www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی ۱۳۰۵ھجری شمسی میں شھر شیراز میں ایسے خاندان میں متولد ھوئے جو مذھبی تھا اور فضایل نفسانی و مکارم اخلاقی میں مشھور تھا۔

آپ کے جدا علی "حاج محمد باقر" کا شمار شیراز کے تاجروں میں ھوتا تھا ۔وہ شیراز کی "سرای نو"کے اندر تجارت کیا کرتے تھے، آپ کے دادا علماء جیسالباس پھنتے تھے اور شیراز کی"مولای" نامی مسجد میں جماعت میں شرکت کرتے تھے ۔ لوگ آپ کا بھت اکرام و احترام کرتے اور آپ پر اطمینان رکھتے تھے ، آپ کے دادا "حاج محمد کریم بن حاج محمد باقر" ھمیشہ ایک عمامہ پھنتے تھے اور ذرات کے بازار میں کام کرتے وقت کھال کی ٹوپی پھنتے تھے ، پہلے آپ شیراز کے"سرای گمرک" اور اس کے بعد "وکیل بازار"میں تجارت میں مشغول تھے، ھمیشہ شیراز کی "مولای" نامی مسجد میں جماعت میں شرکت کرتے تھے ۔ اور مرحوم آیة اللہ العظمی حاج شیخ بھاء الدین محلاتی کے والدگرامی مرحوم آیة اللہ العظمی حاج شیخ محمد جعفر محلاتی رحمة اللہ علیہ اور مرحوم آیة اللہ حاج سید محمد جعفر طاھری رحمةاللہ علیہ کے نزدیک لوگوں میں ان کا شمار ھوتا تھا۔

آپ کے والد گرامی حاج محمد علی بھی شیراز کے مشھور تاجر تھے ، استاد گرامی اپنے والد گرامی کے متعلق اس طرح فرماتے ہیں:

"میرے والد کو قرآن کی آیات سے بھت لگاؤ تھا، بچپنے میں جب میں ابتدائی تعلیم میں مشغول تھا تو کبھی کبھی رات کو مجھے اپنے کمرہ میں بلاتے تھے اورمجھ سے کھتے تھے : ناصر! منتخب آیات اور ترجمہ کی کتاب اٹھا کر لاؤ اور مجھے سناؤ(یہ کتاب آیات کا ایک مجموعہ تھی جس کو بعض دانشوروں نے انتخاب کیا تھااور رضا خان کے زمانے میں مدارس میں دینی تعلیم کے عنوان سے پڑھائی جاتی تھی)میں آیات اور ان کا ترجمہ ان کو سناتا تھا اور وہ اس سے لذت لیتے تھے۔

استاد کی ذھانت بچپنے میں بھت مشھور تھی اور آپ کی عمر کے ھر مرحلہ میں یہ استعداد بڑھتی ھی گئی۔

قدیمی ترین یادگار واقعہ

جو واقعہ خود استاد نقل کرتے ہیں وہ اس طرح ہے:

اپنے زمانے کا سب سے زیادہ یاد رھنے والا واقعہ جو مجھے یاد ہے وہ اس وقت کا ہے جب مجھے تھوڑی سی بیماری لاحق ھوگئی تھی اور میں گھوارہ میں سو رھا تھا، حادثہ یہ پیش آیا تھا کہ گرمی کا زمانہ تھا اور میراگھوارہ گھر کے صحن میں رکھا ھوا تھا، صحن کے بیچ میں ایک پانی کا حوض تھا جو کنویں کے پانی سے بھرا جاتا تھا، لیکن چونکہ حوض نجس ھوگئی تھی اور کنویں کے اس پانی سے جو ڈول کے ذریعہ نکالا جاتا تھا اس سے اس کو پاک کرنا ممکن نھیں تھا ۔ اس مشکل کو حل کرنے کیلئے شیراز میں یہ دستور تھا کہ حوض کے ایک حصہ کو پانی سے بھر دیتے تھے پھر ایک بڑے برتن سے جس کا نام "کر" تھا (اور اس میں واقعا کرکی مقدار میں پانی آتا تھا)اس کو پانی سے پر کر تے تھے اور حوض میں لا کر اس کا سارا پانی ڈالدیتے تھے تاکہ حوض کا پانی اس سے مخلوط ھوجائے اور سب کا سب پاک ھوجائے(اگر چہ یہ سب تفصیلات اب میری سمجھ میں آتی ہیںاس وقت بھت کم سمجھ میں آتی تھی)بھر حال "کُر برتن" کو پانی سے بھرکر حوض کے اوپر ڈال دیا ، حوض پانی سے بھر گئی اور حوض سے پانی باھر نکلنے لگا اور میرے گھوار ہ کے نیچے سے پانی بھنے لگا ، میں ان تمام کاموں کو دیکھ رھا تھا اور اجمالی طور سے اس بات کو سمجھ بھی رھا تھا اور یہ واقعہ اس طرح میرے ذھن میں باقی ہے جیسے ابھی کل ھی یہ واقعہ پیش آیا ھو!۔

یہ واقعہ ایسے قصہ کی یاد دلاتا ہے جو "بو علی" جیسے افراد کی استعداد میںپائے جاتے ہیں، اور یہ واقعہ استاد کی بلا کی ذھانت پر ایک واضح دلیل ہے۔

ارتقائی کلاسیں

استاداپنی ابتدائی دور کی ارتقائی کلاسوں کے بارے میں فرماتے ہیں:

چار یا پانچ سال کی میری عمر تھی جب میں نے مدرسہ جانا شروع کیا اور آج کی اصطلاح کے مطابق میری عمر مدرسہ جانے کیلئے کم تھی ، میں نے مقدماتی کلاس میںشرکت کی،ھمارا "زینت"نامی مدرسہ شیراز میں مشھور تھا، اور ھمیں مقدماتی کلاس ھی میں اور بھت سی تعلیمات دی گئی جن کو ھم نے اچھی طرح یاد کرلیا اور اسی دلیل کی وجہ سے مجھے کلاسوں کی ترتیب کی رعایت کے بغیر دوسری کلاسوں میں جانے کی اجازت ملتی رھی۔

دینی تعلیم کا آغاز

یہ غیر معمولی ذھانت رکھنے والا طالب علم ، ھائی اسکول پاس کرنے کے بعد اور رضا خان کی حکومت ختم ھونے کے بعد شیراز کے ایک بزرگ عالم دین(مرحوم آیة اللہ حاج سید نورالدین شیرازی)نے علوم دین حاصل کرنے والوں کیلئے ایک فضا فراھم کی (اور استاد بھی ھائی اسکول کے تیسرے سال بھت ذوق و شوق کے ساتھ اس میں شرکت کرنے لگے اور اس کے ساتھ ساتھ ھائی اسکول میں بھی شرکت کرتے رھے۔

ھماری دوسری جگہ شیراز کا مدرسہ خان تھا جو وھاں کا بھت قدیمی ، بزرگ اور مشھور مدرسہ تھاجو شیراز کے گرانقدر فلسفی صدر المتالھین کی تعلیم یا تدریس کا محل تھا۔ میں نے جامع المقدمات اور شرح امثلہ شروع کی، میرے استاد مرحوم آیة اللہ ربانی شیرازی تھے، میں نے ان سے کہا : میرے پاس جامع المقدمات نھیں ہے اگر آپ چوبیس گھنٹے کیلئے مجھے امانت کے طور پر دیدیں تو میں اس کا مطالعہ کرلوں ۔ امثلہ اور شرح امثلہ کا ایک دن میں مطالعہ کرکے امتحان دیدوں گا، انھوں نے مجھے کتابیں دیدیں، اور میں نے چوبیس گھنٹے ان کا مطالعہ کیا اور اگلے دن امتحان دیدیا۔ میں اچھے نمبر سے پاس ھوا اوران استاد کو خدا حافظی کرکے اوپر کی دوسری کلاسوں میں چلا گیا ۔

دس سال کی راہ چار سال میں طے کی

آپ کی ذھانت و استعداد اس وقت دو بالا ھوجاتی ہے جب استاد آج کے حوزہ علیمہ کی سطوح کے مطابق دس سال کی تعلیم کو چار سال میں مکمل کر لیتے ہیں اس وقت آپ کی عمر شریف فقط سترہ سال کی تھی اور اسی عمر میں آپ نے مرحوم آخوند خراسانی کی کفایة الاصول پر حاشیہ لگایا ، استاد اس سلسلہ میں فرماتے ہیں:

دلسوز اور محنتی استاد (آیة اللہ موحد)نے مجھے تعلیم دینے میں بھت کوشش و محنت سے کام لیا، میں نے آغاز سیوطی سے کفایہ کے آخر تک ساری کتابیں استاد موحد کے پاس چار سال میں ختم کیں، یھی درس آج حوزہ علمیہ میں دس سال میں پڑھائے جاتے ہیں اور جب میںنے کفایہ کو ختم کیا تو میری عمر سترہ سال کی تھی اور وھیںشیراز ھی میں، میں نے کفایہ پرمختصر حاشیہ لگایا ، یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کفایہ کوختم کرنے کے بعد ایک روز مرحوم آیة اللہ موحد میرے والد کی دکان پر آئے اس وقت گرمیوں کی چھٹیاں تھیں اور میں اپنے والد کے ساتھ ان کی دکان پر کام میں مشغول تھا اس زمانے میں میرے والد جوراب بننے کا کام کرتے تھے ، انھوں نے میرے والد کی طرف رخ کرکے کھا جس کا مضمون یہ ہے:

آپ کے کتنے بچے ہیں؟ چار

اس ایک بچے(ناصر)کو امام زمان(علیہ السلام)کیلئے وقف کردو ، اور میرے والدنے اگرچہ میں ان کی بھت مدد کرتا تھا، ان کی بات قبول کرلی اور مجھے آقای موحد کی خدمت میں مدرسہ علمیہ آقا بابا خان میں بھیج دیا۔

دو شبانہ روز سے کم میں صمدیہ ختم کرنا

اس زمانے کا ایک تعجب آور قصہ وہ ہے جس کو استاد خود بیان کرتے ہیں:

ایک روز ھمارے استاد نے صمدیہ کی مشھور عبارت(و المبرد ان کان الخلیل فکالخلیل و الا فکیونس و الا فکالبدل)کے بارے میں مجھ سے سوال کیا اور انھوں نے حکم دیا کہ اس کو بیان کروں میں نے جامع المقدمات میں سے ابھی تک صمدیہ کو نھیں پڑھا تھا جب کہ صمدیہ جامع المقدمات کی سخت کتاب ہے ، میں نے ارادہ کیا کہ مطالعہ کے ذریعہ اس عبارت کو حل کروں ،لھذامیں نے ۳۶گھنٹے یعنی دو شبانہ و روز سے بھی کم میں اس کا مطالعہ کرکے سوال کا جواب تلاش کرلیا اور استاد کے سامنے اس کو پیش کیا تو استاد نے تعجب کیا ، اور مجھے پڑھنے کی طرف اور زیادہ رغبت دلائی۔

یہ استعداد و ذھانت اس وقت اور زیادہ دوبالا ھوجاتی ہے جب آپ یہ مشاھدہ کریں کہ اس جوان نے ۱۸یا ۱۹سال کی عمر میں شیخ الفقھاء و استاذ الاساتذہ مرحوم آیة اللہ بروجردی(قدس سرہ)کے د رس میں شرکت کرنی شروع کردی تھی۔

آپ(استاد کی تعریف کے مطابق)بھت زیادہ متقی، ھوشیار،نورانی، پرکشش اور فقہ میں بھت زیادہ قوی تھے بلکہ فقہ میں آپ کا خود ایک نظریہ تھا جو واقعیت سے بھت نزدیک تھا اور رجال، حدیث، ادبیات اور دوسرے فنون میں آپ کو بھت زیادہ مھارت حاصل تھی آپ کے دروس ھمارے استاد کیلئے بھت زیادہ دلچسپ تھے اور خود استاد کے بقول بھت سی چیزوں کو ان کے نظریہ کے مطابق سیکھا۔

فقہ کے اس زبردست استاد کے درس میں شرکت کے واقعہ کو استاد اس طرح بیان کرتے ہیں:

اپنی جوانی کے شروع میں جب میری عمر اٹھار یا انیس سال کی تھی اور اس نوجوانی میں خزاں رسیدہ آیة اللہ بروجردی کے درس میں شرکت کرنا عجیب سا لگتا تھا جس میں خود میرے استاد آیة اللہ العظمی داماد، آیة اللہ العظمی گلپایگانی اور اسی طرح امام راحل(قدس سرہ)اس درس میں شرکت کرتے تھے، خصوصا اس وقت جب میں درس کے درمیان سوال کرنے کی ھمت کرتا تھاتو عجیب سا لگتا تھا اور شاید کچھ لوگ اپنے آپ سے کھتے ھوں گے : یہ شیراز کا بچہ کیوں اس قدر جسارت کرتا ہے اور درس میں اعتراض کرتا ہے اور"ان قلت" کو ایسے بزرگ استاد کی خدمت میں بیان کرنے کی ھمت کرتا ہے؟

اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل حکایت قابل بیان ہے:

ایک روز آیة اللہ العظمی بروجردی نے فقہ کے درس میں"صید لھوی" کے مسئلہ کی طرف اشارہ کیا یعنی ان لوگوں کا شکار کرنا جو تفریح کیلئے شکار کرتے ہیں ۔ فقھاء کے درمیان مشھور یہ ہے کہ اس طرح کے لوگوں کا سفر تمام ہے، لیکن شاید کوئی ایک عالم اس کام کے حرام ھونے کا فتوی دے ۔ میں تو اس زمانے میں بھت کم عمر کا طالب علم تھا ، میں نے "صید لھوی" کے حرام ھونے سے متعلق قدماء اور متاخرین کی بھت سی عبارتیں جمع کیں اور یہ ثابت کیا کہ "صید لھوی" کے لئے سفر پر جانا حرام سفر کا ایک مصداق ہے کہ جس میں نماز کوپوری پڑھنی چاھئے ۔ جس وقت آیة اللہ العظمی بروجردی نے میرے اس لکھے ھوئے مقالہ کو پڑھا تو تعجب کیا اور پوچھا کہ اس مقالہ کو خود تم نے جمع کیا ہے؟ میں نے عرض کیا جی ھاں!۔

درجہ اجتھاد

آپ کی یہ استعداد و ذھانت سبب بنی کہ استاد چوبیس سال کی عمر میں اجازہ اجتھاد لینے میں کامیاب ھوئے:

خود استاد کی زبانی ملاحظہ فرمائیں:

نجف اشرف میں داخل ھونے کے بعد مختلف بزرگ اساتید کے دروس میں سوالات و اعتراضات کرنے کی وجہ سے میری شھرت ھوتی چلی گئی اور سب اساتید مجھ سے محبت اور عنایت خاص کرنے لگے اور آخر کار چوبیس سال کی عمر میں اس زمانے کے دو بزرگ مجتھدوں نے مجھے اجازہ اجتھاد دیدیا : ایک آیة اللہ العظمی اصطھباناتی تھے جن کا مراجع میں بھت بڑی شخصیت اور شیخ الفقھاء کے عنوان سے شمار کیا جاتا تھا ، انھوں نے مجھ سے بہت زیادہ محبت و لطف کیا اور اجتھاد کامل کا اجازہ مجھے لکھ کر دیا اور دوسرے آیة اللہ العظمی حاج شیخ محمد حسین کاشف الغطاء تھے۔ چونکہ ان کو میرے علمی کارناموں سے زیادہ واقفیت نھیں تھی لھذا انھوں نے فرمایاکہ میں تمھارا امتحان لوں گا! میں نے کھا میں امتحان کیلئے تیار ھوں ، انھوں نے مجھ سے کھا کہ تم ایک رسالہ اس موضوع کے بارے میں (تیمم مبیح ہے یا رافع حدث) لکھ کر لاؤ، میں نے اس موضوع سے متعلق ایک رسالہ لکھا اور ان کی خدمت میں لے گیا انھوں نے اس کے علاوہ مجھ سے ایک شفاھی امتحان بھی لیا اور علم اجمالی کا ایک سخت سوال کیا جب میں نے جواب دیدیا تو انھوں نے مجھے اجازہ لکھ کر دیا۔

اس خدادادی ذھانت و لیاقت کے اوپر جودلیل ہے(جو خود استاد کے قوی حافظہ پر بھی دلیل ہے) وہ یہ ہے کہ استاد کبھی کبھی نجف اشرف میں مرحوم آیة اللہ العظمی خوئی کے جن دروس کو دو ھفتہ پھلے سنا تھا ان کو دو ھفتہ گذرنے کے بعد بھی کامل طور سے لکھ لیتے تھے ، جب کہ آج کے طالب علم، استاد کے درس کو اسی روز کلاس میں لکھتے ہیں تاکہ کوئی چیز ان کے ذھن سے محو نہ ھوجائے۔

آیةاللہ العظمی حکیم (رحمہ اللہ) کی تقریظ

حوزہ نجف کا آخری واقعہ جو آپ کی ذھانت اور استعداد میں اضافہ کرتا ہے وہ صاحب مستمسک العروة الوثقی، مرحوم آیة اللہ العظمی حکیم کی تقریظ ہے جو انھوں نے کتاب الطھارة کے حاشیہ کی کاپی پر (جو کہ خود مرحوم کے درس کی تقریر تھی جس کو استاد نے مرتب و مدون کیا تھا)مرقوم فرمائی ، ان مرحوم کی تحریر شریف بعینہ اس طرح ہے:

بسم اللہ الرحمن الرحیم ولہ الحمد والصلاة و السلام علی رسولہ و آلہ الطاھرین، قد نظرت فی بعض مواضع ھذا التقریر بمقدار ما سمح بہ الوقت فوجدتہ متقنا غایة الاتقان ببیان رائق و اسلوب فائق یدل علی نضوج فی الفکر و توقد فی القریحة و اعتدال فی السلیقة فشکرت اللہ سبحانہ اھل الشکر علی توفیقہ لجناب العلامہ المھذب الزکی الالمعی الشیخ ناصر الشیرازی سلمہ اللہ تعالی و دعوتہ سبحانہ ان یسددہ و یرفعہ الی المقام العالی فی العلم والعمل، انہ ولی التسدید و ھوحسبنا و نعم الوکیل والحمد للہ رب العالمین۔

محسن الطباطائی الحکیم

۹ج ۱ /۱۳۷۰ھ ق

شروع کرتا ھوں اللہ کے نام سے جو رحمان و رحیم ہے اور تمام تعریفیں اسی کے لئے ہیں، درود و سلام ھو پیغمبر اکرم(ص) اور ان کے طیب و طاھر اہل بیت(ع) پر۔ اس تقریرکے کچھ حصہ کو جتنا مجھے وقت ملا میں نے اس کا بدقت مطالعہ کیا اور اس کو میں نے بھت محکم و متقن پایا اس تحریر کا انداز بیا ن بھی اچھا اور اسلوب بھی ان کی فکری رشد اور ذوق و سلیقہ کی شکوفائی اور محرر کے سلیقہ میں بھی میانہ روی پائی جاتی ہے ،لھذامیںجناب علامہ مھذب اور ذکی شیخ ناصر مکارم شیرازی سلمہ اللہ تعالی کی ان توفیقات پر خدا کا شکر بجا لاتا ھوں جس کیلئے شکر سزاوار ہے اور وہ خود اھل شکر ہے ، اور خدا سے دعا کرتا ھوں کہ وہ ان کی مدد کرے اور ان کو علم و عمل کے بلند مقام پر پھنچائے کیونکہ وھی مدد کرنے والا ہے وھو حسبنا و نعم الوکیل و الحمد للہ رب العالمین۔

 

 

اساتید کی تشویق اور ان کا اعتماد حاصل کرنا

ایک طالب علم اور شاگردکی زندگی میں اس کی شخصیت کو پروان چڑھانے میں سب سے اھم اور بنیادی کردار اساتید کا ھوتا ہے کہ وہ طالب علم کے اوپر اعتماد اور اس کے نتیجہ میںوہ اس کے ساتھ پدرانہ شفقت و محبت سے کام لے ۔ کلاس او رتعلیمی مراکز میں طالب علموں کے درمیان مقابلہ، کبھی بغض و حسد، کبھی ایک دوسرے کی شخصیت کو خراب کرنا اور کبھی ایک دوسرے کی تضعیف وغیرہ ھوتی رھتی ہے جس سے طالب علم کاحوصلہ پست اور قافلہ سے پیچھے رہ جانے کا خوف و احساس ختم ھوجاتا ہے انھی کاموں کی وجہ سے طالب علم میں پژمردگی اور ناراضگی کا احساس ھوتا ہے۔

ان تمام منفی عوامل کو ختم کرنے اور شاگرد کے وجود میں امید کی کرن جگا کر ترقی کی راھوں کی طرف گامز ن کرنے میں سب سے اھم کردار استاد کا ھوتا ہے کہ وہ شاگرد کو تشویق کرے ۔ ھوشیار اور با استعداد شاگرد اگر ایک محفوظ وسالم محور پر نہ پھنچے اور اسلامی اخلاق سے متخلق اساتید کے محور پر نہ چلے ، "اپنی محنت سے آپ آگے بڑھنے والے"اور"مطلق آزادی و بے بند و باری سے"باھر نہ نکلے تو وہ روحی بیماریوں اور زندگی کی کج روی میں مبتلا ھوجاتا ہے ۔

ایسے طالب علم بھت کم ہیں جو اساتید کی محبت اور گرم آغوش سے محروم رھتے ہیں یا بعبارت دیگر حوزہ اور پاک و پاکیزہ اساتید کی تعلیم و پرورش ان کو نھیں ملتی جب کہ ان کوئی اور مشکلات پیش نھیں آتیں۔

مراجع عظام اصطھباناتی اور کاشف الغطاء

بھر حال دوسری نعمت جو ھمارے استاد کو نصیب ھوئی وہ یہ ہے کہ جوانی اور نوجوانی کے شروع ھی سے اساتید کی بے انتھاء محبت، تشویق اور حمایت ان کو حاصل تھی اوردوسری فصل(استعداد و ذھانت)میں "درجہ اجتھاد"کے عنوان سے جو باتیں کہی گئی ہیں وہ اس بات کی گواہ ہے لھذا یھاں پر اس کی تکرار کرنے سے اور لطف آئے گا:

دروس میں سوالات و اعتراضات کرنے کی وجہ سے میری شھرت ھوتی چلی گئی اور سب اساتید مجھ سے محبت اور عنایت خاص کرنے لگے اور آخر کار چوبیس سال کی عمر میں اس زمانے کے دو بزرگ مجتھدوں نے مجھے اجازہ اجتھاد دیدیا : ایک آیة اللہ العظمی اصطھباناتی تھے جن کا مراجع میں بھت بڑی شخصیت اور شیخ الفقھاء کے عنوان سے شمار کیا جاتا تھا ، انھوں نے مجھ سے بھت زیادہ محبت و لطف کیا اور اجتھاد کامل کا اجازہ مجھے لکھ کر دیا اور دوسرے آیة اللہ العظمی حاج شیخ محمد حسین کاشف الغطاء تھے۔ چونکہ ان کو میرے علمی کارناموں سے زیادہ واقفیت نہیں تھی لھذا انھوں نے فرمایاکہ میں تمھارا امتحان لوں گا! میں نے کھا میں امتحان کیلئے تیار ھوں ، انھوں نے مجھ سے کہا کہ تم ایک رسالہ اس موضوع " تیمم مبیح ہے یا رافع حدث"کے تحت لکھ کر لاؤ، میں نے اس موضوع سے متعلق ایک رسالہ لکھا اور ان کی خدمت میں لے گیا انھوں نے اس کے علاوہ مجھ سے ایک شفاھی امتحان بھی لیا اور علم اجمالی کا ایک سخت سوال کیا جب میں نے جواب دیدیا تو انھوں نے مجھے اجازہ لکھ کر دیا۔

آیة اللہ حجت (رحمہ اللہ)

اسی طرح ھمت افزائی سے متعلق مرحوم آیة اللہ العظمی حجت(رحمہ اللہ) کا ایک واقعہ ہے جس کو استاد اس طرح بیان فرماتے ہیں:

ایک دفعہ مرحوم آیة اللہ العظمی حجت (خدا ان پر رحمت نازل کرے)اپنے درس میں اپنے طریقے کے مطابق سوال کیا اور کھا : جو بھی اس سوال کا جواب لائے گا میں اس کو انعام دوں گا ، کلاس کے بعد میں کتب خانہ گیا اور تھوڑی دیر تلاش کرنے کے بعد مجھے اس کا جواب مل گیا میں نے وہ جواب ان کی خدمت میں دیدیا میرے بعد ایک دوسرا شاگرد بھی اس کا جواب لے آیا ، انھوں نے فرمایا: تم سے پھلے ایک دوسرا طالب علم اس کا جواب لے آیا اور اس کے بعد انہوں نے ۱۰۰تومان کہ جن کی اسوقت بھت اھمیت تھی (چونکہ اس وقت بھت سے شھریہ تین تومان سے زیادہ نھیں ھوتے تھے)مجھے انعام کے طور پر دئیے اور میری ھمت افزائی کی۔

آیة اللہ العظمی میرزا ھاشم آملی کی ھمت آفزائی اور تواضع

اس میں کوئی شک نھیں کہ اس ھمت افزائی میں اس وقت چار چاند لگ جاتے ہیں اور اس کی تاثیر کئی گنازیادہ ھوجاتی ہے جب کسی انسان کو ایسا استاد مل جائے جو شاگرد کے اعتراضات کو قبول کرتا ھو اور شاگرد کے اعتراضات و سوالات سے بے اعتنائی نہ برتے اور اعتراضات قبول کرنے کو اپنی توھین نہ سمجھے لھذا ھمارے استاد کے اساتید میں یہ ملکہ پایا جاتاتھا۔ استاد خود اس سلسلہ میں فرماتے ہیں:

مرحوم آیة اللہ العظمی میرزا ھاشم آملی کی محبتوں اور ھمت افزائی نے مجھے ان کے درس میں جذب کرلیا․․․آیة اللہ العظمی آملی تواضع اور شاگرد کی ھمت افزائی کے علاوہ اپنے اساتید جیسے آیة اللہ العظمی آقا ضیاء الدین عراقی کی بحثوں پر مسلط تھے۔ اس زمانے میں نجف میں ان کے شاگر اگرچہ کم تھے لیکن ان کا شمار علماء اور فضلاء میں ھوتا تھا ۔ درس دینے میں ان کاایک خاص انداز تھا جو میں نے کسی میںنھیںدیکھا اگر کوئی شاگرد ایسا اعتراض کرتا تھا جو واقعا اعتراض ھوتا تھا تو وہ نہ صرف اس سے بے اعتنائی نھیں کرتے تھے بلکہ اس اعتراض کی کامل طور سے وضاحت کرتے تھے اور پھر بھت اچھے انداز سے اس کا دفاع کرتے تھے اور پھر اس کو قبول کرلیتے تھے۔

آیة اللہ العظمی بروجردی(رحمہ اللہ)کی ھمت افزائی اور کتاب جلوہ حق

استاد ، آیة اللہ العظمی بروجردی(رحمہ اللہ)کی ھمت افزائی اور کرامت کے متعلق اس طرح بیان کرتے ہیں:

جب میری سب سے پہلی کتاب "جلوہ حق"چھپ کر آگئی تو اس کی ایک جلد میں نے آیة اللہ العظمی بروجردی کی خدمت میں بھیجی، اس کے کچھ دنوں بعد انھوں نے مجھے بلایا اور مجھ سے فرمایا: میرے پیر میں درد تھا جس کی وجہ سے چند روز میں کلاس میں نھیں آسکا اور اس وجہ سے میرے پاس مطالعہ کیلئے وقت کافی تھا ، میری نگاہ آپ کی کتاب پر پڑی ، پھلے میں نے سوچا "جلوہ حق" ایسا نام ہے جو صوفیوں سے متعلق ہے اور اسی بات نے مجھے شش و پنج میں ڈال دیا اور میں نے کتاب کو شرو ع سے آخر تک پڑھا(مجھے ان بزرگوار کی اس بات پر بھت تعجب ھوا کہ کس طرح ایک جوان طالب علم کی کتاب کو وہ شروع سے آخر تک مطالعہ کررھے ہیں اور میرے لئے یہ ایک درس عبرت ھوگیا، وہ بھی ایسی شخصیت کہ جو مرجع تقلید اور معاشرہ کی زعامت ان کے ھاتھ میں ہے)پھر فرمایا : میں نے اس کتاب میں مطلقا کوئی غلط چیز نھیں دیکھی اور ان کی تعبیر یہ تھی "مجھے احساس ھوا کہ مصنف نے بغیرکسی خودنمائی اور اپنے مرید اکھٹا کرنے کے ھدف کے بغیر اس کو لکھاہے اور مصنف نے گروہ صوفیہ کے حقائق کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے"اس جملہ نے میری بھت ھمت افزائی کی اور کتاب لکھنے میں مجھے بھت زیادہ اپنے نفس پر اعتماد ھوگیا اور اس وقت میری سمجھ میں آیا کہ ھمت افزائی اور وہ بھی بزرگ علماء کی ھمت افزائی کتنی موٴثر اور کار ساز ہے۔

ناصر ! تم ھم سے استفادہ کرو گے

یہ نکتہ اس وقت اپنے کمال کو پھنچ جاتا ہے بلکہ نورانی اور آسمانی ھوجاتا ہے جب شاگرد ، صرف اساتید ھی کے مورد تائید نھیں ھوتے بلکہ استاد حقیقی اور اساتید کا امام، امام معصوم بھی کسی شاگرد کی ھمت افزائی اور تائید کردے۔ اور حضرت حجت سلام اللہ علیہ کی طرف سے اس کو رحمانی خواب میں بشارت اور خطاب ھو: "ناصر! تم ھم سے استفادہ کروگے"۔ اس واقعہ کو مرحوم حجة الاسلام والمسلمین قدوة اس طرح بیان کرتے ہیں:

آج صبح آقای مکارم جب کلاس میں داخل ھوئے تو بھت خوشحال تھے میں نے ان سے پوچھاکیوں اسقدر خوش ھو؟ توانھوں نے جواب نھیںدیا ، میرے بھت اصرار کرنے پر انھوں نے جواب دیا کہ کل رات میں نے خواب میں حضرت ولی عصر سلام اللہ علیہ کو دیکھا انھوں نے فرمایا: ناصر ، تم ھم سے استفادہ کرو گے۔

اس حصہ کو امام راحل قدس سرہ کی ان ھمت افزائی اور عنایات پر ختم کرتے ہیں جو انھوں نے ھمارے استاد کے متعلق فرمائی: استاد خود اس متعلق اس طرح فرماتے ہیں:

اگر چہ مجھے امام(قدس سرہ)کے درس میں شرکت کرنے کی توفیق ایک جلسہ سے زیادہ نھیں ملی ، شاید اس کی دلیل یہ ھو کہ جن ایام میں ان کی کلاسیں گل کھلا رھی تھیں تو میں بھت کم کسی کی کلاسوںمیں جاتا تھا اور زیادہ تر تدریس کرتا تھا لیکن بھر حال میں ان کے افکار سے کاملا آشنا اورمرتبط تھا یعنی ان کی تقریروں، کتابوں اور ان کے مقالات سے ان کے فقھی اور اصولی افکار سے آشنا تھا اور میری نظر میں ان کا بھت احترام تھا میں ھمیشہ ان کی زیارت کیلئے جایا کرتا تھا اور وہ بھی میرا بھت احترام واکرام کرتے تھے ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک زمانے میں میں نے کچھ علل و اسباب کی بنیاد پر جامعہ مدرسین میں جانا بند کردیا ، انھوں نے جامعہ کے ایک مشھور عضو کو حکم دیا کہ فلاں شخص کے پاس جاؤ اور اس کو جامعہ مدرسین میں واپس آنے کی دعوت دو ، اور وہ آئے پھر میں دوبارہ جامعہ مدرسین میں واپس چلا گیا ، آپ کے فرزند محترم حاج سید احمد آقانے ایک جلسہ میں جس میںسب حاضر تھے مجھ سے کھا : مختلف مناسبات پر جو امام کو خطوط بھیجتے ھو ، امام ان کا خود مطالعہ کرتے ہیں(کیونکہ میں نے کھا تھا کہ نھیں معلوم ھمارے یہ خطوط امام تک پھنچتے بھی ہیں یا نھیں) اور انھوں نے کہا : پھنچتے ہیں اور وہ دیکھتے ہیں اور تمھارے خطوط پر وہ بھت مھربان ہیں۔

اور اسی یادداشت سے متعلق ایک دوسرا واقعہ جو مجلس خبرگان قانون اساسی کے دوران پیش آیا وہ فرماتے ہیں:

میں قانون اساسی میں مذھب کے حصہ میںشیعہ اور اھل سنت کے چند علماء کے ساتھ تھا، جس وقت میں نے شیعہ مذھب کو جب کہ ھمارے ملک کی اکثریت شیعہ ہے مجلس خبرگان میں بیان کیا ہے اور اس سے دفاع کیا ، توبرادر اھل سنت (آقای مولوی عبدالعزیز)نے خلاف توقع میرے بعد وقت لیااور میری بات کی مخالفت کی ، میں نے ان کو ایک منطقی جواب دیا اور واضح کیا کہ ایک ملک میں ایک ھی مذھب کے قوانین جاری ھونے چاھیں اور دو یا تین مذھب احکام عمومی میں حاکم نھیں ھوسکتے۔ البتہ باقی مذاھب کا بھی احترام کرنا چاھئے اور ان کو ملکی تمام حقوق ملنے چاھئیں لیکن متعدد قوانین ایک ملک پر حاکم نھیں ھوسکتے ، لوگ اپنی زندگی کے داخلی مسائل میں آزاد ہیں(جیسے شادی اور طلاق جن کو مسائل شخصیہ اور احوال شخصیہ کھتے ہیں)لیکن عام مسائل میں ایک قانون کے پابند ھونا چاھئے ،ا س کے بعد جب میں نے امام خمینی (رہ) سے ملاقات کی تو انھوں نے فرمایا: میں ٹیلیویژن سے تمھارے دفاع کو دیکھ رھا تھا اور سن رھا تھا اور مجھے بھت پسند آیا ، آپ نے بھت منطقی اور اچھا دفاع کیا اور مسئلہ کے حق کو ادا کردیا۔

Add comment


Security code
Refresh