www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

امام کے وکلاء کی گواھی اور ان سے ملاقات کے دوران ھونے والے معجزا ت
شیخ صدوق نے کچھ افراد کے اسماء کا ذکر کیا ھے جو معجزات امام سے باخبر تھے اور آپ (ع) سے ملاقات بھی کی ،وہ افراد چاھے نواب خاص ھوں یا کوئی عام شیعہ قابل توجہ بات تو یہ ھے کہ ملاقات کرنے والے اور خبر دینے والے مختلف شھر اور الگ الگ جگہ کے ھیں جبکہ شیخ صدوق (رہ)نے انکے شھروں کے نام تک ذکر کیا ھے اور اگر تھوڑی سی دقت کریں تویہ بھی معلوم ھو سکتا ھے کہ یہ افراد تعداد کے لحاظ سے تواتر کی حد تک پھنچ گئے ھیں یا خاص طور پر انکی سر زمین اور علاقے کی جغرافیائی فرق اور انکی تعداد اتنی ھے کہ جن کو جھوٹ یا انکی روایتوں کو جعلی کھنا محال ھے ۔
ان میں سے بعض کے اسماء یہ ھیں:
الف ) وکلاء
۱۔بغداد سے ؛ عمری اور انکے بیٹے ،حاجز ،بلالی اور عطار
۲۔کوفہ سے ؛ عاصمی
۳۔اھواز سے ؛محمد ابن ابراھیم ابن مھزیار۔
۴۔ قم سے احمد ابن اسحق ۔
۵۔ھمدان سے ؛محمد بن صالح
۶۔ری سے ؛ بسامی ، اسدی یعنی محمد ابن ابو عبداللہ کوفی۔
۷۔آذربایجان سے ؛قاسم ابن علاء ۔
۸۔نیشابور سے ؛محمد ابن شاذان ۔
ب)غیر وکلاء
۱۔ بغداد سے ؛ ابوالقاسم بن ابوحلیس ،ابو عبداللہ کندی ،ابو عبداللہ جنیدی ،ھارون قزاز ،نیلی ، ابوالقاسم بن دلیس ،ابو عبداللہ فروخ ،مسرور طباخ غلام ابوالحسن (ع) ،حسن کے دو فرزند احمد او محمد اور اسحق بنی نوبخت کے کاتب -
۲۔ھمدان سے ؛محمد ابن کشمرد ،جعفر بن حمدان اور محمد بن ھارون بن عمران۔
۳۔ دینور سے ؛حسن بن ھارون ،احمد بن اخیّہ اور ابو الحسن ۔
۴۔ اصفھان سے ؛ ابن با شاذالہ۔
۵۔ صمیرہ سے ؛زیدان۔
۶۔ قم سے ؛حسن بن نضر ،علی بن محمد بن اسحق اور انکے والد ،محمدبن محمد اور حسن بن یعقوب ۔
۷۔ ری سے ؛ قاسم بن موسیٰ اور انکے بیٹے ،ابو محمد بن ھارون ،علی بن محمد بن محمد کلینی اور ابو جعفر رقا ء۔
۸۔ قزوین ؛ مرداس اور علی بن احمد۔
۹۔ نیشابو ر سے ؛ محمد بن شعیب بن صالح۔
۱۰۔ یمن سے ؛ فضل بن یزید ،حسن بن فضل بن یزید ،جعفری ،ابن اعجمی ،اور علی بن محمد شمشاطی۔
۱۱۔ مصر سے ابو رجاء اور انکے علاوہ۔
۱۲۔ نصیبین سے ؛ابو محمد حسن بن وجناء نصیبی اور اسی طرح شھر زور ،فارس ،قابس ،مرس کے علاقے کے جن لوگوں نے بھی حضرت کی زیارت کی ان افراد کے ناموں کو ذکر کیا ھے۔(۵۳)
کنیز وں اور غلاموں کی گواھی امام زمانہ کو دیکھنے کے بارے میں
جو لوگ امام حسن عسکری (ع) کے گھر میں کام وغیرہ کرتے تھے ان لوگوں نے اور بعض کنیزوں نے امام مھدی (عج)سے ملاقات کی ھیں ؛جیسے گھر کا خادم طریف (۵۴)اور ابراھیم بن عبدہ نیشابوری کی خادمہ جو اپنے آقا کے ھمراہ تھی جس نے امام کے نورانی چھرئہ مبارک کی زیارت کا شرف حاصل کیا ،(۵۵) خادم ابوالادیان ،(۵۶)اور خادم ابو غانم جو کہتے ھیں:
خدانے امام حسن عسکری (ع) کو ایک فرزند عطا کیا امام نے جس کا نام” محمد “رکھا اور اس بچے کی ولادت کے تین دن بعد اپنے اصحاب اور چاھنے والوں کو دکھایا اور فرمایا :میرایہ فرزندمیرے بعد تمھارا ولی امر ھوگا ،وہ تم پر ھمارا جانشین ھے یہ وھی ھے جس کے انتظار میں گردن اٹھ جائیںگی اور جب زمین ظلم وستم سے پر ھو جائے گی تو یہ قیام کرے گا پھر زمین کو عدل وانصاف سے بھر دے گا (۵۷)
اور اسی طرح اس مساٴلہ میں عقید نامی غلام ،(۵۸)ایک بوڑھی خادمہ (۵۹)ابو علی خیزرانی کی کنیز (جسے اس نے امام حسن عسکری (ع) کو تحفہ میںدیا تھا) (۶۰)نے امام سے ملاقات کی گواھی دی ھے اسکے علاوہ بھی کچھ کنیزوں (بنام نسیم (۶۱)،ماریہ (۶۲)نے امام سے ملاقات کی ۔
اسی طرح مسرور باورچی (۶۳)اورامام حسن عسکری (ع) کے غلام نے بھی امام سے ملاقات کرنے کا اعتراف کیا ھے اور ان سب نے ابو غانم کی طرح اس کی گواھی دی ھے۔

حکومت کا اس مسئلہ سے مقابلہ کرنا خود ولادت امام مھدی (ع)پر دلیل ھے
امام حسن عسکری (ع) کی ولادت ربیع الثانی ۲۳۲ھ میں ھوئی اور آنحضرت نے تین خلفاء عباسی یعنی معتز (م۲۵۵ھ)،مھتدی (م۲۵۶ھ)،اور معتمد (م۲۷۹ھ ) کا دور دیکھا اور اسی دوران معتمد عباسی اھل بیت(ع) سے شدید قسم کی عداوت رکھتا تھا اور تاریخ طبری جیسی مشھور کتابوں کا مطالعہ کریں تو ۲۵۷،سے ۲۶۰تک کے (یعنی معتمد کی حکومت کا ابتدائی دور )تمام واقعات سے اس کے بغض و دشمنی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ھے ۔
قابل ذکر بات تو یہ ھے کہ خدانے اسی دنیا میں اسے بد تریں سختیوں میں مبتلا کر کے اس سے اس دشمنی کاانتقام لے لیا یھاں تک کہ اس کی حکومت کی کوئی چیز باقی نہ رھی اور ۳۰۰دینار کا محتاج ھو گیا حد یہ کہ اسے کھیں سے ۳۰۰دینا رنہ مل سکے اور آخر میں بہت بری موت اور حال یہ تھا کہ ترکی غلام اس سے بہت بری طرح ناراض ھو ئے اورانھوں نے اس پر غضب ڈھایا ،مورخین کا اتفاق اس پر بھی ھے کہ اس کو ھرن کے چمڑے میں ڈال کر جلا دیا۔
معتمد کی کارناموں میں سے ایک کا رنامہ یہ تھا کہ امام حسن عسکری(ع) کی وفات کے فوراً بعد اپنے کارندوں کو امام (ع) کے گھر بھیجا اور حکم دیا کہ ھر جگہ تلاش کرواور امام مھدی (عج)جھاں کھیں ھوں ڈھونڈھ نکالووہ کارندے گھر میں داخل ھوئے ،پورے گھر کو چھان ڈالا لیکن امام کو نہ پاسکے ،آخر میں امام کے گھر کے نوکروں ،کنیزوں اور خواتین کو گرفتار کر لیا ،انھیں کارندوں میں جعفر کذاب بھی اپنے بھائی امام حسن عسکری (ع) کا مقام حاصل کرنے کی لالچ میں حکومت کی مدد کر رھے تھے ،گویا شیخ مفید کے نقل کے مطابق امام حسن عسکری (ع) کے اھل و عیا ل پر کوئی بلاء و مصیبت ایسی نہ تھی جو ان پر نہ پڑی ھو ۔(۶۴)
یہ سب اس وقت ھوا جب امام (عج)صرف پانچ سال کے تھے ،لیکن معتمد کو معلوم تھا کہ یھی بچہ اھل بیت (ع) میں سے بارھواں امام ھے اور وھی طاغوتوں کے تحت سلطنت کو سر نگوں کرے گا ،اور زمین کو ظلم و جور میں غرق ھونے کے بعد اس سے نجات دے کر اس (زمین )کو عدل و انصاف سے بھر دے گا ،گویا اس کی نظر میں یہ بچہ بچہ نھیں ھے بلکہ امام مھدی کے متعلق اس کا رویہ اسی طرح تھا جس طرح فرعون کا موسیٰ (ع) کلیم اللہ کے (پیدائش کے وقت )ساتھ تھا ،تو اس وقت مادر موسیٰ (ع) نے فرعون کے خوف سے انھیں دریائے نیل کے حوالے کر دیا تھا ،ھاں کبھی کبھی ایک مصیبت دوسری مصیبت سے آسان ھوا کرتی ھے۔
امام مھدی (عج)کے عالمی پیغام کو صرف معتمد نھیں جانتا تھا بلکہ اس سے قبل معتز اور مھدی عباسی بھی اس کی اطلاع رکھتے تھے اور یھی وجہ تھی کہ امام حسن عسکری (ع) کی مستقل کوشش رھی کہ انکے اس فرزند کے ولادت کی خبر نہ پھیلنے پائے جس کے نتیجے میں مخلص شیعہ ھی اس مساٴلہ سے آگاہ ھوئے ۔
امام عسکری (ع) نے متعدد بار اپنے بھت خاص اصحاب کو وجود مھدی موعود (ع) سے باخبر کیا، ساتھ ھی انھیں اس کے مخفی رکھنے کی بھی تاکید کی ،کیوں کہ وقت کے فرعون کو معلوم تھا کہ امام مھدی (ع)آسمان ولایت وامامت کا بارھواں ماہتاب ھے جس پر جابر بن سمرہ کی متواتر حدیث دلالت کر رھی ھے ورنہ اس بچے سے کون سا خطرہ تھا جو ابھی پانچ سال کا بھی نھیں تھا کیا یھی معتمد کی حکومت کے خیمے کو خطرہ میں ڈال دے گا ؟
اگر یہ وھی مھدی موعود (ع) ھے جس کا تاریخ ساز رول اور کارنامہ متواتر احادیث میں واضح طور پر بیان کیا گیا ھے اوراس کا ظالموں کی شازشوں کو قبول نہ کرنے کابھی ذکر ھے تو حکومت وقت نے امام کی شھادت اور جعفر کذاب کے ادعا(امام عسکری (ع) کے بھائی اس بنا پر کہ امام نے اپنا جانشین مقررھی نھیں کیا) پر کیوں عمل نھیں کیا ؟تو کیا حکومت کے لئے یہ ممکن نھیں تھا کہ حکومت وقت امام حسن عسکری (ع) کی میراث کو ان تمام وحشیانہ اور احمقانہ (جو امام مھدی موعود (ع)سے ڈرنے کی خاص دلیل ھے )کاموں کے بغیر جعفر کذاب کو دے دیتی ۔
اس سے پتہ چلتا ھے کہ مساٴلہ عدالت اور لوگوں کے حقوق کی رعایت کی خاطر حکومت کی مشینری کے تیز ھونے کی خاص وجہ امام مھدی (ع) کے گھر کی تلاشی اور خود امام کو ڈھونڈھناھے کیوں کہ وہ لوگ چاہتے تھے کہ باپ کی میراث ناحق طریقے سے صرف جعفر کذاب کو نہ ملے اور مھدی موعود (ع) محمدبن الحسن (عج)بھی اس سے محروم نہ رھیں!!
اس کا جواب یہ ھے کہ اگر فرض کریں کہ اس دعویٰ کو قبول کرلیا جائے پھر بھی حکومت وقت کو کوئی حق نھیں تھا کہ اس کام کو انجام دینے کے لئے اس طرح کا غلط رویہ اختیار کرتی بلکہ بہتر تو یہ تھا کہ جعفر کذاب کے دعویٰ کی تحقیق قاضیوں کے حوالے کر دی جاتی اس لئے کہ سارا جھگڑاتو وراثت کا تھا کہ اسطرح کے مسائل روزانہ پیش آیا کرتے اور فیصلے معمولی طریقے سے طے پاتے تھے جس میں قاضی گواھوں (یعنی امام عسکری(ع) کی ماں ،عورتوں ،اور کنیزوں )کو عدالت میں حاضر کر کے انکی گواھیوں اور چھان بین کے مطابق فیصلہ کر دیتا۔
ایسے امور میں حکومتی کارندوں حتی خود خلافت کا جلد بازی کرنا اور امام عسکری(ع) کے جنازے کے دفن ھونے سے پھلے سب کا قضاوت کی بحث سے خارج ھونا بتلاتا ھے کہ حکومت کی پالیسی کا مقصد امام مھدی (ع)کی ولادت کی اطلاع حاصل کرنا تھی اور انکی تمام تر کوششیں امام کی جستجو اور ان تک رسائی حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ امام کو ختم کرنا تھی نہ امام کی میراث انکے اصلی وارث کو دینا ،اس لحاظ سے حضرت کے غیبت کے دلائل میں سے ایک دلیل انکے آباء و اجداد کی احادیث کی روشنی میں حضرت کی جان کا خطرہ بتایا گیا ھے۔

Add comment


Security code
Refresh