں“۔

یہ کلمات امام علیہ السلام کے شوق شھادت پر واضح شاھد ھیں۔

Add comment


Security code
Refresh