www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

303331
سید ابوالاعلٰی مودودی کا سنِ ولادت 1321ھ بمطابق 1903ء ہے۔ جائے پیدائش اورنگ آباد دکن ہےاور آبائی تعلق سادات کے ایک ایسے خاندان سے ہے جو ابتداء میں ھرات کے قریب چشت کے معروف مقام پر آکر آباد ھوا تھا۔ اس خاندان کے ایک مشھور بزرگ خواجہ قطب الدین مودود چشتی تھے جو خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے شیخ الشیوخ تھے۔ سید مودودی کا خاندان خواجہ مودود چشتی کے نامِ نامی سے منسوب ھوکر ھی مودودی کھلا تا ہے۔
انھوں نے جس گھرانے میں آنکھ کھولی وہ ایک مکمل مذھبی گھرانا تھا۔ ان کے والدِ محترم اور والدہ ماجدہ دونوں کی زندگی مذھبی رنگ میں رنگی ھوئی تھی۔ سید مودودی کی تربیت ان کے والد نے خاص توجہ سے کی۔ وہ انھیں مذھبی تعلیم خود دیتے تھے۔
اردو، فارسی اور عربی کے ساتھ ساتھ فقہ اور حدیث کی تعلیم بھی اتالیق کے ذریعے گھر پر دی جانے لگی۔ تعلیم کے ساتھ اخلا قی اصلاح کا بھی وہ خاص خیال رکھتے تھے۔ اسی لیے سید مودودی کے والد نے انھیں کسی مدرسے میں داخل نھیں کرایا، بلکہ گھر پر ھی پڑھاتے رھے۔
بتدائی دور کے پورے گیارہ برس انھوں نے اپنے بیٹے کو براہِ راست اپنی نگرانی میں رکھااور کسی مکتب یا مدرسہ میں بھیجنا گوارہ نہ کیا بلکہ ان کی تعلیم کا گھر پر اتالیق رکھ کا انتظام کیا تاکہ مدرسے اور اسکول میں زمانے کی بگڑی ھوئی رو سے وہ اپنے بچے کو بچا سکیں۔
ماحول اور تربیت
سید مودودی کے والدِ محترم نے ان کی تربیت پر خصوصی توجہ دی اور ان کی بھت اچھے اور عمدہ طریقے سے تربیت کی۔ سید صاحب کے گھر میں دھلی کے شرفاء کی صاف ستھری زبان بولی جاتی تھی۔ سید مودودی کے والد نے اس چیز کا بھت خیال رکھا کہ اُن کی زبان پرکوئی غیر مناسب بازاری لفظ نہ چڑھ پائے۔ جب کبھی وہ ایسا کوئی لفظ ان کی زبان پر چڑھا ھوا محسوس کرتے تو ٹوکتے اور صحیح لفظ بولنے کی عادت ڈالتے۔
جھاں تک ذھنی ساخت اورتربیت کا تعلق ہے، سید صاحب کے والد محترم انھیں رات کو اکثر پیغمبروں کے قصے اور تاریخ اسلام کے اھم سبق آموز واقعات سنایا کرتے۔
ھندوستان کی تاریخ کی سبق آموزکھانیاں اور نیک لوگوں کی زندگی کے حالات بتاتے۔ ظاھر ہے کہ ان باتوں کا سید مودودی کے ذھن نے گھرا اثر قبول کیا اور ان میں نیکی، بھلائی،عظمت،بزرگی،اسلام کی سربلندی اور ایثار و قربانی کے جذبات پیداھوئے اور ساتھ ھی ان میں بزرگوں کے نقش قدم پرچلنے کا فطری رحجان بھی پیدا ھوگیا۔
مدرسہ کی تعلیم
سید صاحب کو گیارہ سال کی عمر میں گھریلو تعلیم کی مناسب تکمیل کے بعد مدرسہ فرقانیہ اورنگ آباد کی آٹھویں جماعت میں براہِ راست داخل کیاگیا۔ اس وقت ان کی معلومات تمام مضامین میں اپنے ھم جماعتوں سے بھت زیادہ تھیں، حالانکہ وہ آٹھویں جماعت میں سب سے چھوٹی عمر کے طالب علم تھے۔
مولوی کلاس میں آنے کے بعد سید صاحب کو جدید علوم کیمیا،طبیعیات،ریاضی وغیرہ سے واقفیت اور دلچسپی پیدا ھوئی۔اور پھر جدید معلومات میں بھی وسعت پیدا ھوتی چلی گئی۔
بچپن کے سنھرےدروازے
سید صاحب نے 1914ء میں مولوی کا امتحان دیا اور کامیاب ھوئے لیکن یہ وہ دور تھا جب سید صاحب کے والدِ محترم کی مالی مشکلات بھت بڑھ گئیں تھیں۔ وکالت سے اجتناب اور دینداری میں شدید انھماک کے باعث گھر کے مالی حالات میں وہ اورنگ آباد چھوڑ کر حیدرآباد تشریف لےگئے اور سید صاحب کو مولوی عالم کی جماعت میں داخل کرا دیا۔ اس زمانے میں دار العلوم کے صدر مولاناحمید الدین فراھی تھے جومولانا امین احسن اصلاحی کے بھی استاد تھے۔ سید صاحب کے والد انھیں دارالعلوم میں داخل کراکے خود بھوپال تشریف لے گئے اورسید صاحب دارالعلوم میں زیرِ تعلیم رھے لیکن تعلیم کا یہ سلسلہ چھ ماہ سے زیادہ عرصہ تک جاری نہ رہ سکا، ایک روز بھوپال سے اطلاع آئی کہ سید صاحب کے والد محترم پر فالج کا سخت حملہ ھوگیا ہے۔
چنانچہ مدرسے کی رواجی تعلیم ختم ھوگئی اور ڈیڑھ دوسال کے تلخ تجربات نے یہ سبق سکھایا کہ دنیا میں عزت کے ساتھ زندگی بسر کرنے کے لیے اپنے پاؤں پر کھڑا ھونا لازمی ہے۔
بھرحال والدِ محترم کے انتقال کے بعد سید مودودی کو معاش کی فکر لاحق ھوئی۔ والد محترم کوئی جائیداد چھوڑ کر نھیں گئے تھے۔ یہ کوئی رؤسا کا خاندان نہ تھا نہ دربارداری ان کا پیشہ تھا۔ ان کا خاندان ایک سیدھا سادا دیندار اور شریف خاندان تھا جو جاگیروں پر نھیں بلکہ اپنی قوت بازو پراپنی معاش کی بنیاد رکھتا تھا۔
ذریعہ معاش
والد کے انتقال کے بعد اس چھوٹی سی عمر میں پھلی بار سید مودودی کو بھی احساس ھوا کہ دنیا میں عزت کےساتھ زندگی بسرکرنےکےلئےاپنے پاؤں پر کھڑا ھونا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں لکھنے کی زبردست قابلیت عنایت فرمائی تھی چنانچہ انھوں نے ارادہ کرلیا کہ قلم کے ذریعے ھی اپنے خیالات کو لوگوں تک پھنچائیں گے اور اسی کو ذریعہ معاش بھی بنائیں گے۔ اس طرح ایک تو مسلمانوں کی بھلائی اور اسلام کی خدمت کاکام ھوگا اور دوسرے معاش کا وسیلہ بھی ھوجائے گاچنانچہ ایک صحافی کی حیثیت سے انھوں نے اپنے کیرئیرکاآغاز کیا اور پھر متعدد اخبارات میں ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کیاجن میں اخبار" مدینہ" بجنور(یوپی)"تاج" جبل پور اور جمعیت علماء ھند کا روزنامہ "الجمعیۃ"دھلی خصوصی طور پر شامل ہیں۔
ایک بارمولانا محمد علی جوھر نے بھی سید مودودی کو اپنے اخبار"ھمدرد" میں کام کرنے کی دعوت دی تھی مگر"الجمعیۃ" والوں سے آپ کے پرانے تعلقات تھے،اس لیے آپ مولانا محمد علی جوھرکی پیش کش کو قبول نہ کرسکے۔اگرچہ سیاسی اختلافات کی بنا پر انھیں بعد میں روزنامہ الجمعیۃ کوبھی چھوڑنا پڑا۔ سیاسی تصورات میں سید مودودی مولانا جوھر کے خیالات سےزیادہ ھم آھنگ تھے۔
بچپن میں آپ نے سب سے پھلے علامہ اقبال کی مشھور نظم"شکوہ"پڑھی تھی۔ والد محترم سید احمد حسن صاحب نے آپ کو ھندوستان کی سیاسی تاریخ بھی پڑھا دی تھی۔چنانچہ جب وہ صحافی بنےتوانھوں نے ملکی حالات کا براہِ راست مطالعہ کیا۔ ویسے بھی ان کا گھرانہ بھت تعلیم یافتہ اور باشعور تھا۔ خاص طور پر انگریزوں سے نفرت تو اس گھر میں بھت زیادہ تھی۔ان وجوھات کی بنا پر اس زمانے میں ھندوستان میں انگریزوں کے خلاف جو تحریکیں اٹھیں مثلاً تحریکِ خلافت، تحریک ستیہ گرہ اور تحریک ترک موالات وغیرہ، سید مودودی نے مسلمانوں کی بھلائی کے خیال سے ان میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیا۔
انھوں نے ترک مسلمانوں کی حمایت میں انگریزوں کے خلاف بڑے پُرجوش مضامین لکھے، ھندی مسلمانوں میں جو اخلاقی برائیاں پائی جاتی تھیں انھیں واضح کیا اور اس کے ساتھ ھی مسلمان لیڈروں کی سیاسی غلطیوں سے بھی آگاہ کیا۔ مسلمانوں کی اصلاح اور ترقی کےلیےبھت سے مفید اور قابلِ عمل مشورے دیےاور ھمیشہ مسلمانوں کی اصلاح کےلیےکام کیا۔
اخبار نویسی کے زمانے میں سید مودودی نے اپنی ذاتی کوشش سے انگریزی بھی سیکھ لی اور جدید علوم پڑھنے کے ساتھ ساتھ مختلف اساتذہ سے عربی ادب،تفسیر،حدیث،فقہ، منطق اور فلسفے کی کتابیں بھی پڑھیں۔ اس طرح ان کی علمی قابلیت میں بھت اضافہ ھوگیا اوروہ قدیم اور جدید علوم میں ماھر ھوگئے۔
ھندی مسلمانوں کے حالات سید مودودی کے لیے بھت تکلیف دہ تھے. وہ ان کی بدحالی، بے بسی اور بےحسی پر بھت کڑھتے تھے۔ وہ چاھتے تھے کہ وہ اسلام کے سچے پیروکار بن کر دنیا میں حقیقی اسلامی زندگی کا نمونہ پیش کریں۔ اس زمانے میں انھوں نے ایک مضمون لکھا کہ آج جتنی کمزوریاں بھی مسلمانوں میں پیدا ھوگئی ہیں صرف اس لیے ہیں کہ ان میں سے اسلامی روح نکل گئی ہے اور وہ بھول گئے ہیں کہ مسلمان ھونے کی حیثیت سے وہ کیا ہیں۔ اگر مسلمان اسلام کی پیروی کریں تو ساری دنیا کو مسلمان بناسکتے ہیں اور دنیا میں سب سے زیادہ طاقتور ھوسکتے ہیں۔ چنانچہ وہ مسلمانوں کی بھلائی کی مختلف تدبیروں پر اکثر غور کیاکرتے۔ اسی اثناء میں 1925ء میں جب جمعیت علماء ھند نے کانگرس کے ساتھ اشتراک کا فیصلہ کیا تو سید مودودی نے بطور احتجاج اخبار"الجمعیت" کی ادارت چھوڑ دی اور اس سے الگ ھوگئے۔ اس لیے کہ وہ متحدہ قومیت کے سخت مخالف تھے اور کانگرس کومسلمانوں کے مفادات کے خلاف جماعت سمجھتے تھے۔
پھلی تصنیف
جس زمانے میں سید مودودی"الجمعیۃ" کے ایڈیٹر تھے۔ ایک شخص سوامی شردھانند نے شدھی کی تحریک شروع کی جس کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کو ھندو بنالیا جائے۔ چونکہ اس تحریک کی بنیاد نفرت، دشمنی اور تعصب پر تھی اور اس نے اپنی کتاب میں حضورﷺ کی توھین کی تھی جسے کوئی مسلمان برداشت نھیں کرسکتااس لیے کسی مسلمان نے غیرت ایمانی میں آکر سوامی شردھانند کو قتل کردیا۔ اس پر پورے ھندوستان میں ایک شور برپا ھوگیا۔ ھندو دینِ اسلام پر حملے کرنے لگے اور اعلانیہ یہ کھا جانے لگا کہ اسلام تلوار اور تشدد کا مذھب ہے۔
سید مودودی اس صورتِ حال پر بھت رنجیدہ تھے۔ ان کے دل میں اسلام کی محبت اور مسلمانوں کا درد بھرا ھوا تھا۔ اسلام کی خدمت کرنے کے لیے ان کے دل میں بھت اضطراب تھا۔ انھی دنوں مولانا محمد علی جوھر نے دھلی کی جامع مسجد میں تقریر کی جس میں بڑی دردمندی کے ساتھ انھوں نے اس ضرورت کا اظھار کیا کہ کاش کوئی شخص اسلام کے مسئلہ جھاد کی پوری وضاحت کرے تاکہ اسلام کے خلاف جو غلط فھمیاں آج پھیلائی جارھی ہیں وہ ختم ھوجائیں۔ اس پر سید مودودی کو خیال آیا کہ کیوں نہ میں ھی یہ کام کروں۔ چنانچہ انھوں نے "الجھاد فی الاسلام" کے نام سے ایک کتاب لکھی۔اس وقت سید مودودی کی عمر24برس تھی۔ اس چھوٹی سی عمر میں ایسی معرکۃ الآراکتاب آپ کا ایک حیرت انگیز اور عظیم الشان کارنامہ تھا جس پر ھر طرف سے آپ کو داد ملی۔ اس کتاب کے بارے میں علامہ اقبال نے فرمایاتھا:۔
"اسلام کے نظریہ جھاد اور اس کے قانونِ صلح و جنگ پر یہ ایک بھترین تصنیف ہے اور میں ھر ذی علم آدمی کو مشورہ دیتا ھوں کہ وہ اس کا مطالعہ کرے"
اصلاحِ قوم کاعزم
سید مودودی کے دل میں اسلام کا بھت درد تھا اور وہ اس کے لیے دن رات سوچتے رھتے تھے۔ ان دنوں ھندوستان میں مسلمانوں کی حالت آج سے بھی زیادہ خراب تھی۔ سید مودودی مسلمانوں کی اصلاح کرنا چاھتے تھےچنانچہ روزنامہ الجمعیت جو کانگرسی مسلمانوں کا اخبار بن گیا تھا اس کی ادارت اور اخبار نویسی چھوڑکر سید مودودی حیدرآباد دکن چلے گئے۔
حیدرآباد میں قیام کے زمانے میں سید مودودی نے مختلف کتابیں لکھیں، اس کے ساتھ ھی وہ ھندوستان کے سیاسی حالات اور مسلمانوں کی حالت کا بھی گھرا مطالعہ کرتے رھے ، اس دوران وہ قوم کے اصلاحِ احوال کی مختلف تدبیروں پر بھی مسلسل غور کرتے رھے۔ آخر کار انھوں نے اصلاحِ قوم کے مقصد کے لیے 1932 میں حیدرآباد سے رسالہ"ترجمان القرآن"جاری کیا۔ مسلمانوں کی بھلائی کےلیے وہ جو کام کرنا چاھتے تھے ان کے ذھن میں اس کی ترتیب یہ تھی کہ پھلے مسلمانوں کے ذھنوں سے مغربی قوموں کی نقالی اور مرعوبیت،یورپ کے خیالات اور ان کے طور طریقوں کازور توڑا جائے پھر ان کے ذھنوں میں یہ بات بٹھائی جائے کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو زندگی کے ھر مسئلے میں انسان کی رھنمائی کرتا ہے۔
چنانچہ 1935ء میں آپ نے "پردہ" کے نام سے اسلامی پردے کی حمایت میں ایک شاندار کتاب لکھ کر ان لوگوں کا منہ بند کردیا جو اسلامی پردے پر یورپ سے مرعوب ھوکر طرح طرح کے اعتراض کیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ "تنقیحات" اور"تفھیمات" کے مضامین لکھے جن کے ذریعے انھوں نے تعلیم یافتہ مسلمانوں میں سے فرنگی تھذیب کی مرعوبیت ختم کردی۔

Add comment


Security code
Refresh