www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

إسلام میں إنتظار سے مراد مصلح اعظم منجی عالم قائم آل محمد موعود(عج) موجود فرزند زهرا حجت خدا وليّ عصر کے آخری زمانه میں آفاقي إمامت اور ولایت کے ساتھ ظهور کرنے

 اور دنیا کوظلم وجور سے خاتمه کرکے عدل و انصاف سے پُر کرنے پر عقیده اور ایمان هے انتظار یعنی تیاری اور آمادگی هے ،تیاری پاک هونے ،پاک زندگی گزارنے، برائیوں دور رهنے، اور تزکیه نفس کا ،تیّاری خودسازی دیگر سازی سماج سازی اور معاشره سازی کی ،آمادگی تمام فردی اجتماغی جسمی اور معنوی طاقتوں اور قوتوں کو کے یکجا اور اکهٹا کر کے اس عظیم آفاقی اور آسمانی انقلاب میں برپور حصه لینے کی۔
هم یهاں مختصر طور پر عقیده انتظار اهمیت انتظار اور مفهوم انتظار کو کتاب وسنت کی روشنی میں مزید وضاحت دینے کی کوشش کریں گے ۔
 قرآن اور عقیده إنتظار
تمام مسلمانوں کا اور خصوصیت کے ساتھ مذهب حقّه کا مستحم وراسخ عقیده هے که حق همشه ثابت اور دائمی هوتا هے اسکے مقابلے میں باطل عرضی اور وقتي هوتا هے ،اور هر شئی عارضی جلدی یا دیر زائل هو جانے والا هے اور باطل کے جگه حق لے گا۔
هر جگه حق کا چرچا اور حکومت هو گی ،قرآن کریم نے بھی متعدد آیات کے ذریعے مختلف مقامات پر اس حقیقت کی طرف إشاره کرتے هوۓ آخری زمانه میں "وجاء الحق وزهق الباطل إنّالباطل كان زهوقا "کا اعلان کیا هے اور انتظار فرج کو تغیر مسائل میں سے گنا هے اور دین مبین اسلام کے دوسرے تمام آسمانی وغیرآسمانی مکاتب فکر پر غالب آنے کل حتمی وعده دیا هے ۔
چناچه پروردگار عالم اپنی لا ریب کتاب میں ارشاد فرماتا هے :"هُوَ الَّذِى أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى‏ وَ دِينِ الْحَقّ‏ِ لِيُظْهِرَهُ عَلىَ الدِّينِ كُلِّهِ وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ "(۱) وه خدا وه هے جس نے اپنے رسول کو هدایت اور دین حق کے ساتھ بیھجا تاکه اپنے دین کو تمام ادیان پر غالب بناۓ چاهے مشرکین کو کتنا هی نا گوار کیوں نه هو -
اسی طرح اسی سوره مبارکه کے ۳۲ ایت میں ارشاد هوتا هے:" يُرِيدُونَ أَن يُطْفُِواْ نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَ يَأْبىَ اللَّهُ إِلَّاأَن يُتِمَّ نُورَهُ وَ لَوْ كَرِهَ الْكَفِرُون"(۲) یه لوگ چاهتے هیں که نور خدا کو اپنے منھ سے پھونک مارکر بجھا دیں حالانکه خدا اس کے علاوه کچھ ماننے کے لۓ تیار نهیں هے که وه اپنے نور کو تمام کردے چاهے کافروں کو یه کتنا هی بُرا کیوں نه لگے -
اسی طرح کسی تیسرے مقام پر اس عهد الهی کے حتمی هونے کو ان الفاظ کے ساتھ بیان فرماتا هے :" وَ لَقَدْ كَتَبْنَا فىِ الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِىَ الصَّلِحُون‏"(۳) اور هم نے ذکر کے بعد بھی زبور میں بھی لکھ دیا هے که هماری زمین کے وارث همارے نیک بندے هی هوں گے -

"وَ نُرِيدُ أَن نَّمُنَّ عَلىَ الَّذِينَ اسْتُضْعِفُواْ فىِ الْأَرْضِ وَ نجَْعَلَهُمْ أَئمَّةً وَ نجَْعَلَهُمُ الْوَارِثِين‏"(۴)اور هم یه چاهتے هیں که جن لوگون کو زمین پر کمزور بنا دیا گیا هے ان پر احسان کریں اور انھین لوگوں کا پیشوا و اما م اور زمین کا وارث قرار دیدیں -
ان قرآنی آیات اور انھیں آیات کے علاوه اور بھی دوسرے بهت سی آیات سے یه قطعی طور پر واضح هو جاتا هے که ایک دن پوری دنیا کے حکومت اور قدرت اهل ایمان اورنیک بندوں کے هاتھ آۓ گی اور هر جگه اسلام کا چرچا هوگا اور سارے دنیا والے ایک هی پرچم یعنی پر چم توحید کے ساۓمیں جمع هوں گے ۔اور یه وه دور هوگا جس میں منجی عالم مهد موعود(عج) ظهور فرما یئں گے اور وه آخری زمانه کا دور هو گا۔
ان قرآنی آیات سے مجموعی طور پر جو اهم مطالب اخذ هوتے هیں بطور خلاصه یوں بیان کیا جاسکتا هے:
۱: موعود قرآنی کی امامت اور رهبری میں توحید اور عدل کے اصولوں پر بنیاد رکھی گئی آفاقی حکومت اور نظام کے چلانے کے لیے اﷲکے نیک بندوں اور اهل إیمان کے هاتھوں دیا جاۓ گا ۔
۲:آیئن اسلام دوسرے تمام آدیان اور فکری مکاتب پر غالب آجاۓ گا اور دستور اسلام کو عملی جامه پهنایا جاے گا۔
۳: پوری دنیا میں عدالت ،امنیت ،صداقت ،محبت والفت پھیل جاے گی اور هر طرح إطمینان وسکوں اورصفا کا سماں هو گا ،اور هر طرح کی اختلافات جو طبقاتئیت نژادیت ،لسانیت ُعلاقیت اور وطنیت کی شکل میں اُمتوں میں پھیلے هو ئے هیں اور هر قسم کی خود پرستی دنیا پرستی اور منیت جو ظلم وبربریت اور وحشیت کی شکل میں اُبھری هوئی هے ان سب کا خاتمه کر کے اس طرح عدل وانصاف سے بھر دۓ گا جس طرح ظلم و جور سے بھر چکا هو گا -
۴: هر قسم کے شرک ، بت پرستی ، غلامی اور بردگی کا قلعه قمع هو کے توحید اور یکتا پرستی کا عالم هوگا۔ (۵)
حوالہ جات:
۱۔ سورہ توبه،آیت ۳۳ -
۲۔ توبه،آیت ۳۲ -
۳۔ سورہ انبیاء،آیت۱۰۵ -
۴۔ سورہ قصص ،آیت۵ -
۵۔ ظهور حضرت مهدی : اسد اﷲهاشمی شهیدی ،ص ۱۹۸۔ 

Add comment


Security code
Refresh