www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

اس کے بعد فرماتے ھیں:

اٴرَیٰ نُورَ الْوَحْيِ وَ الرِّسَالَةَ، وَ اٴشُمُّ رِیْحَ النَّبُوَةِ وَ لَقَدْ سَمِعْتُ رَنَّةَ الشِّیْطَانِ حِیْنَ نَزَلَ الْوَحْيُ عَلَیْہِ، فَقُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللهِ مَا ہَذِہِ الرَّنَّةُ، فَقَالَ (ص) ہٰذَا الشِّیْطَانُ قَدْ اٴیِسْ مِنْ عِبَادَتِہِ، إنَّکَ تَسْمَعُ مَا اٴَسْمَعُ وَ تَریٰ مَا اٴَریٰ إلاَّ اٴنَّکَ لَسْتَ بِنَبِیٍ وَ لَکِنَّکَ لَوَزِیرٌ وَ اٴنَّکَ لَعَلیٰ خَیْرٍ“۔[5]

میں نے نور وحی اور نور رسالت کو دیکھا، رسول خدا (ص) کی دلپذیر خوشبو کو سونگھتا تھا، میں نے نزول وحی کے وقت شیطان کے رونے کی آواز کو سنا، اور میں نے رسول اکرم (ص) سے پوچھا: یا رسول اللہ یہ کس کے رونے کی آواز ھے تو رسول اکرم (ص) نے فرمایا: یہ شیطان رو رھا ھے چونکہ وہ آج سے اپنی عبادت سے مایوس ھوگیا ھے، اس کے بعد رسول (ص)نے فرمایا: یا علی جو میں سنتا ھوں آپ بھی سنتے ھیں، اور جو میں دیکھتا ھوں ، آپ بھی دیکھتے ھیں مگر آپ نبی نھیں ھیں، بلکہ میرے وزیر اور جانشین ھیں، اور آپ خیر پر ھیں“۔

 ھم تمام امت اسلام کو چیلنج کرکے کہہ سکتے ھیں کہ آؤ ، رسول اسلام کے بعد کوئی ایسی شخصیت دکھاؤ جس کے بارے میں خود رسول اکرم (ص) نے فرمایا ھو کہ آپ میرے جانشین اور وزیر ھیں، جو میں سنتا ھوں وہ آپ بھی سنتے ھیں جو میں دیکھتا ھوں وہ آپ بھی دیکھتے ھیں، یہ فخر صرف اور صرف علی بن ابی طالب علیہ السلام کو حاصل ھے، لیکن دنیائے اسلام آج تک پریشان ھے کہ رسول اکرم (ص) کا حقیقی جانشین کون تھا، پس ھم یہ جملہ کہنے پر مجبور ھوجاتے ھیں کہ علی علیہ السلام کل بھی مظلوم تھے اور آج بھی مظلوم ھیں۔

 

(ج) علی (ع)سب سے پھلے نماز پڑھنے والے

حضرت علی علیہ السلام نہج البلاغہ میں ارشاد فرماتے ھیں:

اَللّٰہُمَّ اِنّي اٴوَّلَ مَنْ اٴَنَابَ وَ سَمِعَ وَ اٴجَابَ لَمْ یَسْبِقْنِی إلاَّ رَسول الله بالصَّلاة۔[6]

میں وہ سب سے پھلا شخص ھوں جس نے رسول اکرم (ص) کی طرف رجحان پیدا کیا اور اُن کی دعوت کو سنااور قبول کیا، میں سب سے پھلا نماز گزار ھوں، رسول(ص) کے علاوہ کوئی شخص ”مجھ سے پھلا نمازی نھیں ھے“ اور مجھ سے سابق نھیں ھے۔

 

(د) علی (ع) جانثار رسول(ص)

امام علی علیہ السلام خطبہ نمبر ۱۹۷میں ارشاد فر ماتے ھیں:

وَ لَقَدْ عَلِمَ المُسْتَحْفِظُونَ مِنْ اٴصْحَابِ مُحَمَّدٍ(ص) اٴَنِّی لَمْ اَرُدُّ عَلیٰ الله وَ لَا عَلیٰ رَسُولِہِ سَاعَةً قَطُّ، وَ لَقَدْ وَاسَیْتُہُ بِنَفْسِي فِي المَوَاطِنِ الَّتِي تَنْکُصُ فِیْہَا الاٴبْطَالُ وَ تَتَاٴخَّرُ فِیْہَا الاٴقْدَامُ، نَجْدَةً اٴکْرَمَنِي الله بِہَا۔[7]

اصحاب محمد میں سے صاحبان اسرار جانتے ھیں کہ میں نے ایک لمحہ کے لئے بھی خدا و رسول (ص) کی مخالفت نھیں کی، بلکہ اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر مشکل مقامات پر ان کی نصرت کی جھاں بڑے بڑے سورما بھاگ جاتے تھے، اور اُن کے قدم لڑکھڑا جاتے تھے، خدا نے اس شجاعت و دلیری کے ذریعہ میری لاج رکھی ”اور میں نے پیامبر کا دفاع کیا“۔

یہ وہ خصوصیات اور خوبیاں ھیں جو فقط امام عالی مقام کا طرہ امتیاز تھیں کوئی با شعور انسان اس حقیقت کا انکار نھیں کرسکتا، لیکن وہ لوگ جن کے دلوں پر مھریں لگ چکی ھیں وہ کبھی حقیقت کو بیان نھیں کرسکتے اور نہ اس کو ہضم کرسکتے ھیں۔

Add comment


Security code
Refresh