www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

آپ کے اس خطبہ کا اثرلوگوں پر خاص طور سے انصارپر بھت هوا، کیونکہ یہ خطبہ واقعیت اور صداقت پر مبنی تھا اور اس خطبہ میں قرآن کریم اور سنت نبوی سے دلائل پیش کئے گئے تهے کہ

 حضرت پر کیا کیا ظلم وستم هوئے، اس خطبہ میں حضرت علی علیہ السلام کی فضیلت بیان کی گئی اور باقاعدہ دلیلوں کے ذریعہ یہ ثابت کیا گیا کہ آپ ھی خلافت رسول کے حقدار تهے، اور جس وقت انصار پر اس خطبہ کا اثر هوا تو حضرت علی کا نام لے لےکر چلانا شروع کیا، چنانچہ یہ دیکھ کر اھل سقیفہ نے خطرہ کا احساس کیا اور ابوبکر نے نماز جمعہ کی طرف بلایا جس پر سب دوڑے هوئے چلے گئے۔
جوھری نے جعفر بن محمد بن عمارہ سے متعدد طریقوںسے روایت کرتے هوئے کھا : جب جناب ابوبکر نے حضرت زھرا سلام اللہ علیھا کا خطبہ سنا تو اس پر بھت گراں گزرا، چنانچہ منبر پر جاکر اس طرح لوگوں سے خطاب کیا :
”یہ سب کچھ جو تم لوگوں نے سنا ، اور چونکہ ھربات کا ایک مقصد هوتا ہے، اور یہ بات زمانہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں کھاں تھی؟ پس جس نے بھی سنا هو وہ بتائے اور جس نے بھی دیکھا هو وہ گواھی دے، یہ سب کچھ مکروفریب ہے اور اس کا گواہ اس کا شوھر ہے، جو ھر فتنہ کی جڑ ہے، وہ یہ کھتے ھیں کہ یہ لوگ حق وحقیقت کو پانے کے بعد زمان جاھلیت کی طرف پلٹ گئے ، اور وہ بچوں حسن و حسین (ع) کے ذریعہ مدد لیتے ھیں اور عورتوں کے سھارے نصرت ومدد چاھتے ھیں جس طرح امّ طحال (زمان جاھلیت میں باغی اور سرکش عورت) سے اس کے اھل خانہ اس کی نازیبا حرکتوں سے خوش هوتے ھیں۔!!
آگاہ رهو کہ اگر میں چاھتا تو کھتا، اوراگر کھتا تو تم مبهوت هوکر رہ جاتے، لیکن میں تو اس وقت ساکت بیٹھا هوں۔
اس کے بعد انصار کی طرف متوجہ هوکر کھا:
” اے گروہ انصار ! تم لوگوں میں سے بعض احمقوں کی گفتگومجھ تک پهونچی جو کھتے ھیں: ”ھم عھد رسول اللہ میں زیادہ حقدار تهے، کیونکہ ھم نے تم کو پناہ دی اور تمھاری نصرت کی، اور تم آج اپنے کو زیادہ حقدار سمجھتے هو ، لیکن میں تمھاری باتوں کو چھوڑتا هوں اور ان کا کوئی اثر نھیں لیتا، اور نہ ھی مجھے کسی چیز کا لالچ ہے، مگر یہ کہ جس چیز کا میں مستحق هوں، والسلام۔
اس کے بعد منبر سے اتر گیا۔
اس کی باتیں سن کر جناب فاطمہ(س) وھاں سے اپنے گھر کی طرف روانہ هوگئیں۔
ابن ابی الحدید کھتے ھیں:
" حضرت ابوبکر کی اس گفتگو کو میں نے استاد ابو یحیٰ جعفر بن یحیٰ بن ابی زید بصری کے سامنے پڑھا اور سوال کیا کہ اس کلام میں کس کی طرف اشارہ ہے تو انھوں نے کھا کہ اشارہ نھیں ہے بلکہ واضح طور پر بیان ہے، ابن ابی الحدید نے کھا کہ اگر واضح هوتا تو میں آپ سے کیوں سوال کرتا، یہ سن کر ابو جعفر مسکرائے اور کھا :
یہ سب کچھ حضرت علی (علیہ السلام) کی طرف اشارہ ہے، ابن ابی الحدید بھت تعجب سے کھتے ھیں کہ حضرت ابوبکر نے یہ سب کچھ حضرت علی علیہ السلام کی شان میں کھا ہے ۔
ابو جعفر نے کھا کہ جی ھاں یہ سب کچھ حضرت علی (ع) کی شان میں کھاکیونکہ وہ اس وقت کے خلیفہ اور بادشاہ تهے۔
اس کے بعد میں نے سوال کیا کہ انصار کی گفتگو کیا تھی؟ (جس کی بنا پر جناب ابوبکر نے کھا : "تم میں سے بعض احمقوں کی باتیں مجھ تک پهونچی"تو ابوجعفر نے کھا انصار نے حضرت علی علیہ السلام کی حمایت میں آواز بلند کی (اور حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں رسول اللہ کی وصیت کو بیان کیا، یہ دیکھ کر جناب ابوبکر ڈرے اور اس کام سے روک دیا)۔
حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کا انصار سے خطاب
اس کے بعد انصارکی طرف متوجہ هوئیں اورفرمایا:
اے اسلام کے مددگار بزرگو! اور اسلام کے قلعوں، میرے حق کو ثابت کرنے میں کیوں سستی برتتے هو اور مجھ پر جو ظلم و ستم هو رھا ہے اس سے کیوں غفلت سے کام لے ر ھے هو ؟! کیا میرے باپ نے نھیں فرمایا تھا کہ کسی کا احترام اس کی اولاد میں بھی محفوظ رھتا ہے ( یعنی اس کے احترام کی وجہ سے اس کی اولاد کا احترام بھی هوتا ہے؟)
تم نے کتنی جلدی فتنہ برپا کردیا ہے اور کتنی جلدی هوا و هوس کے شکار هوگئے! تم اس ظلم کو ختم کرنے کی قدرت رکھتے هو اور میرے دعوی کو ثابت کرنے کی طاقت بھی۔
یہ کیا کھہ ر ھے هو کہ محمد مرگئے ! (اور ان کا کام تمام هوگیا) یہ ایک بھت بڑی مصیبت ہے جس کا شگاف ھر روز بڑھتا جا رھا ہے اور خلاء واقع هو رھا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جانے سے زمین تاریک هوگئی اور شمس و قمر بے رونق هوگئے، ستارے مدھم پڑ گئے، امیدیں ٹوٹ گئیں، پھاڑوں میں زلزلہ آگیا اور وہ پاش پاش هوگئے ھیں ، حرمتوں کا پاس نھیں رکھا گیا اور پیغمبر اکرم (ص) کی رحلت کے وقت ان کے احترام کی رعایت نھیں کی گئی۔
خدا کی قسم یہ ایک بھت بڑی مصیبت تھی جس کی مثال دنیا میں نھیں مل سکتی۔
یہ اللہ کی کتاب ہے جس کی صبح و شام تلاوت کی آواز بلند هو رھی ہے اور انبیاء علیھم السلام کے بارے میں اپنے حتمی فیصلوں کے بارے میں خبر دے رھی ہے اور اس کے احکام تغیر ناپذیر ھیں (جیسا کہ ارشاد هوتا ہے) :
"اور محمد (ص) صرف خدا کے رسول ھیں، ان سے پھلے بھی دوسرے پیغمبر موجود تهے، اب اگر وہ اس دنیا سے چلے جائیں، یا قتل کردئے جائیں تو کیا تم دین سے پھر جاوٴگے، اور جو شخص دین سے پھر جائے گا وہ خدا کو کوئی نقصان نھیں پهونچا سکتا، خدا شکر کرنے والوں کو جزائے خیر دیتا ہے" ۔
اے فرزندان قبیلہ ( اوس و خزرج) کیا یہ مناسب ہے کہ میں اپنے باپ کی میراث سے محروم رهوں جبکہ تم یہ دیکھ ر ھے هو اور سن رھے هو اور یھاں حاضر بھی هو اور میری آواز تم تک پهونچ بھی رھی ہے اور تم واقعہ سے با خبر بھی هو، تمھاری تعداد زیادہ ہے، تمھارے پاس طاقت و اسلحہ بھی ہے، اور میں تم کو اپنی مدد کے لئے پکار رھی هوں، لیکن تم اس پر لبیک نھیں کھتے، میری فریادکو سن ر ھے هو مگر فریاد رسی نھیں کرتے هو، تم بھادری میں معروف اور نیکی سے موصوف اور خود نخبہ هو ، تم ھی ھم اھلبیت (ع) کے لئے منتخب هوئے، تم نے عربوں کے ساتھ جنگیں لڑیں، سختیوں کو برداشت کیا، مختلف قبیلوں سے جنگ کی، سورماوں سے زورآزمائی کی، جب ھم قیام کرتے تهے تو تم بھی قیام کرتے تهے ھم حکم دیتے تهے اور تم اطاعت کرتے تهے ۔
یھاں تک کہ اسلام نے رونق پائی اور نعمتیں اور خیرات زیادہ هوئیں، مشرکین کے سر جھک گئے، ان کا جھوٹا وقار و جوش ختم هوگیا، اور کفر کے آتش کدے خاموش هوگئے، شورش اور شور و غل ختم هوگیا اور دین کا نظام مستحکم هوگیا۔
اے گروہ انصار: متحیر هوکر کھاں جار ھے هو ؟! حقائق کے معلوم هونے کے بعد انھیں کیوں چھپاتے هو، اور قدم آگے بڑھانے کے بعد پیچھے کیوں ھٹا ر ھے هو، اورایمان لانے کے بعد مشرک کیوں هو رھے هو ؟
"بھلا تم ان لوگوں سے کیوں نھیں لڑتے جھنوں نے اپنی قسموں کو توڑ ڈالا ہے اور رسول کا شھر بدر کرنا چاھتے ھیں، اور تم سے پھلے پھل چھیڑ بھی انھوں نے ھی شروع کی تھی کیا تم ان سے ڈرتے هو ،حالانکہ کہ اگر تم سچے ایماندار هو تو تمھیں صرف خدا سے ڈرنا چاھئے"۔
میں دیکھ رھی هوں کہ تم پستی کی طرف جار ھے هو جو شخص لائق حکومت تھا اس کو برکنار کردیا اورتم گوشہ نشینی اختیار کرکے عیش وعشرت میں مشغول هو،زندگی کے وسیع وعریض میدان سے فرار کرکے راحت طلبی کے تنگ وتار ماحول میں پھنس گئے هو، جو کچھ تمھارے اندرتھا اسے ظاھر کردیااور جوپی چکے تهے اسے اگل دیا، لیکن آگاہ رهو اگرتم اور روئے زمین پرآباد تمام انسان کافرهوجائیںتو خدا تمھارا محتاج نھیں ہے ۔
اے لوگو! جو کچھ مجھے کھناچاھئے تھا سوکھہ دیا، چونکہ میں جانتی هوں کہ تم میری مددنھیں کروگے، تم لوگ جو منصوبے بناتے هو مجھ سے پوشیدہ نھیں ھیں، دل میں ایک درد تھا جس کو بیان کردیاتاکہ تم پرحجت تمام هوجائے اب فدک اورخلافت کوخوب مضبوطی سے پکڑے رکھو،لیکن یہ بھی جان لو کہ اس راہ میں بڑی دشواریاں ھیں اور اس"فعل "کی رسوائیاں اورذلتیں ھمیشہ تمھارے دامن گیر رھیں گی۔
خدا اپنا غیظ وغضب زیادہ کریگا اوراس کی سزا جھنم هوگی، خدا تمھارے کردارسے آگاہ ہے بھت جلد ستمگاراپنے کئے هوئے اعمال کے نتائج دیکھ لیں گے۔
اے لوگو! میں تمھارے اس نبی کی بیٹی هوں جس نے تمھیں خدا کے عذاب سے ڈرایا،اب جو کچھ تم لوگ کرسکتے هو کرو، ھم اس کا ضرور انتقام لیں گے تم بھی منتظر هو ، ھم بھی منتظرھیں۔
 

Add comment


Security code
Refresh