www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

ھمارے پانچويں پيشواامام محمدباقر(ع)جمعہ كے دن پھلى رجب ۵۷ ھجری كو شھر مدينہ ميں پيدا ھوئے۔

 

ولادت اور بچپن كا زمانہ
ھمارے پانچويں پيشوا امام محمد باقر (ع)جمعہ كے دن پھلى رجب ۵۷ ھجری كو شھر مدينہ ميں پيدا ھوئے۔آپ كا نام محمد، كنيت ابوجعفر اور مشھورترين لقب باقر ہے۔ روايت ہے كہ حضرت رسول اکرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے اس لقب سے ملقب فرمايا تھا۔ امام محمد باقر (ع) ماں اور باپ دونوں طرف سے فاطمى اور علوى تھے۔ اس لئے كہ ان كے والد امام زين العابدين امام حسين(ع) كے فرزند تھےاور ان كى والدہ گرامى '' ام عبداللہ'' امام مجتبى كى بيٹى تھيں آپ نے امام زين العابدين جيسے باپ كى پر مھر آغوش ميں پرورش پائي اور با فضيلت ماں كى چھاتى سے دودھ پيا۔وہ ماں جو عالمہ اور مقدسہ تھيں، امام جعفر صادق عليہ اسلام سے منقول ہے كہ '' ميرى جدّہ ماجدہ ايسى صديقہ تھيں كہ اولاد امام حسن مجتبى ميں كوئي عورت انكى فضيلت كے پايہ كو نہ پھونچ سكي۔ 
امام محمد باقر (ع)كى عمر چار سال سے كم تھى كہ جب كربلا كا خونين واقعہ پيش آيا۔آپ(ع) اپنے جد حضرت اباعبداللہ الحسين (ع) كے پاس موجود تھے۔ واقعہ كربلا كے بعد ۳۴ برس آپ (ع) نے اپنے پدر بزرگوار كے ساتھ زندگى گذاري، آپ جوانى ھى كے زمانہ سے علم و دانش، فضيلت و تقوى ميں مشھور تھے اور آئندہ چل كر مسلمانوں كے علمى مشكلات كے حل كا مرجع سمجھے جانے لگے جھاں كھيں بھى ھاشميين، علويين اور فاطميين كى بلندى كا ذكر ھوتا، آپ(ع) كو ان تمام مقدسات، شجاعت اور بزرگى كا لوگ تنھا وارث جانتے تھے۔
آپ(ع) كى شرافت اور بزرگى كو مندرجہ ذيل حديث ميں پڑھا جاسكتا ہے۔ پيغمبر(ص) نے اپنے ايك نيك صحابي، جابر ابن عبداللہ انصارى سے فرمايا:'' اے جابر تم زندہ رھوگے اور ميرے فرزند محمد ابن على ابن الحسين (ع) سے كہ جن كا نام توريت ميں '' باقر'' ہے ملاقات كروگے ملاقات ھونے پر ميرا سلام پھنچا دينا'' پيغمبر(ص) رحلت فرماگئےجابرنے ايك طويل عمر پائي ، ايك دن امام زين العابدين (ع) كے گھر تشريف لائے اور امام محمد باقر (ع) كو جو چھوٹے سے تھے ديكھا، ان سے جابر نے كھا: ذرا آگے آيئےامام(ع) آگے آگئے جابر نے كھا: ذرا مڑجايئے امام مڑگئے، جابر نے جسم اور ران كے چلنے كا انداز ديكھا اس كے بعد كھا، كعبہ كے خدا كى قسم، يہ پيغمبر(ص) كا ھو بھو آئينہ ہيں۔ پھر امام زين العابدين (ع) سے پوچھا'' يہ بچہ كون ہے؟ آپ نے فرمايا: ميرے بعد امام ميرا بيٹا محمد باقر (ع) ہےجابر اٹھے اور آپ نے امام كے قدموں كا بوسہ ليا اور كھا: اے فرزند پيغمبر (ص) ميں آپ پر نثار، آپ اپنے جد رسول خدا(ص) كا سلام و درود قبول فرمائيں انھوں نے آپ كو سلام كھلو ايا ہے۔
امام محمد باقر (ع) كى آنكھيں ڈبڈ باگئيں اور آپ(ع) نے فرمايا: جب تك آسمان اور زمين باقى ہے اس وقت تك ميرا سلام و درود ھو ميرے جد پيغمبر(ص) خدا پر اور تم پر بھى سلام ھو اے جابر تم نے ان كا سلام مجھ تك پھنچايا۔
امام (ع) كے اخلاق و اطوار
حضرت امام محمد باقر (ع) ، متواضع، سخي، مھربان اور صابر تھے اور اخلاق و عادات كے اعتبار سے جيسا كہ جابر نے كھا تھا ھو بھو اسلام كے عظيم الشان پيغمبر(ص) كا آئينہ تھے۔
شام كا ايك شخص مدينہ ميں ٹھہرا ھوا تھا اور امام (ع) كے پاس بھت آتارھتا تھا اور كھتا تھا كہ تم سے زيادہ روئے زمين پر اور كسى كے بارے ميں ميرے دل ميں بغض و كينہ نھيں ہے، تمھارے اور تمھارے خاندان سے زيادہ ميں كسى كا دشمن نھيں ھوں۔ اگر تم يہ ديكھتے ھو كہ ميں تمھارے گھرآتاجاتا ھوں تو يہ اس لئے ہے كہ تم ايك سخن ور اور خوش بيان اديب ھواس كے باوجود امام (ع) اس كے ساتھ حسن سلوك سے پيش آتے تھے اور اس سے بڑى نرمى سے بات كرتے تھے كچھ دنوں كے بعد وہ شخص بيمار ھوااس نے وصيت كى كہ جب ميں مرجاؤں تو امام محمد باقر(ع) ميرى نماز جنازہ پڑھائيں۔
جب اس كے متعلقين نے اسے مردہ ديكھا تو امام (ع) كے پاس پھنچ كر عرض كى كہ وہ شامى مرگيا اور اس نے وصيت كى ہے كہ آپ اس كى نماز جنازہ پڑھائيں۔
امام نے فرمايا: مرا نھيں ہے ... جلدى نہ كرو يھاں تك كہ ميں پھونچ جاؤں اس كے بعد آپ اٹھے اور آپ نے دو ركعت نماز پڑھى اور ھاتھوں كو دعا كے لئے بلند كيا اور تھوڑى دير تك سر بسجدہ رھے، پھر شامى كے گھر گئے اور بيمار كے سرھانے بيٹھ گئے، اس كو اٹھا كر بٹھايا اس كى پشت كو ديوار كا سھارا ديا اور شربت منگواكر اس كے منہ ميں ڈالا اور اس كے متعلقين سے فرمايا كہ اس كو ٹھنڈى غذائيں دى جائيں اور خود واپس چلے گئے ابھى تھوڑى دير نہ گذرى تھى كہ شامى كو شفا مل گئي وہ امام (ع) كے پاس آيا اور عرض كرنے لگا:'' ميں گواھى ديتا ھوں كہ آپ، لوگوں پر خدا كى حجت ہيں ...''
اس زمانے كے صوفيوں ميں سے ايك شخص محمد بن مُنكَدر كا بيان ہے كہ ايك دن ميں بھت گرمى ميں مدينہ سے باھر نكلا وھاں ميں نے محمد باقر (ع) كو ديكھا كہ دو غلاموں پر تكيہ كئے ھوئے ہيں ميں نے اپنے دل ميں كھا كہ قريش كے بزرگوں ميں سے ايك بزرگ ايسے وقت ميں دنيا كى ھوس اور لالچ ميں پڑے ھوئے ہيں، ميں ان كو كچھ نصيحت كروں ميں ان كے قريب گيااور سلام كيا ان كے سر اور داڑھى سے پسينہ بھہ رھا تھا امام (ع) نے اسى حالت ميں ميرے سلام كا جواب دياميں نے عرض كي: خدا آپ كو سلامت ركھے آپ كى جيسى شخصيت والا انسان اس وقت اس حالت ميں دنيا حاصل كرنے ميں لگا ھوا ہے اگر اسى حالت ميں موت آجائے تو آپ(ع) كيا كريں گے؟
آپ نے فرمايا خدا كى قسم اگر موت آگئي تو خداوند عالم كى اطاعت كى حالت ميں موت واقع ھوگي اس لئے كہ ميں اس وسيلہ سے اپنے آپ كو تم سے اور دوسروں كى محتاجى سے بچاتا ھوں ميں اس حالت ميں موت سے ڈرتا ھوں كہ ميں (خدا نخواستہ ) گناہ كے كام ميں لگا رھوں ميں نے كھا آپ پر خدا كى رحمت ھو، ميں نے چاھاتھا كہ ميں آپ كو نصيحت كروں ليكن آپ نے مجھ كونصيحت كى اور آگاہ فرمايا۔
علم امام محمد باقرعلیہ السلام
آپ كا علم بھى دوسرے تمام ائمہ كى طرح چشمہ وحى سے فيضان حاصل كرتا تھا، جابر بن عبداللہ آپ كے پاس آتے اور آپ كے علم سے بھرہ ور ھو تے اور بار بار عرض كرتے تھے كہ '' اے علوم كو شگافتہ كرنے والے ميں گواھى ديتا ھوں كہ آپ بچپن ھى ميں علم خدا سے مالامال ہيں۔
اھل سنت كے علماء ميں سے ايك بزرگوار عبداللہ ابن عطاء مكى فرماتے تھے كہ ميں نے امام محمد باقر(ع) كے سامنے اھل علم كو جس طرح حقير اور چھوٹا پايا ہے ويسا كسى كے سامنے ميں نے نھيں ديكھا ہے حكم بن عتيبہ لوگوں كے نزديك جن كا علمى مقام بھت بلند تھا امام محمد باقر(ع) كے سامنے ان كى حالت يہ ھوتى تھى كہ جيسے ايك شاگرد استاد كے سامنے''
آپ كا علمى مقام ايسا تھا كہ جابر بن يزيد جعفى ان سے روايت كرتے وقت كھتے تھے '' وصى اوصياء اور وارث علوم انبياء محمد بن على بن الحسين(ع)نے ايسا كھا ہے ...''
ايك شخص نے عبداللہ بن عمر سے ايك مسئلہ پوچھا وہ جواب نہ دے سكے اور سوال كرنے والے كو امام محمد باقر (ع)كا پتہ بتاديا اور كھا كہ اس بچے سے پوچھنے كے بعد جو جواب ملے وہ مجھ كو بھى بتادينا اس شخص نے امام(ع) سے پوچھا اور مطمئن كرنے والا جواب سننے كے بعد عبداللہ بن عمركو جاكر بتاديا۔ عبداللہ نے كھا:'' يہ وہ خاندان ہے جس كا علم خدا داد ہے''۔
حضرت امام محمد باقر (ع)نے علوم و دانش كے اتنے رموز و اسرار واضح كئے ہيں كہ سوائے دل كے اندھے كے اور كوئي انكا، انكار نھيں كرسكتا۔ اس وجہ سے آپ نے تمام علوم شكافتہ كرنے والے اور علم و دانش كا پرچم لھرانے والے كا لقب پايا۔
انھوں نے مدينہ ميں علم كا ايك بڑا دانشكدہ بتايا تھا جس ميں سينكڑوں درس لينے والے افراد آپ كى خدمت ميں پھونچ كر درس حاصل كيا كرتے تھے۔
رسول خدا (ص) كے اصحاب ميں سے جو لوگ زندہ تھے، جيسے جابر بن عبداللہ انصارى اور تابعين ميں سے كچھ بزرگ افراد جيسے جابر بن جعفي، كيسان سختيانى اور فقھاء ميں سے كچھ لوگ جيسے ابن مبارك زھري، اوزاعى ، ابوحنيفہ ، مالك ، شافعى اور زياد بن منذر اور مصنفين ميں سے كچھ افراد جيسے طبري، بلاذري، سلامى اور خطيب نے اپنى تاريخوں ميں آپ سے روايتيں لكھى ہيں۔
امام محمد باقر علیہ السلام اور اموى خلفاء
امام محمد باقر (ع)كى امامت كا زمانہ جو تقريباً ۱۹ سال پر محيط تھا ۔ اموى حكمرانوں جيسے وليد بن عبدالملك، سليمان بن عبدالملك، عمر بن عبدالعزيز، يزيد بن عبدالملك، ھشام بن عبدالملك كا زمانہ تھا۔ ان ميں سے سوائے عمر بن عبدالعزيز كے جو نسبتاً عدالت پسند تھا ۔ سب كے سب ستمگري، استبداد اور مطلق العنانى ميں اپنے اسلاف سے كچھ كم نہ تھے اور آگے چل كر انھوں نے امام محمد باقر(ع) كے لئے مشكليں پيدا كيں۔
امام محمد باقر (ع)كے زمانہ امامت كے سياسى اور كھٹن حالات سے واقفيت كے لئے ھم يھاں ان ميں سے ھر ايك كے بارے ميں اب اجمالى گفتگو كر رھے ہيں۔
وليدنے ۸۶ ھ ق ميں حكومت كى باگ ڈور سنبھالى اور ۱۵ جمادى الآخر ۹۶ ھ ق كو مرگيا۔
مسعودى كا بيان ہے كہ وليد ايك ھٹ دھرم، جابر اور ظالم بادشاہ تھا ۔ اس كے باپ نے اس كو وصيت كى تھى كہ حجاج بن يوسف كا اكرام كرے اور چيتے كى كھال پھنے ۔ تلوار آمادہ ركھے اور جو اس كى مخالفت كرے اس كو قتل كردے ۔
اس نے بھى باپ كى وصيت كو پورا كيا اور حجاج كے ھاتھوں كو اپنے باپ كى طرح مسلمانوں كو ستانے اور ان كو قتل كرنے كے لئے آزاد چھوڑ ديا۔
عمر بن عبدالعزيز، وليد كى طرف سے مدينہ كا حاكم تھا، حجاج كے ظلم سے تنگ آكر جو بھى بھاگتا تھا اس كے پاس پناہ ليتا تھا۔ عمر نے وليد كو ايك خط لكھااور لوگوں كے ساتھ حجاج كے ظلم كى شكايت كى وليد نے حاكم مدينہ كى شكايت سننے كى بجائے، حجاج كى خوشنودى كے لئے عمر بن عبدالعزيز كو مدينہ كى گورنرى سے معزول كرديا اور حجاج كو لكھا'' تم جس كو بھى چاھو حجاز كا حاكم بنادو۔ حجاج نے بھى خالد بن عبداللہ قسرى كے لئے سفارش كى جو خود اسى جيسا ايك خونخوار شخص تھا وليد نے يہ سفارش قبول كر لي۔
وليد كا حجاج پر اعتماد كرنا اور اپنے باپ عبدالملك كى تائيد، وليد كے طغيان اور اس كى تباہ كارى پر بھترين دليل ہے۔
اپنے بھائي كے بعد سليمان بن عبدالملك نے زمام حكومت اپنے ھاتھوں ميں لى اور جمعہ كے دن ۱۰ ماہ صفر ۹۹ ھ كو مرگيا۔ وہ بڑا پرخور اور عورتوں كا دلدادہ تھا۔ اس كے دور خلافت ميں عياشى اور دربار ميں عيش و نشاط كى محفل اپنے اوج پر تھي۔ متعدد خواجہ سراؤں كو اس نے اپنے دربار ميں ركھ چھوڑا تھا اور اور اپنا زيادہ وقت حرم سراء كى عورتوں كے ساتھ گذارتا تھا۔ آھستہ آھستہ برى باتيں ملك كے كارندوں ميں بھى سرايت كر گئيں اور يہ باتيں ملك گير پيمانہ پر پھيل گئيں ۔
اس نے دو سال چند مھینے حكومت كى شروع ميں اس نے نرمى كا مظاھرہ كيا۔ عراق كے قيد خانوں كے دروازے كھول ديئے اور بے گناھوں كو آزاد كرديا جبكہ اس كى زندگى كے لمحات ظلم و ستم سے خالى نہ تھے۔ اس نے خالد بن عبداللہ قسرى كو جو ظلم اور جرائم ميں حجاج كا ثانى تھا، اس كےمقام پر باقى ركھا۔
اس كے بعد عمر بن عبدالعزيز مسند حكومت پر متمكن ھوا۔ اس كا انتقال ۲۵ رجب ۱۰۱ ھ ق كو ھوا۔ يہ كسى حد تك پريشانيوں اور دشواريوں پر قابو پانے ، برائيوں اور تفريق كے ساتھ جنگ كرنے، اس ننگ و عار كے دھبہ كو جو اس وقت كى حكومت كے دامن پر لگا ھوا تھا ۔ يعنى على (ع)پر سب و شتم كرنا دھونے، فدك كو اولاد فاطمہ عليھا السلام كو واپس دے دينے اور امام محمد باقر(ع) كے حوالے كرنے ميں كامياب ھوئے۔
اس كے بعد يزيد بن عبدالملك ان كى جگہ مسند حكومت پر متمكن ھوا۔ اور اپنے حكام كو مندرجہ ذيل خط لكھ كر اپنى حكومت كا آغاز كيا:
'' عمر بن عبدالعزيز نے دھو كہ كھايا، تم اور تمھارے اطراف كے لوگوں نے اس كو دھو كہ ديا ... خط ملتے ہى سابق معاونين اور اپنے دوستوں كو جمع كرو اور لوگوں كو ان كى سابقہ حالت پر پلٹا دو، چاھے وہ ماليات كو ادا كرنے كى طاقت ركھتے ھوں يا نہ ركھتے ھوں، زندہ رھيں يا مرجائيں، لازم ہے كہ وہ ٹيكس ادا كريں''۔
يزيد بن عبدالملك كا اپنے ھم نام يزيد بن معاويہ كى طرح سوائے عياشي، جرائم، مستى اور عورتوں كے ساتھ عشق بازى كے اور كوئي دوسرا كام نہ تھا۔ وہ اخلاقى اور دينى اصول كا ھرگز پابند نہ تھا۔ اس كى خلافت كا زمانہ بنى اميہ كى حكومت كا ايك سياہ ترين اور تاريك ترين دور شمار كيا جاتا ہے اس كے زمانہ ميں قصائد اوراشعار كى جگہ ساز اور آواز نے لے لى تھى اور اس شعبہ كو اتنى وسعت دے دى تھى كہ مختلف شھروں سے گانے بجانے والے دمشق بلائے جاتے تھے اور اس طرح عياشي، ھوس راني، شطرنج اور تاش نے عربى معاشرہ ميں رواج پايا۔
اس كے بعد ھشام بن عبدالملك نے حكومت كى باگ ڈور سنبھالي۔ وہ بخيل، بداخلاق، ستمگر اور بے رحم تھا۔ نہ صرف يہ كہ اس نے برائيوں كى اصلاح كيلئے كوئي قدم نھيں اٹھايا بلكہ اس نے بنى اميہ كى خطاؤں كو تقويت بخشي اپنے گورنروں كو اس نے لكھا كہ شيعوں كے ساتھ سختى كركے ان پر عرصہ حيات تنگ كردو ۔اس نے حكم ديا كہ ان كے آثار كو مٹا كر ان كا خون بھايا جائے اور ان كو عام حق سے محروم كردو۔
اس نے حكم ديا كہ شاعر اھل بيت '' كُمَيت'' كا گھر اجاڑ ديا جائے كوفہ كے حاكم كو لكھا كہ ''اولاد پيغمبر (ص) كى مدح كرنے كے جرم ميں كُمَيت كى زبان كاٹ دى جائے''
يھى تھا جس نے زيد بن على بن الحسين كے انقلاب كو كچل ديا تھا اور ان كے جسم مقدس كو مثلہ كرنے كے بعد كوفہ كے كليسا كے پاس نھايت دردناك حالت ميں دار پر لٹكا ديا۔
امام محمد باقر (ع)كا اپنى خلافت كے زمانہ ميں ايسے ايسے مدعيان خلافت سے مقابلہ تھا۔
خلافت كے بالمقابل امام (ع) كا موقف
ھشام، امام محمد باقر(ع)اور ان كے فرزند عزيز حضرت امام جعفر صادق(ع)كى عزت و وقار سے بھت خوف زدہ تھا اس لئے اپنى حاكميت كا رعب جمانے اور خلافت كى مشينرى كے مقابلہ ميں امام كى اجتماعى حيثيت و وقار كو مجروح كرنے كے لئے اس نے حاكم مدينہ كو حكم ديا كہ ان دونوں بزرگوں كو شام بھيجدے۔
امام(ع) كے وارد ھونے سے پھلے اس نے اپنے درباريوں اور حاشيہ نشينوں كو امام (ع) كا سامنا كرنے كے لئے ضرورى احكامات ديئے۔ يہ طے پايا كہ پھلے خليفہ اور پھر اس كے بعد حاضرين دربار جو سب كے سب مشھور اور نماياں افراد تھے، امام محمد باقر(ع) پر تھمت اور شماتت كا سيلاب انڈيل ديں۔
اس عمل سے ھشام كے دو مقصد تھے، پھلا مقصد يہ تھا كہ اس سختى اور تھمت سے امام (ع) كے حوصلہ كو كمزور كركے ھر اُس كام كے لئے جس كى وہ خواھش كرے گا امام كو آمادہ كرلے گا۔ دوسرا مقصد يہ تھا كہ اس ملاقات ميں كہ ، جس ميں بڑے بڑے رھبر شريك تھے، آپ كو ذليل كرديا جائے۔
امام محمد باقر (ع)وارد ھوئے اور معمول كے مطابق جو طريقہ تھا كہ ھر آنے والا '' امير المؤمنين'' كے مخصوص لقب كے ساتھ خليفہ كو سلام كرتا تھا۔ اس كے برخلاف آپ(ع) نے تمام حاضرين كى طرف رخ كركے'' سلامٌ عليكم'' كھا، پھر اجازت كا انتظار كئے بغير بيٹھ گئے۔ اس روش كى بنا پر ھشام كے دل ميں كينہ اور حسد كى آگ بھڑك اٹھى اور اس نے اپنا پروگرام شروع كرديا۔ اس نے كہا'' تم اولاد على ھميشہ مسلمانوں كے اتحاد كو توڑتے ھو اور اپنى طرف دعوت ديكر ان كے درميان رخنہ اور نفاق ڈالتے ھو، نادانى كى بنا پر ( معاذاللہ) اپنے كو پيشوا اور امام سمجھتے ھو'' ھشام تھوڑى دير تك ايسى ياوہ گوئي كر تا رھا پھر چپ ھوگيا۔
اس كے بعد اس كے نوكروں ميں سے ھر ايك نے ايك بات كھى اور آپ كو مورد تھمت قرار ديا۔
امام محمد باقر (ع)اس تمام مدت ميں خاموشى اور اطمينان سے بيٹھے رھے۔ جب سب چپ ھوگئے تو آپ(ع) اٹھے اور حاضرين كى طرف مخاطب ھوئے، حمد و ثنائے خدا اور پيغمبر (ص) پر درود كے بعد ان كى گمراھى اور بے راہ روى كو واضح اور اپنى حيثيت نيز اپنے خاندان كے سابقہ افتخار كو بيان كرتے ھوئے فرمايا:
'' اے لوگو تم كھاں جا رھےھو اور ان لوگوں نے تمھارا كيا انجام سوچ ركھا ہے؟ ھمارا ھى وسيلہ تھا جس كے ذريعہ خدا نے تمھارے اسلاف كى ھدايت كى اور ھمارے ھى ھاتھوں سے تمھارے كام كے اختتام پر مھر لگائي جائے گى اگر تمھارے پاس آج يہ تھوڑے دنوں كى حكومت ہے تو ھمارے پاس دير پا حكومت ھوگي۔ھمارى حكومت كے بعد كسى كى حكومت نھيں ھوگى ھم ھى وہ اھل عاقبت ہيں جن كے بارے ميں خدا نے فرمايا ہے كہ عاقبت صاحبان تقوى كے لئے ہے''۔
امام (ع)كى مختصر اور ھلا دينے والى تقرير سے ھشام كو ايسا غصہ آيا كہ سختى كے سوا اور كچھ اس كى سمجھ ميں نہ آيا اس نے امام (ع) كو قيد كر دينے كا حكم ديا۔
امام (ع) نے زندان ميں بھى حقيقتوں كو آشكار اور واضح كيا۔ زندان كى نگرانى كرنے والوں نے ھشام كو خبر دى ، يہ بات اس مشينرى كے لئے قابل تحمل نہ تھى جو دسيوں سال سے شام كو علوى تبليغات كى دست رسى سے دور ركھے ھوئے تھي۔ اس نے حكم ديا كہ امام اور ان كے ساتھيوں كو زندان سے نكال كر پھرہ اور سختيوں ميں مدينہ پھنچا يا جائے اور پھلے سے بھى ضرورى احكام بھيجے جاچكے تھے كہ راستہ ميں كسى كو يہ حق حاصل نھيں ہے كہ اس معتوب قافلہ كے ساتھ كوئي معاملہ كرے اور ان كے ھاتھوں كسى كو روٹى اور پانى بيچنے كا حق نھيں ہے ...
اسلامى ثقافت كا احياء
امام محمد باقر (ع) ان حالات ميں حاكم كى سخت گيرى اور ضرورت تقيہ كے باوجود اس بات ميں كامياب ھوگئے كہ تعليم و تربيت كے ذريعہ بھت ھى گھرى بنيادوں پر مبنى علمى تحريك بنائيں انھوں نے آغاز ھى سے تشيع كى بنيادى اور با مقصد دعوت كى اشاعت كيلئے ، وسيع پيمانہ پر كوشش شروع كي اس دعوت كى وسعت اتنى تھى كہ شيعوں كے علاقہ جيسے مدينہ اور كوفہ كے علاوہ شيعى فكر كے نفوذ كى قلمرو ميں دوسرے نئے علاقوں كا بھى اضافہ ھوا اس سلسلہ ميں تمام جگھوں سے زيادہ خراسان كا نام ليا جاسكتا ہے۔
حج كے زمانہ ميں عراق، خراسان اور دوسرے شھروں سے ھزاروں مسلمان آپ سے فتوى معلوم كرتے تھے۔ اور معارف اسلام كے ھر باب كے بارے ميں آپ سے سوال كرتے تھے۔ ان بزرگ فقھاء كى طرف سے جو علمى اور فكرى مكاتب سے وابستہ تھے، آپ كے سامنے دشوار گذار مسائل ركھے جاتے تھے تا كہ آپ الجھ جائيں اور لوگوں كے سامنے خاموش رھنے پر مجبور ھوجائيں۔
امام (ع)نے ان تمام مقامات پر تشيع كے اركان كى تفصيلى توضيح كے ساتھ اس كے اعلى صفات كو محدود سطح اورگنے چنے افراد سے نكالا اور اسے آفاقى نكال كرمكتب كے مفاھيم كى نشر و اشاعت كے ذريعہ افراد كى پرورش كى اور حقيقى اسلام كو مجسم بنايا۔ چنانچہ بھت سے شھروں ميں اس كا رد عمل ظاھر ھوگيا تھا۔
ان كاموں كى وجہ سے لوگ ان كے گرويدہ ھوگئے تھے اور آپ(ع) نے قوم ميں بھت زيادہ نفوذ پيدا كر ليا تھا۔ جبكہ خلافت بنى اميہ كے زمانہ ميں قبيلہ مضر اور حمير كے درميان نسلى قتل كى آگ بھڑك رھى تھي۔ مگر ھم ديكھتے ہيں كہ دونوں قبيلوں كے درميان امام (ع) كے چاھنے والے تھے جيسا كہ باقاعدہ شيعہ كھے جانے والے شعراء جيسے فرزدق تميمى مضرى اور كميت اسدى حميرى دونوں ھى امام (ع)اور اھل بيت (ع) كى دوستى ميں متفق تھے۔
اسلامى نظام كى تشكيل
امام محمد باقر (ع)نے ضرورت كى وجہ سے معاشرہ پر مسلط حكومت سے لڑنے اور آمنے سامنے كى جنگ سے اجتناب كيا اور آپ نے زيادہ تر فكرى اور ثقافتى كام كيا۔ جو نظرياتى تخم ريزى بھى تھى اور سياسى تقيہ بھى ليكن يہ حكيمانہ انداز اس بات كا سبب نھيں بنا كہ امام تحريك امامت كى كلى سمت كو قريبى دوستوں اور سچے شيعوں كے لئے جو اُن كے گرويدہ تھے، واضح نہ كريں اور عظيم شيعى مقصد كويعنى اسلامى نظام كو ناقابل اجتناب مبارزہ كے ذريعہ ان كے دلوں ميں زندہ نہ كريں امام محمد باقر(ع) كے اميد افزا طريقوں ميں سے ايك طريقہ يہ بھى تھا كہ آپ آئندہ كے لئے دل پسند نويد ديتے تھے جو چنداں دور بھى نھيں ھوتى تھي۔
راوى كھتا ہے: ھم ابوجعفر(ع)كى خدمت ميں بيٹھے ھوئے تھے ايك بوڑھا آدمى آيا، سلام كيا اور كہا كہ اے فرزند رسول خدا(ص) كى قسم ميں آپ كا اور آپ كے چاھنے والوں كا دوست ھوں يہ دوستى دنيا كى لالچ ميں نھيں ہے ... ميں نے آپ كے امر و نھى كو قبول كر ليا ہے اور ميں اس انتظار ميں ھوں كہ آپ كى كاميابى كا زمانہ قريب آئے، كيا اب ھمارے لئے كوئي اميد ہے؟ امام (ع) نے اس بوڑھے آدمى كو اپنے پھلو ميں بٹھايا اور فرمايا اے پيرمرد كسى نے ميرے والد على ابن الحسين (ع) سے يھى پوچھا تھا، ميرے والد نے اس سے كھا تھا كہ '' اگر اسى انتظار ميں مرجاؤگے تو پيغمبراكرم(ص) ، على (ع) ، حسن(ع) ، حسين(ع) اور على بن الحسين كى بارگاہ ميں پھنچو گے ... اور اگر زندہ رہ جاؤگے تو اسى دنيا ميں وہ دن ديكھو گے كہ تمھارى آنكھيں روشن ھوجائيں گى اور اس دنيا ميں ھمارے ساتھ ھمارے پھلو ميں بلند ترين جگہ پاؤگے ... ۔
اس طرح كے بيانات اس كھٹن ماحول ميں دل انگيز خواب كى طرح نظام اسلامى اور حكومت علوى كى تشكيل كے لئے شيعوں كے ستم رسيدہ دلوں ميں اميد كى كرن اور متحرك كرنے والى لھر پيدا كرتے اور آئندہ كے لئے اس بات كو يقينى اور نہ ٹلنے والى صورت ميں پيش كرتے تھے۔
امام (ع) كى يہ روش اس بات كا نمونہ ہے كہ حضرت كا تعلق اپنے نزديكى اصحاب سے كيسا تھا، اور يہ روش ايك دوسرے سے منظم اور مرتب رابطہ كى نشاندھى بھى كرتى ہے يھى وہ حقيقت تھى جو خلافت كى مشينرى كو ردّ عمل ظاھر كرنے پر ابھارتى تھي۔
ھشام كى خلافت كى مشينرى جس كو بلاذرى اموى خلفاء ميں مقتدر ترين خليفہ جانتا ہےاگر امام محمد باقر (ع)كے ساتھ سختى سے پيش آتى تھى تو اس كى وجہ يہ تھى كہ آپ كى روش اورعمل ميں ھشام اپنے لئے ايك قسم كى تھديد ديكھ رھا تھا اور آپ كا وجو اس كے لئے ناقابل تحمل تھا۔
يہ بات ناقابل ترديد ہے كہ اگر امام محمد باقر (ع)فقط علمى زندگى ميں سرگرم عمل رھتے اور تنظيم سازى كى فكر نہ كرتے تو خليفہ اپنے لئے اس بات ميں صلاح نھيں سمجھتا كہ وہ سخت گيرى اور شدّت كے ساتھ آپ كو سخت مقابلہ كے لئے بھڑ كائے اور نتيجتاً آپ كے دوستوں اور معتقدين كو جن كى تعداد كم بھى نہ تھى اپنے اوپر ناراض اور اپنى مشينرى سے ناخوش كر لے۔
امام محمد باقر(ع) كے مكتب فكر كے پروردہ افراد
امام محمد باقر (ع)كے مكتب فكر ميں مثالى اور ممتاز شاگردوں نے پرورش پائي تھى ان ميں سے كچھ افراد كى طرف اشارہ كيا جارھا ہے۔
ابان ابن تَغلب: ابان ابن تغلب نے تين اماموں كى خدمت ميں حاضرى دى تھےچوتھے امام(ع) ، پانچويں امام(ع) اور چھٹے امام (ع) ابان اپنے زمانہ كى علمى شخصيتوں ميں سے ايك تھے، تغيرحديث، فقہ، قرائت اور لغت پر آپ كو تسلط حاصل تھا۔ ابان كى فقھى منزلت كى وجہ ھى سے امام محمد باقر(ع) نے ان سے فرمايا كہ مدينہ كى مسجد ميں بيٹھو اور لوگوں كے لئے فتوى دو تا كہ لوگ ھمارے شيعوں ميں تمھارى طرح كے ميرے پيروكار كو ديكھيں۔
جب امام جعفر صادق(ع)نے ابان كے مرنے كى خبر سنى تو آپ نے فرمايا كہ خدا كى قسم ابان كى موت نے ميرے دل كومغموم كرديا ہے۔
زرارہ ابن اَعيُن: شيعہ علماء، امام محمد باقر(ع) اور امام جعفر صادق(ع)كے شاگردوں ميں سے چھ افراد كو برتر شمار كرتے ہيں اور زرارہ ان ميں سے ايك ہيں امام جعفر صادق(ع)فرماتے ہيں كہ اگر برير ابن معاويہ، ابوبصير، محمد ابن مسلم اور زرارہ نہ ھوتے تو آثار نبوت مٹ جاتے، يہ لوگ حلال و حرام خدا كے امين ہيں اور پھر فرماتے ہيں: برير، زرارہ ، محمد ابن مسلم اور احول، زندگى اور موت ميں ميرے نزديك سب سے زيادہ محبوب ہيں۔
كُمَيت اسدى : ايك انقلابى اور با مقصد شاعر تھے ان كى زبان گويا آپ كى شاعرى دفاع اھل بيت(ع) كے سلسلہ ميں لوگوں كو جھنجوڑنے والى اور ( دشمنوں كو) اس طرح ذليل كرنے والى تھى كہ دربار خلافت كى طرف سے مستقل موت كى دھمكى دى جاتي۔ كُمَيت امام محمد باقر (ع)كے شيدائي تھے اور محبت كے اس راستہ ميں انھوں نے اپنے كو فراموش كرديا تھا ايك دن امام (ع) كے سامنے امام كى مدح ميں كھے جانے والے مناسب اشعار پڑھ رھے تھے كہ امام(ع) نے كعبہ كى طرف رخ كيا اور تين بار فرمايا: خدايا كُمَيت پر رحمت نازل فرما پھر كُمَيت سے فرمايا اپنے خاندان سے ميں نے ايك لاكھ درھم تمھارے لئے فراھم كئے ہيں۔
كُمَيت نے كھا'' ميں سيم و زر كا طالب نھيں ھوں فقط اپنا ايك پيراھن مجھے عطا فرمائيں۔ امام(ع) نے پيراھن ان كو ديديا ۔
محمد بن مسلم فقيہ اھل بيت: امام محمد باقر اور امام جعفر صادق عليھما السلام كے سچے دوستوں ميں سے تھے آپ كوفہ كے رھنے والے تھے ليكن امام كے علم بيكراں سے استفادہ كرنے كے لئے مدينہ تشريف لائے۔
عبداللہ ابن ابى يعفور بيان كرتے ہيں:'' ميں نے امام جعفر صادق (ع)سے عرض كيا كہ كبھى مجھ سے سوالات ھوتے ہيں جن كا جواب ميں نھيں جانتا اور آپ تك بھى نھيں پہنچ سكتا آخر ميں كيا كروں؟ امام(ع) نے محمد ابن مسلم كا نام بتايا اور فرمايا كہ :'' ان سے كيوں نھيں پوچھتے؟''
كوفہ ميں رات كے وقت ايك عورت محمد ابن مسلم كے گھر آئي اور اس نے كھا، ميرى بھو مرگئي ہے اور اس كے پيٹ ميں زندہ بچہ موجود ہے ھم كيا كريں؟
محمد ابن مسلم نے كھا:'' امام محمد باقر (ع)نے جو فرمايا ہے اس كے مطابق تو پيٹ چاك كركے بچہ كو نكال لينا چاھئے اور پھر مردہ كو دفن كردينا چاھئے۔
پھر محمد ابن مسلم نے اس عورت سے پوچھا كہ ميرا گھر تم كو كيسے ملا؟ عورت بولي: '' ميں يہ مسئلہ ابو حنيفہ كے پاس لے گئي انھوں نے كھا كہ ميں اس بارے ميں كچھ نھيں جانتا، ليكن تم محمد ابن مسلم كے پاس جاؤ اور اگر وہ فتوى ديديں تو مجھے بھى بتادينا۔ 

Add comment


Security code
Refresh