www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

پھلا باب

 

اپنی تعریف کی دلیلیں

اگر کوئی شخص اپنی ایسی تعریف کرے جو خلاف واقع ھو تو وہ قطعاً حرام ھے اور اگر وہ شخص اپنی تعریف کرنے میں سچا ھو اور تعریف حقیقت کے مطابق ھو تو اس کی دو صورتیں ھیں:

ایک مرتبہ ایسی تعریف بیان کرنے کی مصلحت تقاضا نھیں کرتی، اسی صورت میں اگر کوئی شخص اپنی تعریف کرتا ھے تو یہ تعریف قابل مذمت ھے، لیکن اگر تعریف سچی ھو اور مصلحت بھی اس کا تقاضا کرے تو اس صورت میں اپنی تعریف کرنا ضروری ھے۔

اس مذکورہ بیان کی روشنی میں دیکھیں اور غور فرمائیں کہ امام علی علیہ السلام نے نہج البلاغہ میں اپنی جو تعریف بیان فرمائی ھے وہ صداقت پر مبنی ھونے کے ساتھ ساتھ مصلحت نے اس کا تقاضا کیا تو امام علیہ السلام نے پہنچان اور شناخت کو لازم سمجھا، ھم ذیل میں چند دلیلوں کے پیش کرتے ھیں تاکہ حقیقت واضح اور روشن ھوجائے۔

 

۱۔ پھلی دلیل:

اتمام حجت:

پیغمبر اکرم (ص)کی رحلت کے بعد ایسے حالات پیش آئے جن کی وجہ سے امام علی علیہ السلام کی شخصیت و مقام کو پس پشت ڈال دیا گیا، خلفاء کے پچیس سالہ دور حکومت میں امام علیہ السلام کی ملکوتی شخصیت کو ظلمت و تاریکی کے حجاب میں چھپادیا گیا۔

جب امام علیہ السلام کو ظاھری خلافت ملی اس وقت بھی اُن کو اندرونی جنگوں میں اُلجھا دیا گیا اس زمانہ میں امام علیہ السلام کو جس نسل کاسامنا کرنا پڑا وہ جوان نسل آپ کی شخصیت سے آگاہ نھیں تھی، اس وجہ سے امام علیہ السلام کے لئے ضروری تھا کہ آپ اس نسل جوان کے سامنے اپنا تعارف کرائیں اور اتمام حجت کریں تاکہ یہ جوان نسل اصحاب جمل و صفین کے فتنوں میں گمراہ نہ ھوجائیں، اس لئے امامِ امت ھونے کی بنا پر بھی امام علیہ السلام کے لئے ضروری تھا کہ اپنا تعارف کرائیں تاکہ لوگ آپ کی تعلیمات اور سیرت سے فیض حاصل کریں جیسا کہ انبیاء علیھم السلام بھی جب تشریف لاتے تھے تو سب سے پھلے اپنا تعارف کراتے تھے۔

 

دوسری دلیل: خدا کی نعمتوں پر شکر

امام علی علیہ السلام اپنی شخصیت کا تعارف اُن نعمتوں کے ذریعہ کراتے تھے جو خداوندعالم نے اپنے خصوصی فضل و کرم کی بنیاد پر امام علیہ السلام کو اُن نعمتوں سے مالامال فرمایا، امام علیہ السلام نعمت کی اھمیت اور نعمت دینے والے کی اھمیت کو بیان کرنے کے ساتھ اپنا تعارف یوں کراتے ھیں:

میں ( علی) وہ ھوں جس نے عرب کے بڑے بڑے بھادروں کے چھکے چھڑا دئے تھے، میں وہ ھوں جس نے شرک کی آنکھیں نکال دیں اور عرش شرک کو لرزہ براندام کردیا، میں اپنے جھاد کے ذریعہ خدا پر کوئی احسان نھیں کرتا اور میں اپنی عبادت پر نازاں نھیں ھوں بلکہ میں اپنے پروردگار کی ان نعمتوں پر اس کا شکریہ ادا کرتا ھوں“۔[1]

 

تیسری دلیل: حقائق تاریخی بیان کرنا

ھر حادثہ اور واقعہ تاریخ کے صفحات پر رقم ھوجاتا ھے، تاریخ نگار اور تاریخ لکھنے والے اُس کو بعد والی نسلوں کی طرف منتقل کرتے ھیں، ابھی سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ یہ انتقال کیسے انجام پاتا ھے، آیا حقیقت اور مثبت حوادث کو نقل کیا جاتا ھے یا حقائق پر پردہ ڈال کر جھوٹ اور فریب کے ذریعہ؟ جب اسلام جزیرة العرب میں پھیلا تو بہت سی تبدیلیاں اور انقلاب وجود میں آئے ، درحالیکہ امام علی علیہ السلام کا نقش ظھور اسلام میں خاص اھمیت کا حامل تھا۔

لیکن جب پیغمبر اعظم (ص) اس دار فانی سے دار بقاء کی طرف چل بسے اور جھان اسلام کی ریاست و حکومت میں تبدیلی آئی تو کافی بزرگ شخصیات کا مقام گرا دیا گیا اور بہت سے لوگوں کو مقام جعلی دے دیا گیا حتی کہ اُن کے لئے جھوٹے فضائل کو گڑھا گیا اور امام علی علیہ السلام کو لوگوں کی نظروں میں گرانے کی سعی لاحاصل کی گئی، اسی وجہ سے جب امام علی علیہ السلام کو ظاھری خلافت ملی تو آپ پر لازم ھوگیا تھا کہ اپنی شناخت بھی کرادیں اورتاریخی حقائق سے پردہ اٹھادیں تاکہ آئندہ آنے والی نسل کے لئے آپ کی شخصیت منارہ نور بن کر مشعل راہ بن جائے۔

 

چوتھی دلیل: اپنی مظلومیت کا دفاع

جھان اسلام میں سیاسی تغیر و تبدل کی وجہ سے اجتماعی اور ثقافتی یلغار نے جنم لیا جس کا سب سے زیادہ اثر امام علی علیہ السلام کی شخصیت پر پڑا، چونکہ امام علیہ السلام اسلام کی مصلحت کی خاطر گوشہ نشین ھونے پر مجبور ھوگئے تھے، اس پُر آشوب دور میں بھی اپنی مظلومیت کو بیان کرتے رھے۔

خاص طور پر جب خوف زدہ کرنا اپنے عروج پر تھا اس زمانہ میں کچھ لوگ خوف و وحشت کی وجہ سے خاموش ھوگئے اور کچھ لوگ دنیا دار بن بیٹھے، اور اپنی زبانیں بند کرکے خاموشی اختیار کرلی، ایسے حالات میں علی علیہ السلام کی شناخت اور پہچان کرانا کسی کے بس میں نھیں تھا، چونکہ امام علیہ السلام کے مخالفین نے جب حکومت کی باگ ڈور ھاتھ میں لے لی تو برملاٴ اور علی الاعلان امام پر تبراٴ کیا جانے لگا، اور دیگر اصحاب کے فضائل بیان ھونے لگے، ان حالات میں امام علی علیہ السلام کو پہنچان کرانا بہت ضروری تھا، یعنی امام علیہ السلام اس زمانہ میں اپنی مظلومیت کا دفاع کرتے رھے اور لوگوں کو حقیقت حال سے باخبر کرنے کے لئے اپنی شناخت اور پہچان کو ضروری سمجھا۔

مذکورہ چار دلیلوں کی بنا پر کھا جاسکتا ھے بلکہ کہنا ضروری ھے کہ امام علی علیہ السلام نے اپنی جو تعریف فرمائی ھے وہ تعلیمات اسلامی سے ذرا بھی مخالف نھیں ھے، بلکہ اسلامی اقدار کا دفاع ھے۔

Add comment


Security code
Refresh