www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

حضرت امام موسیٰ کاظم باب الحوائج علیھم السلام کی شھادت کے موقع پر تمام محبان اھل بیت علیھم السلام کو تعزیت و تسلیئت پیش کرتے ہیں۔

جناب موسى ابن جعفر (ع)نے نہ صرف يہ كہ علمى اعتبار سے اپنے زمانہ كے تمام دانش مندوں اور علمى شخصيتوں كو تحت الشعاع قرار دے ديا بلكہ اخلاقى فضائل اور نماياں اور امتيازى صفات كى بنا پر ھر شخص كى زبان پر آپكا نام تھا۔ تمام وہ افراد جو آپ كى پُر افتخار زندگى سے واقفيت ركھتے ہيں آپ كى اخلاقى عظمت اور ممتاز فضيلت كے سامنے سر تسليم خم كرتے ہيں۔
ابن حجر عسقلاني اھل سنت كے ايك بھت بڑے دانش مند اور محدث لكھتے ہيں كہ موسى كاظم (ع) اپنے باپ كے علوم كے وارث اور صاحب فضل و كمال تھے آپ نے جب بھت زيادہ بردبارى اور درگذر ( جو سلوك آپ نادان لوگوں كے ساتھ كرتے تھے) كا اظھار كيا تو كاظم كا لقب ملا۔ آپ كے زمانہ ميں معارف علمى اور علم و سخاوت ميں كوئي بھى شخص آپ كے پايہ كو نھيں پھنچ سكا۔(۱)
ذیل میں آپ کے چند اخلاقی فضائل کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے:
الف: عبادت
خدا كى خصوصى معرفت آپ كو مزيد عبادت اور پروردگار سے عاشقانہ راز و نياز كى طرف كھينچتى تھى اس وجہ سے اجتماعى كاموں سے فراغت كے بعد آپ عبادت ميں اپنا وقت گذارتے تھے۔
جب ھارون كے حكم سے آپ كو زندان ميں ڈال ديا گيا تو آپ نے خدا كى بارگاہ ميں عرض كيا پروردگارا مدتوں سے ميں يہ چاھتا تھا كہ تو اپنى عبادت كے لئے مجھے فرصت ديدے اب ميرى خواھش پورى ھوگئي لھذا ميں تيرا شكر ادا كرتا ھوں۔
جب آپ قيد خانہ ميں تھے اس وقت جب كبھى ھارون كوٹھے سے زندان كى طرف ديكھتا تھا تو يہ ديكھتاتويھى لباس كى طرح كى كوئي چيز زندان كے ايك گوشہ ميں پڑى ہے۔ ايك بار اس نے پوچھ ليا كہ يہ كس كا لباس ہے؟ ربيع نے كھا: يہ لباس نھيں ہے، يہ موسى ابن جعفر (ع)ہيں جو زيادہ تر سجدہ كى حالت ميں رھتے ہيں۔ ھارون نے كھا سچ ہے وہ بنى ھاشم كے بڑے عبادت گزار افراد ميں سے ہيں۔ ربيع نے پوچھا، تو پھر ان پر اتنى سختى كيوں كرتا ہے ھارون نے كھا: افسوس اس كے سوا كوئي چارہ نھيں ہے۔ (۲)
امام (ع)اس دعا كو بھت پڑھتے تھے'' اللھم انى اسئلك الراحة عند الموت و العفو عند الحساب''(۳) خدايا ميں تجھ سے موت كے وقت آرام اور حساب كے وقت بخشش كا طلبگار ھوں۔
آپ كى عبادت كو بيان كرنے كے لئے وہ جملہ كافى ہے جو ھم آپ كى زيارت ميں پڑھتے ہيں كہ '' درود ھو موسى ابن جعفر (ع)پر جو پورى رات مسلسل عبادت اور استغفار ميں گذارتے تھے، سجدہ ريز رھتے ، بھت زيادہ مناجات اور نالہ و زارى فرماتے تھے۔(۴)
ب: درگذر اور بردباري
امام موسى كاظم(ع)كا درگذر اور ان كى بردبارى بے نظير اور دوسروں كيلئے نمونہ عمل تھي، آپ كے لئے '' كاظم'' كا لقب اسى خصلت كو بيان كرنے والا اور درگذر كى شھرت كى نشان دھى كرنيوالا ہے۔
مدينہ ميں ايك شخص تھا جو ھميشہ امام كو دشنام اور توھين كے ذريعہ تكليف پھنچا تا رھتا تھا۔ امام(ع) كے كچھ صحابيوں نے يہ پيشكش كى كہ اس كو درميان سے ھٹا ديا جائے۔
امام(ع) نے ان لوگوں كو اس كام سے منع كيا پھر اس كے بعد اس كے گھر كا پتہ پوچھ كرجو مدينہ سے باھر ايك كھيت ميں تھا۔ تشريف لے گئے آپ(ع) چوپائے پر سوار تھے جب اس كے كھيت ميں داخل ھوئے، وہ شخص چلانے لگا كہ ھمارے كھيت كو پامال نہ كريں حضرت نے كوئي پروا نھيں كى اور سوارى ھى كى حالت ميں اس كے پاس پھنچے اور سوارى سے اترنے كے بعد اس سے ھنس كر پوچھا: اس زراعت كے لئے كتنے پيسے تم نے خرچ كئے ہيں؟ اس نے جواب ديا سو دينار۔ آپ نے فرمايا : كتنے فائدے كى اميد ہے اس نے جواب ديا ''دوسو دينا'' آپ نے اس كو تين سو دينار مرحمت فرمائے اور كھا:'' زراعت بھى تيرى ہے، جس كى تو اميد لگائے ھوئے ہے خدا تجھكو اتنا ھى دے گا۔ وہ شخص اٹھا اور اس نے امام(ع) موسى كاظم (ع)كے سر كو بوسہ ديا اور اس نے اپنے گناھوں سے درگذر كرنے كى خواھش ظاھر كي۔ امام مسكرائے اور پلٹ گئے ... اس كے بعد ايك دن وہ شخص مسجد ميں بيٹھا ھوا تھا كہ حضرت موسى ابن جعفر(ع) وھاں وارد ھوئے جب امام(ع) پر اس شخص كى نظر پڑى تو اس نے كھا: خدا بھتر جانتا ہے كہ اپنى رسالت كو كس خاندان ميں قرار دے۔(۵) اس كے دوستوں نے اس سے تعجب سے پوچھا: كيا بات ہے؟ تم تو اس سے پھلے ان كو بھت برا بھلا كھتے تھے اس نے دوبارہ امام كے لئے دعا كى اور دوستوں سے الجھ پڑا۔
امام(ع) نے اپنے اصحاب سے جو پھلے اس كو قتل كرنے كا ارادہ ركھتے تھے۔ كھا كيا بھتر ہے، تمھارى نيت يا ھمارا سلوك جو اس كو راہ راست پر لانے كا باعث بنا؟ (۶)
ج: كام اور كوشش
امام موسى كاظم (ع)كے پاس زراعت اور كھيتى تھى آپ خود اس كے كام ميں لگے رھتے تھے، حسن ابن علي(ع) آپ كے صحابى اور شاگرد اپنے باپ كا قول نقل كرتے ہيں ميں نے امام موسى ابن جعفر (ع) سے ان كے كھيت ميں اس حالت ميں ملاقات كى كہ وہ محنت و مشقت كى وجہ سے قدموں تك پسينے سے بھيگے ھوئے تھے ميں نے ان سے كھا: ميں آپ پر قربان جاؤں آپ كے آدمى (كام كرنے والے) كھاں ہيں، آپ خود كيوں مشغول ہيں؟
آپ نے فرمايا: مجھ سے اور ميرے والد سے بھى زيادہ بزرگ افراد اپنے كھيت ميں كام كرتے تھے ميں نے عرض كيا وہ كون لوگ ہيں؟ آپ نے فرمايا: ميرے جد رسول خدا(ص) اور اميرالمؤمنين(ع) اور ھمارے آباء ، اس كے بعد آپ نے فرمايا: كھيتى باڑى پيغمبر،مرسلين اور صالحين كا كام ہے۔(۷)
د: سخاوت و كرم
جود و كرم، ساتويں امام(ع) كى صفتوں ميں سے ايك بڑى نماياں صفت تھي۔آپ نے اپنے مالى امكانات كوجو كھيتى باڑى كے ذريعہ آپ نے حاصل كئے تھے اس طرح ضرورت مندوں كے حوالہ كر ديتے تھے كہ مدينہ ميں ضرب المثل كے طور پر لوگ آپس ميں كھا كرتے تھے '' اس شخص پر تعجب ہے جس كے پاس موسى ابن جعفر (ع)كى بخشش و عطا كى تھيلى پھنچ چكى ھو ليكن وہ پھر بھى تنگ دستى كا اظھار كرے۔(۸)
آپ(ع) كى سخاوت و كرم كے بارے ميں ابن صباغ مالكى تحرير فرماتے ہيں: موسى كاظم (ع)اپنے زمانہ كے لوگوں ميں سب سے زيادہ عابد، دانا اور پاك نفس شخص تھے۔ آپ (ع) پيسے اور كھانے پينے كا سامان مدينہ كے ستم رسيدہ افراد تك پھنچاتے اور كسى كو خبر بھى نھيں ھوتى تھى كہ يہ چيزيں كھاں سے آئي ہيں۔ مگر آپ كى رحلت كے بعد پتہ چلا۔(۹)
ايك شخص جس كا نام '' محمد ابن عبداللہ بكري'' تھا اپنے مطالبات كو وصول كرنے كے لئے مدينہ آيا ليكن اس كو كچھ نھيں ملا۔واپسى پر امام سے ملاقات ھوئي اس نے اپنا ماجرا آپ كو سنايا۔ امام(ع) نے حكم ديا كہ اس كو تين سو دينار سے بھرى تھيلى دى جائے تا كہ وہ خالى ھاتھ اپنے وطن واپس نہ جائے۔(۱۰)
ھ: تواضع اور فروتني
امام موسى ابن جعفر (ع)ايك كالے چھرہ والے كريھہ المنظر شخص كے پاس سے گذرے آپ(ع) نے اس كو سلام كيا اور اس كے پاس بيٹھ گئے اس سے باتيں كيں اور پھر اس كى حاجت پورىكرنے كے لئے اپنى آمادگى كا اظھار فرمايا آپ سے كھا گيا كہ اے فرزند رسول كيا آپ ايسے شخص كے پاس بيٹھتے ہيں اور اس كى حاجتيں پوچھتے ہيں؟
آپ نے فرمايا: وہ خدا كے بندوں ميں سے ايك بندہ ہے اور خدا كى كتاب ميں وہ ايك بھائي ہے، اور خدا كے شھروں ميں وہ ھمسايہ ہے، حضرت آدم (ع) جو بھترين پدر ہيں، اس كے باپ ہيں اور آئين اسلام جو تمام دينوں ميں برترين دين ہے اس نے ھم كو اور اس كو باھم ربط ديا ہے۔(۱۱)
امام موسیٰ کاظم (ع) ھارون کے قید خانہ میں
جب امام کے فضل و علم اور مکارم اخلاق مشھور ھوگئے اور ھر طرف آپ کے متعلق گفتگو ھونے لگی تو ھارون کو یہ بھت گراں گزراکیونکہ وہ علویوں سے بھت زیادہ کینہ رکھتا تھا ،اس نے مشاھدہ کیا کہ علوی امام مو سیٰ کاظم (ع) کا بھت زیادہ احترام کر تے ہیں ھارون اس وقت مدینہ میں تھا اس نے نبی اکرم (ص) کو سلام کیا اور یہ کھا :اے رسول خدا (ص) میرے ماں باپ آپ فدا ھو جا ئیں میں اپنے ارادہ پر آپ سے معذرت چا ھتا ھوں ،میں مو سیٰ بن جعفر(ع) کو قید کرنے کا ارادہ رکھتا ھوں ،کیونکہ مجھے یہ ڈر ہے کہ کھیں آپ کی امت میں فساد برپا ھوجائے اور اُن میں خو ن خرابہ ھو ۔(۱۲)
اس نے ایک سپا ھی امام کو گرفتار کر نے کیلئے روانہ کیا جب وہ امام کے پاس پھنچا تو آپ اپنے جد بزرگوار کی قبر کے پاس نماز پڑھنے میں مشغول تھے تو آپ نے نماز تمام کرنے کے بعد رسول اللہ سے یوں شکایت کی :"یارسول اللہ (ص) میں آپ سے اس کی شکایت کر تا ھو ں ۔۔۔"۔ (۱۳)
امام (ع) کو بڑی ذلت و خواری کے ساتھ گرفتار کر کے ھارون کے پاس لایا گیا جب آپ اس کے سامنے پھنچے تو اُس نے آپ کو بھت بُرا بھلا کہھا اور آپ کو۲۰ شوال ۱۷۹ ھجری میں قیدکیاگیا۔(۱۴)
امام موسیٰ کاظم (ع)بصرہ کے قید خانہ میں
اس طاغوت نے امام (ع) کو بصرہ منتقل کرنے کیلئے کھا اور بصرہ کے گورنر عیسیٰ بن ابوجعفر کو قید کرنے کا حکم دیا تو آپ کو ایک گھر میں قید کردیا اور اس قید خانہ کے دروازے بند کر دئے گئے اور ان دروازوں کو صرف دو حالتوں میں کھولا جاتا تھا ایک طھارت کیلئے اور دوسرے کھانا دینے کیلئے ۔(۱۵)
امام موسیٰ کاظم (ع) کا عبادت میں مشغول رھنا
امام (ع) خدا وند عالم کی عبادت میں مشغول رھتے تھے دن میں روزہ رکھتے اور رات میں نمازیں پڑھتے، آپ نے قید خانہ میں کو ئی جزع و فزع نھیں کی ،آپ نے اللہ کی عبادت میں مشغول رھنا اللہ کی نعمت جانا ، آپ اس پر اللہ کا اس طرح شکر ادا کر تے تھے :"خدایا ! تو جانتا ہے کہ میں تجھ سے یہ سوال کرتا تھاکہ مجھے اپنی عبادت کاموقع فراھم کر ،خدایا ! تو نے ایسا کردیالہٰذا تیرے لئے ھی حمد و ثناہے۔۔۔"(۱۶)
عیسیٰ کو امام (ع)کو قتل کرنے کے لئے روانہ کرنا
ھارون سر کش نے بصرہ کے گورنر عیسیٰ کو امام (ع)کو قتل کرنے کا حکم دیا تو اس کو یہ بات بھت گراں گذری ،اس نے اپنے حوالیوں و مو الیوں کو بلاکر اس سلسلہ میں مشورہ کیا تو اُن سب نے اُس کو ایسا کرنے سے منع کیا اور اُس نے ھارون کو ایک خط لکھا جس میں یہ تحریر کیا کہ مجھے ایسا کرنے سے معاف کیجئے جس کا مضمون کچھ یوں ہے :موسیٰ بن جعفر ایک طولانی مد ت سے میرے قید خانہ میں ہیں اور میں تجھ کو اُن کے حالات سے آگاہ کرتا رھا ھوں ،اور میری آنکھوں نے اس طویل مدت میں امام (ع) کو عبادت کرنے کے علاوہ اور کچھ نھیں دیکھا ،اور جو کچھ امام (ع) اپنی دعا میں کھتے تھے وہ بھی سنا ہے، انھوں نے کبھی بھی میرے اور تیرے خلاف کو ئی بات نھیں کھی ہے اور نہ ھی کبھی برا ئی کے ساتھ یاد کیا ہے ،وہ ھمیشہ اپنے نفس کیلئے مغفرت و ر حمت کی دعا کر تے تھے آپ جس کو چا ھیں میں ان کو اس کے حوالے کردوں یا ان کو چھوڑ دوں میں ان کو قید کرنے سے پریشان ھو گیا ھوں۔(۱۷)
امام موسیٰ کاظم (ع) کو فضل کے قید خانہ میں بھیجنا
ھارون رشید نے عیسیٰ کو بلاکر کھا کہ امام (ع) کو بغداد میں فضل بن ربیع کے قید خانہ میں منتقل کر دیا جائے جب امام وھاں پھنچے تو اُس نے آپ کو اپنے گھر میں قید کردیاامام عبادت میں مشغول ھوگئے آپ دن میں روزہ رکھتے اور رات میں نمازیں پڑھتے تھے ،فضل امام (ع) کی عبادت کو دیکھ کر مبھوت ھو کر رہ گیا ،وہ اپنے اصحاب سے امام (ع) کے ذریعہ اللہ کی عظیم اطاعت کے بارے میں باتیں کر تا ،عبد اللہ قزوینی (جو شیعہ تھے ) سے روایت ہے : ابن ربیع فضل کے پاس پھنچا تو وہ اپنے گھر کی چھت پر بیٹھا ھوا تھا ، اُس نے مجھ سے کھا :میرے قریب آؤ میں اُس کے ایک دم قریب ھو گیا تو اُس نے مجھ سے کھا : گھر میں دیکھو ۔
جب عبد اللہ نے گھر میں دیکھا تو اس سے فضل نے کھا :تم گھر کے اندر کیا دیکھ رھے ھو ؟
میں نے کھا :میں ایک لپٹاھوا کپڑا پڑا ھوا دیکھ رھا ھوں ۔۔۔
صحیح طریقہ سے دیکھو ۔۔۔
تو میں نے ایک شخص کو سجدہ کرتے ھوئے دیکھا ۔۔۔
کیا تم اس کو پھچانتے ھو ؟
نہیں ۔۔۔
یہ تمھارے مو لا و آقا ہیں ۔
میرے مو لا کون؟
تم میرے سامنے لا علمی کا اظھار کیوں کر رھے ھو !
میں لا علمی کا اظھار نھیں کر رھاھوں لیکن میں نھیں جانتا کہ میرے مولا کون ہیں ؟
یہ ابو الحسن مو سیٰ بن جعفر(ع) ہیں ۔۔
پھر فضل عبد اللہ سے امام (ع) کی عبادت کے متعلق یوں بیان کر نے لگا :میں نے رات دن میں کوئی ایسا وقت نھیں دیکھا ،میں نے امام کو اُس حالت میں نہ دیکھا ھوجس کی میں نے تمھیں خبر دی ہے ، امام (ع) صبح تک نمازیں پڑھتے رھتے ہیں ،نماز کے بعد آفتاب کے طلوع ھونے تک دعائیں پڑھتے ہیں ،اس کے بعد زوال آفتاب تک سجدہ میں رھتے ہیں زوال کے وقت کو ئی اُن کو آکر بتا تا ہے مجھے نھیں معلوم کہ کب غلام اُن کو آکر کھتا ہے :زوال کا وقت ھو گیا ہے ،جب وہ سجدہ سے اٹھتے ہیں تو تجدید وضو کے بغیرپھر نماز پڑھنے لگتے ہیں ۔۔۔اور میں جانتا ھوں کہ وہ سجدوں میں ھرگز نھیں سوتے ،نہ ھی آپ پر غفلت طاری ھو تی ہے اور نماز عصر تک آپ اسی طرح رھتے ہیں اور جب عصر کی نماز سے فارغ ھوجاتے ہیں تو اس کے بعد آپ سجدہ کرتے ہیں اور سورج کے غروب ھونے تک سجدہ کی حالت میں رھتے ہیں ،جب سورج غروب ھوجاتا ہے توآپ سجدہ سے اٹھتے ہیں اور کسی حدث کے صادر ھوئے بغیر نماز مغرب بجالاتے ہیں آپ ھمیشہ نمازعشاء تک نمازاور تعقیباتِ نماز پڑھتے تھے ،اس کے بعد نماز عشاء بجالاتے اور نماز عشا پڑھنے کے بعد آپ کچھ تناول فرماتے ، اس کے بعد تجدید وضو کرتے پھر سجدہ میں چلے جاتے اس کے بعد سجدہ سے سر اٹھاتے تو کچھ دیر کیلئے سوجاتے ،اس کے بعد اٹھ کر تجدید وضو کرتے اور طلوع فجر تک نماز پڑھتے اس کے بعد نماز صبح بجالاتے تھے ۔۔۔جب سے میرے پاس ہیں اُن کا یھی طریقہ ہے ۔۔۔
جب عبد اللہ نے فضل کو امام کا یہ اکرام و تکریم کر تے دیکھا تو اس کو امام (ع)کی شان میں کوئی گستاخی نہ کر نے کی یوں تاکید کر نے لگا :اللہ کا تقویٰ اختیار کر،اور اس سلسلہ میں کو ئی ایسا کام نہ کرنا جس سے تیری نعمت زائل ھو جائے ،اور جان لے ! کسی نے کسی کیلئے کو ئی برا ئی نھیں کی مگر یہ کہ اس کی نعمت زا ئل ھو گئی ۔
فضل نے کھا : مجھے کئی مرتبہ آپ کو قتل کر نے کا حکم دیا گیا لیکن میں نے قبول نھیں کیا ،اور تم جانتے ھو کہ میں کبھی ایسا نھیں کروں گا ۔اگر مجھے قتل بھی کر دیا جائے تو بھی جو انھوں نے مجھ سے کھا وہ انجام نھیں دوں گا ۔۔۔(۱۸)
امام موسیٰ کاظم (ع) کا ملول و رنجیدہ ھونا
امام (ع) قید خانہ میں ایک طویل مدت تک رھنے کی وجہ سے ملو ل و رنجیدہ ھو گئے ،اور آپ نے خدا سے ھارون کے قید خانہ سے نجات عطا کر نے کی التجا کی ،آپ نے رات کی تاریکی میں چار رکعت نماز ادا کی اور خدا سے یہ دعا کی :"اے میرے سید و آقا !مجھے ھارون کے قید خانہ سے نجات دے ،اس کے قبضہ سے مجھے چھٹکارا دے ،اے ریت اور مٹی سے درخت کو اُگانے والے ، اے لوھے اور پتھر سے آگ نکالنے والے ، اے گوبر اور خون سے دودھ پیدا کر نے والے ،اے مشیمہ(رحم میں بچہ کی جھلی) اور رحم سے بچہ پیدا کرنے والے ،اے احشاء اور امعاء سے روح کو نکالنے والے مجھے ھارون کے ھاتھ سے نجات دلادے ۔۔۔"۔(۱۹)
اللہ نے اپنے ولی کی دعا کو مستجاب کرلیااور آپ کو باغی ھارون کے قید خانہ سے اس خواب کے ذریعہ رھائی دلا ئی جو اس نے دیکھا تھا۔
امام موسیٰ کاظم (ع) کو فضل بن یحییٰ کے قید خانہ میں بھیجنا
ھارون نے امام (ع) کو دوسری مرتبہ گرفتار کرکے فضل بن یحییٰ کے قید خانہ میں ڈال دیا،فضل نے امام (ع) کی بھت ھی خاطر و مدارات کی جس کا آپ نے بقیہ دوسرے قید خانوں میں مشاھدہ نھیں کیا تھا ، ھارون کے ایک جاسوس نے فضل کے ذریعہ امام(ع) کی خاطر و مدارات کی خبر ھارون کو دی، جس کو سُن کر ھارون طیش میں آگیا، اس نے فضل کو وھاں سے ھٹا کر سو تازیانے لگانے کی خاطر ایک سپاھی روانہ کیا اور جس وقت وہ تازیانے لگانے لگا اس وقت ھارون رشید ،اپنے محل میں تھا وھیں پر وزراء ،لشکر کے سرداراور لوگوں کا ھجوم اکٹھا تھا ،رشید نے بلند آواز میں کھ :لوگو ! فضل بن یحییٰ نے میری اور میرے امر کی مخالفت کی ہے لہٰذا میں اس کو لعنت کا مستحق سمجھتا ھوں اس لئے تم سب اُس پر لعنت کرو ۔۔۔
چاروں طرف سے مجمع سے فضل پر لعنت و سب و شتم کی آوازیں بلند ھو نے لگیں ،وھاں پر یحییٰ بن خالد بھی مو جود تھا جو جلدی سے رشید کے پاس پھنچا اور اُس نے یہ کھہ کر اس کو خوش کیا :اے امیر المو منین فضل سے ایک چیز صادر ھو گئی ہے اور اُس کے لئے تو میں ھی کا فی ھوں ۔۔۔
ھارون رشید خوش ھو گیا، اس کا غصہ دور ھو گیا اور اُس نے یہ کھکر اپنی خو شی کا اظھار کیا :
فضل نے ایک امر میں میری مخالفت کی تو میں نے اس پر لعنت کر دی ہے اور اس نے تو بہ کرلی تو ھم نے بھی اس کی توبہ قبول کر لی ہے لہٰذا تم سب جاؤ۔
ھر طرف سے یہ آواز بلند ھو نے لگی وہ لوگ ھارون کی اس متضاد اور دوھری سیاست کی اطاعت اور تا ئید کر رھے تھے اور کھہ رھے تھے :اے امیر المو منین!،ھم اس سے محبت کر تے ہیں جس سے آپ محبت کرتے ہیں اور اس کے دشمن ہیں جس کے آپ دشمن ہیں اور ھم اس سے محبت کرتے ہیں ۔(۲۰)
امام موسیٰ کاظم (ع)سندی کے قید خانہ میں
رشید نے امام (ع) کو فضل بن یحییٰ کے قید خانہ سے سندی بن شاھک کے قید خانہ میں منتقل کرنے کا حکم دیا ،وہ مجوسی اور بھت خبیث جلّاد تھا ،نہ اللہ پر ایمان رکھتا تھا اور نہ ھی روز قیامت کو مانتا تھا ،اس نے امام (ع) پر بے انتھا سختی کی یھاں تک کہ امام (ع) کوزھر دیدیا ،جو آپ کے پورے بدن میں سرایت کر گیا ، امام(ع) دردو الم سے کراھنے لگے یھاں تک آپ نے داعی اجل کو لبیک کھہ دیا ،آپ کی شھادت سے دنیا میں اندھیرا چھا گیا ، آخرت آپ کے نور سے منور ھو گئی ،خدا ھی بھتر جانتا ہے کہ امام (ع) پر زمانہ کے اُس سر کش ھارون کی طرف سے مصائب و آلام کے کیا کیا پھاڑ ٹوٹے، ھارون خاندان نبوت سے بھت زیادہ کینہ وحسد رکھتا تھا اور اُن کا دشمن تھا ۔
امام(ع) کی شھادت کے بعد سرکاری انتظامیہ ھارون کو امام (ع) کے قتل سے برئ الذمہ قرار دینے کیلئے آپ کی شھادت کے اسباب کے سلسلہ میں تفتیش کر نے لگی، عمرو بن واقد سے روایت ہے کہ رات کا کچھ حصہ گذرنے کے بعد سندی بن شاھک کا میرے پاس خط پھنچااس وقت میں بغداد میں تھا، میں نے خیال کیا کہ کھیں یہ میرے ساتھ کو ئی برا قصد تو نھیں رکھتا ہے ،میں نے اپنے اھل و عیال کو یہ سب دیکھ کر وصیت کی اور کھا : اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ،پھر میں سوار ھوکر اس کے پاس پھنچا ، جب اُس نے مجھے دیکھا تو مجھ سے کھنے لگا :اے ابو حفص شاید آپ ھم سے گھبرا گئے ہیں ؟
ھاں۔
گھبراؤ نھیں ،خیر کے علاوہ اور کچھ نھیں ہے ۔
میرے اھل و عیال کے پاس ایک قاصد بھیج دے تاکہ وہ جا کر انھیں بتا ئے کہ کو ئی بات نھیں ہے ۔
ھاں ۔
جب وہ مطمئن ھوگیا تو سندی نے اُس سے کھا : اے ابو حفص! کیا تم جانتے ھو کہ میں نے تمھیں یھاں کیوں بلا بھیجا ہے ؟
نھیں ۔
کیا تم مو سیٰ بن جعفر(ع) کو جانتے ھو ؟
ھاں میں انھیں پھچانتا ھوں اور کچھ زمانہ سے میری اور اُن کی دو ستی ہے ۔
کیا بغداد میں کوئی یہ قبول کر لے گا کہ تم اتھیں جا نتے ھو ؟
ھاں ۔
پھر اُس نے اُن لوگوں کے نام بتائے جو امام کو جانتے تھے ،سندی نے ان سب کو بلابھیجا جب وہ آگئے تو اس نے اُن سے کھا :کیا تم کسی ایسی قوم کو جانتے ھو جو مو سیٰ بن جعفر کو پھچا نتی ہے ؟تو انھوں نے اُس قوم کے نام بتائے جو امام مو سیٰ بن جعفر (ع) کو پھچا نتی تھی تو اُس قوم کو بھی بلایا گیا یھاں تک کہ پوری رات گذر گئی اور نور کا تڑکا ظاھر ھوا تواس کے پاس پچاس سے زیادہ شاھد جمع ھوچکے تھے اُس نے منشی سے اُن سب کے نام، پتے، کام اور خصوصیات لکھوائے ،پھر وہ وھاں سے نکلا کچھ افراداُ س کے ساتھ ساتھ تھے تو اس نے عمرو بن واقد سے کھا : اے ابو حفص کھڑے ھوجاؤ اور مو سیٰ بن جعفر (ع) کے چھرے سے کپڑا ھٹاؤ ۔
عمرو نے کھڑے ھوکر آپ کے چھرۂ اقدس سے کپڑا ھٹایا تو دیکھا کہ آپ کی روح پرواز کرگئی ہے، اس وقت سندی نے اس جماعت سے مخاطب ھو کر کھا : اِن کی طرف دیکھو ،وہ اُن کے قریب ھوا اور اُن سے کھا :تم گواہ رھنا کہ یہ موسیٰ بن جعفر ہیں ؟
ان لوگوں نے کھا :ھاں ۔
پھر اس نے اپنے غلام کو امام (ع) کے جسم سے لباس اُتارنے کا حکم دیا ،غلام نے ایسا ھی کیا،پھر اُس نے قوم سے مخاطب ھو کر کھا :کیا تم ان کے جسم پر کو ئی ضرب کا نشان دیکھ رھے ھو ؟
نھیں ۔
پھر اُن کی گو اھی لکھی اور وہ سب پلٹ گئے ،(۲۱)اس کے بعد اس نے فقھا اور بڑی بڑی شخصیتوں کو بلاکر امام مو سیٰ بن جعفر (ع) کے قتل سے ھارون کے برئ الذمہ ھونے کی گو اھی دلوائی ۔
امام موسیٰ کاظم (ع) کی نعش مبارک بغداد کے پُل پر
امام (ع) کی نعش مبارک بغداد کے پُل پر رکھ دی گئی تاکہ دور و نزدیک والے سب دیکھ لیں جب گزرنے والوں کی بھیڑھٹی توامام(ع) کا روئے مبارک ظا ھر ھوا ،ایسا کرنے سے حکومت کا مقصد امام (ع) کی اھانت اورشیعوں کو ذلیل و رسوا کر نا تھا ،بعض شاعر کھتے ہیں :
مِثْلُ مُوْسیٰ یُرْمیٰ عَلیٰ الجِسْرِمَیْتاً
لَمْ یُشَیِّعْہُ لِلْقُبُوْرِمُوَحِّدُ !
حَمَلُوْہُ وَلِلْحَدِیْدِ بِرِجْلَیْہِ
ھَزِیْجُ لَہُ الْاَھَاضِیْبُ تَنْھَدْ
افسوس کہ امام موسیٰ کاظم (ع) کی جیسی شخصیت کا جنازہ بغداد کے پُل پر لا کر رکھ دیا گیااور تشییع کے لئے کو ئی دیندار نہ آیا ۔
آپ کا جنازہ اس عالم میں اٹھایا گیا کہ آپ کے پیروں میں لوھے کی بیڑیاں پڑی تھیں۔
ھارون رشید کی تمام کو ششیں خاک میں مل کر رہ گئیں امام (ع) ھمیشہ کیلئے زندۂ جا وید ہیں امام (ع) کا مرقد مطھرکو اللہ کے صالح و نیک بندوں میں ایک با عزت مقام حاصل ہے جس سے اللہ کی رحمت کی خوشبوئیں چاروں طرف پھوٹ رھی ہیں ،مسلمان امام (ع) کی زیارت کیلئے آتے ہیں اور ھارون کا نہ کو ئی نام و نشان ہے اور نہ ھی کوئی اس کو یاد کرنے والا ہے ،نہ اس کی کو ئی ضریح ہے جس پر کو ئی جائے ،وہ اپنے خاندان کے ساتھ ابدی اندھیروں میں مدفون ھو گیا ،عنقریب خداوند عالم اُ س کا مشکل حساب لے گا جس جس ظلم و جور کا وہ مر تکب ھوا ہے ۔
حکومت نے اتنے ھی پر اکتفا نھیں کی بلکہ اس سے بڑھ کر ضلالت کایہ ثبوت دیا کہ وہ بغداد کی سڑکوں پر نکل کر یہ اعلان کر یں :یہ مو سیٰ بن جعفر (ع) ہیں جن کے بارے میں شیعہ یہ گمان کرتے ہیں کہ اِن کوموت نھیں آئے گی دیکھو یہ مر گئے ہیں ۔(۲۲)
اسی طرح انھوں نے یہ کھنے کے بجائے :یہ طیب ابن طیب کے فرزند ہیں دوسرے کلمات کھے ، سلیمان بن ابو جعفر منصور نے امام کی تجھیز کی اس کے دوستوں نے امام (ع) کی نعش مبارک سرکاری مزدوروں کے ھاتھوں سے لی اور یہ اعلان کیا :آگاہ ھوجاؤجو طیب ابن طیب مو سیٰ بن جعفر(ع) کے جنازے میں شریک ھونا چاھتا ہے وہ حاضر ھو جائے ۔
مختلف طبقوں کے لوگ امام (ع) کے جنازے میں شریک ھو نے کے لئے نکل پڑے ،لوگوں نے ننگے پیر آپ کی تشییع جنازہ کی جس کی بغداد میں کو ئی نظیر نھیں ملتی ہے ،سڑکوں پر بھت زیادہ بھیڑ تھی اور سب بھت زیادہ رنج و غم میں غرق تھے ،سلیمان اور اس کے افراد جنازے میں پیش پیش تھے جنازہ کو قریش کی قبروں کے پاس لایا گیا وھیں پر قبر کھودی گئی سلیمان قبر میں اُترے اور آپ کے جنازہ کو آپ کی ابدی آرام گاہ میں رکھا اور حلم علم ،کرامت اور بلند اخلاق کو زمین کے اندر چھپادیا ،سلام ھو اُن پر جس دن وہ پیدا ھوئے ،شھید ھوئے اور جس دن مبعوث کئے جا ئیں گے ۔
حوالہ جات:
1 ۔ الصواعق المحرقہ /۲۰۳۔
2 ۔ بحار جلد ۴۸/۱۰۸، حياة الامام موسى بن جعفر(ع) جلد ۱/۱۴۲۔ ۱۴۰۔ عيون اخبار الرضا جلد ۱/۷۸۔ ۷۷۔
3 ۔ارشاد مفيد /۲۹۶، مناقب جلد ۴/۳۱۸، اعلام الورى /۲۹۶۔
4 ۔ الصلوة على موسى بن جعفر(ع) الذى يحيى الليل بالسحر الى السّحر بمواصلة الاستغفار حليف السجدة و الدموع الغزيرةَ و المناجاتَ الكثيرة الضّراعات و الضراعات المتصلة۔ انوار البھيہ مرحوم شيخ عباس قمي/۱۸۸۔
5 ۔اللہ اعلم حيث يجعل رسالتہ ۔
6 ۔ارشاد مفيد/۲۹۷، تاريخ بغداد جلد ۱۳/۲۸، مناقب جلد۴/۳۱۹، دلائل الامامہ /۱۵۱ ۔ ۱۵۰، بحار ج ۴۸/۱۰۳۔۱۰۲، اعلام الورى /۲۹۶، مقاتل الطالبين /۳۳۲۔
7۔ "و ھو من عمل النبين و المرسلين و الصالحين''من لا يحضرہ الفقيہ جلد ۳/۹۸، مطبوعہ بيروت ميں /۴۰۱، بحار جلد ۴۸/۵۔
8 ۔عمدة الطالب /۱۹۶'' عجباً لمن جائتہ صرة موسى فشكى القلّة''
9 ۔ فصول المھمہ/ ۲۳۷۔
10 ۔المجالس السنية جلد ۲/۵۲۷۔
11 ۔ تحف العقول /۳۵ '' عبدٌ من عباد اللہ و اخ فى كتاب اللہ و جارٌ فى بلاد اللہ يجمعنا و اباہ خير الاباء آدم و افضل الاديان
الاسلام''
12۔بحارالانوار ،جلد ،۱۷صفحہ ۱۹۶۔
13۔مناقب ،جلد ۲،صفحہ ۳۸۵۔
14۔حیاۃالامام مو سیٰ کاظم (ع) ،جلد ۲،صفحہ۴۶۵۔
15۔حیاۃالامام مو سیٰ کاظم(ع) ،جلد ۲،صفحہ۴۶۶۔
16۔مناقب، جلد ۲،صفحہ ۲۷۹۔
17۔کشف الغمہ فی معرفۃ الائمہ، جلد ۳،صفحہ ۲۵۔
18۔عیون اخبار الرضا، جلد ۱،صفحہ ۹۸۔۹۹۔
19۔مناقب جلد ۲صفحہ ۳۷۰۔
20۔مقاتل الطالبین ،صفحہ ۵۰۳۔۵۰۴۔
21۔بحارالانوار، جلد ۱۱،صفحہ ۳۰۔
22۔حیاۃالامام مو سیٰ بن جعفر (ع)،جلد ۲،صفحہ ۵۲۲۔

Add comment


Security code
Refresh